شیخ نجیب الدین متوکل رحمتہ اللہ علیہ کے حالات
شیخ نجیب الدین متوکل رحمتہ اللہ علیہ کے حالات (تذکرہ / سوانح)
اہل شریعت کے پیشوا اہل طریقت کے مقتدا اولیاء عرب میں توکل کے ساتھ گلاب کی طرح مشہور سر سے قدم تک تمام دل یعنی شیخ نجیب الدین متوکل قدس اللہ سرہ العزیز ہیں جو شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے خلیفہ اور بھائی تھے۔ یہ بزرگ عجیب و غریب معاملہ رکھتے تھے اور عجب طرز و روش کے آدمی تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ نجیب الدین متوکل باوجود یکہ ستر سال شہر میں مقیم رہے لیکن کوئی گاؤں کوئی وظیفہ پاس نہ رکھتے تھے اپنے فرزندوں اور متعلقین کے ساتھ توکل پر گزارا کرتے اور نہایت خوشی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میں نے شیخ نجیب الدین جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ شیخ نجیب الدین نہایت بھولے اور دنیا سے بے خبر آدمی تھے۔ آپ بالکل نہ جانتے تھے کہ آج کون سا دن ہے اور یہ کون سا مہینہ اور یہ کس قدر درم ہیں۔
سلطان المشائخ نے فرمایا کہ عید کا دن تھا۔ شیخ نجیب الدین صبح اٹھے اور جو کچھ گھر میں موجود تھا سب خرچ کر کے عید گاہ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ جب وہاں سے واپس آئے تو آدمی آپ کے ہمراہ مکان پر آئے آپ نے گھر میں دریافت کیا کہ کچھ کھانا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ جو کچھ گھر میں موجود تھا آپ نماز سے پیشتر سب خرچ چکے تھے اور لوگوں کو کھلا پلا کر عید گاہ گئے تھے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ آپ یاروں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے معذرت کی اور خود کوٹھے پر جا کر مشغول بحق ہوئے اسی اثناء میں دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کوٹھے پر یہ بیت پڑھتا آتا ہے۔
بادل گفتم دلا خضر رابینی
دل گفت اگر مرانماید بینم
(میں نے دل دے کہا کہ تو خضر کو دیکھے گا۔ جواب دیا کہ اگر میرے سامنے آئے گا دیکھ لوں گا۔)
جب یہ شخص شیخ کے پاس پہنچا تو کسی قدر کھانا آپ کے سامنے پیش کر کے کہا کہ تیرے تو کل کا نقارہ عرش پر ملاء اعلی میں بڑے زور شور سے پِٹ رہا ہے اور تو کھانے کے لیے ملتفت ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ خدا خوب جانتا ہے کہ میں اپنے لیے کھانے کی طرف ملتفت نہیں ہوا ہوں بلکہ یہ التفات یاروں اور عزیزوں کے لیے تھا۔ بعد ازاں اس شخص نے کہا کہ یہ کھانا اپنے فرزندوں کو پہنچا دو شیخ نجیب الدین اپنا دامنِ مبارک اس غیبی کھانے سے لبریز کر کے کوٹھے سے اُترے اور اپنے فرزندوں کو عنایت فرمایا۔ لیکن جب کھانا دے کر پھر کوٹھے پر تشریف لے گئے تو اس شخص کو نہیں دیکھا۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ وہ مہتر خضرت تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ نجیب الدین متوکل کے ایک بھائی بداؤں میں رہتے تھے۔ آپ ہر سال میں ایک دفعہ انہیں دیکھنے جاتے اور دونوں بھائی مل کر شیخ علی بزرگ کی ملاقات کے لیے ان کے مکان پر تشریف لے جاتے جو صاحب نعمت اور بہت بڑے بزرگ شخص تھے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ بداؤں گئے اور دونوں صاحب حسب معمول شیخ علی کے پاس پہنچے۔ شیخ نجیب الدین نے شیخ علی کے بورئیے پر پہنچنے سے دو تین قدم آگے رعائت ادب کے لیے پاؤں پھیلائے چنانچہ آپ نے پہلا قدم زمین پر کھا اور دوسرا قدم بورئیے پر جو شیخ علی کا مصلّٰی تھا رکھا۔ شیخ علی کو یہ بات نہایت نا گوار گزری اور انہوں نے رنجیدہ ہوکر فرمایا کہ یہ بوریا مصلّٰی ہے۔ غرضکہ دونوں بھائی برابر بیٹھے تھے اور شیخ علی کے آگے ایک کتاب رکھی تھی۔ شیخ نجیب الدین نے دریافت کیا کہ یہ کون کتاب ہے چونکہ ہنوز رنجش باقی تھی اس لیے شیخ علی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازاں بعد شیخ نجیب الدین نے کہا اگر حکم ہو تو میں اس کتاب کو دیکھوں شیخ علی نے اجازت دی جوں ہی شیخ نجیب الدین نے کتاب کھولی دیکھا کہ اس میں لکھا ہے کہ آخر زمانے میں ایسے مشائخ ہوں گے کہ خلوت میں معصیت کریں گے اور ظاہر میں جب کوئی شخص ان کے بورئیے پر قدم رکھے گا تو قیامت برپا کریں گے۔ شیخ نجیب الدین نے کتاب شیخ علی کی نظر کے سامنے رکھ کر کہا کہ یہ کتاب آپ ہی کی ہے اور عبارت مذکورہ بغیر قصد نظر پڑگئی ہے۔ شیخ علی نہایت شرمندہ و پشیمان ہوئے اور بہت کچھ معذرت کی۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ نجیب الدین کو جس رات فاقہ ہوتا تھا بی بی فاطمہ سام کو جواب قصبہ اندر پت میں آرام کر رہی ہیں اور جن کا روضہ متبرکہ خلق کی حاجات کا قبلہ ہے نور باطن سے واضح ہوجاتا تھا کہ آج شیخ نجیب الدین فاقہ سے ہیں چنانچہ ایک من یا آدھے من کی روٹیاں پکا کر شیخ نجیب الدین متوکل کی خدمت میں روانہ کرتیں۔ بی بی فاطمہ سام اور شیخ نجیب الدین متوکل کے درمیان بھائی چارہ اور خواہر خواندگی تھی جب وہ روٹی پہنچتی تو شیخ نجیب الدین متوکل فرماتے جیسا کہ بی بی فاطمہ کو درویشوں کے حال سے آگاہی ہوتی ہے اگر بادشاہِ وقت کو ہوتی تو ضرور کوئی با برکت چیز بھیجتا۔ اس کے بعد آپ مُسکرا کر فرماتے کہ بادشاہوں کو اس قسم کا کشف کہاں سے حاصل ہونے لگا۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ اس سے پیشتر کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں بیعت حاصل کروں میرے بڑے بڑے گھونگر والے بال تھے ایک دن کا ذکر ہے کہ میں نے شیخ نجیب الدین متوکل قدس اللہ سرہ العزیز کی مجلس میں اٹھ کر کہا کہ آپ میرے لیے اس نیت سے ایک دفعہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص پڑھیے کہ میں کسی جگہ کا قاضی ہو جاؤں لیکن شیخ نجیب الدین نے میرے اس التماس سے اغماض کیا میں نے جانا کہ میری یہ التماس شیخ کے مبارک کان میں نہیں پہنچتی۔ لہذا دوبارہ عرض کیا کہ میرے لیے اس نیت سے ایک دفعہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص پڑھیے کہ میں کہیں کا قاضی ہو جاؤں اس مرتبہ آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ نظام! تم قاضی مت ہو بلکہ کوئی اور چیز اختیار کرو سلطان المشائخ اس بات کو یاد کر کے فرماتے تھے کہ آپ کو اس کام سے حد درجہ کا انکار تھا کہ فاتحہ تک نہیں پڑھی۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ نجیب الدین متوکل دنیا کے خرچ کرنے کے باب میں اور سخاوت کے حکم کو اس عبارت میں ادا کرتے کہ جب تیرے پاس دنیاوی مال آئے تو خرچ کر ڈال کیونکہ تیرے خرچ کرنے سے کمی نہ آئے گی اور جب دنیا جائے تو نگاہ مت رکھو کیونکہ تیری نگرانی سے پائدار نہ ہوگی۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ نجیب الدین متوکل نے جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین سے دریافت کیا کہ آدمی کہتے ہیں کہ جس وقت آپ مناجات کی حالت میں یا رب کہتے ہیں وہاں سے یہ جواب سنتے ہیں لبیک عبدی۔ فرمایا نہیں۔ ازاں بعد فرمایا والدرجات مقدمۃ الکون یعنی آدمیوں کا کسی چیز کی گفتگو میں آنا۔ حقیقت میں اس چیز کا حاصل ہوتا ہے۔ پھر شیخ نجیب الدین نے پوچھا لوگ کہتے ہیں کہ مہتر خضرت آپ کے پاس آتے ہیں فرمایا نہیں۔ پوچھا کہ ابدال آپ کے پاس آمد و شد کرتے ہیں اس سوال کی نسبت آپ نے کوئی حکم نہیں فرمایا اور کہا تم بھی ابدال ہو۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ نجیب الدین متوکل ہر سال میں ایک دفعہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں دہلی سے اجودھن جایا کرتے تھے اور جب وہاں سے لوٹنے کا قصد کرتے تو رخصت کے وقت اس نیت سے فاتحہ کی التماس کرتے کہ جس طرح اس مرتبہ شیخ کی خدمت میں آیا ہوں دوسری دفعہ بھی آؤں شیخ شیوخ العالم فاتحہ پڑھنے کے بعد فرماتے کہ تم بار ہا میرے پاس آؤ گے چنانچہ آپ انیس مرتبہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پہنچے جب انیسویں دفعہ اجودھن سے واپس آنے لگے تو حسب معمول شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کیا کہ بندہ جس دفعہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا باین نیت فاتحہ کی التماس کی کہ جس طرح اب آیا ہوں دوسری دفعہ بھی حاضر ہوں اور شیخ شیوخ العالم کی زبان مبارک پر جاری ہوا کہ تو بار ہا آئے گا اب میں انیس (۱۹) دفعہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوچکا ہوں۔ اس دفعہ پھر التماس کرتا اور فاتحہ کی درخواست کرتا ہوں کہ ایک دفعہ اور حاضر خدمت ہوں تاکہ بیس کا عدد پورا اور کامل ہوجائے لیکن اس مرتبہ شیخ شیوخ العالم نے فاتحہ نہیں پڑھی اور اسی دفعہ دہلی میں آکر شیخ نجیب الدین رحمۃ اللہ علیہ نے انتقال فرمایا آپ کا روضۂ متبرکہ شہر کے باہر مندہ دروازہ میں ہے قدس اللہ سرہ العزیز۔