شیخ خیر نساج
شیخ خیر نساج (تذکرہ / سوانح)
کنیت ابوالحسن، اسم گرامی محمد بن اسماعیل تھا، سامرہ سے تعلق رکھتے تھے بغداد میں مجالس قائم کیں، حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، حضرت جنید بغدادی کے احباب میں سے تھے، شیخ نوری اور ابن عطاء کے استاد تھے حضرت ابراہیم خواص اور شبلی رحمۃ اللہ علیہما نے آپ ہی کے ہاتھ پر توبہ کی، آپ نے ہی حضرت شبلی کو حضرت جنید بغدادی کی مجالس میں جانے کا حکم دیا تھا۔
حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ نفحات الانس میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ نساج کے نام سے مشہور لیکن حقیقت میں آپ نساج (جولائے) نہیں تھے، نساج نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ ابتدائی زمانہ زندگی میں آپ نے اللہ سے یہ وعدہ کیا کہ میں کھجوریں ہرگز نہیں کھاؤں گا حالانکہ یہ میوہ مجھے بڑا دل پسند ہے، ایک دفعہ سفر میں تھے کہ نفس کی خواہش نے آپ کو مغلوب کرلیا کہ وہ کھجور کھائیں کچھ کھجوریں اٹھائیں اور ان میں سے ایک دانہ کھالیا، ایک شخص وہاں سے گزرا اس نے آپ کو دیکھ کر کہا ابے خیرو! اے گریز پا، اے بھگوڑے ایک عرصہ سے تم مجھ سے بھاگ رہے تھے میرے کارخانے سے بھاگ کر چلے گئے تھے، دراصل اس شخص کا ایک غلام تھا جس کا نام خیرو تھا مگر وہ بھاگ گیا تھا اور تلاش کے باوجود مل نہیں رہا تھا اور وہ آپ کا ہی ہم شکل تھا، وہ شخص آپ کو سخت سست کہتا رہا آپ بے حد پریشان تھے آپ نے سوچا کہ یہ سزا اور یہ بے حرمتی مجھے اس گناہ کی سزا کے طور پر ہے جو میں نے اللہ سے عہد باندھ کر توڑا تھا اس شخص نے آپ کو بازو سے پکڑا اور اپنے کپڑا بننے کے کارخانے میں لے گیا، اور بٹھاکر کہنے لگا، نالائق اپنے مالک سے بد عہدی کرکے کام چوروں کی طرح کام چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اب تمہیں معاف کردیتا ہوں، اٹھو ! جو کام کرتے تھے اب محنت سے کرو یہ کہتے ہوئے ایک کھڈی میں بٹھادیا آپ بلاچون و چرا کام کرنے لگے اور کپڑا بننا شروع کردیا اتنی محنت اور جانفشانی سے کام کرنا شروع کیا گویا وہ ایک عرصہ کا تجربہ رکھتے ہیں تین چار ماہ اسی کام میں گزار دیے ایک رات اٹھے وضو کیا اور مسجد میں پہنچ کر سجدہ ریز ہوکر کہنے لگے اے اللہ میں اپنے کیے پر نادم ہوا اپنے گناہ سے توبہ کرتا ہوں دوسرے دن مالک نے اپنے اصلی غلام کو تلاش کرلیا اور شیخ خیر نساج کو اس کام میں مشغول دیکھ کر سخت شرمسار ہوا ندامت سے معافی مانگی، اور ہزاروں عذر نیاز مندی کرکے آپ کو احترام سے رخصت کیا اس دن سے آپ کا نام خواجہ خیر نساج مشہور ہوگیا۔
حضرت خیر نساج کبھی بافندگی کا کام کرتے کبھی دریائے دجلہ کے کنارے چلے جاتے اور اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاتے دریا کی مچھلیاں آپ کے نماز پڑھتے وقت کنارے کے قریب آجاتیں اور ساتھ ساتھ تیرتی دکھائی دیتیں، اور آپ کے لیے دریا کی کئی چیزیں بطور تحفہ باہر پھینکتی، ایک دن آپ ایک بوڑھی عورت کا کپڑا بن رہے تھے، اس بڑھیا نے کہا کل میں تمہیں مزدوری دینا چاہتی ہوں اگر تم یہاں نہ ملو تو میں مزدوری کسے دوں؟ آپ نے فرمایا دریائے دجلہ میں پھینک دینا اتفاقاً دوسرے دن وہ بوڑھی عورت آئی تو آپ وہاں موجود نہ تھے اس نے واقعی مزدوری کی رقم دریائے دجلہ میں پھینک دی حضرت دریائے دجلہ کے کنارے نماز پڑھنے گئے تو ایک مچھلی منہ میں وہی رقم اٹھائے آپ کے سامنے ابھری اور آپ کے سامنے پھینک دی۔
ابو حسین مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت نساج کے نزع کے وقت آپ کے سرہانے موجود تھا شام کا وقت تھا، حضرت شیخ کو بے ہوش نے آوبایا، آپ نے آنکھیں کھولیں اور دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’قف عفاک اللہ (اللہ تمہیں خوش رکھے) ٹھہرجاؤ! اگرچہ تم جان لینے پر مامور ہو، مگر مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو، میں بھی نماز پڑھنے پر مکلف ہوں، یہ کہہ کر اٹھے وضو کیادو رکعت نماز ادا کی بعد از نماز سر سجدہ میں رکھا اور جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
سفینۃ الاولیاء اور نفحات الانس میں آپ کا سالِ وفات ۳۲۱ھ لکھا ہے۔
خیر نساج خیرِ دین نبی |
|
یافت چوں از جہاں بحق تو تحصیل |
نساج ابی الحسن ولی (۳۲۱ھ) سے بھی تاریخ وفات نکلتی ہے۔
(خزینۃ الاصفیاء)