آپ شیخ تقی کے مرید اور خلیفہ تھے زمانے کے مشہور اور باکمال ولی اللہ شمار ہوتے تھے اپنی ولایت کے انوار کو ملامت کی چادر میں پوشیدہ رکھتے تھے اپنے وقت کے مواحدوں کے امام تھے آپ نے ہندی زبان میں بہت سے اشعار کہے۔ جو ان کی بلند فکری اوراعلیٰ تخیل کے آئینہ دار ہیں۔ اگر اُن کے کلام میں تحقیق اور تجسیس کیا جائے تو وصل خدا وندی کے عمدہ نمونے ملتے ہیں وہ میدانِ وصل میں فراق کی کیفیت کو سامنے نہیں آنے دیتے ہندوستان میں ہندی زبان میں جس شخص کے حقائق و المعارف سب سے پہلے بیان فرماتے ہیں۔ وہ حضرت شیخ کبیر ہی تھے ان کے مختلف ہندی اشعار ملتے ہیں لیکن ان میں زیادہ بشن پدو ساکی کی قسم پائی جاتی ہے اگر انصاف سے آپ کے کلام کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے زبان کے ترازو سے حقائق کے موتی تولے ہیں۔ ہمیں ایسے حقائق دوسرے شعراء کے کلام میں نہیں ملتے ہندی جن کا ہم بعد میں ذکر کریں گے وہ بھی اپنے کلام میں شیخ کبیر کا ہی اتباع کرتے ہیں۔ کبیر نے جن ساکھیوں اور بشن پددھ کا ذکر کیا ہے محققِ ہندی نے اُنہی کو ووٹروں میں نظم کر دیا ہے اُس کی باطنی قوت پر ہندو اور مسلمان دونوں پر کامل اعتقاد رکھتے تھے اور ہر طبقہ انہیں اپنے مذہب میں قرار دیتا ہے چنانچہ مسلمان انہیں پیر کہتے ہیں اور ہندو انہیں بھگت کبیر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
آپ کی وفات ۱۰۰۳ھ ہجری میں ہوئی تھی۔
شد ز دنیا بجنت اکبر
چو کبیر از عطائی قدیر
رحلتش صاحبِ اشارت خوان
ہم بدان بُلبُل بہشت کبیر
۱۰۰۳ھ