آپ مشہور شاعر اَجلّ صوفی اور عظیم عالم دین تھے گنجہ شہر میں رہائش پذیر رہے آپ ظاہری اور باطنی علوم کے ماہر عالم دین تھے زہدوتقویٰ ورع و فقہ میں بے مثال تھے۔ رَضی زنجانی سے خرقہ خلافت حاصل کیا تھا عمر گراں یہ قناعت اور غرلت میں گزار دی۔ اہل دنیا سے ہمیشہ دور رہے سلاطین کی صحبت سے پرہیز کیا۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کی دلی تمنا ہوتی کہ آپ کی تصانیف میں ان کا نام آئے تاکہ وہ بھی یاد گار صفحہ ہستی بن سکیں آپ کی پانچ کتابیں یاد گار زمانہ ہیں۔ اور ان کا نام پنج گنج ہے حقیقت یہ ہے کہ پنج گنج لطافت و بلاغت کا مرقع ہے اور حقائق و معرفت کا خزینہ ہے آپ کی آخرین کتاب سکندر نامہ ہے یہ کتاب ۵۹۲ھ میں مکمل ہوئی تھی اور فارسی ادب و تاریخ میں بہترین کتاب مانی جاتی ہے۔
تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ جب خواجہ امیر خسرو نے آپ کی کتاب مخزن الاسرار کے جواب میں مطلع الانوار لکھی اور اس زور دارفخریہ شعر لکھا۔
دبدبۂ خسرویم شد بلند
|
|
زلزلہ در گور نظامی فگند
|
میری بادشاہی کا دبدبہ بلند ہوا تو نظامی گنجوی کی قبر میں زلزلہ بپا ہوگیا۔
استرہ ہر چند ؤمے تیز داشت
|
|
مُوستر و مونتواند شگافت
|
(استرہ خواہ کتنا ہی تیز ہو وہ بال مونڈھ توسکتا ہے بالوں کو چیر نہیں سکتا)
اس فخریہ انداز سے حضرت نظامی کے روح کی غیرت بیدار ہوئی ایک برہنہ تلوار ہوا میں لہرائی امیر خسرو کانپ گئے ڈر کر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی پناہ میں پہنچے حضرت نے دستگیری فرماتے ہوئے اپنی آستین آگے بڑھادی نظامی گنجوی کی تلوار اس آستین کو کاٹتی ہوئی چلی گئی۔
حضرت شیخ نظامی گنجوی قدس سرہٗ نے بارگاۂِ خداوندی میں بڑی محبوبیت سے شعر کہے ہیں۔
گناۂِ من انامدے درشمار
|
|
ترا نام کے بودے آمرزگار
|
(میرے گناہ اگرنہ گنے جاسکتے تو تیرا نام بخشنہار کیسے ہوتا)
تو نیکی کئی من نہ بد کردہ امام
|
|
کہ بدرا حوالت بخود کردہ ام
|
(تو ہمیشہ اچھا کام کرتا ہے مگر میں نے بھی برائی نہیں کی کیونکہ میں نے تو تمام برائیوں کو اپنی طرف منسوب کرلیا ہے)
حضرت نظامی گنجوی اپنی تجریدی زندگی کو یوں بیان فرماتے ہیں۔
چوں بعہد جوانی از بر تو ہمہ را بر درم فرستادی چونکہ بر دَر گہر تو گشتم پیر
|
|
بدر کس نرفتم از دَر تو من نمیخو اہم و تو میدادی زانکہ تر سیدنی است دَستَم گیر
|
|
|
حضرت شیخ گنجوی کی وفات ۵۹۶ھ میں ہوئی مزار پر انوار گنجہ میں ہے۔
آں نظام الدّین نظام دوجہاں گنج عرفاں گنجوی پاک باز ۵۹۶
|
|
شد چو درجنت ازیں فانی سرا ہست سال رحلتش آں مقتداء
|
(خزینۃ الاصفیاء)