حضرت شیخ محمد ابن شیخ عارف ردولوی قدس سرہٗ
حضرت شیخ محمد ابن شیخ عارف ردولوی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آں پیشوائے جمیع اہل کمال، آں سیراب از تر شحات ذوق وحال، نور محض در طلسم جسمانی، آئین صحو وسکر رابانی، گم گشتہ ودر بحر ذات سرمد، قطب دائرہ وجود، شیخ المشائخ حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ اپنے والد ماجد حضرت شیخ عارف بن شیخ احمد عبدا الھق قدس سرہٗ کے خلیفہ جانشین تھے۔ آپ بادۂ نوشان توحید کے سر حلقہ، اور دُد کشان مشرب تجرید وتفریس کے سر دفتر تھے۔ آپ فقر و فنا اور کشف و صفا میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ اس قدر بلند ہمت تھے کہ ذات مطلق کےمشاہدہ کے بغیر ایک لمحہ نہیں رہ سکتے تھے۔ آپ ہر وقت استغراق ذات مطلق میں غرق رہتے تھے۔ اور عالم کون و مکان سے ہمیشہ آنکھیں بند رکھتے تھے۔ آپ اپنے اسم مبارک ‘‘محمد’’ کی طرح ہر شخص کے نزدیک محمود محمد تھے۔ آپ کے لیے یہی شرف کافی ہے کہ آپکا اسم گرامی حضرت رسالت پناہ کےمشرب ہی سے بہرہ یاب تھے۔ بلکہ اپنے آپکو حضور خواجۂ دوسراﷺ کی ذت میں محو ومستغرق کردیا تھا حتیٰ کہ اپنے وجود سے بھی بے خبر ہوچکے تھے۔ اور محمد ہی باقی تھے۔ آپکے کمالات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ قطب العالم حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی بن شیخ اسمٰعیل الحنفی قدس سرہٗ جیسے شاہباز بلند پرواز عالم لاہوت باوجود یکہ آپ نے حضرت شیخ احمد عبدالحق کی روحانیت سے باطنی تربیت حاصل کر کے تمام کمالات ولایت حاصل کرلیے تھے۔ آپکو خرقۂ خلافت حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ سے حاصل ہوا اس سے زیادہ کمال اور کیا حاصل ہوسکتا ہے۔
حضرت شیخ شاہ عبدالقدوس گنگوہی کی بیعت کا واقعہ
حضرت شیخ رکن الدین فرزند ارجمند حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی لطائف قدوسی میں لکھتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار کی بیعت کا واقعہ یوں ہے کہ چونکہ میرے والد بزرگوار باطنی طور پر حضرت شیخ احمد عبدالحق سے فیضیاب ہوچکے تھے آپ کو حضرت شیخ محمد بن شیخ عارف بن شیخ احمد عبدالحق قدس اسرارہم کی طرف زیادہ التفات نہ تھا اس لیے کسی اور جگہ جاکر ظاہری بیعت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب یہ خطرہ آپ کے دل میں پیدا ہوتا تھا تو حضرت شیخ احمد عبدالحق کی روحانیت سامنے ظاہر ہوجاتی تھی اور فرماتی تھی کہ تم ہمارے ہو دوسری جگہ مت جاؤ۔ اس پر میرے والد خاموش ہوجاتے تھے۔ جب اس معاملہ میں کافی دیر ہوگئی تو میرے والد کے دل میں خیال آیا کہ بیشک میں انکا ہوں لیکن ظاہری بیعت تو ضروری ہےجب یہ خطرہ آپ کے دل پر غالب آگیا تو حضرت احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی روحانیت نے ظاہری جسم اختیار کر کے فرمایا کہ ابھی تمہارے دل میں شبہ باقی ہے اور ہمیں مردہ سمجھتے ہو۔ کسی جگہ مت جاؤ۔ تم ہمارے ہو۔ اگر ظاہر بیعت کی خواہش ہے تو میرے پوتے شیخ محمد سے بیعت کرلو۔ اسکے بعد میرے والد نے حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ سے بیعت کرلی۔ حضرت شیخ محمد اگر چہ عمر رسیدہ تھے لیکن میرے والد کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے۔
رسم کتخدائی
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ میرے والد بزرگوار کا ارادہ یہ تھا کہ شادی نہ کی جائے۔ اور عیال واطفال کی قید سے آزاد رہنا چاہیے۔ لیکن چونکہ تقدیر میں آپکا متاہل ہونا لکھا جاچکا تھا آپ کےشیخ حضرت محمد نے کوشش کر کے آپکا عقد نکاح ا پنی ہمشیرہ سے کردیا اور ہمشیرہ کو انکے سپرد کردیا اسکی تفصیل یہ ہے کہ حضرت شیخ عارف بن شیخ احمد عبدالحق کی دو صاحبزادیاں تھیں۔ بڑی لڑکی کی شادی ایک سید زادہ سےہوئی تھی جسکا ذکر پہلے ہوچکا ہے دوسری بیٹی کے متعلق حضرت شیخ عارف کےاہل خانہ کی یہ خواہش تھی کہ کسی ایسے بزرگ سے انکی شادی ہوجسکا اشارہ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی طر ف ہوجائے۔ کچھ عرصے کے بعد لڑکی کی والدہ ماجدہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شاہ عبدالقدوس سماع کر رہے ہیں اور آپکا پاؤں ٹوٹ گیا ہے عین اس وقت حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی روحانیت ظاہر ہوئی اور فرمایا کہ اس لڑکے کو اپنے آغوش میں لے لو اور اسکی پرورش کرو۔ خواب سے بیدار ہوکر یہ تعبیر نکالی کہ پاشکستہ سے یہ مراد ہے کہ یہ لڑکا درویش کام ہوگا اور غری حق کے دروازہ پر نہیں جائیگا۔ اور آغوش میں لینے اور پرورش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی لڑکی کی شادی اس کے ساتھ کردو۔ اسکے بعد شادی کی تیاری ہوگئی۔ اُن دنوں میرے والد بزرگوار کا دستور یہ تھا کہ حضرت پیر دستگیر کے گھر کے تمام افراد کے کپڑے لاکر ہر جمعہ کے دن دھ دھونے جایا کرتےتھے ایک دن حسب دستور کپڑے دھونے گئے ہوئے تھےکہ حضرت پیر شیخ محمد قدس سرہٗ کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ وہاں معمول یہ تھا کہ اس خاندان میں جو بچہ پیدا ہوتا تھا میرے والد اسکے کان میں اذان دیا کرتےتھے۔ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے مریمنام ایک خادمہ کے ذریعے میرے والد ماجد کو بلوا بھیجا۔ اس خادمہ نےراتےمیں شادی کا ذکر چھیڑ دیا۔ لیکن چونکہ آپ شادی سے اجتناب کرتے تھے اسکی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ جب اپنے شیخ کے گھر آکر بچےکان میں اذان دی اور حضرت شیخ محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے بھی شادی کی قیل و قال شروع کردی۔ میرے والد نے عرض کیا کہ حضور ہم آپکے ہاتھ میں ایک مٹی کے ڈھیکہ کی مانند ہیں خواہ توڑ دیں خواہ رکھیں۔ حضرت شیخ محمد نے فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ کی تقدیر میں شادی کرنا لکھا ہے تو اس سے بہتر اور کونسی جگہ ہوگی کہ یہ لڑکی تمہارے پیر کی بہن ہے شیخ عارف کی بیٹی ہے اور قطب العالم حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی پوتی ہے۔ یہ سنکر میرے والد ماجد خاموش ہوگئے۔ چونکہ نوشتہ ازل تھا عقد نکاح ہوگیا۔ جب کارِ خیرکاوقت آیا اور نوشہی پوشاک زیب تن کرنے کا وقت آیا تو آپ اپنے پیر کے گھر میں جھاڑو دے رہے تھے اور پانی بھر رہے تھے۔ وہاں سےلوگوں نے انکو لیجاکر غسل کرایا اور پوشاک پہنائی۔ اسکے بعد انکو اندرون خانہ لےگئے اور عورتوں نے حسبِ دستور ہندی کی یہ چیز گانہ شروع کی۔
گھونھٹ راکھول دہنباشہ دیکھا مور سے
ہندوی اس گھونگٹ رے کارنے شہ باہنہ رور ے
یہ سنکر میرے والد بزرگوار پر حال طاری ہوگیا اور جوش و خروش کے عالم میں تڑپتے ہوئے تخت عروسی سے نیچے جاپڑے اور نوشہی لباس پارہ پارہ ہوگیا۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
طاقیم کہ باغیر خدا جفت نہ کردیم
زوجیت شہوات ہوا رانہ شناسیم
میرے والد ماجد کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں نے لڑکی کے والد کو ملامت کرنا شرو کیا کہ تم نے جان بوجھ کر اپنی لرکی اس دیوانے کے حوالہ کردی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ نوشتۂ ازل یہی تھا۔ کیا کیا جاسکتا ہے۔
شاہ عبدالقدوس گنگوہی کی خلافت
لطائف قدوسی میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب آخر عمر میں حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ مرض الموت میں مبتلا ہوئےتو آپ نے اپنے بڑے بیٹے شیخ اولیاء عرف بڈھ کو یاد فرمایا وہ اس زمانے میں میرے والد ماجد کے ہاں شاہ آاد میں باطنی تربیّت حاصل کر رہے تھے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ شاہ آباد گئے ہوئے ہیں۔ اُس وقت حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی روحانیّت نے فرمایا کہ اپنے بیٹے بڈھ کو جلدی ردولی میں طلب کرو چنانچہ انہوں نے باطنی حکم کے ذریعے اپنے بیٹے کو فوراً ردولی میں بلالیا۔ اس وقت شیخ محمد قدس سرہٗ حالت نزع میں تھے۔ کچھ وقت کیلئے ذاتِ احدیت میں مستغرق وبے خود ہوجاتےتھے۔ جب عالم ہوشیاری میں آتے تو کہتے سبحان اللہ میں نے سمجھ لیا، میں نے سمجھ لیا۔ میرے والد بزرگوار نے دریافت کیا کہ کیا سمجھ لیا فرمایا توحید مطلق کو سمجھ لیا۔ جب روح پرواز کرنے لگی تو استغراق کا غلبہ ہوا۔ میرے والد بزرگوار نے عرض کیا کہ یہ وقت مردانِ خدا کی ہوشیاری کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا میری طرف سے بے فکر ہوجاؤ۔ اس وقت ذاتِ حق کے سوا میرے سینہ میں کوئی چیز نہیں سماسکتی۔ اسکے بعد اٹھ بیٹھے اور ذوق و شوق کی حالت میں خرقۂ خلافت اور ساری امانتِ خواجگان چشت مع اسم اعظم جو اپنے والد حضرت شیخ عارف قدس سرہٗ سے حاصل کی تھی کمال مہربانی سے میرے والد بزرگوار حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی حنفی قدس سرہٗ کے حوالہ کردی۔ جو کچھ وصیت کرنا تھی کی اور اپنا خلیفہ جانشین مقرر فرمایا۔ اسکے بعد میرے والد ماجد نےعرض کیا کہ ح ضور اقدس کی رحلت کرجانے کے بعد یہ بندہ غریب ہوجائیگا۔ میرے اندر حضور کی ذات بابرکات سے جدائی کی طاقت نہیں ہے۔ اس پر حضرت شیخ نے کمال لطف سے فرمایا کہ تجھے کیا غم ہے تو اولیائے حق میں سے اور ہمارا مقام تمہار مقام ہے۔ تم جہاں کہیں ہوگے میں تمہارے ساتھ ہونگا۔ اور میں نے اپنے بیٹے شیخ بڈھ کی تربیت کا کام تمہارے سپرد کیا ہے۔ جب تم اپنے وطن جانا چاہو تو میرے بیٹے کو اسرار درموز باطنی سے آگاہ کر کے مشائخ عظام کی نعمت اس کے حوالہ رنا اور اپنا نائب بناکر میری جگہ پر بٹھادینا۔ جب حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ اپنی وصیت تمام کر چکے تو نہایت خوشی و خرمی کی حالت میں عالم بقا کی جانب رحلت کر گئے۔ میرے والد حضرت شیخ عبدالقدوس اپنےمخدوم زادہ شیخ بڈھ کو نعمت باطن سپرد کر کے اپنی نیابت میں حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ کی مسند پر بٹھایا اور انکا قائم مقام سجادہمقرر کر کے چند روز کےاندر اپنےوطن تشریف لےگئے اور تربیت مریدین میں مشغول ہوگئے۔ یہ ہے جو کچھ لطائف قدوسی کے ایک معتبر نسخہ میں دیکھا ہے۔
اس کتاب کے اکثر نسخوں میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ نے اپنی موجودگی میں خود مشائخ حیثیت کی امانت مع سجادگی اپنے فرزند شیخ بڈھ کے حوالہ فرمائی اور پھر وصال فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
وصال
حضرت شیخ محمد قدس سرہٗ کا سن وفات کسی جگہ نظر نہیں آیا۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت مخدوم پر متمکن ہوئے اور بڑے باکمال بزرگ ہوئے ہیں۔ صاحب مراۃ الاسرار نے بھی کہا ہے کہ مخدومی شیخ عبدالرحمٰن قدوائی جنکی عمر قریب ایک سو سال تھی اور بلاواسطہ شیخ مخدوم بڈھ کے مرید تھے انہوں نے اس فقیر سے کہا ایک رات شیخ بڈھ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سوئے تھے۔ جب اہل خانہ بیدار ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں شیخ بڈھ بستر پر سورہے ہیں اور انکی ایک صورت مصلیٰ پر کھڑی نماز پڑھ رہی ہے۔ اس سے اُن پر خوف طاری ہوا اور چلانے لگیں جب شیخ بڈھ بیدار ہوئے تو وہی ایک صورت رہ گئی۔ اسکے بعد انہوں نے اپنے اہل خانہ کو آیندہ راز فاش کر نے سے منع فرمایا۔ بات یہ ہے کہ تکمیل کے بعد ایک مثالی صورت حاسل ہوجاتی ہے جسے صوفیاء کرام وجود مکتسب کہتے ہیں۔
اقام برزخ
صاحب مراۃ الاسرار دیوان امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے کہ رُوح بغیر جسم نہیں رہ سکتی جب جسد عنصری محلول فیہ سے جدا ہوتی ہے تو اسے عظیم برزخ میں جسم مثالی ابدی مل جاتا ہے جسے بدنمکتسب کہتے ہیں۔ جیسا کہ حق تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے من ورایتھم برزخ الی یوم یبعثون ط نیز شیخ ابن عربی اپنی کتاب فتوحات مکی کے اکیسویں باب میں فرماتے ہیں کہ وہ برزخ جہاں روح جسم خاکی سے جدا ہوکر جاتا ہے اس برزخ سے علیحدہ ہے جو روح اور جسم کے درمیان ہوتا ہے اور جسے غیب مجالی کہتے ہیں اور دوسرے برزخ کو غیب امکانی کہتے ہیں۔ جو لوگ غیب امکانی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور آنے والے واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں بہت ہیں لیکن جو لوگ غیب مجالی کا مشاہدہ کرتے ہیں اور احوال موتیٰ سے آگاہ ہوتے ہیں تھوڑے ہیں۔ اسکی تفصیل یہ ہے کہ جو سالک عالم ملکوت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے مرنے کےبعد حق تعالیٰ سے ایک جسم مثالی عطا کرتے ہیں جو اس خاکی جسم کے ہم شکل ہوتا ہے۔ یہ جسم مثالی اس لیے اُسے ملتا ہے کہ اسکی روح اس جسم کے مرکب پر سوار ہوکر ملا اعلیٰ میں ارواح قدسیہ کے ساتھ میل جول کر سکے۔ جب ایک سالک عالم جبروت تک رسائی حاصل کرلیتا ہے تو موت کے بعد اُسے ایک ہیکل نورانی (نورانی جسم) عطا فرماتے ہیں اور اس مقام کے سالک کو مرنے کے بعد وہی قدرت ہوتی ہے جو جسم خاکی کے ساتھ ظاہری حیات کے وقت ہوتی ہے۔ لیکن سالک مرتبہ ملکوت کو یہ قدرت حاصل نہیں ہوتی۔ جب سالک مقام لاہوت سے واصل ہوجاتا ہے تو موت اور ح یات اسکے لیے یکساں ہوجاتی ہے اُسے اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ جس شکل و صورت میں چاہے ظاہر ہوسکتا ہے اور ایک ہی لمحہ میں خواہ حیات ہے یا ممات اگر چاہے تو ایک سو مقام ہو بلکہ ہزار مقام پر یا اس سے بھی زیادہ مقام پر ظاہر ہوسکتا ہے اور لوگوں سے باتیں کر سکتا ہے یہ ایک راز ہےجسے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ فہم من فہم۔
(اقتباس الانوار)