شیخ مجّددالدین بغدادی قدس سرہٗ
شیخ مجّددالدین بغدادی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
کنیت ابو سعید ابو شریف تھی نام نامی شرف الدین ابن الموید بن ابوالفتح تھا بغداد کے رہنے والے تھے آپ حضرت نجم الدین کبٰری کے خلیفہ اور حلبیس خاص تھے آپ پر حضرت شیخ نجم الدین کبٰری کی نظرِ خاص تھی آپ بغداد سے خوارزم اس وجہ سے آئے کہ بادشاہ خوارزم نے خلیفہ بغداد سے التماس کی کہ بغداد سے کوئی ایسا طبیب بھیجا جائے جسے اپنا ذاتی معالج رکھیں خلیفہ بغداد نے شیخ مجددالدین کو اس لیے شاہ خوارزم کے پاس ایک طبیب کی حیثیت سے بھیج دیا آپ کے والد اور والدہ بھی طبیب کامل تھے آپ خوارزم میں آگئے مگر طب کی بجائے حضرت نجم الدین کبٰری کی مجالس میں حاضری دینا شروع کردی اور ان کی زیر تربیت رہ کر خاصَاں خدا میں شمار ہونے لگے۔
آپ ظاہری حسن کے لحاظ سے خوبصورت سے جوان رعنا تھے پہلے نجم الدین کبٰری کے وضو کرانے کی خدمت میں رہے ایک دن عالم سُکر میں کہنے لگے میں تو بطخ کا انڈا تھا اور دریا کے کنارے بیکار پڑا ہوا تھا حضرت شیخ نجم الدین کبٰری نے مجھے اپنے پروں کے نیچے رکھ کر تربیت دی میں انڈے سے نکلا بطخ بناتو دریا میں تیرنے لگا حضرت شیخ کنارے پر بیٹھے مجھے دیکھا کرتے حضرت نجم الدین کبٰری نے سنا تو فرمایا مجددالدین اب دریا میں چلے گئے ہیں اسی دریائے معرفت میں غرق ہوں گے لوگوں نے یہ ارشاد مجددالدین تک پہنچایا تو آپ ڈر گئے حضرت سعدالدین حموی کے پاس گئے اور التماس کی کہ جب شیخ نجم الدین کبٰری اچھے مزاج میں ہوں مجھے اطلاع دینا میں معافی طلب کرلوں شاہد مجھے اس دریا سے سلامتی کا کنارہ مل جائے۔
ایک دن حضرت شیخ نجم الدین کبرٰی بڑے خوش وقت تشریف فرماتھے سعدالدین نے مجددالدین کو خبر کردی مجددالدین دھکتے ہوئے انگاروں کا ایک طشت اٹھائے شیخ کے دربار میں حاضر ہوئے اور جوتوں کی جگہ پر کھڑے ہوگئے حضرت نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو فرمایا مجّددالدین تم نیاز مندانہ آئے ہو ان شاء اللہ سلامتی پاؤ گے لیکن آخر کار دریا میں موت ہوگی تم اولیاء اللہ کے سردار ہوگے ایک وقت آئے گا خوارزم کے تمام روساء اور امراء کے سر تمہارے سامنے سرنگوں ہوں گے اور پھر خطۂ زمین میں بڑی تباہی دبر بادی آئے گی۔
خوارزم شاہ کی والدہ حسن و جمال میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی وہ اکثر و بیشتر حضرت مجددالدین کی مجلس وعظ میں آیا کرتی تھی اور آپ کے وعظ سے لطف اندوز ہوتی کبھی ایسا اتفاق بھی ہوتا کہ رات کے وقت شیخ کی زیارت کو چلی آتی ایک رات شاہ خوارزم شراب کے نشے میں دھت تھا۔ حضرت شیخ مجددالدین کے مخالفین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اسے کہا کہ آپ کی والدہ نے خفیہ طور پر مجددالدّین سے نکاح کرلیا ہے اور اس وقت دونوں باہمی اختلاط کررہے ہیں سلطان خوارزم نے حکم دیا کہ دن نکلنے سے پہلے پہلے مجددالدین کو دریا بُرد کردیا جائے یہ خبر شیخ نجم الدین کبٰری کو ملی تو آپ کو بے حد ملال ہوا۔ آپ نے فرمایا۔ انا لِلہ وانا الیہ راجعون میرے بیٹے مجددالدین کو دریا میں پھینکا گیا ہے اور اسے ماردیا گیا ہے سر سجدہ میں رکھا دعا کی اے اللہ! اس جلد باز نا عاقبت اندیش بادشاہ سے تخت سلطنت خالی کرادے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمالی ادھر سلطانِ خوارزم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی۔ تو سخت نادم ہوا۔ پیا وہ پا حضرت نجم الدین کی خدمت میں آیا سونے کا ایک طشت اٹھائے دوتلواریں لٹکائے سر پر کفن باندھے مجلس میں پہنچا اور سر ننگا کر کے جوتوں کی جگہ کھڑا ہوگیا اور سر جھکا کر کہنے لگا۔ اگر دیت کا حکم ہوتو یہ سونا حاضر ہے اگر قصاص کا حکم ہوتو تلوار اور کفن حاضر ہیں حضرت شیخ نے فرمایا ’’کَانَ ذاَلِکَ فی اَلکتَاب مَسطَوراً‘‘ (یہ بات تو کاتب تقدیر نے لکھ دی ہے) مجدددین کی دیت تو اب تیری ساری سلطنت ہی ہے یہ سلطنت تم سے چھن جائے گی تیرا سرقلم کردیا جائے گا۔ ہزاروں بے گناہوں کا قتل عام ہوگا اس دار و گیر میں ہم خود بھی جان کی قربانی دیں گے۔ بادشاہ نا امید ہوکر واپس چلاگیا تھوڑے عرصہ کے بعد چنگیز خان کی فوجیں سلطنت خوارزم کو تہس نہس کرتی آگے بڑھیں سلطان خوارزم قتل کیا گیا حضرت شیخ نجم الدین کبٰری بھی اسی معرکے میں شہید ہوئے۔ حضرت شیخ مجددالدین کی شہادت ۶۱۷ھ میں ہوئی بعض تذکرہ نگاروں نے سال شہادت ۶۰۷ھ بھی لکھا ہے۔
مقتدائے اہل حق شیخ زمن |
|
شیخ مجدد الدین شریف دوجہاں |
(خزینۃ الاصفیاء)