شیخ نظام الدین ابو الموید
شیخ نظام الدین ابو الموید (تذکرہ / سوانح)
آپ سلطان شمس الدین کے زمانہ کے مشہور بزرگوں میں سے تھے اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے ہم زمانہ تھے، شیخ نظام الدین نے بھی آپ کو دیکھا ہے، میر حسن اپنی (مشہور) کتاب فوائد الفوائد میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ شیخ نظام الدین اولیا سے پوچھا کہ آپ کبھی ابوالموید کی مجلس وعظ میں تشریف لے گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا، ہاں! مگر اس وقت میں کم عمر لڑکا تھا، اس لیے آپ کے وعظ میں مضامین کے مطالب کو اچھی طرح اخذ نہ کرسکتا تھا، ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں ان کی مجلس وعظ میں گیا، دیکھا کہ وہ جوتا پہنے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہیں، پھر انہوں نے اپنا جوتا اتار کر اپنے ہاتھ میں لیا اور مسجد میں تشریف لاکر دو رکعت نفل ادا کیے، میں نے ان کی طرح کسی کو اطمینان اور سکون سے نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا،ا نہوں نے پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی، بعد میں منبر پر تشریف لائے، قبل اس کے کہ آپ اپنے بیان کا آغاز فرماتے، مشہور قاری قاسم نے خوش الحانی سے قرأت کی، بعد آپ نے اپنے کلام کا آغاز فرمایا کہ میں نے اپنے بابا کی تحریر خود دیکھی ہے، آپ ابھی کچھ اور کہنے نہ پائے تھے کہ اسی بات کا حاضرین کے دل پر اثر ہوا اور وہ تمام گریہ و زاری کرنے لگے تب آپ نے یہ دو مصرعے پڑھے
بر عشق تو وبر تو نظر خا ہم کرو
جان در غم تو زیردر برخوا ہم کرو
ترجمہ: (میں آپ کے عشق اور آپ کو ایک بار دیکھوں گا، پھر آپ کے غم میں اپنی عمر برباد کردوں گا) آپ نے ابھی یہی کہا تھا کہ تمام حاضرین نعرے لگانے لگے آپ نے اُنھیں دو مصرعوں کو تکرار سے دو تین بار پڑھنے کے بعد فرمایا، اے مسلمانو! اس رباعی کے دو مصرعے بھول گیا ہوں، اب کیا کروں، یہ جملے آپ نے کچھ اس طرح عاجازی اور انکساری سے فرمائے کہ سامعین پر پھر ایک خاص اثر ہوا، اس کے بعد مقررہ قاری نے وہ دو مصرعے یاد دلائے۔
پُر دردد لے نجام در خواہم شد
پر عشق سرے زگور بر خواہم کرو
ترجمہ: (میں درد سے لبریز دل کے ساتھ خاک میں مل جاؤں گا اور عشق کا سودا لیے (قیامت کے دن) قبر سے نکلوں گا) آخر کار آپ یہ پوری مکمل رباعی پڑھ کر منبر سے اتر آئے، آپ کے دادا کا لقب شمس العارفین تھا، اور شیخ جمال کولوی جن کا مزار کول میں ہے آپ کی اولاد میں سے ہیں۔
اخبار الاخیار
حضرت شیخ نظام الدین ابوالموئد(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ نظام الدین ابوالموئدکےداداکولوگ "شمس العارفین"کےلقب سےپکارتےتھے۔۱؎
والدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ کانام بی بی ساراتھا۔
بیعت وخلافت:
آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمتہ اللہ علیہ)کےمریداورخلیفہ تھے۔
وفات:
آپ نے۶۷۳ھ میں انتقال فرمایا۔
شیخ جمال الدین کولوی آپ کی اولادسےتھے۔
سیرت:
آپ فضائل صوری و معنوی سے آراستہ تھے۔آپ شیخ احمد غزنوی اورشیخ عبدالواحدسےمستفیدو مستفیض ہوئے۔آپ وعظ کہتےتھے،لوگ آپ کاوعظ سن کرازخودرفتہ ہوجاتےتھے۔ایک مرتبہ آپ منبرپرچڑھےاوراتناہی کہنےپائےتھےکہ"میں نےاپنےباباکےہاتھ سےلکھاہوادیکھاہے" کہ لوگوں پرگریہ طاری ہوا۔۔۔جب آپ نے یہ شعرپڑھا
برعشق تووبرتونظرخواہم کرد |
جاں درغم توزیروزبرخواہم کرد |
تولوگوں میں وجدانی کیفیت پیداہوئی،پھرآپ نےفرمایاکہ اگلاشعریادنہیں،قاسم نےآپ کواگلا شعریاددلایا
پردردولےبخاک درخواہم شد |
پرعشق سرےزگوربرخواہم کرد |
یہ شعرسن کرلوگ رونےلگےاورآپ منبرپرسے اترآئے۔
کرامت:
ایک مرتبہ دہلی میں بارش نہیں ہوئی۔لوگ آپ کی خدمت میں حاضرہوئےاوردعاکےطالب ہوئے۔آپ منبرپرچڑھےاوراپنی آستین سے ایک دامن نکالا،جس کاایک تارجداہوگیاتھاوہ تار آپ نےآسمان کی طرف کیااورباری تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا۔
"الٰہی بحرمت اس بڑھیاکےدامن کےاس تارکےکہ جس نےنامحرم مردکوزندگی میں کبھی نہیں دیکھااوربحرمت اس رازونیازکےجووہ بڑھیاتیرے ساتھ رکھتی تھی،پانی برسااگربارش نہیں ہوئی تو شہرچھوڑکرجنگل میں چلاجاؤں گا"۔
ابھی آپ کی دعاختم نہیں ہوئی تھی کہ بارش شروع ہوئ۔لوگوں نےجب اس دامن کےمتعلق آپ سے پوچھاتوآپ نےجواب دیا۔"کیاتم لوگ نہیں جانتےکہ وہ دامن کس کاہے۔قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمتہ اللہ علیہ)نےوہ دامن میری والدہ ماجدہ کو دیا تھا۔میری والدہ اس دامن کو سرپررکھتی تھیں اوراس طرح عبادت کرتی تھیں"۔
حواشی
۱؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۹۰
حضرت شیخ نظام الدین ابوالموئد(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ نظام الدین ابوالموئدکےداداکولوگ "شمس العارفین"کےلقب سےپکارتےتھے۔۱؎
والدہ:
آپ کی والدہ ماجدہ کانام بی بی ساراتھا۔
بیعت وخلافت:
آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمتہ اللہ علیہ)کےمریداورخلیفہ تھے۔
وفات:
آپ نے۶۷۳ھ میں انتقال فرمایا۔
شیخ جمال الدین کولوی آپ کی اولادسےتھے۔
سیرت:
آپ فضائل صوری و معنوی سے آراستہ تھے۔آپ شیخ احمد غزنوی اورشیخ عبدالواحدسےمستفیدو مستفیض ہوئے۔آپ وعظ کہتےتھے،لوگ آپ کاوعظ سن کرازخودرفتہ ہوجاتےتھے۔ایک مرتبہ آپ منبرپرچڑھےاوراتناہی کہنےپائےتھےکہ"میں نےاپنےباباکےہاتھ سےلکھاہوادیکھاہے" کہ لوگوں پرگریہ طاری ہوا۔۔۔جب آپ نے یہ شعرپڑھا
برعشق تووبرتونظرخواہم کرد |
جاں درغم توزیروزبرخواہم کرد |
تولوگوں میں وجدانی کیفیت پیداہوئی،پھرآپ نےفرمایاکہ اگلاشعریادنہیں،قاسم نےآپ کواگلا شعریاددلایا
پردردولےبخاک درخواہم شد |
پرعشق سرےزگوربرخواہم کرد |
یہ شعرسن کرلوگ رونےلگےاورآپ منبرپرسے اترآئے۔
کرامت:
ایک مرتبہ دہلی میں بارش نہیں ہوئی۔لوگ آپ کی خدمت میں حاضرہوئےاوردعاکےطالب ہوئے۔آپ منبرپرچڑھےاوراپنی آستین سے ایک دامن نکالا،جس کاایک تارجداہوگیاتھاوہ تار آپ نےآسمان کی طرف کیااورباری تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا۔
"الٰہی بحرمت اس بڑھیاکےدامن کےاس تارکےکہ جس نےنامحرم مردکوزندگی میں کبھی نہیں دیکھااوربحرمت اس رازونیازکےجووہ بڑھیاتیرے ساتھ رکھتی تھی،پانی برسااگربارش نہیں ہوئی تو شہرچھوڑکرجنگل میں چلاجاؤں گا"۔
ابھی آپ کی دعاختم نہیں ہوئی تھی کہ بارش شروع ہوئ۔لوگوں نےجب اس دامن کےمتعلق آپ سے پوچھاتوآپ نےجواب دیا۔"کیاتم لوگ نہیں جانتےکہ وہ دامن کس کاہے۔قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمتہ اللہ علیہ)نےوہ دامن میری والدہ ماجدہ کو دیا تھا۔میری والدہ اس دامن کو سرپررکھتی تھیں اوراس طرح عبادت کرتی تھیں"۔
حواشی
۱؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۹۰
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)