آپ حضرت حسن طاہر کے لڑکے تھے بڑے باکمال اور صاحب کرامت بزرگ تھے صحیح حال اور عالی مشرب کے مالک تھے اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ جب آپ اپنے حجرے سے نکل کر باہر آتے جو ہندو یا مسلمان آپ پر نظر ڈالتا بے اختیار اللہ اکبر کہہ اٹھتا وہ علوم حال اور قال میں بڑے باکمال تھے وہ اپنے والد کی نسبت سے سلسلۂ چشتی ۔۔۔۔
آپ حضرت حسن طاہر کے لڑکے تھے بڑے باکمال اور صاحب کرامت بزرگ تھے صحیح حال اور عالی مشرب کے مالک تھے اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ جب آپ اپنے حجرے سے نکل کر باہر آتے جو ہندو یا مسلمان آپ پر نظر ڈالتا بے اختیار اللہ اکبر کہہ اٹھتا وہ علوم حال اور قال میں بڑے باکمال تھے وہ اپنے والد کی نسبت سے سلسلۂ چشتیہ میں وابستہ تھے مگر آپ کو قادریہ سلسلہ سے بھی بڑا فیض ملا تھا کافی عرصہ حضور نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر رہے اور مجاوری کی اسی اثنا میں آپ کو سلسلۂ قادریہ کے بزرگوں کی مجالس نصیب ہوئیں بیعت بھی ہوئے اور خلافت بھی پائی۔
آپ جونپور میں پیدا ہوئے آگرہ میں رہے اور دہلی میں فوت ہوئے کہتے ہیں کہ عصر کے وقت وہ شام کا انتظار کرتے اور اس قدر خوش ہوئے جیسے کوئی اپنے محبوب کے استقبال کو کھڑا ہوا شام ہوتے ہی حجرے میں چلے جاتے دروازہ بند کر دیتے چراغ روشن کرتے اور یاد خداوندی میں مشغول ہوجاتے دن کے وقت فرصت ملتی تو علوم تصوّف پر کتابیں لکھتے تھے جب کتاب مکمل ہوجاتی اسے جلادیتے یا قینچی سے پرزہ پرزہ کردیتے آپ کے ایک مرید آپ کو شاہ خیالی کہا کرتے تھے آپ کے بے شمار مرید تھے ان میں علماء و فضلا ہر طرح کے لوگ تھے شیخ فضل اللہ جو حضرت شاہ عبدالحق محقق و محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے چچا تھے آپ کے ہی مرید تھے۔
اخبار الاخیار میں آپ کی وفات ستائیس ماہ رجب ۹۴۴ھ لکھی ہوئی ہے۔
چوں حسن گشت جلوہ گربہ بہشت
صورت ماہتاب پُر انوار
ذاکر پاک سال وصلش داں
۹۴۴ھ
ہم بخواں آفتاب پُر انوار
۹۴۴ھ