آپ کا اسم گرامی عبداللہ بن احمد بن محمد اصفہانی تھا صاحب مقامات بلند اور مدارج ارجمند تھے ارجمند تھے حضرت ابوالعباس شاذی کے مرید تھے ایک طویل عرصہ تک مکہ مکرمہ میں مجاور رہے صاحب نفحات الانس فرماتے ہیں کہ علماء کرام میں سے ایک عالم دین نے مجھے بتایا کہ میں اپنے والد کی بیماری کے باوجود سفر حج پر روانہ ہوا حج کیا مناسک حج ادا کیے مگر میرے دل میں والد کی بیماری کے خدشات رہے میں نے شیخ نجم الدین سے اپنا حال بیان کیا۔ وہ چند لمحوں کے لیے متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے تمہارے والد صحت یاب ہوگئے ہیں اپنی مسند پر بیٹھے مسواک کر رہے ہیں اِدھر اُدھر کتابوں کا ڈھیر رکھا ہوا ہے ان کا حلیہ اور شکل و صورت ایسی ایسی ہے میرے والد کی دوسری نشانیاں بھی بتائیں حالانکہ آپ نے اسے کبھی دیکھا نہ تھا میں نے وہ تاریخ اور وقت لکھ لیا گھر آیا تو واقعی اس وقت میرے والد اسی حالت میں تھے۔
آپ نے ساری عمر شادی نہیں کی۔ عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا نہیں کھایا۔ آپ نے ساری عمر مکہ مکرمہ میں گزاردی اور مدینہ منورہ نہیں گئے لوگوں کو آپ کی اس روش پر اعتراض تھا محمد نامی ایک شخص نے جو ولی اللہ تھا بتایا کہ میں مدینہ شریف کی طرف جا رہا تھا راستہ میں میرے دل میں خیال آیا کہ نجم الدین مدینہ منورہ کیوں نہیں آتے میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو حضرت شیخ نجم الدین ہوا میں اڑتے مدینہ منورہ کی طرف جارہے تھے مجھے پکار کر کہا محمد تم دل میں کیا خیال کر رہے ہو یقین جانو ایسی کوئی رات نہیں آئی جب میں بارگاۂِ نبویہ میں حاضری نہ دی ہو۔
آپ جمادی الاولیٰ ۷۲۱ھ میں مکہ مکرمہ میں فوت ہوئے۔
صورت گنجینہ چوشد پردہ پوش گشت وصالش زخرد جلوہ گر
|
|
مخزن اسرار ولی نجم دین نیز انوار ولی نجم دین ۷۲۱ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)