حضرت شیخ محمد صادق چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت شیخ محمد صادق چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ محمد صادق چشتی صابری
نام و نسب: اسم گرامی: شیخ محمد صادق چشتی صابری۔ لقب: قطب وحدت۔ سلسلہ نسب: حضرت شیخ محمد صادق چشتی صابری بن شیخ فتح اللہ گنگوہی بن قطب العالم شیخ عبد القدوس گنگوہی بن شیخ اسماعیل بن شیخ صفی الدین۔شیخ صفی الدین حضرت میرسیداشرف جہانگیرسمنانی کے مریدتھے۔آپ کاسلسلہ نسب چندواسطوں سےحضرت امام ابوحنیفہ پرمنتہی ہوتاہے۔(اقتباس الانوار)
تحصیل علم: آپ ایک علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی آپ کے جد اور حضرت شیخ ابوسعید گنگوہیآپ کے عم محترم ہیں۔ آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی۔آپ علوم ظاہری و باطنی کے جامع تھے۔
بیعت و خلافت: آپ حضرت قطبِ یزدانی حضرت شاہ ابو سعید گنگوہی چشتی صابری کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہوئے اور انہی سے خرقہ خلافت پاکر سرفراز ہوئے۔ شیخ محمد صادق کی عمر اس وقت چودہ پندرہ سال تھی اوربہت حسین وجمیل تھے۔ ایک دن ان کا گزر حضرت شیخ ابو سعید کی خانقاہ سے ہوا ان کو دیکھتے ہی حضرت شیخ نے فرمایا کہ مجھے اپنی نعمت کےآثاراس بچے کی پیشانی میں نظرآرہے ہیں۔چنانچہ آپ نے ایک نظر سے ان کا دل مسخر کرلیا اور وہ کمال عجز و نیاز کے ساتھ بیعت سے مشرف ہوگئے۔ حضرت شیخ کے حُسنِ تربیت سےقلیل مدت میں مرتبہ تکمیل وارشاد کو پہنچ کر آپ ہدایتِ خلق میں مشغول ہوگئے ۔ (اقتباس الانوار، ص741)
سیرت و خصائص: قطب وحدت شیخ المشائخ حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی چشتی صابری۔ آپ اپنے وقت کے عظیم مشائخ میں سے ایک تھے۔بالخصوص سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں آپ کا بہت کا بڑا مقام ہے، سلسلہ عالیہ چشتیہ اور دین اسلام کےلئے آپ کی عظیم خدمات ہیں۔آپ صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے۔ آپ عبادت و ریاضت میں بے مثال زہد و تقویٰ میں باکمال تھے آپ اپنے مریدوں کی تربیت و تعلیم اور علم سلوک کے بتانے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔اپنے زمانے کے مشائخ میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔حق تعالیٰ نے آپ کو وہ ولایت و تصرف عطا کیا تھا کہ اولیاء متاخرین میں سے بہت کم کو نصیب ہوا ہے۔آپ کے نور ہدایت سے تمام اطراف واکناف منور تھے۔ آپ قطب الاقطاب حضرت شیخ ابو سعید گنگوہی حنفی کے برادر زادہ اور خلیفہ و جانشین تھے آپ ذوق وسماع، درد اور سوزو گداز میں بے نظیر تھے۔ حالت سماع میں آپ جس شخص کی طرف توجہ فرماتے تھے اُسے بھی ذوق حاصل ہوجاتا تھا۔ بلکہ تجلی ذات اس پر جلوہ گر ہوجاتی تھی۔ تربیت مریدین میں آپ بلند ہمت تھے آپ کی نسبت نہایت قوی تھی اور تھوڑی سی توجہ سے ساکنان عالم سفلی کو عالم علوی میں پہنچادیتے تھے۔ آپ نفس قانع کے مالک تھے۔ آپ کی زبان مبارک سے جو کچھ نکلتا تھا خواہ لطف ہو یا قہر فوراً وقوع پذیر ہوجاتا تھا۔ آپ بےحد خوب صورت اورخوب سیرت تھے۔ آپ کےکشف وکرامات کی نہ کوئی حدتھی نہ آپ کےسیرمقامات کی کوئی انتہا۔ آپ کو حضرت رسالت پناہﷺ کی روحانیت کے ساتھ عجیب نسبت تھی، بلکہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات میں آپ کو فنائے خاص حاصل تھی۔ یہاں تک کہ حضرت شیخ محمد صادق حضرت خواجۂ کونینﷺ کے جمال باکمال کے آئینہ بن چکے تھے اور اُسی طرح آپ کا خوان ہدایت ہر کافر ومسلمان کیلئے عام تھا۔ جو مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا علائق دنیا سے اسکا دل سرد ہوجاتا تھا اور جو کافر آپ کا رخ انور دیکھ لیتا زنگ کفر اس کے دل سے مٹ جاتا تھا اور فوراً مسلمان ہوجاتا تھا۔ آپ اکثر اوقات سیر وتفریح کیلئےسہارن پورتشریف لے جاتے تھے۔ ایک دفعہ آپ بازار میں جارہے تھے کہ آپ کی نظر مبارک ایک امیر کبیر ہندو تاجر پر جا پڑی جو اپنی دکان کے اندر بیٹھا تھا۔ جونہی اس کافر نے آپ کے جمال کو دیکھا صدق دل سے کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلما ن ہوگیا اور جاکر آپ کے قدموں میں گر گیا۔ اسکے بعد آپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ آپ نے اس کا نام شیخ عبدالسلام رکھا اورذکرتلقین فرمایا۔تھوڑےعرصےمیں وہ آپ کی توجہ سے واصلان حق میں سے ہوگیا۔ شیخ عبدالسلام بڑے صاحبِ وجد و سماع تھےاور اپنے ہندی کلام سے لوگوں کے دل موم کردیتے تھے۔ سماع میں آپ رقص بھی کرتے تھے۔
ریاضت و مجاہدہ: حضرت شیخ محمد صادق بالکل آرام نہ فرماتے تھے۔ آخر الا عمر محویت بے خودی پیدا ہوگئی تھی۔اس بے خودی میں اس قدر اسرار ذات بے کیف کے آپ پر مکشوف ہوئے کہ احاطہ بیان سے باہر ہیں۔ اس بے خودی میں مقام وراءالوراء ماہیت منکشف ہوگئے اور دیکھا کہ سینہ مبارک آپ کانور الہی سے روشن و منور ہوگیا۔ حضرت شیخ محمد صادق فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺنے مجھے نورکی چادرعطا فرمائی اورفرمایا کہ یہ ادائے معشوق ہےاور میری طرف سے ولایت مطلقہ تمہیں عطا ہوئی۔ اس کا حق ادا کرنا اس سے شہود ذاتی کا دوام ہوگا اور وہ مقام حاصل ہوگا جو مقام نبوت کافیض خاص ہوگا۔اس کے بعد حضرت علی نے نورِ خالص کی تلوار عطا فرمائی اور فرمایا کہ یہ تلوارلواس سے ولایت مطلقہ کے تصرفات تمہیں عطا ہوئے اس کے بعد حضرت ابو سعید نے ایک صاف آئینہ عطا کیا اور فرمایا کہ یہ علم حکم الٰہی کی صورت ہے جو تمہیں مرحمت ہوئی ہیں۔ عالَمِ تجلیات اس کے بعد بے پناہ مجھ پر منکشف ہونے لگے۔(اقتباس الانوار، ص773)
آپ زہد و تقویٰ ریاضت و عبادت کےپیکر تھے۔ پ کے زمانے کے مشائخ آپ کے کشف و کرامات کا اعتراف کرتے تھے۔ آپ کے پاس جو طالب ِخدا آتا آپ اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ ابو سعید کے پاس بھیج دیتے تھے۔جب آپ اپنے پیر و مرشد کے جانشین مقرر ہوئے تو آپ کی ولایت کا دور دور چرچہ ہونے لگا اور آپ کی ہدایت کے نور اطراف عالم کو گھیر لیا۔ذکر جہر کے حلقہ سے سے صبح و شام اللہ ہو کی آواز سنائی دینے لگی۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال باکمال 18؍محرم الحرام 1036ھ، مطابق اکتوبر؍1626ء کو ہوا۔مزار فیض آثار گنگوہ شریف انبالہ مشرقی پنجاب انڈیا میں مرجع خاص و عام ہے۔جہاں اہل عقیدت و محبت حاضری دے کر اپنے قلوب و اذہان کو نور ایمان سے کرتے ہیں۔(انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، ج،3،ص108)