کمال طریقت جمال حقیقت شیخ زادہ کمال الحق والدین ابن شیخ زادہ بایزید ابن شیخ زادہ نصر اللہ ہیں جن کا لباس تکلف و بناوٹ سے ہمیشہ خالی ہوتا تھا اور جو فیاضی سخاوت میں عدیم المثال اور بے نظیر تھے۔ آپ بہت سی روٹیاں پکواتے اور محتاج و مساکین کو تقسیم کرتے اور لذیذ و مزیدار کھانوں سے ہمیشہ احتراز کرتے اگر آپ سفر کا قصد کرتے تو رویٹوں کے بہت سے بھرے ہوئے تھیلے آپ کے ساتھ ساتھ ہوتے جس زمانہ میں یہ بزرگوار سلطان محمد تغلق کے عہد حکومت میں دہارے جو آپ کی سکونت کا مقام تھا دہلی میں تشریف لائے تو کاتب حروف اس خاندان معظم کے ان حقوق کی رعایت کی وجہ سے جو اس کے آباؤ اجداد رکھتے تھے ان بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس وقت شیخ حجرہ کے اندر چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے جوں ہی کاتب حروف کو دیکھا حجرہ کے اندر سے ایک دیگچی ہاتھ مبارک میں لیے ہوئے باہر تشریف لائے اور ایک مٹی کا بڑا ساطباق خدام نے لا کر آپ کے سامنے رکھ دیا۔ شیخ نے اپنے دست مبارک سے دیگچی میں سے ہر لسیہ نکالا اور گھی کی جگہ تیل ڈال کر میرے آگے رکھا اور قدرے حلوا بھی ہر لسیہ پر زیادہ کیا اور فرمایا اسے رغبت سے کھاؤ کیونکہ میں نے تمہاری بزرگوار دادی کے ہاتھ کی پکّی ہوئی روٹیاں بہت کھائی ہیں۔ چنانچہ کاتب حروف نے وہ ہر لسیہ تناول کیا۔ حقیقت میں اس میں وہ لذت تھی کہ جو میں نے معمولی کھانوں میں کبھی نہیں پائی۔ شیخ کمال الدین جو ایک بہت بڑے صاحب کرامت تھے۔ ابتدائے حال میں حضرت سلطان المشائخ کے باورچی خانہ میں دیگ شوئی کیا کرتے تھے یعنی برتن مانجھنے اور صاف کرنے کی خدمت آپ کے سپرد تھی اور اسی خدمت کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ کو یہ نعمت و کرامت حاصل ہوئی۔ جس وقت شیخ زادہ کمال الدین اور شیخ زادہ عزیز الدین نے چاہا کہ دونوں بھائی کسی مقام کا سفر کریں تو حضرت سلطان المشائخ نے رخصت کے وقت ایک چنبیلی کا پھول شیخ کمال الدین کے ہاتھ میں دیا اور ایک شیخ زادہ عزیز الدین کے ہاتھ میں۔ اور شیخ کمال الدین کو حکم ہوا کہ تم مالوہ میں جا کر رہو۔ شیخ زادہ عزیز الدین کی نسبت فرمان ہوا کہ تم دیوگیر کی ولایت سکونت اختیار کرو جب دونوں بھائی سلطان المشائخ کی خدمت سے رخصت ہوکر باہر آئے تو شیخ زادہ عزیز الدین نے کہا کہ سلطان المشائخ نے جو یہ ایک ایک پھول عطا کیا ہے اس سے کیا غرض حاصل ہوگی۔ شیخ زادہ کمال الدین نے جواب میں فرمایا خاطر جمع رکھو کہ سلطان المشائخ نے ہمیں ایک جلال یعنی بزرگی عنایت کی ہے۔ الغرض یہ دونوں بز گزادے آخر عمر تک نہایت متمتع رہے اور بہت ہی جاہ و جلال اور عیش و عشرت کے ساتھ زندگی بسر کی۔ وفات کے زمانہ تک بہت سی کرامتیں ظہور میں آئیں اور ان کی ذات سے مخلوق خدا کو عظیم الشان فائدہ پہنچا۔ بزرگ زادے شیخ کمال الدین کا روضہ متبرکہ تمام دردوں کے لیے دوا اور خلق کا حاجت روا ہے۔