حضرت شیخ پایندہ نبوری
حضرت شیخ پایندہ نبوری (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کے تیسرے خلیفہ قطب وقت حضرت شیخ پائندہ بنوری ہیں جو مستِ جام توحید ومحو شراب تفرید تھے۔ آپ کی سکونت قصبۂ بنور میں تھی۔ جو شہر سہر اند سے چودہ پندرہ کوس کے فاصلہ پرہے۔ ابتدائے حال میں آپ نے شدید ریاضت و مجاہدہ کیا۔ اور اسکے بعد آپ کا مجاہدہ مشاہدہ میں مبدل ہوا۔ روایت ہے کہ کہ شدیدی مجاہدہ کے بعد آپ پر شغل باطن کے آثار وتصرفات ظاہر ہونے لگے۔ اُن دنوں آپ ذکر نفی واثبات بعض اوقات بطریق جہری اور بعض اوقات بطریق خفی کرتے تھے۔
ذکر سےشہر کےدروازے کھل جاتے تھے
رات کے وقت آپ جب یہ شغل کرتے تھے اور لاَاِلَہَ اِلاَّ اللہ کہتے تھے تو شہر کے تمام گھروں میں قفل اور زنجیر ٹوٹ جاتے تھے اور گھروں کے دروازے کھل جاتے تھےاور صبح تک کھل رہتےتھے۔ جب شہر کے باشندوں پر یہ راز کھلاتو انہوں نے تھانیسر جاکر حضرت شیخ نظام الدین کی خدمت میں کیفیت بیان کی اور عرض کیا کہ اگر یہی چیز کچھ عرصہ تک جاری رہی تو شہر ویران ہوجائیگا اور چور اور راہزن کچھ نہیں چھوڑینگے۔ اگر آپ کا فرمان ہو تو ہم وہاں سے نقل مکانی کر کے کسی اور جگہ چلے جائیں۔ یا شیخ پایندہ کو حکم دیں کہ رات کے وقت صحرا میں جاکر ذکر یا کریں۔ چنانچہ حضرت اقدس نے شیخ پائندہ کوکہلابھیجا کہ آیندہ صحرا میں جاکر ذکر کیا کرو۔
ذکر سے درخت بھی گرنے لگے
اس کےبعد آپ ایک باغ میں جاکر ذکر کرتے تھے۔ لیکن جب لاَاِٰہَ کہتے تھے تو تمام درخت زمین پر گر پڑتے تھے اور جب اِلاَّ اللہ کہتے تو کھڑےہوجاتے تھے۔ اسکا اثر یہ ہوا کہ جب ایام میں درختوں کے پتے جھڑ گئے اور شاخیں خشک ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر باغبان حیران تھا کہ ک یا وجہ ہے۔ باغ کو روزانہ پانی دیتا ہوں لیکن پھر بھی درخت خشک ہورہے ہیں۔ چنانچہ اس نےا س بات کا کھوج نکالنے کیلئے باغ میں ڈیرہ ڈال دیا۔ نصف شب کے بعد کیا دیکھتا ہے کہ تمام درخت زمین پر گرجاتے ہیں اور پھر کھڑےہوجاتے ہیں کافی دیکھ بھال کے بعد معلوم ہوا کہ درختون کا گرنا اور اٹھنا اور پتوں اور شاخوں کا خشک ہونا شیخ بنوری کے ذکر کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ باغبان بھی حضرت شیخ نظام الدین تھانیسری کی خدمت میں شکایت لیکر جا پہنچا۔ حضرت اقدس نے شیخ پائندہ بنوری کو کہلا بھیجا کہ ایسی جگہ پر بیٹھ کر ذکر کرو جہاں کسی کا نقصان نہ ہو۔
روایت ہے کہ حضرت شیخ پائندہ کے گھر میں فقر و فاقہ بہت تھا اور گھر کے لوگ بہت تنگی میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایک دن آپکی خانقاہ میں ایک کیمیا گر کا گذر ہوا جب اُسے حضرت اقدس کے فقر و فاقہ کا علم ہوا تو خلوت میں اس نے آپکو در جگی جواکسیر اعظم سے پر تھا دکھاکر کہا کہ میں یہ آپ کی نذر کرتا ہوں آپکی سات پشت تک کافی ہے اگر اس اکسیر سے ذرا بھر پگھلے ہوئے تابنے میں ڈالا جائے تو خالص سونا بن جاتا ہے۔ حضرت شیخ پائندہ نے فرمایا کہ اس اکسیر کو طاق میں رکھ دو ضرورت کے وقت استعمال کرونگا۔ کیمیا گر اکسیر طاق م یں رکھ کر لا گیا اور سات سال کے بعد جب اسکا دوبارہ قصبۂ بنورہ میں گذار ہوا تو اسکے دل میں خیال آیا جاکر دیکھنا چاہیے شیخ پائندہ کس شان و شوکت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب وہ خانقاہ میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ آپ پہلے سے بھی زیادہ غریب ہیں۔ چنانچہ اس نے عرض کیا کہ یا شیخ آپ نے بھی کمال کیا ہے کہ ایسی دولت کو جو آپکی سات پشت تک کافی تھی آپ نے سال سالوں میں ختم کر ڈالا ہے۔ عجیب فضول خرچ واقع ہوئے ہیں۔ حضرت اقدس نے جواب دیا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا تم نے مجھے کونسا اکسیر دیا تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے آپکو بہت سا اکسیر دیا تھا اور آپ نے حکم دیا تھا کہ طاق میں رکھ دو۔ آپ نے فرمایا اچھا طاق میں دیکھو۔ جب کیمیا گرنے طاق میں دیکھا تو پورا اکسیر ویسے کا ویسا پڑا تھا۔ یہ دیکھ کر اس نے شیخ پائندہ سے کہا کہ افسوس کہ آپ نے اس نعمت کی قدر نہیں پہچانی اور اسے ضائع کردیا ہے۔ یہ سنکر حضرت اقدس اٹھے اور اُسے صحرا میں لے گ ئے اس کے بعد ایک ڈھیلہ اٹھا کر پیشاب کی ایک طرف چلے گئے۔ جب فارغ ہوئے تو اس پیشاب آلودہ ڈھیلے کو زمین پر مار کر کیمیا گر سے کہا کہ دیکھو۔ جب اس نے اس طرف نظر کی تو کیا دیکھتا ہے کہ وہاں ساری زمین اور درخت خالص سونا بن گئے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ حضرت شیخ کے قدموں پر گر گیا ۔ اسکے بعد وہ مرید ہوگیا۔ حضرت اقدس نےکہا جس شخص کے پاس یہ اکسیر ہے وہ تمہاری اکسیر کو کیا کریگا۔ اسکے بعد آپ نے اسیر اپنی توجہ فرمائی کہ تھورے عرصے میں واصل اللہ ہوگیا۔
حضرت سید اللہ بخش لاہوری
حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کے چوتھے خلیفہ غوث زماں حضرت سید اللہ بخش لاہوری قدس سرہٗ ہیں۔ آپکے آباواجداد کا وطن شہر بھکر تھا۔ آپ بہت بڑے عارف باللہ تھے۔ آپ نے جب سے خلوت میں قدم رکھا ساری عمر ا س سے باہر نہیں گئے۔ آپکے اصحاب اور لاہور کے اکثر لوگ آپ کو ’’مردِ خدا بین‘‘ اور ’’خدا نما‘‘ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے۔ جب حضرت شیخ آدم بنوریکو جو حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے اکمل خلفاء میں سے تھے اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے بنور سے حضرت شیخ اللہ بخش کی خدمت میں ایک خط لکھ کر اپنے خادم کے ذریعے لاہور ارسال کیا۔ خط میں یہ لکھا تھا کہ میں نے سُنا ہے کہ لوگ آپکو خدا بین اور خدا نما کہتے ہیں۔ کیا یہ آپکی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر آپ کی مرضی کے مطابق ہے تو اس عقیدے سے توبہ کرو کیونکہ جو شخص دنیا میں رویت باری تعالیٰ کا قائل ہے وہ ملحد اور نذیق ہے۔ خط پڑھ کر حضرت سید اللہ بخش نے خط لانے والے خادم کو طلب کر کے فرمایا کہ اگر شیخ آدم رویت (زیارت) سے محروم ہے تو تم اس دولت سے محروم نہ رہو کیونکہ تم نے اتنی مسافت طےکر کے میرے پاس خط لانے کی تکلیف اٹھائی ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے فرمایا دیکھو! یہ فرمانا تھا کہ خادم مرتبہ رویت باری تعالیٰ سےمشرف ہوگیا اور بیخود ہوکر گِر پڑا۔ دوپہر تک محویت وبے خودی کی حالت میں پڑا رہا جب افاقہ ہوا تو حضرت شیخ اللہ بخش کی خدمت میں عرض کیا کہ اب میں بقیہ عمر آپ کی خدمت گذاری میں بسر کرونگا۔ شیخ آدم بنوری کی خدمت میں نہیں جاؤنگا۔ مجھے قبول فرمایئے اور اپنی خدمت میں رہنے دیجئے۔ حضرت سید اللہ بخش نے فرمایا کہ ایک حضرت آدم بنوری کی خدمت میں جاؤ۔ میں تم کو انکے خط کا جواب بناکر بھیج رہا ہوں۔ تم وہاں جاکر انکو یہ مسئلہ سمجھاؤ اور پھر میرے پاس واپس آؤ سمیرا گھر تمہارا گھر ہے۔ تاکہ پھر وہ رویت سے انکار نہ کریں۔ چنانچہ حکم کی تعمیل میں وہ شیخ آدم بنوری کے پاس گیا اور ان کو خلوت میں لیکر حقیقت رویت سے آگاہ کیا اور مرتبۂ علم الیقین تک پہنچادیا۔ اسکے بعد شیخ آدم بنوری کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ حضرت شیخ اللہ بخش کی خدمت میں جاکر مرتبہ عین الیقین اور شہود حاصل کریں۔ لیکن چونکہ وہ خود شیخ وقت تھے مشیخیت نے انکو وہاں جانے دیا اور اس طرح وہ اس رویت جیسی نعمت عظمیٰ سے محروم رہے۔
رویت کا مطلب
یاد رہے کہ صوفیائے محققین کے نزدیک رویت سے مُراد مشاہدۂ ذات بحت ہے مرشد کے آئینہ جمال میں۔ جس طرح کے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئینہ جمال محمدی میں ذات حق کا مشاہدہ کرتے تھے۔ اور اولیائے اولین وآخرین میں سے کوئی شخص رویت باری تعالیٰ کا منکر نہیں ہوا سواے شیخ آدم بنوری کے تاوقت یہ کہ رویت کی حقیقت کا انکو علم نہ ہوا۔ اور جب علم ہوگیا تو جذبۂ مشیخیت نے انکو اجازت نہ دی کہ لاہور جاکر یہ سعادت حاصل کریں۔ غرضیکہ انبیا والیاء میں سے کسی شخص کو ذات باری تعالیٰ کے اس دنیا میں ظاہری وباطنی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ میں شک واختلاف نہیں ہے اور تمام کاملین رویت کے قائل ہیں اور جو کوئی انکار کرتا ہے وہی منکر ہے۔ ذاتِ حق جب ہر چیز پر قادر ہے تو اپنا مشاہدہ کرانے میں کیوں قادر نہیں ہے۔ اس مسئلہ پر علمائے اہلِ سنت وجماعت نے خوب بے پردہ باتیں کی ہیں البتہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ذات محض کیسے دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ نور بحت (خالص) وصرف ولاتعین جب تک متعین نہ ہو اور پردۂ لطافت میں جلوہ گر نہ ہو اُسے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ہمک ہتے ہیں کہ بات صحیح ہے کہ بے رنگی صرف (محض بے رنگی) رویت اور شہود میں نہیں آسکتی جب تک کہ اپنے آپکو کسی مظہر میں نہ دکھائے اور یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں رویت حاصل ہوگی اس دنیا میں نہیں ہوسکتی اسکی کوئی اصل نہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ اپنے آپکو ہر طور اور ہر جگہ دکھانے کی قدرت رکھتا ہے اور جس شخص کو اس دنیا میں رویت حق میسر نہیں ہے آخرت میں بھی حاصل نہیں ہوگی آیہ کریمہ من کان فی ھذہٖ اعمیٰ فھو فی الآخرۃ اعمیٰ (جو شخص اس دن یا میں اندھا ہے یعنی رویت حق سے محروم ہے آخر میں بھی اندھا ہوگا) کااسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ اور علمائے اہل سنت وجماعت نے اس حدیث کے بارے میں جو اختلاف کیا ہے کہ حضرت رسالت پناہﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے اس سال کے جوب میں کہ ھل رَاَیتَ رب (کیا آپ ن ے اپنے پروردگار کو دیکھا) فرمایا کہ نورٌ ا نی اراہ (وہ نور ہے اُسے میں نے دیکھا ہے) بعض لوگ لفظ ’’اراہ‘‘ پر ہمزہ زائد کرنے کے بعد یہ معنی نکالتے ہیں کہ وہ نور ہے میں اسکو کیسے دیکھتا۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرتﷺ کو رویت حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس حدیث کی قرأت اول کا مطلب یہ ہے میں نے ذات حق کو نور کے پردہ میں دیکھا۔ اگر قرأت ثانی کےمطابق معین کیے جائیں تو مطلب یہ ہوگا ذات بحت کو بے تعین اور بے تلبس کیسے دیکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ دکھنے میں نہیں آتی یہ اختلاف عبار کا نہیں ہے بلکہ یہ اعجاز نبوی ہے کہ ایک حدیث میں دو مسئلے بیان فرمادیئے ہیں۔ اور آیۂ کریمہ وَجُوہ یومذٍ ناضرۃ الی ربھا ناظرہ یعنی اس روز اپنے رب کا جمال دیکھ کر انکے منہ تروتازہ ہونگے۔۔ اس آیت سے رویت ثابت ہے یعنی تعن ربوبیّت میں دیکھا جاسکتا ہے اور آیۂ کریمہ لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو لطیف الخیر کا مطلب یہ ہے ذات لا تعین کی رویت نا ممکن ہے۔ یعنی مرتبۂ اطلاق اور لاکیف میں آنکھیں اسکو نہیں دیکھ سکتیں۔ لیکن وہ سب کو دیکھتا ہے اور وہ بغابت لاکیف اور بے رنگ ہے۔ اس آیہ میں لفظ ھُوَ واقع ہوا ہے جسکا مطلب ھویت یعنی ذات بحت، لاتعین کو دیکھنا محال ہے۔
اقسام رویت
رویت کی پانچ اقسام ہیں۔ اول خواب میں دل کی آنکھوں سے دیکھنا۔ دوم بیداری میں سر کی آنکھوں سے(ظاہری جسمانی آنکھوں) سے دیکھنا۔ سوم خواب اور بیداری کے درمیان کی حالت میں دیکھنا جیسے بے خودئ خاص کہا جاتا ہے۔ چہارم ایک خاص تعین میں دیکھنا پنجم ذاتِ واحد کو اشیائے عالم کی کثرت میں دیکھنا اور یہ رویت محمد مصطفیٰﷺ کی رویت ہے۔ جبکہ وہ خود نہیں تھے بلکہ دیکھنےو الا اور جسکو دیکھا ایک ہوچکے تھے اور انکے لیے خواب وبیداری وبے خودی برابر تھی اور ظاہری وباطنی آنکھیں ایک ہوگئی تھیں۔ اور کمال مرتبۂ رویت عینیّت ہے اور اس رویت کیلئے دنیا وآخرت کی قید نہیں ہے ہر جگہ اور ہر وقت میسر ہے۔ فہم من فہم۔
(قتباس الانوار)