آپ کے دوسرے اصحاب شیخ پیر محمد ساکن تھا نہ تھے جو بڑے مجاہدہ اور عبادت گذار تے۔ آپ فقر وفنا میں بے نظیر تھے اور آپ کے مجاہدہ کا حال یہ ہے کہ آپ تجلی صمدیت سے مشرف ہوچکے تھے۔ اور چار سال تک آپ نے آرام نہ کیا اور نہ کچھ کھایا پیا۔ اور نہ ہی آپ کو بول براز کی حاجت ہوئی۔ یاد رہے کہ تجلئ صمدیت وہ مقام ہے جہاں کھانے پینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ نے اس تجلی میں انتقال فرمایا اور قصبۂ بہوہر میں دفن ہوئے۔ آپکی وفات کے بعد حضرت شیخ سوندہا بے حد مغموم تھے۔ ایک رات نماز تہجد کے بعدآپ شغل باطن میں مشغول تھے کہ شیخ پیر محمد کی روحانیت ظاہر ہوئی اور کہا کہ اگر آپ میری مفارفت میں بے چین ہیں تو میں دنیا میں واپس آتا ہوں آپ نے پوچھا کہ کس طرح واپس آؤگے۔ انہوں نے جواب دیا کہ حق تعالیٰ نے مجھے دنیا اور عقبیٰ میں رہنے کا اختیار دیدیا ہے۔ اور مجھے قدرت عطا فرمائی ہے کہ جب چاہوں دنیا میں آجاؤں۔ حضرت اقدس نے فرمایا اب جبکہ تم دنیا سے جاچکے ہو بہتر یہ ہے کہ وہیں رہ جاؤ اور دنیا میں مت آؤ۔ کیونکہ آج تک مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آیا۔ اور یہی سنت اللہ ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ پیر محمد کو حضرت شیخ سوندہا میں کمال فنایت حاصل تھی۔ اور آپکی محبت میں بے اختیار تھے۔ ایک دفعہ حضرت شیخ سوندہا غلبۂ سکر واستغراق میں صحرا کی طرف نکل گئے اور ایک کنویں تک پہنچ گئے۔ شیخ پیر محمد نے بہت کوشش کی کہ آپ کنویں کی طرف نہ جائیں کیونکہ ممکن ہے اس میں گرجائیں۔ لیکن آپ باز نہ آئے اور سیدھے کوئیں کے کنارے پر جاکر کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر وہ خود کوئیں میں کود پڑے اس خیال سے کہ مباد حضرت شیخ کنویں میں ر جائیں تو آپ مجھ پر گریں اور چوٹ نہ آئے۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حضرت شیخ سوندہا کنویں میں گر پڑے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو فوراً پہنچ گئے اور دونوں کو باہر نکال لیا۔ شیخ پیر محمد کو کافی ضربیں آئیں اور اسی وجہ سے آپکی موت واقع ہوئی۔
(قتباس الانوار)