حضرت حاجی محمد نوشاہ ہی گنج بخش کے باصفا مریدوں اور باوفا معتقدوں سے تھے۔ اپنے مرشد صاحب کے عشق میں درجہ فنا فی اشیخ رکھتے تھے۔ آغازِ جوانی ہی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوگئے تھے۔ مرشد ہی کی زیرِ نگرانی تعلیم و تربیت پائی تھی اور مقبولِ درگاہِ شیخ ہوئے۔ آپ پر اکثر و بیشتر حالتِ جزب و سُکر طاری رہا کرتی تھی۔ نقل ہے: ایک دفعہ بے خودی کا یہ عالم تھا کہ عیدِ قربان کے دن پُوچھا: آج کون سا دن ہے کہ لوگ اس قدر گوسفند ذبح کر رہے ہیں۔ لوگوں نے کہا: آج عیدِ قرباں کا دن ہے لوگ راہِ خدا میں وربانی دے رہے ہیں۔ آپ بھی اٹھئے اور قربانی دیجئے۔ کہا: میرے پاس تو اپنی جان کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چھری لاکر اپنے حلق پر پھیرنی شروع کردی۔ ابھی شہ رگ نہیں کٹی تھی کہ لوگوں نے آکر ہاتھ پکڑلیا اور اسی حالت میں مرشد کے پاس لے آئے۔ آپ انہیں دیکھا کر بڑے خوش ہوئے اور بڑی تحسین و آفرین کہی اور اِن کے حق میں دعائے خیر کہی اور زخم پر اپنا دستِ مبارک پھیرا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم انہیں صحت حاصل ہوگئی مگر غلبۂ حال میں کمی نہ ہوئی اور کلّی طور پر مجذوب ہوگئے اور بارہ سال تک دوابہ کے جنگل میں پھرتے رہے۔ اسی تجرید کی حالت میں زندگی گزاری۔ اپنے آپ کی کوئی خبر نہ تھی۔ دُنیا سے اور دُنیا داروں سے کوئی تعلّق نہ تھا۔ ۱۱۳۳ھ میں وفات پائی۔ مزار موضع نوشہرہ ضلع گجرات میں ہے۔
تقی رفت چوں زیں جہانِ فنا شد از قلم ’’شیخ اکبر‘‘ رقم ۱۱۳۳ھ
|
|
پے سالِ ترحیل بے قال و قیل عیاں شد’’تقی متقیِ جلیل!‘‘[1] ۱۱۳۳ھ
|
[1]۔ شیخ محمد تقی کا صحیح سنِ انتقال ۱۰۹۴ھ ہے (شریف التواریخ (قلمی) جلد سوم، حصہ اول موسوم بہ تحائف الاطہار قلمی ص۴۶۲)۔