شیخ محمد ترک نارنولی
شیخ محمد ترک نارنولی (تذکرہ / سوانح)
آپ کا اصل وطن ترکستان تھا وہاں سے آکر نارنول میں سکونت پذیر ہوئے۔ لوگوں کا بیان ہے کہ آپ خواجہ عثمانی ہارونی کے مرید تھے، ملفوظات مشائخین میں ذکر دیکھنے میں نہیں آیا، نارنول کے رہنے والے لوگ آپ کو پیر ترک اور ترک سلطان کہا کرتے تھے، آپ کا مزار عام و خاص لوگوں کا مرجع ہے، نارنول میں ایک حوض کے کنارے آپ کا مزار تھا، وہ حوض ٹوٹ پھوٹ گیا اور اب اس جگہ شہری آبادی ہے۔
جب آپ نارنول پہنچے تو اس وقت مجرد، متوکل اور عورتوں کی مجلس سے دور رہتے تھے، آپ کے کوئی بال بچہ بھی نہ تھا، آپ بیعت نہیں کرتے تھے اسی لیے آپ کا کوئی شخص مُرید نہیں۔
قبر سے قُرآن پڑھنے کی آواز
اسلام کے ابتدائی دور میں نارنول میں کافروں کی بڑی قوت تھی، مسلمان بہت تھوڑی مقدار میں تھے اور ہندو موقع کی تاک میں رہتے، عید کے روز جب تمام مسلمان عید کی نماز پڑھ رہے تھے ہندوؤں نے یکدم اور اچانک حملہ کردیا اور مسلمانوں پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑے، اس حملے میں اکثر و بیشتر مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا، اور شیخ محمد ترک بھی اسی دن شہید ہوئے، اکثر شہداء کو تہذ پال کے حوض کے ایک کنارے سپردِ خاک کیا گیا اور شیخ کو ان کی جائے سکونت میں دفن کیا گیا، اس گنجِ شہداء میں دو شہید اور بھی مدفون ہیں، ایک کا مزار بلندی پر ہے جن کو بلند شہید کہتے ہیں اور دوسرے کا مزار نیچے ہے جنہیں نشیب شہید کہتے ہیں، دونوں شہید قرآن کریم کے حافظ تھے، بعض بزرگوں نے ان دونوں شہیدوں کی قبروں سے قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں قرآن کریم کادور کر رہے ہیں ایک پڑھ رہا ہے اور دوسرا سُن رہا ہے اور دونوں کے دونوں قرآن کو دہرا رہے ہیں۔
رُوحانی پتھر: شیخ محمود چراغ دہلوی کو کسی بادشاہ نے جبراً ٹھٹھہ کی طرف جانے کا حکم دیا، چنانچہ آپ نارنول سے ٹھٹھہ کی جانب روانہ ہوگئے، نارنول سے تقریباً دو میل دور ہوگئے تھے کہ محافظانِ حکومت کی حراست سے نکل کر شیخ محمد ترک کے مقبرے کی جانب متوجہ ہوئے، مقبرے میں ان کی قبر کے ساتھ ہی ایک پتھر لگا ہوا ہے، پہلے کچھ دیراس پتھر کی جانب متوجہ رہے پھر آپ نے شیخ محمد ترک کی قبر کی جانب رخ فرمایا، جب زیارت سے فارغ ہوگئے تو لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ اس میں کیا راز تھا کہ ابتداً آپ نصب شدہ پتھر کی جانب اور پھر قبر کی طرف متوجہ ہوئے، آپ نے جواب دیا کہ وہ خادِم بڑا ہی خوش نصیب ہے جسے آقا اور مخدوم اس کے گھر خود نوازنے کے لیے تشریف لائے اور اسے سرفراز کرے، میں نے اس پتھر کے اوپر سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی روحانیت جلوہ نما دیکھی، اور جب کشف معانی رہا میں نے اس پتھر کی جانب رُخ کیے رکھا پھر جب کشف معانی میری نظروں سے اوجھل اور دو رہوگیا تو میں شیخ محمد ترک کی تُربت کی طرف متوجہ ہوا، اس کے بعد چراغ دہلوی سرنگوں ہوکر مراقبہ میں مصروف و منہمک ہوگئے ذرا دیر بعد مراقبہ سے سر اٹھاکر فرمایا جس کو کوئی مشکل در پیش ہو وہ اس روضہ کی جانب متوجہ ہو تو امید ہے کہ اس کی مشکل آسان ہوجائے گی، ان نگراں سپاہیوں میں سے ایک گستاخ سپاہی نے کہا اب آپ خود مشکل میں مبتلا ہیں (اپنی مشکل تو آسان ہو نہیں رہی اور دوسروں کی مشکل کشائی کی رہنمائی کر رہے ہیں) آپ نے فرمایا، ہاں میرے کہنے کا بھی مطلب یہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی برکت سے میری مشکل آسان فرمادے گا (چنانچہ آپ مزار سے روانہ ہوگئے) ابھی آپ نارنول سے پانچ ہی میل آگے بڑھے ہوں گے کہ بادشاہِ وقت کی مرگ کی اطلاع ملی اور شیخ چراغ دہلوی پھر واپس تشریف لے گئے وہ پتھر (جس کا اوپر ذکر ہے) اب تک شیخ محمد ترک کے مزار کے سامنے موجود ہے اور لوگ اس کی زیارت کرنے آتے رہتے ہیں۔
اخبار الاخیار