شیخ نظام الدین پکہاری علیہ رحمۃ اللہ الباری
شیخ نظام الدین پکہاری علیہ رحمۃ اللہ الباری (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ یوسف رحمۃ اللہ کے فرزند ارجمند تھے اور برہان پور کی ولایت کے صاحب منصب تھے بڑے متقی پرہیز گار اور ذوق و شوق کے مالک تھے۔ معارج الولایت میں لکھا ہے کہ آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں بارہ سال تک رہے بڑے علاج کروائے گئے بڑے بڑے طبیبوں سے مشورے لیے گئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا آخر بارہ سال کے بعد شیخ نظام الدین پیدا ہوئے چالیس دن گزرنے کے بعد والدہ نے غسل کیا اور مسکرا کر اپنے بیٹے کو کہنے لگیں میں تمہارے لیے بارہ سال تک کڑوی دوائیاں کھاتی رہی ہوں اور بڑی ہی تکلیف کا سامنا کرتی رہی ہوں ماں کی بات سُنتے ہی شاہ پکہاری نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا ’’اماں آپ سچ کہہ رہی ہیں وہ تمام کڑوی دوائیاں میں ہی بارہ سال آپ کے پیٹ میں رہ کر کھاتا رہا ہوں‘‘ ماں چالیس روزہ بچے کے منہ سے یہ بات سن کر حیران رہ گئیں اور اسی حیرانی اور ڈر میں فوت ہوگئیں آپ کی بڑی بہن بی بی اللہ دی نے آپ کو اپنی گود میں اُٹھایا اور پرورش کرنے لگیں جب بڑے ہوئے تو پاک پتن کے دینی مدرسہ میں علم حاصل کرنے لگے ایک دن آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے سرپر ایک ٹوپی رکھ دی ہے اور فرمایا اے نور العین اللہ تعالیٰ نے تمہیں خرقۂ فقر عطا کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ حرمین شریفین کا طواف کرو جب آپ اٹھے تو اپنے والد بزرگوار شاہ یوسف کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی خواب سنائی باپ نے آپ کو حج پر جانے کی اجازت دے دی آپ شیخ بیگن شیخ سونا۔ شیخ حمید الدین شیخ محمود کے ساتھ بیت اللہ شریف کو روانہ ہوئے اُنہی دنوں شاہ یوسف پاک پتن میں ایک قلعہ میں قید ہوگئے۔ عادل شاہ بادشاہ کو شاہ یوسف سے بڑی عقیدت تھی آپ کی خدمت میں گزارش کی کہ آپ ایسر کے قلعے میں مقیم رہیں اور اپنی برکات سے لوگوں کو نوازتے رہیں آپ نے ایک دن عادل شاہ کو وصیت کی کہ میرا بیٹا شاہ بخاری خشکی کے راستے کعبۃ اللہ گیا ہے وہ حج کرنے کے بعد اس طرف آئے گا تمہارے لیے ضروری ہے کہ اس کی خدمت میں سرگرم رہو تمہاری جو بھی مراد ہوگی اُس کی دعا سے پوری ہوگی پھر شاہ یوسف نے شیخ حسین کو بُلایا اور انہیں مثالی خلافت عطا فرمائی اور خود فوت ہوگئے جب حضرت شاہ پکہاری مکہ سے واپس آئے اورموضع نبکری میں پہنچے تو عادل شاہ بادشاہ آپ کے استقبال کے لیے آیا اور بہت سا نذرانہ خدمت میں پیش کیا مگر آپ نے قبول نہ فرمایا۔
کہتے ہیں کہ حضرت شاہ پکہاری نے پانچ مرتبہ حج کیا مگر آتے جاتے کبھی کعبہ کی طرف پشت نہیں کی مکہ میں رہتے ہوئے چمڑے کے جوتے نہیں پہنے آپ کے پاس ایک برتن تھا جس میں سیاہ اور سفید بچھو بھرے رہتے آپ کو نیند آتی تو اپنا ہاتھ اس برتن میں ڈالتے کوئی بچھو کاٹتا تو اُس کے درد سے نیند جاتی رہتی اور آپ عبادت میں مشغول رہتے حضرت شاہ قدس سرہ ایک عرصہ تک دن کو روزہ رکھتے اور ساری رات کھڑے رہتے چھ ماہ کے بعد آپ ایک بار کھانا کھاتے وہ بھی جو کی روٹی اپنے ہاتھ سے پکاتے آپ کی پکائی ہوئی روٹیوں میں اتنی برکت ہوتی کہ خود کھانے کے بعد اپنے دوستوں میں جن کی تعداد تین سو سے بھی زیادہ تھی تقسیم کر دیے ایک دن آپ کے ایک دوست نے درخواست کی کہ آج میں آپ کے لیے روٹی پکاؤں گا آپ نے فرمایا تم نہیں پکا سکتے جب اُس نے بڑی ضد کی تو آپ نے اجازت دے دی۔ وہ روٹی پکانے لگا آگ جلائی تو وہ جھک کر آگ کو پھونکیں مارنے لگا آگ نے بڑھ کر اس کی ساری داڑھی جلادی آپ نے اُسے دیکھ کر فرمایا میں تو پہلے ہی جانتا تھا کہ میری روٹی کوئی دوسرا نہیں پکا سکتا۔
شیخ حمید الدین چشتی نے آپ کے ملفوظات میں لکھا ہے ایک دن حضرت شاہ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور آپ کی نگاہ لوح محفوظ پر پڑی آپ نے دیکھا کہ لوح محفوظ پر میرا نام درج ہے آپ اٹھے مجھے اپنی جگہ بٹھایا ایک شال عصا اور مصلّیٰ عطا فرمایا اوراپنی خاص پگڑی سر سے اُتار کر میرے سر پر رکھ دی پھر اپنا جبہ مبارک بھی مجھے پہنا دیا۔
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ جن دنوں شاہ پکہاری برہان پور میں مقیم تھے تو آپ کے وضو کرنے کے لیے دریائے تپتی سے پانی لایا جاتا تھا۔ شیخ محمود نامی ایک درویش پانی لانے کی خدمت میں مقرر تھا۔ ایک دن حضرت شاہ نے شیخ محمود کو یاد فرمایا۔ تو لوگوں نے فرمایا وہ تو آپ کے لیے پانی لانے دریا پر گیا ہے آپ نے یہ بات سن کر بڑا افسوس کیا فرمایا میرے لیے پانی لانے پر اللہ کے بندوں کو اتنی مشقت کرنی پڑتی ہے اُسی وقت اٹھے تو اپنا عصا زمین پر مارا جہاں سے پانی کاچشمہ اُبلنے لگا پھر آپ وہاں سے باہر نکلے آپ نے دیکھا کہ وہ پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا آپ کی طرف آ رہا ہے آپ نے فرمایا اے پانی جلدی نہ کرو آہستہ چلو تاکہ ہم لوگ تمہارے پاس رہ سکیں پانی اُسی وقت زمین میں غائب ہوگیا لیکن آج تک پانی کا ایک چشمہ جاری و ساری ہے اُس چشمہ کا نام اتادلی ہے۔ عادل شاہ جو برہان پور کا بادشاہ تھا اُس نے آپ کے لیے بڑی عظیم الشان خانقاہ بنائی تھی آپ کا مزار اسی خانقاہ میں ہے۔
حضرت شاہ پکہاری کی وفات ۹۸۶ھ ہجری میں ہوئی تھی۔
پکہاری چو زن عالم شد بجنت
بسال وصل آن محبوب باری
۹۸۵ھ
فرشتہ گو خفیہ معرفت خوان
دگر فرما سخی عابد پکہاری
۹۸۵ھ