آپ جامع کرامات تھے لاہور سے بیس میل کے فاصلہ پر قصبہ شرقیور میں رہتے تھے چونکہ آپ خواجہ تھے ابتدائی زندگی میں عام نو مسلم افراد کی طرح تجارت کرتے تھے۔ غلہ سبزی لے کر فروخت کرتے تھے بعض اوقات گندم اور چنے خرید کر مختلف علاقوں میں فروخت کرتے تھے۔ بعض اوقات شرقپور سے غلہ لے کر بیلوں پر لاد کر لاہور لاتے تھے اور اسی کاروبار میں گزر اوقات کرتے تھے ایک بار دوسرے بیوپاریوں کے ساتھ شرقپور سے لاہور آرہے تھے۔ نیاز بیگ کے قدیمی مدرسہ گنبد والا کے نزدیک پہنچے تو آپ کے بیل کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور غلہ زمین پر آگرا آپ نے اپنے ہمرائی تاجروں کو کہا کہ میرا غلہ تھوڑا تھوڑا تقسیم کر کے لاہور لے چلو مگر کسی نے پرواہ نہ کی اور سکھوں کے ڈر سے قافلہ چلتا گیا۔ ان دنوں مغل سلطنت کمزور ہوچکی تھی اور اس علاقہ میں سکھوں کے جتھے لوگوں کو لوٹ لیتے تھے۔ شیخ محمد سعید اسی حالت میں بے یار و مددگار رہے اور اس ویرانے میں پڑے رہے رات ہوئی آپ بڑے پریشان تھے۔ نا چار رات کے وقت وہیں لیٹ رہے دعا کی رو رو کر زاری کرتے رہے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ایک گھوڑا سوار دور سے آپہنچا۔ نزدیک آیا تو زور سے آواز دی۔ کہ اس اندھیری رات میں تم کون ہو۔ اس ویرانے میں کیا کر رہے ہو۔ تمہارا کیا نام ہے۔ کیا کرتے ہو یہ غلہ میرے پاس لاؤ۔ محمد سعید نے سمجھ لیا یہ کوئی راہزن ہے جس کے ہاتھوں آج خیر نہیں آپ نے بہر حال جواب دیا میں ایک غریب آدمی ہوں جو شرقپور سے غلہ لے کر لاہور جا رہا تھا کہ میرے بیل کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اب میں بے یار و مدد گار پڑا ہوں اس شخص نے کہا غلّہ میرے پاس لاؤ اور تمہارا بیل تندرست ہے اس پر غلہ لاد دو آپ نے بتایا کہ سارا غلہ مجھ اکیلے سے اٹھایا نہیں جاتا اس شخص نے کہا اپنے بیل کو اٹھاؤ دیکھو کہ اس کا پاؤں درست ہوگیا ہے۔ شیخ محمد سعید نے دیکھا تو بیل واقعی تندرست تھا۔ انہوں نے خیال کیا یہ کوئی غیبی امداد ہے یہ شخص راہزن نہیں راہنما ہے اب سوار نے غلّے کی بوری کے پاس کھڑے ہو کر نیزے کی انی سے اٹھا کر بیل کی پشت پر رکھ دیا اور وہ نوجوان باد صباء کی تیزی کے ساتھ وہاں سے چل دیا شیخ سعید نے کہا آپ میرے محسن ہیں مددگار ہیں میں آپ کا نام اور مقام پوچھے بغیر جانے نہیں دوں گا شیخ محمد سعید نے بڑا اصرار کیا اور قدموں سے چمٹ گیا۔ سوار نے بتایا کہ میں اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہوں۔ میں اللہ تعالی کے حکم سے تمہاری امداد کو آیا ہوں جاؤ اللہ کے حوالے یہ کہہ کر آپ غائب ہوگئے۔
شیخ محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ شرقپور آئے اپنا مال و متاع اللہ کے راہ میں لٹا دیا عبادت خداوندی میں مشغول ہوگئے سلسلہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوگئےاور مقبولان خدا سے ہوگئے اگرچہ آپ سے ہزاروں کرامتیں ظاہر ہوئیں اور ان صفحات میں ان کی تحریر کی گنجائش بھی نہیں صرف ایک دو باتیں مشتے نمونہ ازخردارے بیاں کی جاتی ہیں۔
خربوزوں کا موسم تھا۔ آپ خربوزے لاکر شرقپور پہنچے ایک نیل گر کی دکان کے چبوترے پر بیٹھ کر خربوزے فروخت کرنے لگے لوگ خربوزہ کھاتے اور اس کے چھلکے رنگریز کے برتن میں پھینک دیتے جس سے برتن میں خربوزوں کے بیچ اور چھلکے جمع ہوگئے رنگریز یہ صورتِ حال دیکھ کر گھبرا گیا۔ ابھی وہ سوچ رہا تھا کہ شیخ سعید قدس سرہ کو کہوں کہ یہاں سے اُٹھ کر چلے جائیں میرا بہت نقصان ہوچکا ہے آپ نے اس کے دل کے خطرے کو خود ہی بھانپ لیا اور جس قدر خربوزے باقی بچے تھے چیر کر ان کے بیج اور کاشیں ضم میں پھینک کر فرمایا لو تمہارا نیل ٹھیک کردیا ہے اب اس میں تازہ نیل ڈالنے کی ضرورت نہیں آئے گی اسے عمر بھر استعمال کرتے جاؤ کپڑے ڈبوتے جاؤ اور رنگ کرتے رہو۔ واقعی ایسا ہی ہوا۔ رنگریز جب تک زندہ رہا نیا نیل ڈالے بغیر کپڑے رنگتا رہا۔
حضرت شیخ محمد سعید شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ طریقت چند واسطوں سے شیخ جلال الدین چشتی تھانیسری رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے آپ کے عظیم خلیفہ شیخ شمس الدین بن محمد حسین لاہوری رحمۃ اللہ علیہ تھے آپ وجد و تواجد میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
شیخ محمد سعید ۱۲۱۴ھ میں فوت ہوئے لفظ دریغ (۱۲۱۴ھ) سے آپ کی تاریخ وفات بر آمد ہوتی ہے یہ تاریخ آپ کے مزار پر کندہ ہے۔ آپ کا مزار قصبہ شرقپور میں ہے۔