اوصاف جمیلہ
آپ قبلہ عارفاں۔کعبہ واصلاں۔خلاصۂ وحدت ۔ثمرہ ربوبیّت ۔صاحبکشف وکرامات و خوارق ووجدوسماع تھے۔آپ حضرت شیخ تاج محمود قلندربن حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداصغر اورمریدوخلیفہ تھے۔
اپنے عم بزرگ حضرت شیخ رحیم داد صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے بھی فیض کامل پایا۔
تعلیم ظاہری
آپ نے علم ظاہری فقہ و تصوّف حاصل کیا۔طب میں بھی خصوصی مہارت پائی۔آپ کے فیض سے اکثرلوگ مستفیض ہوئے۔
کرامات
کشف سے خبردینا
منقول ہے کہ ایک روز کو ئی شخص آپ کی خدمت میں آیااور عرض کیا کہ میرا بھائی ملتان گیاتھا۔اب سُننے میں آیاہے کہ وہ قیدہوگیاہے۔اس کی رہائی کےلیے دعافرماویں۔ آپ نےدیرتک مراقبہ کیااور فرمایاتیرے بھائی کا کسی دلال کے ساتھ تنازعہ ہواتھا۔مگرخیرگذری ہے قید سے بچ گیاہے۔اس نے اپنی خیریت کابھی تجھ کوبھیجاہے۔جو کل تجھے مل جائے گا۔چنانچہ دوسرے دن وہ خط اُس کو مل گیااور آپ کا کشف صحیح ثابت ہوا۔
کثرتِ اولادکی دعا
ایک روزایک بڑھیانے آپ کا دامن پکڑلیااور عرض کیاکہ میرے لڑکے اللہ دادخاں کے حق میں مجھے کوئی خوشخبری عنایت فرماویں۔تب آپ کا دامن چھوڑوں گی۔آپ نے اس کو بشارت دی کہ خداتیرے لڑکے کی نسل بہت بڑھائے گا۔جو بجائے خودایک قبیلہ مشہور ہوگا۔ چنانچہ اسی طرح ہوا۔
اپنے مقصد میں کامیابی
منقول ہے کہ آپ بمعہ ایک درویش کے سیر کرتے ہوئے موضع بدوکے ضلع گوجرانوالہ کے پاس سے گذرے۔وہاں ایک کنوئیں پرچند عورتیں پانی بھرنے کے لیے آئیں۔ان میں سے ایک دوشیزہ لڑکی نوجوان خوبصورت پر آپ مبتلاہوگئے۔پتہ کرنے پر معلوم ہواکہ وہ وہاں کے ایک مشہور بزرگ شیخ جلّو قوم دھاڑیوال کی بیٹی ہے۔آپ نے درویش کو اس کے والدین کےپاس بھیجااور ان کو نکاح کاپیغام سُنایا۔اس کے بھائی یہ پیغام سن کر سخت ناراض ہوئے اورلاٹھیاں لے کرآپ کو مارنےکے لیے آگئے۔چونکہ آپ کی ایک آنکھ اَحوَل تھی۔اس لیے انہوں طنزاً کہاکہ توکانافقیرہوکرہماری ہمشیرہ کا رشتہ مانگتاہے۔آپنے جلالیّت میں ہوکرفرمایا۔ اگرمیں کاناہوں تو تمہاری ہمشیرہ اندھی ہے۔چنانچہ اسی وقت وہ اندھی ہوگئی۔آخر وہ اپنی گستاخی سے تائب ہوئے۔آپ نے پانی دم کردیا۔آنکھوں پر چھڑکنے سے وہ بیناہوگئی۔آخر شیخ جلّو رحمتہ اللہ علیہ نے برضامندی اپنی لڑکی کا نکاح آپ سے کردیا۔اسی کے بطن سے آپ کی اولاد ہوئی۔
تصنیف
علم طب میں کتاب رُباعیاِ ت ِیوسفی کی شرح بزبان فارسی ااپ نے بہت عمدہ لکھی ہے۔
تحریر
آپ کے ہاتھ کا لکھاہواقرآن مجید بخط نسخ آپ کی اولاد میں سے صاحبزادہ حافظ منظور حسین بن شیخ سردارشاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس موجودتھا۔۱۳۵۰ھ میں انہوں نے مولف کتاب ہذاکوتبرکاً عنایت کردیا۔چنانچہ وہ میرے کتب خانہ میں موجودہے۔
روایات
میرے جد بزرگوارحضرت سیّد حافظ محمد حیات ربانی بن سید حافظ جمال اللہ صاحب فقیہِ اعظم برخورداری رحمتہ نےاپنی کتاب تذکرہ نوشاہیہ میں تین روایتیں آپ کی زبان سے نقل کی ہیں۔
۱۔حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کادیوان ابوالفتح رحمتہ اللہ علیہ کی عیادت کو جانا۔
۲۔ملّاغازی گوندل رحمتہ اللہ علیہ کا شیخ تاج محمودقلندررحمتہ اللہ علیہ کی غیرت سے سزایاب ہونا۔
۳۔شیخ تاج محمود صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا پانڈوکے میں ایک عروس کو دیکھنا۔
اولاد
آپ کے چار بیٹے تھے۔
ا۔شیخ فتح الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ۔
۲۔شیخ نورجمال صاحب رحمتہ اللہ علیہ ۔ان کے ایک فرزندشیخ خان بہادرصاحب رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
۳۔شیخ دین پناہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ ۔
۴۔شیخ حمزہ شاہ صاحب۔ان کے حالات چوتھے باب میں آویں گے۔
یارطریقت
آپ کے ایک درویش شیخ مرتضےٰ نامی تھے۔
وفات:
شیخ محمد آفتاب کی وفات ۱۱۳۸ھ میں ہوئی۔
آپ کی قبر بھلوال شریف ۔گورستانِ سلیمانیہ میں ہے۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)