آپ بڑے کامل اور مکمل درویش تھے حرمین الشریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ آپ کا اصلی وطن تو جونپور تھا مگر آپ نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے مختلف شہروں میں قیام کیا ایک عرصہ تک دہلی رہے اور وہاں ہی پڑھتے رہے وہاں سے قنوج آئے اور وہاں کے علماء کرام سے بعض کتابیں پڑھیں وہاں سے لکھنو چلے گئے اور سید عبدالقادر لکھنوی سے چند کتابیں پڑھیں وہاں سے ہی جذب الٰہی دامن گیر ہوا ان دنوں ایک چشتی بزرگ شاہ عبداللہ سیاح رحمۃ اللہ علیہ کوہ بستان میں سکونت پذیر تھے آپ نے ساری اسلامی دنیا کی سیر کی تھی آپ انہی کے مرید ہوگئے خاندان چشتیہ سے خاص فیض ملا آپ کو دوسرے سلسلوں میں بھی بیعت کا شرف ملا تھا تدریس و تعلیم میں مشغول رہے مخلوق خدا کو ہدایت کرتے رہے لکھنو میں آپ کو مرشد گرامی نے حکم دیا کہ دریائے گومتی کے کنارے جاکر ریاضت کریں وہاں آپ ایک طرف لوگوں کو روحانی تربت دیتے دوسری طرف طلباء کو کتابیں پڑھاتے تھے آپ پر فتوحات کے دروازے کھل گئے جو نذرانے آتے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا کرتے تھے صرف ایک دن کی روزی اپنے پاس رکھتے تھے اگر اپنے پاس کھانہ نہ ہوتا بازار سے منگوا کر مہمانوں میں تقسیم کردیتے تھے سماع سے بڑی رغبت تھی چند قوال ہر وقت آپ کی خانقاہ پر رہتے جو کچھ آتا اس سے چوتھا حصّہ قوالوں کو دے دیتے تھے لکھنو کے علماء فقراء کو بھی ان فتوحات سے مدد کرتے رہتے تھے دریائے گومتی کے پار جانے کے لیے کشتی پر سوار ہوتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی حوصلہ دے کر ساتھ لے لیتے مگر کسی کا پاؤں تک بھی تر نہ ہوتا۔
معارج الولایت کے مصنف نے لکھا ہے کہ میں بنگال سے ہوتا ہوا لکھنو پہنچا تو شیخ پیر محمد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ پر بڑی شفقت اور محبت فرمائی آپ نے میری کتاب بحر الفراست شرح دیوان حافظ ملا حظہ فرمائی تو بڑی پسند کی فرمانے لگے یہ تو ایک بحر بے کراں ہے کئی ماہ تک مطالعہ میں رکھی مجھے بعض اشغال کی اجازت بھی دی اور تبرکاً ایک خرقہ بھی عنایت فرمایا بعض ادعیہ ماثورہ چہل اسم حزر ایمانی پڑھنے کو دیں آپ بڑے صاحب تصانیف تھے شرح ہدایہ سراج حکمت آپ نے ہی لکھی تھی فقہ میں ایک فتاویٰ لکھا تصوّف میں مکتوبات اور اربع منازل لکھیں اسی طرح سلوک میں آپ کی بہت سی کتابیں ملتی ہیں۔
شیخ پیر محمد ۱۰۸۰ھ میں فوت ہوئے۔ آپ کا مزار لکھنو میں ہے۔
محمد پیر در بزم محمد
چو شد تاریخ آں سردار آفاق
بگو شیخ یقین و شیخ حق میں
سفر شاہ محمد پیر عشاق