حضرت شیخ پیرمحمد سچیار نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ
حضرت شیخ پیرمحمد سچیار نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
درمناقب حضرتِ پیر محمد پاک ذات |
روضۂ والائے شاں در حضرتِ نوشہرہ واں |
آنانکہ جائے درحرمِ کبریاکنند |
مِس وجودرا۔بنظر کیمیا کنند |
گوتندذاتِ حق نتواں گفت شاں ولیک |
درکسوتِ بشرشدہ کارخداکنند |
وقتیکہ طورِ عشق شود جلوہ گاہِ شاں |
علوی بشوق از اَرِنِی مرحباکنند |
مرجع جہان ومعبدِ آفاق درگہش |
تاچشم ہم زنی ہمہ حاجت رواکنند |
بحرِ فیوض ومنبعِ احسان وکانِ عشق |
بیگانہ رابہ نیم نگاہ آشنا کنند |
دربرمدام خلعتِ معشوقیں درست |
حق دار د آرزوکہ چہ ہست وچہاکنند |
نرودکسے زمعتقعدانش بدوزخے |
چوں در حضور حق زعنایت صلاکنند |
کافر بہ بُت پرستی وزاہد بصوم وحج |
شاں راہِ حق بگوشۂ ابرواداکنند |
وقتیکہ چشم مست کشانیدازخمار |
مگسِ شکستہ پر بتوجہ ہما کنند |
بینند یک بیک ہمہ دیدار حق عیاں |
آنانکہ خاکِ پاک ورش تویتاکنند |
روشن چوماہِ چاردہ سیمائے شارشود |
رنداں کہ پیش ورگہِ شاں جبہ ساکنند |
یک جُرعہ گرزجام مَیش زاہداں چشند |
تسبیح ہاگسیختہ زُنّار ہا کنند |
زاہد بروبکوئے ریامعتکف نشیں |
کارے کہ اوکنند ہمہ بے یا کنند |
اہلِ سعادت اندکسانےکہ خویش را |
حلقہ جوش خاصِ جناب نوشاکنند |
اشرف زلطف خویش نگاہے بمن کنند |
آنانکہ چشمِ مست بصدحیلہ دا کنند |
اوصاف جمیلہ
آپ سراج الواصلین۔شمس المقربین ۔سلطان الاولیأ ۔برہان الاصفیأ ۔امام الصادقین۔رئیس الکاملین ۔سر حلقہ فقرائے نوشاہیہ خلاصہ صوفیائے قادریہ۔صاحب سوزوگدازو وجد و سماع و ذوق و شوق تھے۔صدق و راستی اور ورع و تقوٰی میں شان بلند رکھتےتھے۔
آپ حضرت شیخ الاسلام سیّد حافظ شاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے اکابرخلیفوں میں سے تھے۔
نام ولقب
آپ کے نام نامی پیرمحمد ۔لقب سچیار۔کنبل پوش تھا۔آپ قوم گکھڑبیرآل خاندان سے تھے۔
نسب نامہ
حاجی الحرمین میاں نواب علی بن میاں میراں بخش سجادہ نشین نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ نے رسالہ القادرنوشاہی اور کتاب اذکارالابرار میں جو شجرہ نسب تحریرکروایاہے۔اس میں آپ کے والد کا نام ملک وارث خاں لکھوایاہے۔کتاب گلزارِ نوشاہی کے مؤلف نےبھی یہی نام لکھا ہے۔
مگرمؤرخینِ سلف نے آپ کے والد کانام علی لکھاہے۔چنانچہ
۱۔مولوی حکیم محمد اشرف فاروقی مصنّف کنزالرحمت (متوفی ۱۲۲۵ھ) اپنے ایک مناقب کے مطلع میں لکھتے ہیں۔ "حضرت پیرِ محمد قرّۃ العینِ علی"۔
۲۔میاں غلام رسول خلیفہ غلام مرتضےٰ نظام آبادی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی ۱۲۲۴ھ)اپنے ایک سلسلہ مشائخ میں آپ کانام اس طرح لکھتےہیں۔
"الھی بحمتہ رازونیازحضرت قطب العالم شیخ پیرمحمد بن علی"۔
تویقینی طور پرثابت ہوا کہ آپ کے والدکانام علی تھا۔ممکن ہے کہ وارث خاں آپ کے داداکانام ہو
اورشجرہ کے کاتب سے علی کا نام کتابت میں متروک ہوگیاہو اوراس نے داداکانام بجائے والد کے لکھ دیاہے۔بہر کیف نسب نامہ یہ ہے۔
حضرت پیر محمد سچیار ابنِ علی خاں بن وارث خاں بن وہاب خاں بن عاقل خاں بن بہار خاں بن جودھ لعل بن ملک بیر خاں(متوفی ۹۰۲ھ مورثِ بیرآل)بن گل محمد خاں (متوفی ۸۵۹ھ مدفون اوریام)بن قدو خاں(متوفی ۸۰۴ھ) بن لکھن خاں (متوفی ۷۴۴ھ)بن لوہر خاں(متوفی ۶۹۷ھ) بن منگ خاں(متوفی ۶۴۲ھ) بن سپہر خاں(متوفی ۵۶۰ھ) بن راجر خاں(متوفی ۵۵۵ھ) بن عاصی خاں (متوفی ۴۹۷ھ) بن معظم خاں(متوفی ۴۹۱ھ) بن مَہپال خاں(متوفی ۴۸۱ھ ) بن بج خاں(متوفی ۴۵۷ھ)بن گکھڑ شاہ(متوفی ۴۱۹ھ) مدفون کابل مورثِ اعلیٰ قوم گکھڑ۔
یہ نسب نامہ سات پشت تک القادر نوشاہی اور گلزار نوشاہی سے لیاگیاہےاور ملک بیر خاں سے اُوپر کتاب کیگوہرنامہ گکھڑاں سے لکھاگیاہے۔جو خاندان گکھڑ کی مفصل تاریخ ہے۔
گکھڑوں کے متعلق تحقیق
قوم گکھڑ کے متعلق اختلاف ہے کہ ان کا نسب کہاں ملتاہے۔
رائزادہ دُنی چند برہمن عر ف بال قانونگوئےتاریخ کیگو ہرنامہ گکھڑاں میں جو عہد محمد شاہی کی تصنیف ہے اور یکشنبہ نوروزماہ ذیقعد ۱۱۳۷ھ کو ختم ہوئی ہے۔لکھاہے کہ تاریخ فتح خانی میں ہے کہ قوم گکھڑ سلاطین کیانی کی اولاد سے ہے اور شجرہ نسب اس طرح پر لکھاہے۔
گکھڑ شاہ بن سلطان کابل بن رُستم بن مہراب بن سمندبن عامربن بختیاربن نوربدر بن گوہر گنج بن خیرالدین بن داد بن امیر بن فرخ بن قاب بن دولت بن قالب بن نظر بن بہرہ مند بن مدارک بن شجار بن جنت بن تبت بن سلطان کیدبن کیگو ہربن کیخسروبن فریدوں بن جمشید بن طہمورت بن ہوشنگ بن سیامک بن کیومرث بن افلک بن کالیک بن ایدون بن ارناد بن بہاربن کیداد بن یافث بن حضرت نوح علیہ السلام۔
لیکن اس کےخلاف تاریخ فرشتہ میں لکھاہے کہ گکھڑوں کا بزرگ راجہ کَیدراج ہندو تھااور قنوج میں سے نکلاتھا۔جس وقت ہندوستان کے تمام راجے متفق ہو کر سلطان محمودغزنوی کی جنگ کے لیے اُٹھے تھے۔اُس وقت گکھڑوں نے تیس ہزار فوج کی جمیعت سے باتفاق راجگان ہند سلطان محمود کی سپاہ پر حملہ کیاتھااور لڑائی میں اس طرح بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھائے کہ سلطان بھاگنے کو تیار ہوگیاتھا۔
نیزتاریخ فرشتہ میں ہےکہ سلطان شہاب الدین غوری نے گکھڑ وں کومسلمان کیااور خود بھی
گکھڑوں کے ہاتھ سےہی شہیدہوگیا۔
تاریخ ضلع جہلم ص ۲۵۴میں لکھاہے۔
"ملاحظہ کتب تواریخ سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ قوم گکھڑ خواہ ابتدا میں ہندوتھےاور اصلی متوطن پنجاب کے ہیں یاکیانی تھے۔مگرزیادہ تصدیق ان کے اصل ہندو ہونے کی ہوتی ہے اورقابل اعتبار بھی یہ امر ہے ۔کیونکہ گیدراج کے وقت ان کا موجود ہونااور پھر سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہمراہی برعایت راجہ ہائے ہند کے لڑنامیدانِ پشاور میں اور رسوم ان کی بابت نکاح عورات و دخترکشی کے سب اس پردلالت کرتے ہیں کہ یہ پورانی قوم اس ملک کی ہے اورابتدامیں ہندوتھے۔بلکہ اب تک شادی ان کی میں رسوم ہندوانِ پنجاب کی بہت جاری ہیں اور برہمن اب تک ان کے گھرمیں واسطے ادائے رسوم شادی وغیرہ کے باوصف اسلام بہت مدّت تک مقرررہاہے۔اب چند سال سے نہیں اور اب بھی جو راجہ گدی نشین ہوتاہے۔قشقہ یعنی ٹیکہ کیسروصندل کامثل راجہ ہائے ہندؤوں کے پیشانی پر لگاتاہے"۔
بہرکیف اقوال مورخین و محققین سے ثابت ہوتاہے کہ گکھڑ ہند النسل راجپوت ہیں اسی واسطے اب تک علاقہ پوٹھوہارمیں یہ خود کوراجے ہی کہلاتے ہیں۔
ابتدائی حالات
آپ کا آبائی وطن علاقہ پوٹھوہار میں موضع نڑالی تھا۔جو تحصیل گوجرخاں میں ایک مشہور گاؤں ہے۔آپ کی پیدائش اُسی موضع میں ہوئی۔
صاحب ثواقب المناقب نے لکھاہے کہ آپ کے والد اپنے وطن سے اُٹھ کر وزیرآباد میں آکر آباد ہوئے اور آپ ابھی بچہ ہی تھے کہ اُن کاانتقال ہوگیا۔
اورصاحب کنزالرحمت نے لکھاہے کہ آپ کے والد بزرگوار وطن میں ہی کسی خانہ جنگی کے دَوران میں شہید ہوگئےتھےاورآپ کی تربیت اپنی والدہ کے آغوش عاطفت میں ہوئی۔چندے تعلیم بھی پائی۔کچھ ہوش سنبھالنے پر وطن کو خیرباد کہہ کرضلع گجرات میں تشریف لے آئے۔
مشہور روایت یہ ہے کہ آپ نے موضع کالیکی برلب دریائے چناب سکونت اختیارکی۔بعد میں آپ کی والدہ تلاش کرتی ہوئی یہیں چلی آئیں۔چنانچہ اُن کی قبرکالیکی میں ہے۔
تاریخ ولادت
آپ کی تاریخ پیدائش بتصریح کسی مؤرخ نے نہیں لکھی ۔حضرت سیّد شاہ محمد غوث گیلانی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے رسالہ اسرارالطریقت میں صرف اس قدر لکھاہے۔کہ شیخ پیر محمدنام نوشہروی سوسال سے زیادہ عمرکے تھے۔اس سے ذرازیادہ وضاحت کرتے ہوئے حضرت سیّد عمر بخش نوشاہی رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ نے مناقبات نوشاہیہ کے حاشیہ میں لکھاہے کہ آپ کی عمر ایک سو سات عددمنہاکرنے سے سال ولادت ۱۰۱۲ھ ظاہر ہوتاہے۔
تقویم ہجری و عیسوی کی رُو سے اس کے مطابق ۱۶۰۳ھ ہوتاہے۔وہ جلال الدین اکبربادشاہ کی سلطنت کازمانہ تھا۔
مادہ تاریخ ہجری ہے۔ پَری رُخ اثباتِ حق
واقعہ بیعت
آغاز طفولیت سے ہی آپ کو راہ حق کا شوق پیداتھا۔عام لوگوں سے حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کےفیض عام کاشہرہ سناتوآپ کمال شوق سے ساہن پال شریف کی طر ف روانہ ہوئے۔راستہ میں دوشخص گھاس کھود رہے تھے۔انہوں نے پوچھااے لڑکےکہاں جارہے ہو۔آپ نے اپناارادہ ظاہر کیا۔انہوں نے کہا "جلدی پہنچواوردیدار عالی سے مشرف ہو۔حضرت نوشہ صاحب کادربارعشق س پُرہے اور وہ خداکے رنگ سےرنگنے والےہیں"۔
پُراز عشق دربارنوشاہ ہست |
کہ صَبَّاغُ مِن صِبغَتہِ اللّٰہہست |
آپ یہ خوش خبری سُن کر نہایت خوش ہوئے ۔جب چند قدم آگے گئے تو ایک اورآدمی گھاس کھود رہاتھا۔اُس نے بھی وہی بات پوچھی ۔آپ نے اپناخیال بتایا۔تووہ کہنے لگاکہ وہ توجادوگرہیں اور لوگوں کودیوانہ بناتے ہیں ۔تم کس لیے وہاں جارہے ہو۔آپ اس کی بات سن کرواپس چل دیئے ۔ آگے پھروہی دوشخص نورانی طلعت ملے۔انہوں نے واپس ہونےکی وجہ پوچھی توآپ نے شخص مذکور کی بات سنائی وہ کہنے لگے کہ وہ شخص ابلیس تھااور تم کو راہِ حق سے بہکاناچاہتاتھااور ہم ملائکہ مقرب ہیں او رتجھے رہنمائی کرنے آئے ہیں۔تم ضرور حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پاس جاؤکہ اس جگہ عشق ودردکا دریاروان ہے۔آپ پھرمڑکر ساہنپال شریف پہنچے۔آگے حضرت نوشہ صاحب اندرون مکان شریف میں تشریف لے گئے ہوئے تھےاورکئی یارباہر دیوان خانہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔آپ نے اُن سےحضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کاپتہ پوچھاتواُن میں سے شیخ صدرالدین رکھانوالہ جو مقام فنافی الشیخ تک پہنچ چکے ہوئےتھے۔کہنے لگے کہ"جوشخص آتاہے تو نوشہ کانام پوچھتاہے۔میں خود نوشہ ہوں اور مخلوق کی راہبری کررہاہوں"۔آپ ان کادیوانہ کلام سے متحیرہوئے۔دوسرے یاروں نے فرمایا۔لڑکے یہیں آرام کرو۔حضور یہیں تشریف لے آئیں گے۔ایک فقیر نے اند ر جاکر آنجناب کو اطلاع کی کہ ایک لڑکا اجنبی آپ کی زیارت کے واسطے باہر بیٹھاہے۔آنجناب فرمایاکہ اس کو یہیں اندرلے آؤ۔چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق اندر حاضر ہوئے اور قدمبوسی کی اور زیارت فیض بشارت سے مشرف ہوئے اور تین دام بطور نذرانہ آنجناب کے سامنے رکھ کر کمال ادب سے دُور ہو کربیٹھ گئے۔آنجناب نے ایک دام پکڑ کراپنے بڑے صاحبزادے سید حافظ محمدبرخورداربحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ کوعطافرمایا اور دوسرادام پکڑکر اپنے چھوٹے صاحبزادہ سیدمحمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ کوعنایت کیااور تیسرادام آپ کو تبرکاًواپس دے دیا۔پھر آپ نے پوچھااے لڑکے ۔تیراوطن کہاں ہے؟آپ نے عرض کیایاقبلہ! میرا گاؤں نڑالی ہے۔آنجناب نے فرمایاکہ موضع نڑالی پر رحمت کامینہ برسا؟آپ نے عرض کیا یاحضرت برسا۔ آنجناب نے تین بار یہی استفسار کیا۔آپ نے بھی یہی جواب عرض کیا۔آنجناب کمال خوش ہوئے اور فرمایا۔اے لڑکے مجھے تیرابڑاانتظار تھااورتجھ سے کئی کام تھے۔شکرہے کہ آج تم پہنچ گئے۔ چنانچہ آپ کواپنے سامنے بٹھاکراپنی بیعت سے سرفراز فرمایا۔
فائدہ
ابلیس لوگوں کو گمراہ کرتاہے۔لیکن ملائکہ اور رجال الغیب لوگوں کی راہنمائی کے واسطے زمین کے چکر لگاتے ہیں اوراولیأاللہ کے پاس جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔چنانچہ منقول ہے کہ شیخ عبدالحق رودلوی بیعت ہونے کی غرض سے پانی پت گئے۔خواجہ کبیرالاولیأکادیناوی سازوسامان دیکھ کربداعتقاد ہوکر واپس چلے گئے۔راستہ میں تین مرد غیبی ملے۔اُن سے راستہ پوچھا۔انہوں نے کہا کہ تیراراستہ کبیرالاولیاکادروازہ ہے چنانچہ پھراُن کے پاس جاکر بیعت ہوئے۔۱؎
خلافت و اجازت
حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر اُس وقت نورذات کاتجلّاتھا۔اُسی نگاہ جذب سے آپ کو مقامِ علیا پرپہنچادیا۔علوم معرفت کے دروازے کھول دیئے اور نعمت باطنی سے بہرہ ور فرمایااور خلافتِ طریقت سے مشرف فرماکرارشاد کیا۔کہ اب تم ایک لمحہ بھی یہاں نہ ٹھہرو۔ کہ اس جگہ کئی شیردرندے ہیں ایسانہ ہو کہ تجھ سے فیض چھین لیں ۔اب تم کورخصت ہے۔۲؎
۱؎تذکرہ اولیائےہندجلد۲ ص۱۷ ۲؎کنزالرحمت ص۱۰۳۔شرافت۔
نوشہرہ میں وارد ہونا
بوقتِ رخصت حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کے حق میں دعائے خیرفرمائی اور حکم دیاکہ اب تم نوشہر مغلاں میں اپنی سکونت بناؤ ۔وہاں کی ولایت تمہارے متعلق ہے۔آپ نے عرض کیاکہ اس جگہ تمام مغل آبادہیں۔جوبڑے بڑے رئیس اور متمو ل ہیں ۔وہ مجھے وہاں کیسے رہنے دیں گے۔آنجناب نے فرمایاکہ وہ ہمیشہ کہ لیے تیرے تابع و فرمان ہوں گےاوروہاں تیراہی حکم رہےگا۔آپ الوداع ہوکرنوشہرہ پہنچے وہاں اُس وقت ایک بزرگ سیّد ماکھن شاہ بھاکری قادری رحمتہ اللہ علیہ رہاکرتے تھے۔وہ تمام علاقہ روحانی طور پراُن کے زیراثرتھا۔آپ پہلے انہیں کی خدمت میں گئے۔انہوں نے آپ کا نہایت اخلاص سے استقبال کیا اور ازراہِ کشف آپ کی حقیقت حال سے مطلع ہوکرفرمایا۔میاں پیرمحمد!میں اب دنیامیں چندروزہ مہمان ہوں۔اب اس دیارکی ولایت تمہارے سُپرد ہونی ہے۔اب اس کی ذمہ داری کو خوب سرانجام دہ اور ہم کوہمارے حا ل پرچھوڑ دو۔چنانچہ آپ کنارہ پر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوئے۔دن کو روزہ رکھتےاور رات کویاد الٰہی میں مصرف رہتے۔سوائے ذکروشغل ومراقبہ وتفکرکے کوئی کام نہ تھا۔
نگاہ کی تاثیر
جب آپ نوشہرہ مغلاں میں سکونت گزیں ہوئے۔توآپ کے فیضان کاگردو نواح میں عام شہرہ ہوگیا۔لوگ خدمت میں آکر فیضیاب ہوتے اور ہر طرح کی دینی دنیاوی مرادیں پاتے۔
صاحب کنزالرحمت نے لکھاہےکہ جب آتش عشق حقیقی آپ کے سینہ فیض گنجینہ میں مشتعل ہوئی توآپ نے پندرہ ہزار آدمیوں پر نگاہ توجہ فرمائی ۔تو سب کے سب روحانیوں کی طرح پرواز کرکے آسمان کی طرف چلے گئے۔اُن میں سے ایک متنفس بھی زمین پر نہ رہا۔سب مرتبہ ابدال پر فائز ہوکر اہل دنیا کی نظروں سے روپوش ہوگئے۔اُس سے کچھ عرصہ بعد پھرآپ نے پندرہ ہزار آدمیوں پر
نگاہِ جذب ڈالی تو وہ تاب نہ لاتے ہوئے۔اثرجلال سے جل کر خاکستر ہوگئے۔۱؎
صاحب تحائف قدسیہ نے لکھاہےکہ آپ کی پہلی نظر سے کئی لوگ جل گئے اور آپ کی دوسری نظر سے مجذوب ہوگئے۔۲؎
فائدہ۔
اولیأ اللہ عاشقانِ الٰہی کی نگاہ سے ایسے واقعات ظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔
چنانچہ:
۱۔خواجہ باقی باللہ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک شخص پر نظر کی وہ ہوا پر پرواز کرکے نظروں سے غائب ہوگیا۔۳؎
۲۔شیخ جلال الدین تھانیسری نے ایک مرید پر عاشقانہ نظر ڈالی ۔تجلی ذات اس پرمنکشف ہوا۔مگر بوجہ کم استعداد ہونے کے مرگیا۔۴؎
۳۔سیّد جلال نے ایک درویش تغلق افغان پرجلالیت کی نظر دیکھا۔وہ جل کررہ گیا۔۵؎
۱؎کنزالرحمت ص۱۰۴ثواقب المناقب ص۱۷۸۔۲؎تحائف قدسیہ ص ۱۴۱۔۳؎ تذکرہ اولیائے ہند ج ۲ ص۹۲۔۴؎تذکرہ اولیائے ہند جلد ۲ ص۶۱۔۵؎تذکر ہ اولیائے ہندجلد۲ص۱۴۱۔سید شرافت
۴۔ایک مرد حق پر ایک روز حالت جلال وارد ہوئی۔اُس روز جو سامنے آتاجل جاتا۔دوسرے روز حالت جمال ہوئی۔جوسامنے آتاقطب ہوجاتا۔۱؎
فیض کابندہونا
منقول ہے کہ آپ کے جذب وجلال کاشہرہ اکثر زبان زد خلائق ہوگیا۔ ایک مرتبہ آپ زیارت و سلام کے واسطے حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرتھے۔ شیخ صدرالدین رکھانوالہ نے خدمت اقدس میں عرض کیاکہ یاحضرت !یہ آپ کا پیارادرویش ہے۔ اس نے ہزاروں آدمیوں کونگاہ جلالیّت سے جلاکر خاکستربنا دیاہے۔آنجناب نے آپ کو نصیحت فرمائی۔بیٹا ہر شخص پراُس کی استعدادکے موافق نظر کرنی چاہئیے اور شمشیرِ نگاہ کوسنبھال کررکھنا چاہیئے۔اب وہ وقت ہے کہ جلالیت کی تلوار کو تحمل کے نیام میں ڈالو۔
اے سپاہی خوابناکیہائے آں چشم سیاہ |
کن نیامِ مخملیں از بہرِ شمشیر نگاہ! |
واردرابررِ نیام آں برقِ تیغ آبدار |
اے طپاں چوں ماہئیِ بے آب درعشق توماہ |
اے کہ آہوئے حرم قربانِ عید روئے تست |
گربخونِ سگ کنی شمشیر ترباشدگناہ |
آنکہ باشدگنبدِ گردوں بلاگردانِ اُو |
نیک و بدرابہِ کہ داروچوں حصار اندرپناہ |
دشمنِ فاسد مزاج ازنشترِ سودائے رشک |
خودبخود مانندِ خونِ مُردہ گددروسیاہ |
اُس روز سے آپ نے نگاہِ جذب کوروک لیا۔۲؎
اُس کے بعدآپ کایہ طریقہ تھا۔کہ اگرکوئی شخص ارادت کے لیے حاضر ہوتاتوآپ اُس کو بیعت نہ کرتے بلکہ اپنے پیر روشن ضمیرحضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیجدیتے رسالہ احمد بیگ میں ہے۔
"ہرکہ ارادت مے آوردخوددست نمگیرفتندبخدمت حضرت شاہ میفرستادند"۔
۱؎تذکرہ اولیائے ہندجلد ۳ ص ۲۵۔۲؎ثواقب المناقب ص۱۰۹۔ شرافت
فیض کاکھلنا
حضرت فقیر سیّد غلام محی الدین بخاری لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب تشریف الفقرا میں لکھاہے کہ آپ اخفاپسند تھے۔ہمیشہ گمنامی میں رہنااچھاسمجھتے یہاں تک کہ آ پ کا تعارف حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے ہوتاتھاکہ وہ پیر محمدجوحضرت شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ کے پیر بھائی ہیں۔آپ کاایک خادم تھاجوہمیشہ خدمت میں حاضررہتا۔وہ عرض کیاکرتا۔یامیاں صاحب آپ کو تو کوئی شخص جانتانہیں۔ہم جوآپ کے نام لیواہیں ہم کوکون پہچانےگا۔آپ نے ایک روز اُس کو کہاکہ باہرجاؤ۔ایک اجنبی درویش ملے گا۔اُس کو ہمراہ لے آنا۔چنانچہ وہ خادم باہر گیا۔آگے شیخ مہدی المعروف میاں ماجھی سُہروردی سندھی کی ملاقات ہوئی۔جو سیاحت کرتے ہوئے یہاں پہنچے تھے۔وہ ہمراہ لے آیا۔جب آپ کے ڈیرہ پرپہنچے توکشفی طورپرحقیقت حال سے آگاہ ہوئےاور فرمایاآج کے بعد آپ کا شہرہ تمام دنیا میں ہوجائے گا۔چنانچہ انہوں نے اپنی طرف سے بھی فیض عنایت کیا۔چنانچہ اُسی روز گردونواح سے مخلوق نوشہرہ میں آنی شروع ہوئی۔تاآنکہ ایک دن میں پانسو آدمی آپ کے حلقہ بیعت میں داخل ہوئے۔
پھراُن کوہمراہ لے کرآپ حضرت نوشاہ عالیجاہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچےتوآنجناب نے فرمایا۔ میاں پیرمحمد!جیسامیراادب و تعظیم کیاکرتے ہو۔اسی طرح میاں مانجھی رحمتہ اللہ علیہ کا ادب و احترام کیاکرنا۔
کثرت فیضان
علاّمہ شیخ محمد ماہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ ایک مرتبہ آ پ کے پیربھائی قاضی رضی الدین کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو کہااب تو بہت سالوں سے فیضانِ فقر کانصاب آپ کے پاس جمع ہوچکاہے۔اب بحکم واٰتوالزکوٰۃوہ وقت ہےکہ آپ حسب استعداد طالبان ان کو اپنے فیض سے بہرہ ور کیاکریں۔اُس روزسے آپ نے ہنگامہ مشیخت گرم کیا اور بکثرت لوگ فیضیاب ہوئے۔۱؎
۱؎ثواقب المناقب ص ۱۸ سیّد شرافت نوشاہی ۱۲۔
فیض ولایت
آپ ایک روز اپنے خادم میاں کالاکوہمراہ لے کرباہر سیر کو تشریف لے گئے۔ اتفاقاً ایک کنوئیں پر پہنچے ۔دیکھاکہ کسان اپنے کھیت کو تھوڑا تھوڑا پانی دے رہاہے۔آپ نے پوچھاکہ تھوڑاپانی دینے کی کیاوجہ ہے؟کسان نے عرض کیاکہ اگرزیادہ پانی دیاجاوے۔توکھیتی خشک ہوجاتی ہے۔فصل کی جڑیں ماری جاتی ہیں۔آپ نے فرمایاکہ ہم بھی اس سے پہلے طالبوں کو زیادہ فیض پہنچاتے تھے۔جس کی وہ برداشت نہ کرسکے۔اس کے بعد آپ ہر شخص کواُس کے حوصلہ کے مطابق تربیت فرماتے۔چنانچہ پندرہ ہزارشخصوں کو مقام ولایت سے سرفراز فرمایا
ہمہ یک بیک قطب عالم شند |
بدوراں چوشبلی دادہم شدند۱؎ |
گھوڑوں کی تجارت
حضرت شہمیر قلندر لاہوری رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک روز آپ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بیٹھے تھے۔دوسرے بھی کئی یارموجود تھے۔کوئی شخص ایک بچھیری یک سالہ آنجناب کی نذرلایا۔انہوں نے وہ آپ کو عطافرمادی اور فرمایا۔میاں پیرمحمد !اس کو لے لو ۔اس سے خداتعالیٰ تجھ کونفع کثیر دے گا۔چنانچہ اس کے بعد آپ نے گھوڑوں کی تجارت شروع کردی۔اُس ایک بچھیری سے بہت سارے گھوڑے آپ کے پاس موجود ہوگئے۔۲؎
معمولات
آپ شریعت مطہرہ کے پابند ۔نماز تہجدپر مواظبت کرنے والے۔صائم الدہر ۔قائم اللیل تھے۔ذکر ارّہ کاشغل عام رکھتے۔درود شریف ہزارہ اور قصیدہ غوثیہ کا ورد بھی رکھتے منزل قرآن مجید اور مطالعہ کتب حدیث و تصوّف رکھتے۔کبھی باغ کی سیر کو ۔کبھی دریاکی سیر کو تشریف لےجاتے۔
۱؎کنزالرحمت ص۱۰۴ ۲؎ تحائف قدسیہ ۱۲ سیدشرافت
اخلاق وعادات
آپ کےاخلاق کریمانہ تھے۔درویشوں،فقیروں کی صحبت پسند فرماتے۔اگر کسی شہر میں وارد ہوتے
تو وہاں کے مشائخ کی ملاقات کرتے۔علمائے ربانی کا ادب و احترام کرتے۔دنیاکے مال سے بے رغبت
تھے۔مشتبہ طعام سے پرہیز کرتے۔عورتوں کے اختلاط اوراُن کے مجلس میں آنے سے احتراز کرتے۔بلکہ غیر محرم کی آواز سننےسے بھی کانوں کو بچاتے ۔اپنے گھرمیں پردہ کا اہتمام رکھتے۔ اجنبی آدمی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیتے۔مریدوں کے احوال سے خبردار رہتے۔ مریدوں کوسلام وپیام بھیجاکرتے۔
پیر خانہ کی حاضری
منقول ہے کہ آپ ہرہفتہ کے بعد ہرجمعرات کو اپنے پیر روشن ضمیرحضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہواکرتےاوردورات سے زیادہ وہاں نہ ٹھہرتے۔
ادب وتعظیم
آپ کا طریقہ تھاکہ جب کبھی ساہنپال شریف جاتے۔تواُس کے حدود میں جوتی نہ پہنتے۔برہنہ پاؤں رہتے۔اب تک آپ کی اولاد کابھی یہی طریقہ ہے۔
پیرصاحب کامہربان ہونا
منقول ہے کہ کسی مرید نے کھیر پکاکرآپ کے سامنے حاضر کی ۔ آپ کوخیال ہواکہ اگریہ کھیر میرے مرشدارشد کھائیں تو بہترہوگا۔آپ نے وہ ہنڈیاسرپراٹھالی۔ اور روانہ ہوئے۔راستہ میں بارش شروع ہوگئی۔قطرات بارش سے ہنڈیاکی سیاہی کی دھاریں چہرہ پر بہتی رہیں۔جب آپ ساہنپال شریف خدمت عالیہ میں پہنچےاورکھیر پیش کی۔حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ آپ کاخلوص وعشق دیکھ کرآپ پر نہایت مہربان ہوئے اور آپ کاچہرہ اپنی چادر مبارک سے صاف کیااور فرمایاتونے ہماری محبت کے جذبہ میں چہرہ کے سیاہ ہونے کی پرواہ نہیں کی۔ ہم نےتیراچہرہ صاف و روشن اور منوّر کردیاہے۔چنانچہ اُسی وقت آپ کا چہرہ مثل چاند کے روشن ہوگیا۔
سخاوت و ایثار
منقول ہے کہ آپ کو تجارت میں سے جو منافع حاصل ہوتا۔اس کے تین حِصّہ کرتے۔ایک حِصّہ درگاہِ عالیہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ میں بھیجاکرتے۔دوسراحِصّہ اپنے گھرکےخرچ کے لیے رکھتے۔تیسرا حِصّہ خداتعالیٰ کی راہ میں فقیروںمسکینوں کودیدیاکرتے۔۱؎
۱؎تحائف قدسیہ ص۱۴۵ سید شرافت
فائدہ
اپنے مال کوراہِ خدامیں صرف کرنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد سے سبکدوش ہونے کیواسطے حِصّے مقررکرنامعمول مشائخ رہاہے۔چنانچہ
۱۔شیخ حمزہ دھرسوکوجو فتوح آتی اُسی روز تقسیم کردیتےاور اہل خانہ کو دوسروں کی مثل دیتے۔۱؎
۲۔شیخ محمد بن فضل اللہ فتوح کے تین حِصّے کرتے۔ایک ثلث عیال کو۔ایک ثلث فقراکو۔ایک ثلث مدینہ طیّبہ کو بھیجتے۔۲؎
صبرو تحمل
آپ کے مزاج میں صبروتحمل کے اوصاف موجودتھے۔آپ کی ہمسائیگی میں جو مغل رہتے تھے۔وہ آپ کوتکلیف پہنچایاکرتے۔مگرآپ برداشت کرتے اور کبھی اُن سے انتقام نہیں لیا۔۳؎
یاروں کولقب دینا
آپ کا طریقہ تھاکہ اپنے بعض خواص یاروں کو القاب سے مشرف فرمایاکرتے چنانچہ سید حافظ قائم الدین سبزواری کو "برقنداز" اور شیخ بخت جمال جھنگیوالہ کو "تیرانداز"اورمیر شاہ سلطان لکھنوالی کو"بگاشیر"اور شہمیر قلندر لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کو "مرشد پیر"اور حافظ محمد قصوری رحمتہ اللہ علیہ کو"عاشق حضوری"اورسید نتھےشاہ خوارزمی سوہدروی رحمتہ اللہ علیہ کو "سلطان"کےخطابات و القاب عنایت فرمائے۔
ریاکاری سے بندکرنا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شہمیرقلندرلاہوری او رمیاں عابدستگھروی کسی گاؤں میں گئے وہاں کے لوگوں نے اُن کو کھانانہ پوچھا۔وہ رات کوخود ذکرجہر میں لگ گئے۔جس سے اُن کا مطلب یہ تھاکہ لوگ ہماراذکرسن کر ہمارے معتقد ہوجائیں اور ہمارے لیے کھانالاویں۔آپ نے ازراہِ کشف اُن کے ضمیر سے آگاہ ہوکرغائبانہ اُن کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اوراس ریاکاری اورطمع کاذکرسے بند کیا۔۴؎
۱؎تذکرہ اولیائے ہندجلد ۲ ص ۶۶۔۲؎تذکرہ اولیائے ہندص ۸۹۔۳؎تحائف قدسیہ ص۱۶۹
۴؎تحائف قدسیہ ص۲۲۷ شرافت
حوصلہ وبُردباری
ایک روزآپ میاں کالاکوہمراہ لے کر کہیں تشریف لے جارہے تھے ۔راستہ میں بارش شروع ہوگئی۔آپ فقیروں کے ایک تکیہ میں داخل ہوئے۔وہ درندوں کا ڈیرہ تھا۔انہوں نے آپ کو نکال دیا۔کہ کہیں مسجد تلاش کرو۔آپ وہاں سے چل دیئے۔لیکن کوئی غصّہ نہیں کیا۔صاحب کنزالرحمت نے لکھاہے
زہے حوصلہ کاملانِ زماں |
نہ ہرگز نمودندخاطر گراں |
فقروفاقہ
آپ اگرچہ تجارت پیشہ تھے۔لیکن اکثراپناسب مال راہِ خدامیں صرف کردیا کرتےاورخود فقیرانہ زندگی بسرفرماتے۔اہل خانہ پر سات سات دن فاقہ کے گذرجاتے۔
اخفائے احوال
آپ اپنے احوال کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے۔کسی قسم کاتکبرو عجب آپ میں نہ تھا۔گھوڑوں کی
لید اپنے ہاتھوں سے اٹھاکرباہرپَھینکتے۔باوجودیکہ آپ کے خادم اور ارادت مند بےشمارتھے۔لیکن کسی کو نہ فرماتے۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کی زیارت کے واسطے آیا۔اس وقت آپ پھاوڑی سے گھوڑوں کی لید ہٹارہےتھے۔اُس نے پوچھاکہ سچیارصاحب کہاں ہیں۔آپ نے فرمایا۔اُس کو کیا پوچھتے ہو وہ تو لوگوں کے برخلاف کام کرتاہے۔وہ شخص آپ کوپہچانتانہ تھا۔اُس نے کہا اے بُڈھے! اگر تیرے بوڑھاپے کا خیال نہ ہوتاتومیں تجھ کو سزادیتا۔آخر جب اُس کو پتہ چلاکہ آپ بذاتِ خود ہی تھے۔تووہ آپ کا قدمبوس ہوا۔اور اپنی باتوں کی معافی لی۔۱؎
۱؎تحائف قدسیہ ص ۱۴۵۔ شرافت
مشتبہ طعام سے نفرت
آپ شبہ والے کھانے سے پرہیزکیاکرتے۔چوری پیشہ لوگوں کا نذرانہ اور اہل حکومت کا نذرانہ بالکل قبول نہ کرتے۔شاید کہ یہ مال حلال نہ ہو۔
قسمت پر شاکر رہنا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ مرض اسہال سے بیمارہوگئے ہرچند علاج کئےمگرکچھ افاقہ نہ ہوا۔ایک روز آپ کے درویش شیخ محمد سوہدروی نے عرض کیا۔ یاقبلہ!آپ پرہیزتو کسی چیزسے کرتے نہیں۔فائدہ کیسے ہو؟آپ نے فرمایامجھے یہ بتاؤ کہ میں پرہیز کس چیزسے کروں ۔جومیری قسمت میں ہے ۔یاجومیری قسمت میں نہیں۔
مطلب یہ کہ جوچیزقسمت میں ہے ۔اس سے پرہیز ممکن نہیں اورجوچیز قسمت میں نہیں۔اس سے پرہیزکامطلب کوئی نہیں۔وہ خودہی نہیں ملے گی۔۱؎
پیربھائیوں سے محبّت
آپ کواپنے پیربھائیوں سے بہت محبّت تھی۔خصوصاًحضرت شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کومواخات اورموانست تھی۔صاحب مرأۃ الغفوریہ نے لکھاہےکہ کسی شخص نے آپ کو آکرخبردی کہ حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ انتقال فرماگئے۔آپ سن کر نہایت محزون و متاسف ہوئے اور زبان سے فرمایارَضِینَا بِقَضَآءِ اللّٰہِ (ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے راضی ہیں)اوردوگانہ نفل اداکیااوردریاکی طرف تشریف لے گئے اور برلبِ دریاپہنچ کر ہاتھ اُٹھائےاوریہ دلپاش کلمات منہ سے ادافرمائے۔
"مرن نہ بھائی بھج جاہن نہ باہاں |
کول وسندیاں دیاں مینوں لکھ پناہاں" |
اورایک دَرد بھرانعرہ ماراکہ سننے والاچِلّا اُٹھے۔کسی یارنے دوگانہ نفل پڑھنےکا سبب پوچھاتو آپ نے فرمایااُس عزیزنے ایک نازک کام میں ہاتھ ڈالاتھا۔خداکاشکرہے کہ جس طریق پر ہاتھ ڈالاتھا۔اللہ تعالیٰ نے اس کو خوبی سے انجام کو پہنچادیا۔
فائدہ۔
اولیأاللہ کے سامنے مسافت کابُعد کوئی رکاوٹ پیدانہیں کرسکتا۔وہ دُور سے بھی ایساہی دیکھتے ہیں۔جیساقریب سے۔منقول ہے کہ شیخ نجم الدین صغرےٰ دہلی میں فوت ہوئے اور شیخ جلا ل الدین تبریزی نےان کاجنازہ بدایون میں پڑھا۔۲؎
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲ تذکرہ اولیائے ہند جلدا ص۵۵۔
وجدو سماع
آپ سماع سنتے تھےاور وجدبھی ہوتاتھا۔آپ محفل قوالی میں حاضرین پر نگاہ کرتے تووہ مذبوح جانورکی طرح پھڑکتے تھے۔میاں الٰہ داد قوال آپ کو صوفیانہ کلام سُناکر محظوظ کیا کرتا۔آپ کو کنجریوں کاراگ سننے سےنفرت تھی۱؎۔آپ اکثر اوقات ذوق وشوق سے ھا و ھوکے نعرے
لگاتےتھے۔۲؎
حلیہ اقدس
آپ شاہ قد تھے۔داڑھی بھاری۔سر پر زلفیں تھیں۔ضعیف العمری کی وجہ سےدونوں ابروآنکھوں پرلٹکے ہوئے تھے۔اگرکسی کو دیکھناہوتاتوابرواٹھاکردیکھتے۔۳؎
لباس
آپ کا لباس سادہ ہوتاتھا۔سرپردستار بغیر ٹوپی کے پہنتے۔اوپرچادر یاسیاہ کنبل رکھتے۔لباس میں کوئی نمائش و آرائش نہ ہوتی۔ہاتھ میں عصارکھتے۔
ایک روزآپ نے اپنی دستارچُننے کے واسطے حضرت شہمیر قلندر لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کودی۔چونکہ دستار مَیلی تھی۔اس لیے انہوں نے عر ض کیا۔کہ آپ اس کے نیچے ٹوپی رکھاکریں۔تاکہ بالوں کی چکناہٹ سے دستار خرابہ نہ ہواکرے۔آپ نے فرمایامیں اس مکروفریب کو نہیں جانتا۔یہ سب نفس کے لیے زیبائش ہے۔۴؎
ایک مرتبہ کسی آدمی نے سُرخ کھال سے جوتی تیارکرکے بوساطت شہمیر آپ کو نذرانہ کی ۔آپ نے قبول کرلی اور اس کو پاؤں میں پہنا۔۵؎
آپ کاکھانابھی سادہ ہوتاتھا۔ایک مرتبہ شاہ نتھاسلطان نے سوہدرہ سے کھیر پکاکرخدمت میں حاضر کی ۔آپ نے بمعہ یاران تناول فرمائی۔۶؎
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲۔۲؎رسالہ احمد بیگ۱۲۔۳؎تحائف قدسیہ ص۱۵۶۔۴؎تحائف قدسیہ ص ۲۲۵۔ ۵؎تحائف قدسیہ ص۱۸۷۔۶؎تحائف قدسیہ ص ۱۸۵۔سید شرافت
فضائل وکمالات
آپ کی ذات سراپاکمالات تھی۔سب محاسن آپ کے وجودشریف میں جمع تھے۔
سچیارکالقب ملنا
آپ کانام تو پیرمحمد تھا۔درگاہِ شیخ سے لقب سچیار ملا۔اس کا واقعہ اس طرح پر مشہورہے کہ ایک مرتبہ حضرت نوشاہِ عالی جاہ سیالکوٹ کی طرف روانہ ہوئے ۔درویشوں کی جماعتِ کثیرحضور کے ہمراہ تھی۔اس وقت آپ کا ابتدائی زمانہ تھا۔دریائے چناب کے کنارہ پر مصروف عبادت رہاکرتے تھے۔نوشہرہ مغلاں میں آپ کا کوئی واقف کار نہ تھا۔آنجناب نے آپ کوپیغام بھیجا کہ ہمارے آنے تک سارے ڈیرہ کی روٹی کا سامان اور ایک گھوڑا اور ایک جوڑا کپڑے اور سونے کے کڑے اور سو روپیہ نذرانہ کے واسطے تیاررکھنا۔جب آپ کوپیغام ملاتو سخت متفکرہوئے ۔کہ آج میرا امتحان ہے۔چنانچہ آپ مصلّا سے اُٹھے اور شہر میں داخل ہوئےاورآوازدی کہ کوئی شخص میراسر گروی رکھ لےاورمیری حاجت پوری کرے۔مغلوں کی ایک رئیسہ بی بی آپ کے اعتقاد مندوں سے تھی۔اس نے فوراًسامان مہیّاکرکے آپ کو دے دیا۔آپ اپنے ڈیرہ پر لے گئے۔جس وقت حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے تو آپنے سب ماحضر حضور میں پیش کردیا۔آنجناب نے سارے واقعہ سے مطلع ہوکرخوشی کا اظہارفرمایا۔اورارشاد کیا۔اے پیر محمد!توہمارا سچّ یارہے اور امتحان میں کامیاب ہواہے۔اُس روز سے آپ کا لقب سچیارمشہورہوگیا۔
نوشہ سچیار
آپ کواپنے پیرروشن ضمیر نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے محبّت اورعشق اس حد تک تھاکہ اپنی ہستی کو مٹاکراُن کی ذات میں فناکرکے فنافی الشیخ کامرتبہ حاصل کیاتھااور پیرو مرید میں یہاں تک یگانگت ہوگئی تھی کہ ان کا نام بھی ایک ہوگیاتھا۔عوام الناس آپ کو "نوشہ سچیار" کہتے ہیں اورآپ دربارکو "نوشہ سچیار کادربار" کہتے ہیں۔
حافظ الحدیث ہونا
مولوی حافظ نورالدین قادری نوشاہی گنجوی رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب خزینتہ الفقرأ میں لکھاہےکہ حضرت سچیاررحمتہ اللہ علیہ علامتہ الدہرتھے۔آپ کو آٹھ ہزار حدیث نبوی یادتھی اور آپ حافظ الحدیث تھے۔
اولادِ سچیاریہ کودعا
منقول ہے کہ ایک روزآپ سیرفرماتے ہوئے ایک کنوئیں پر تشریف لے گئے۔وہاں کسان ایک اجنبی لڑکے کو مارپیٹ رہا تھا۔آپ نے مارنے کا سبب پوچھاتو کسان نے کہاکہ اس نےمیرے کھیت سے گاجریں چورائی ہیں۔آپ نے اُس لڑکے کوچُھڑالیااور پوچھااے لڑکے توکون ہے؟اورکہاں سے ہے؟لڑکے نے کہا۔میراوطن بھلوال ہے اورسخی شاہ سلیمان نوری رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے ہوں اور میں نے شدّت بھوک کی وجہ سے یہ کام کیاہے۔ آپ کواپنے پیرداداکانام سُن کر دل میں بڑااحترام آیا۔اُس لڑکے کو غسل دلواکرنئے کپڑے پہنائے اوربڑی عزت وتعظیم سے رخصت کیااور خود موضع ساہنپال شریف میں حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہوئےاور عرض کیایاقبلہ!ہمارے دادامرشد کی اولادکاافلاس اور غربت سے یہ حال ہے۔تومیری اولاد کاکیاحال ہوگا۔اگران کے ساتھ ایسامعاملہ ہواتومیرادل سخت کانپ رہاہے
چگو نہ شود حالِ اولادِ من |
فتادم دراندیشۂ زیں سخن |
باولادِ من گرشود ایں چنیں |
بلرزدازیں بیم گاؤزمیں |
آنجناب نے فرمایاکہ تم کوئی غم نہ کرو۔تمہاری اولاد کے ساتھ ایساسلوک نہ ہوگا۔جوتمہاری اولاد ہے۔وہ ہماری اولادہےاور جوتمہارے یار ہیں۔وہ ہمارے یار ہیں۔دنیامیں اُن کی گذران آسائش سے ہوگی
زبینندرنج وتعصب درجہاں |
بدنیانباشندمحتاج ناں۱؎ |
یارانِ سچیاریہ کودعا
منقول ہے کہ ایک بارحضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر خاص حالت وارد تھی۔آپ بھی اس وقت موجود تھے۔آنجناب نے آپ کو مخاطب ہوکرفرمایا۔
"پیرمحمد!تیرے یار۲؎سومیرے یار۔تیرےیاراں دے یار سومیرے یارا۔گے اونہاندے یارسو میرے یار"۔۳؎
۱؎کنزالرحمت ص۱۰۹۔۲؎مراۃ الغفوریہ میں یہ قول حضرت سچیارکاہے اپنے مریدوں سے متعلق ہے۔۳؎انوارالقادریہ ۱۲سید شرافت
صاحب کنزالرحمت نے لکھاہے کہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے آ پ کو فرمایا۔"تمہارے مرید جہاں جائیں گے۔ہم اُن کےساتھ ہوں گے۔قیامت کے دن وہ ہمارے جھنڈاکے نیچے ہوں گےاوردیدار الٰہی سے مشرف ہوں گے"۔آپ یہ خوشخبری سن کے بڑے خوشدل ہوئے۔۱؎
دین ودنیاکاحصول
منقول ہے کہ جب حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کاوقتِ وصال قریب ہواتواکثریارانِ حضورحاضر تھے۔آنجناب نے سب کو فرمایاکہ جس جس چیز کی کسی کو حاجت ہو اس وقت طلب کرے۔سب نے اپنے مقاصد بیان کئے۔آپ کو بھی فرمایا۔پیرمحمد!تم بھی طلب کرو۔ آپ نےعرض کیایاقبلہ!مجھے دین اوردنیادونوں مطلوب ہیں۔آنجناب نے دعائے خیر فرمائی اور ارشاد کیاکہ تمہارے سلسلہ میں دونوں چیزیں ہوں گی۔چنانچہ زمانہ حاضرہ تک اس دعائے نوشاہیہ کا اثر اولاد اور فقرائے سچیاریہ میں موجودہے۔علّامہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نے اس شعر میں اس کااشارہ فرمایاہے
مریدش گرچہ دنیادارباشد |
حریفِ مالکِ دینار باشد |
مقامات
آپ کو مقامات ومراتب فقر میں کمالات حاصل تھے۔
۱؎کنزرحمت ص ۱۱۰ سید شرافت نوشاہی ۱۲۔
مقام صدیقیت
آپ کو مقام صدیقیت حاصل تھا۔بوجہ صدیق ہونے کے آپ کوسچیارکہاگیا ہے۔پنجابی زبان میں سچیار۔صدیق کوہی کہتے ہیں۔صدق وراستی تصوّف میں بڑا بلند مقام ہے۔
۱۔خزینتہ الاصفیأ جلد اوّل میں ہے۔"ازانجاکہ براستی وصدق وورع و تقوےٰموصوف بود۔حضرت شاہ اورابہ پیرمحمد سچیاریعنی راستگو مخاطب کرد"۔
۲۔گنج تاریخ میں ہے۔"دازعنایت صدق و راستی ۔بخطاب سچیار یعنی راستگومخاطب بود"۔
۳۔حدیقتہ الاولیأاور تحفتہ الابرارمیں ہے۔"چونکہ آپ صدق و راستی میں لاثانی تھے۔اس لیے سچیارکے خطاب سےمخاطب ہوئے"۔
۴۔فیض مصطفائی المعروف گلزارنوشاہی میں ہے۔"آپ ہردم سچی بات اپنے شیخ کامل انسان کے رُوبرو بیان فرمادیتے۔اس واسطے حضرت حاجی کعبہ نےآپ کو سچیارپاک کے لقب سے نوازا"۔
۵۔عرس اورمیلے میں ہے۔"پیرسچیارکااصلی نام شیخ پیرمحمد تھا۔سچائی راستی اورصدق وصفا کے باعث سچیار(سچے)کے نام سے مشہورہوئے"۔
بہرکیف آپ کومقام صدق پوراپوراحاصل تھااور صدیقِ وقت تھے۔
کرامات
آپ سے بے شمار خوارق و کرامات ظاہر ہوتے تھے۔کشف و تصر ف میں آپ کا مقام بہت بلند تھا۔
کشف واقعہ
منقول ہے کہ ایک بارکھاناتیارتھااورتمام یارانِ طریقت موجود تھے۔لیکن آپ لنگرتقسیم نہ کرتے ۔سب دوستوں کو خیال ہوا کہ شاید وجہ تاخیر کیاہے؟آپ نے اُن کے ضمیر سے آگاہ ہوکرفرمایا۔اس وقت شاہ نتھاسلطان آرہے ہیں۔اُن کے آنے پر کھاناتقسیم کیاجائےگا۔ چنانچہ اسی وقت شاہ نتھاسوہدروی رحمتہ اللہ علیہ حاضرہوئے۔پھرآپ نے کھاناسب کو تقسیم کیا۔۱؎
فائدہ
یہ واقعہ عین اس واقعہ سے مشابہ ہے ۔جو احادیث میں آیاہے کہ ایک روز حضرت رسالت مآب صلے اللہ علیہ وسلم نےفرمایاالان یدخل سیدالمسلمین(اس وقت مسلمانوں کاسردارآرہاہے)فاذاطلع علی(پس اُسی وقت علی المرتضےٰ رضی اللہ عنہ آگئے)۲؎
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲ ۲؎کتاب التفسیرلابن مردویہ بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ۔
کشف مقامات
منقول ہے کہ جس وقت حضرت خواجہ فضیل کابلی رحمتہ اللہ علیہ زیارت حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ سے مشرف ہوئےاورآنجناب نے ایک ہی نگاہ سے ان کو مقام ولایت پر پہنچادیا۔اس وقت آپ بھی مجلس میں حاضرتھے۔آپ نے خواجہ کو بشارت دی کہ میرے پیرروشن ضمیرنے تم کوحضرت ابراہیم بن ادہم بلخی رحمتہ اللہ علیہ کے ہم مرتبہ بنادیاہے اور جو خزانہ اسرارتم پر کھولاہے۔اس کو ضائع نہ کرنا۔۱؎
فراخی رزق کی خبردینا
ابتدائے احوال میں آپ پر عسرت وافلاس کادَورہ تھا۔سات سات روز تک اہل خانہ کوفاقے آتے۔ایک دن شدّت فاقہ سے آپ کی اہلیہ محترمہ زمین پر سرنگون پڑی تھیں۔آپ کو اُن کی حالت پر رحم آیا۔فرمایااے بی بی!چولھے میں آگ سلگاؤ اور دیگدان چڑھاؤ ۔اب تنگی کادَورگذرااورفراخی
کازمانہ آیا۔چنانچہ اس روز سے بکثرت فتوح آنی شروع ہوگئی اور پھر تکلیف کا منہ نہ دیکھا۔۲؎
درخت کاسرسبزہونا
منقول ہے کہ ابتدائے زمانہ میں آپ دریائے چناب کےکنارہ پر جاکرعبادت کیاکرتے۔صاف میدان میں بوریابچھاکرمشغول رہتے۔گرمی و سردی سے بچاؤ کے واسطے کوئی صورت نہ تھی۔ایک روز ایک ضعیفہ جو قوم ماچھی سے تھی۔لکڑیاں چُننے کے واسطے گئی۔ آپ کو دوپہرکےوقت دھوپ میں بیٹھے دیکھ کر اُس کو رحم آیااورعرض کیا۔فقیرصاحب اگرچاہیں توآپ کے سایہ کے واسطے ایک جھونپڑی تیارکردوں۔آپ نے فرمایامائی تیرے ہاتھ میں کیاچیز ہے؟اس نے عرض کیایہ کُڈھنی ہے۔اس سے تنورمیں آگ کو پھولاجاتاہے۔آپ نے فرمایایہ مجھے دے دو۔اس نے دے دی۔آپ نے اس کو زمین میں گاڑدیا۔امرِ الٰہی سے وہ اسی وقت سرسبز ہوگئی۔ جوبعدازاں عظیم الشان شرینہ کادرخت بنا۔اُس کے پتوں سے بخار سوم و چہارم و اٹھراوڈبہہ کےبیمار شفاپاتے تھے۔وہ یادگاردرخت ۱۳۰۹ھ میں دریابردہوگیا۔
۱؎رسالہ احمد بیگ ص۳۱۰۔ثواقب المناقب۱۲۔۲؎تحائف قدسیہ ص ۱۴۸۔سید شرافت۔
ایک مفلوج کو تندرست کرنا
منقول ہے کہ ایک عورت کا بچہ مرض فالج سے سخت بیمارہوگیا۔ بہت علاج کیے ۔مگرکوئی فائدہ نہ ہوا۔آخر ہر طرف سے مایوس ہو کر وہ آ پ کی خدمت میں لائی۔ آپ نےدعافرمائی تو وہ بالکل تندرست ہوگیا۔بعدازاں اُس عورت کے اعتقاد میں فرق آگیا۔وہ کہتی کہ میر بچّے کو سخی سرورسلطان کی برکت سے شفاہوئی ہے۔چنانچہ جب نگاہہ کامیلہ آیا تو وہ اپنے بیٹےکووہاں لے گئے۔بیٹے نے ہرچند کہاکہ مجھے نوشہرہ لے چلو۔مگرعورت نےنہ مانا۔جب روضہ سخی سروررحمتہ اللہ علیہ کے اندرداخل ہوئے تواسی وقت پھرلڑکابیمارہوگیا۔بلکہ پہلے سے بھی زیادہ تکلیف میں مبتلا ہوا۔والدہ کو کہا کہ اگرمیری خیر چاہتی ہے تو مجھے حضرت سچیار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس لے چل۔چنانچہ وہ عورت تائب ہوئی اورلڑکے کو بیل پرسوارکرکے آپ کی خدمت میں لائی۔آپ نے توجہ فرمائی تو لڑکے کو شفائے کلی نصیب ہوئی۱؎
ایک مفرور عورت کو واپس لانا
منقول ہے کہ نوشہرہ میں ایک جاٹ تھاجوخودتو ضعیف تھا۔مگراس کی بیوی نوجوان اورخوبصورت تھی۔وہ کسی شخص کے ساتھ اغواہوکرچلی گئی۔ جاٹ نے بہتیری تلاش کی مگرکہیں سے سراغ نہ ملا۔آخر حضورکی خدمت میں حاضرہوا اور اپنی محبوبہ کے ہجروفراق سے روتاہوااُس کی واپسی کے لیے ملتجی ہوا۔آپ کواس کی حالت زارپررحم آیا اورفرمایا۔آج رات کو گھرآجائے گی اورپھرکبھی نہ جائے گی۔چنانچہ آپ کے تصّرف سےوہ شام کو واپس آگئی اور پھرتمام عمراپنے بوڑھے شوہرکی خدمت میں رہی۔۲؎
۱؎کنزالرحمت ص ۱۰۶۔۲؎ثواقب المناقب ص۱۸۲۔شرافت
سلطان الاذکارجاری کرانا
منقول ہے کہ ایک روزایک درویش جوشغل حبس دم میں مشغول رہتاتھا۔آپ کی مجلس مبارک میں حاضرہوا۔آپ نے ازراہِ کشف اس کا طریق معلوم کرکے فرمایااے درویش! اگرتوچاہے تو تجھ کو حبس نفس کی قید سے چھڑاکرسلطان الاذکارسے آشنا کردیں اورتیرے بال بال سے ذکرالٰہی جاری ہوجائے
اگر خواہی زحبس آزاد باشی |
غلامِ عشقِ مادرزاد باشی |
زہرموئے بدن حاصل کنی ذکر |
چوبوئے غنچہِ جزوِدل کنی ذکر |
بُرم دریک نفس بالائےبامت |
کہ ہندوئے فلک گرددغلامت |
آپ نے اُس پرایسی توجّہ فرمائی کہ اس کا تمام بدن ذاکرہوگیااور مرتبہ بلند پر فائزہوا
دیدِمحوِ صفاپیالہ خویش |
یافت ذوقِ مئے دوسالہ خویش |
گشت مانندچینیِ مُودار |
موبمویش زبانِ نالہ خویش۱؎ |
مٹی کو کیمیابنانا
منقول ہے کہ مخلوق خداجوق درجوق آپ کی خدمت میں حاضرہواکرتی تھی۔لیکن آپ کے دولت کدہ میں فقروفاقہ کااکثردَورہ تھا۔ایک مرتبہ ایک کیمیاگرجوگی ملک دکن سے خدمت میں حاضر ہوا۔آپ کے مصارف کی فراوانی اور فقروفاقہ کاہجوم دیکھ کر اس نے اکسیر کی ایک ڈبیہ نذرانہ میں پیش کی اور عرض کیا۔کہ اس کے استعمال سے چند من تانبہ خالص سونابن جائےگا۔آپ نے فرمایااس کو فلاں طاقچہ میں رکھ دو۔وہ رکھ کر چلاگیا۔عرصہ دراز کے بعد وہ پھر آیا۔ تووہی حال دیکھا۔اُس نے عرض کیاجناب عالی میں آپ کواکسیر کی ڈبیہ دے گیاتھا۔اگرآپ اس کو استعمال کرتے تواس قدرسونابن جاتاجو تین پشت تک آپ کے اولاد کے کام آتا۔آپ نے جب یہ کلام سناتوبیت الخلأ میں گئےاوراپنارومال وہاں چھوڑآئے۔کیمیاگرکوفرمایاکہ جاؤ ہمارارومال اٹھا لاؤ۔جب وہ جوگی بیت الخلامیں گیاتودیکھاکہ وہاں کی تمام مٹی سونابنی ہوئی ہے۔یہ حال دیکھ کر وہ سخت متعجب ہوااور اپنی اکسیرکوبھول گیا۔حضور نے فرمایامردِ خدا کو ایسی کیمیاسیکھنی چاہئیے ۔جو کبھی ختم نہ ہو ۔ہم کو سونے چاندی سے کوئی سروکارنہیں۔ہم اگرچاہیں تودرودیوار کو بھی سونا بنادیں۔ مگر پھر فقر کی چاشنی نہیں رہتی۔وہ جوگی طاقچہ سے اپنی ڈبیہ لے کرچلتابنا۔۲؎
۱؎ثواقب المناقب ص۱۸۷۔۲؎کنزالرحمد ص ۱۰۵۔شرافت
فائدہ۔
اولیأاللہ کوظاہر ی کیمیاگری سے نفرت ہوتی ہےاور اگرچاہیں تو اپنی نظر سے مٹی کو سونا کرسکتے ہیں۔ایسے کئی واقعات بزرگوں سے منقول ہیں۔
۱۔شیخ محمدمتوکل کنتوری (خلیفہ چراغ دہلی ) کے پاس ایک جوگی آیااور سوناکردکھایا۔انھوں نے کوئی توجہ نہ کی۔۱؎
۲۔خواجہ کبیرالاولیأپانی پتی کے صاحبزادہ کو کسی کیمیاگر نے کیمیاسکھاناچاہا۔انہوں نے نگاہ کی ۔توتمام حجرہ جوسوناکردیا۔۲؎
۳۔خواجہ کبیرالاولیأ نےایک جوگی کا پارس لے کر غار میں پھینک دیا۔جب وہ بجدہواتواس کوغارکے تمام پتھرپارس نظرآئے۔۳؎
۴۔ایک سنیاسی نے اکسیر سے تانبہ کو سونا بنادیااور شیخ نظام الدین نے تھوک سے سونابنادکھایا۔۴؎
۵۔سیّد عماد الملک غازی لاہوری کوکسی نے پارس دیا۔انہوں نے مصلّے کے نیچے رکھ دیاجب وہ مدّت کے بعدآیااورپوچھاتوانہوں نے فرمایامصلّے کے نیچے دیکھو۔چنانچہ دیکھاتو اس طرح کے کئی پارس
نظر آئے۔۵؎
۶۔سلطان جلال الدین قریشی چشتی اگرمس پر پھونکتے تو وہ سونابن جاتا۔۶؎
۱؎تذکرہ اولیائے ہند جلد۱ص۱۳۹۔۲؎تذکرہ جلد۲ص۱۸۔۳؎تذکرہ جلد۲ص۲۱۔۴؎تذکرہ جلد ۲ ص ۱۲۲۔۵؎تذکرہ جلد ۳ص۱۶۳۔۶؎تذکرہ جلد ۲ص ۵۷۔سید شرافت
دہلی کاتماشہ لاہور میں دکھانا
منقول ہےکہ ایک مرتبہ آپ بعالم تجرید لاہورتشریف لے گئے۔زیارات مزارات بزرگاں سے مشرف ہوئے پھروہاں میر قادری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہوئے۔اس وقت شہزادہ دارشکوہ اور دوسرے کئی لوگ بھی مجلس میں شامل تھے۔آپ سلام نیاز کرکے مجلس میں بیٹھ گئے۔کسی نے آپ کو نہ پہچانا۔کچھ دیر کے بعدآپ متبسّم ہوئے ۔حاضرین کوآپ کا ہنسناخلافِ ادب محسوس ہوا۔داراشکوہ نے ہنسنے کی وجہ پوچی۔تومیاں میررحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاکہ آج قلعہ دہلی میں نوروز کی تقریب میں بادشاہ کے سامنے طوائف مجرہ کررہی ہے۔تمام سامان عیش وعشرت موجود ہیں۔یہ درویش وہ تماشہ دیکھ کر ہنساہے ۔داراشکوہ نے عرض کیاکہ یا حضرت !ہماری آنکھوں سے بھی پردہ ہٹائییے۔تاکہ ہم بھی تماشہ دیکھ سکیں۔میاں میر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاکہ مجھے تو اتنی طاقت حاصل نہیں ۔البتہ اگریہ درویش چاہے تو دکھاسکتاہے۔چنانچہ داراشکوہ نے آپ سے التماس کی ۔آپ نے ایساتصرف کیا۔کہ قلعہ دہلی وہیں حاضرکردیااور تمام لوگوں نے بچشم ظاہروہ تماشہ دیکھا۔ختم ہونے پر پھرآنکھوں سے مخفی ہوگئےاور آپ واپس تشریف لائے۔۱؎
فائدہ۔
آپ کایہ تصرّف بالکل حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ عنہ کے تصرّف کے مطابق ہے۔جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم کے مطابق علم الکتاب کے ذریعہ سے آنکھ چھپکنے میں بلقیس کو تخت شہرسباسے وہاں حاضرکیاتھا۔علم الکتاب سے اکثر مفسروں نے اسم اعظم مراد لیاہے۔توظاہر ہواکہ حضرت سچیاررحمتہ اللہ علیہ کو بھی اسم اعظم حاصل تھا۔
خدمتگارکتّے
منقول ہے کہ آپ کو اکثر اسہال رہتی تھی۔دوکتّے آتے اور آپ کا فضلہ صاف کرجایاکرتے۔آپ فرماتے خداتعالےٰ کاشکر ہے کہ اُس نے ہم کو یہ دو خدمتگار دیئے ہیں۔جو بے لوث خدمت کرتے ہیں۔۲؎
حضرت پاک صاحب کی مدد کرنا
منقول ہے کہ جس وقت حضرت شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ کو علمائے وقت نے احتساب کے واسطے لاہوربلایا۔اس وقت آپ کو بھی غائبانہ طورپرآگاہی ہوئی۔آپ تین میل کا فاصلہ گاؤں سے باہرنکل کر اپنے اوپر کنبل اوڑھ کر زمین پر لیٹ گئے۔دیر کے بعد اُٹھےاور فرمایاکہ میں نے حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے اپنےبھائی کی جان بخشی کرادی ہے اور حق تعالےٰ کے سُپرد کردیاہےاور حضرت رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کواُن کی مددکے لیے عرض کردیاہے۔۳؎
۱؎تحائف قدسیہ ص ۱۶۵۔۲؎ تحائف قدسیہ ص ۲۱۹۔سید شرافت
حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد پر احسان
منقول ہے کہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ اپنے خلیفہ عاشق شیخ صدرالدین رکھانوالہ رحمتہ اللہ علیہ پر نہایت مہربان تھے۔یہاں تک کہ سب یاران نوشاہِ عالیجاہ رحمتہ اللہ علیہ کو شُبہ پیداہوگیا۔کہ کہیں ان کو اپناگدی نشین نہ بنا جائیں۔آخر سب نے متفقہ طورپر حضرت سچیار رحمتہ اللہ علیہ کے ذریعہ حضور پُرنور کے آگے التماس کی کہ عالی جناب اپنے فرزندوں یاپوتوں میں سے کسی کو اپنانائب وخلیفہ بنائیں ۔چنانچہ آنجناب نے آپ کی التماس کوقبول کرتے ہوئے اپنے بڑے بیٹے حضرت سیّد حافظ محمد برخوردار بحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ کو اپنا خلیفہ وسجادہ نشین بنایا۔
یہ واقعہ کتب خاندان رسالہ احمد بیگ ۔تذکرہ نوشاہیہ ۔انوارالقادریہ ۔کنزالرحمت کلید گنج الاسرار میں مفصل مذکورہے۔
فائدہ۔
حضرت سچیار رحمتہ اللہ علیہ کاساداتِ برخورداریہ پر یہ خاص احسان ہے کہ ان کو حضرت
نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی سجادگی کاوارث بنایا۔
شاہ عصمت اللہ پر مہربانی
منقول ہے کہ ابتدائے احوال میں حضرت سیّد شاہ عصمت اللہ برخورداری رحمتہ اللہ علیہ پرعُسرت کادَورہ تھا۔ایک مرتبہ آپ درگاہِ عالیہ نوشاہیہ پرحاضر ہوئے۔ انہوں نےفقرو فاقہ کی حقیقت بیان کی۔آپ نے فرمایاصاحبزادہ صاحب میں آپ کے گھرحاضرہو کر دعاکروں گا۔چنانچہ آپ ان کے دولت خانہ پر تشریف لے گئےاوراُن کے حق میں دعائے خیر کی۔اُس روز سے اُن پرفتوحات کے درواز ے کھل گئےاورلنگر جاری ہوگیا۔۱؎
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲سیّد شرافت
اپنے حقیقی نائب کی خبردینا
منقول ہے کہ ایک بار یارانِ حضور نے آپ کے سامنے عرض کیا کہ آپ کی نسبت باطنی کا صحیح وارث اور آپ کا حقیقی نائب کو ن شخص ہے۔آپ نے فرمایاان چار یاروں میں سےایک ہوگا۔اُس وقت یہ چاریارموجودتھے۔
۱۔سلطان ڈوگررحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔شاہشریف رحمتہ اللہ علیہ ۔
۳۔شاہ فرید رحمتہ اللہ علیہ ۔
۴۔حافظ رحمت اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ ۔
اورفرمایاجوان میں سے پیچھے رہ جائے گااوراُس کے دونوں مَونڈہوں کے درمیان دو ہلال کی طرح نقش ہوگا۔وہ ہماراحقیقی جانشین ہوگا۔
حضر ت مولانامحمد اشرف فاروقی رحمتہ اللہ علیہ کنزالرحمت میں یہ واقعہ درج کرکے لکھتے ہیں کہ ان چاروں بزرگوں میں سےسب سے آخر رحمت اللہ شاہ ساکن بیگووالہ کا انتقال ہواان کی وفات ۱۱۸۴ھ میں واقع ہوئی اور ان کے دونوں مونڈھوں کےدرمیاں ہلالین کا نشان موجودتھا۔اس سے سب لوگوں پرظاہر ہوگیاکہ حضرت سچیار رحمتہ اللہ علیہ کے اصلی جانشین حافظ رحمت اللہ شاہ تھے۔۱؎
تصرّفات
درخت پر تصرف
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ بمعہ اپنے خادم میاں کالاکے کسی گاؤں جارہے تھے۔راستہ میں ایک بیری آگئی جس کاپَھل پکاتھا۔آپ کا دل کھانے کوچاہا۔میاں کالا نے مالک سے اجازت لی۔آپ نے فرمایااُوپر چڑھ کرہلاؤ۔جب میاں کالانے ہلایاتو تمام پَھل کچااورپکا نیچے گرپڑایہ کرامت دیکھ کر وہ کسان قدموں میں آگرےاوررات کو خدمات میں سرگرم رہے۔ آپ کی دعاسےچند روز میں دولت مند ہوگئے۔۲؎
مولوی پر تصرّف
منقول ہے کہ لاہورکاایک بہت بڑاعالم آپ کی مجلس میں حاضر ہوااورفقہ کی بحث درمیان لایا۔آپ نے اُس پر ایسی توجّہ فرمائی کہ اس کو ساراعلم بھول گیا اور عشق کی چاشنی سے ایسامست ہوا۔کہ وجد و رقص کرنے لگااور مریدوں کے سلسلہ میں داخل ہوا۔۳؎
۱؎کنزالرحمت ص ۱۶۱۔۲؎کنزالرحمت ص۱۰۸۔۳؎ثواقب المناقب ص ۱۸۴۔سیّد شرافت
انوپ رائے پر تصرّف
لالہ انوپ رائے سے منقول ہے کہ میں ابھی بچّہ تھاکہ آپ کی نظر عنایت مجھ پرہوگئی۔میں مستوارہوگیا۔ایک رات میں نے خواب میں کہ میں آپ سے بھاگناچاہتاہوں۔مگرآپ نے مجھے پکڑلیاہے۔صبح میں آپ کی محفل میں حاضرہوا۔توآپ نے متبسّم ہوکرحاضرین کو فرمایاکہ آج یہ لڑکاہم سے بھاگناچاہتاتھا۔مگرہم نے اس کو جانے نہیں دیا۔اس کے بعد میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اب تمام عمر خدمت میں ہی رہوں گا۔ایک دن میرے والد نے خدمت اقدس میں حاضرکیاکہ یہ توہم کو فخر ہے کہ ہمارافرزند مقبول ومنظورہوچکاہے۔لیکن تبدیلِ دین کا خطرہ ضرورلاحق ہے۔آپ نے فرمایاکوئی غم نہ کرواہل فقرقیدِ مذاہب سے آزاد ہوتے ہیں۔
علّامہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ ثواقب المناقب میں لکھتے ہیں کہ آجکل انوپ رائےجمعیّت ظاہر و باطن رکھتاہے۔
"الحمدللہ کہ دریں ایام آں گلدستہ باغ تلون یعنی انوپ رائے غنچہ واررنگ جمعیّت ِ ظاہر و باطن دارد و برنگ مصحف گل سجدۂ تعظیم اوہر ہندوئے و مسلمان فرض مے پندارد"۔
جوگیوں پرتصرف
منقول ہے کہ ایک مرتبہ جوگیوں کی ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔آپ نے ازراہِ عنایت ان پر توجّہ فرمائی۔تووہ سب روشن ضمیر ہوگئے۔ان کے دلوں پر نورالٰہی چمکا۔انہوں نے عرض کیاکہ ہم مسلمان ہوتے ہیں۔آپ نےفرمایاعاشقوں کے لیے کوئی مذہبی قید نہیں۔چنانچہ وہ ایک رات رہ کرواپس چلے گئے۔۱؎
۱؎ثواقب المناقب ۱۲ شرافت
کثرتِ فیضان
آپ کے فیضان کی کوئی انتہانہ تھی۔جوحاضر ہواکامیاب ہو کر گیا۔
ایک مرید کو بلند مقام پر پہنچانا
منقول ہے کہ ایک لڑکا آپ کے مویشی چرایاکرتاتھا۔ آپ کواُس سےبہت محّبت تھی ۔یہاں تک کہ اس کی چاشت کی روٹی آپ خودلے جاکراس کو کھلایا کرتے۔ایک دن اُس پر ایسی توجّہ فرمائی کہ وہ مجذوب ہوکر بلند مقام پہنچ گیا۔اُس کی والدہ کو خبر ہوئی تو وہ خدمت میں آئی اور عرض کیاکہ میرےلڑکے کو باہوش کردو۔آپ نے پھرتوجّہ کی تو اس پر کچھ اثرنہ ہوا۔آخرآپ نے یاروں کوفرمایاکہ یہ لڑکا ہم سے اعلےٰ مقام پرپہنچ گیاہے۔اب ہمارے ادراک سے اُوپر چلاگیاہے
زضبطِ من افتاد اورازمام |
زادراکِ مایافت بالامقام۱؎ |
خزانہ نٹ کو فیض دینا
حاجی عبدالرحمٰن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ نٹوں کا ایک طائفہ آپ کی خدمت میں حاضرہوااور قوالی کر کے درویشوں کو خوش کیا۔ ان میں ایک بنگالی نٹ خزانہ نام تھا۔وہ آپ کو پسند آیا۔آپ نےاس پر توجّہ کرکے باطنی فیض سے مالامال کردیااوروہ مجذوب ہوگیا۔جب اس کے ہمراہی وطن گئے تو اس کی والدہ نے سُنا کہ میر ابچّہ مست ہوگیاہے۔وہ بڑی ساحرہ تھی ۔وہ جادو کرنے کے ارادہ سے نوشہرہ آئی۔جب آپ کے رُوبرو ہوئی۔ توآپ نے ازراہِ کشف اُس کی بدباطنی سے آگاہ ہوکراُس پر ایسی نگاہ کی وہ بیہوش ہوکرگرپڑی۔ آخر تائب ہوئی۔۲؎
رستم کو فیض دینا
منقول ہے کہ ایک نوجوان رستم نام پر آپ کی نگاہ پڑی تو وہ دنیا سےقطع تعلق کرکے ویرانوں اورجنگلوں میں چلا گیا۔اس کے بعد والد نے سناتووہ تکلیف پہنچانے کی غرض سے حضرت سچیار رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں آیا۔آپ نےاس کاخطرہ معلوم کرکےایسی توجّہ فرمائی۔کہ اس کا تمام غصّہ و کینہ جاتارہااور صاف قلب ہو کر آپ کے عقیدت مندوں میں داخل ہوا۔۳؎
ایک خوبصورت کو فیض دینا
منقول ہے کہ ایک شخص صاحب حسن وجمال آپ کی مجلس میں آیا۔آپ نے دیکھ کر اس کو فرمایاکہ تمہاری صورت بہت اچھی ہے۔اس نے عرض کیاکہ میں اندر سے بہت گندہ ہوں۔آپ نے نگاہِ شفقت سے دیکھاتواس کو تمام کدورتوں سے پاک صاف کردیا۔۴؎
ایک ضعیف کو فیض دینا
منقول ہے کہ ایک ضعیف العمرآپ کی خدمت میں آیااورعرض کیاکہ میری عمر کاجام لبریزہوگیا
ہے۔مجھے تمام عمر کچھ حاصل نہیں ہوا۔آپ نے اس پر نگاہ فرمائی اور اس کوعشق میں جوان
کردیا۔۵؎
۱؎کنزالرحمت ص۱۰۸۔۲؎ثواقب المناقب ص۱۸۰۔۳؎ثواقب المناقب ص۱۸۲۔۴؎ تحائف قدسیہ ۱۲۔۵؎تحائف قدسیہ شرافت
غائبانہ فیض پہنچانا
منقول ہے کہ علاقہ کجلی وَن سے ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نےفرمایاسنیکڑوں کو اس کے فاصلہ پر تو نے مجھ کو یاد کیاتھا۔میں نے تمہارے حِصّہ کا فیض وہیں تم کوپہنچادیاتھا۔۱؎
فیض سلب کرنےکے واقعات
میاں میہوں کافیض سلب کرنا
متعدد مرتبہ آپ میاں میہوں شیخپوری رحمتہ اللہ علیہ پر ناراض ہوئےاوراس کا فیض سلب کیا۔مگرآپ پھرمعاف کردیاکرتے تھے۔
۱۔ایک مرتبہ آپ بمعہ یاران شیخ پور میں تھے۔میاں میہوں رحمتہ اللہ علیہ سارادن مجلس سماع میں مصروف رہےاورکسی درویش کو روٹی کاپانی نہ پوچھا۔آپ اس بات سے ناراض ہوئے اوراُن کاحال سلب کرلیا۔۲؎
۲۔ایک مرتبہ ایک صاحب جذبہ فقیر کابل کی طرف سے آیا۔ابھی دریائے اٹک پرتھاکہ میاں میہوں رحمتہ اللہ علیہ نے توجہ باطنی سے اس کوہلاک کردیا۔آپ نے میاں میہوں کوبلاکر ان کا فیض سلب کرلیا۔کہ تم نے ایک بے گناہ درویش کو نگاہِ غیرت سے ہلاک کردیاہے اور تمہارے اس فعل سے مجھے درباررسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے شرمساری حاصل ہوئی ہے۔۳؎
۳۔ایک مرتبہ میاں میہوں رحمتہ اللہ علیہ آپ کی اجازت کے بغیر حج کوچلے گئے۔آپ نے ان کا فیض سلب کرلیا۔آخربڑی سفارش سے راضی ہوئے۔۴؎
۱۔تحائف قدسیہ ۱۲۔۲؎تحائف قدسیہ ۔۳؎کنزالرحمت ص ۱۱۶۔۴؎ثواقب المناقب ۱۲ سید شرافت
شیخ سعداللہ کا حال سلب کرنا
میاں دادن سے منقول ہے کہ موضع گوجری میں ایک درویش شیخ سعداللہ نام رہتاتھااوریہاں تک صاحبِ کرامت تھاکہ کنوئیں کے اوپرچادربچھاکراُ س پر وجدو رقص کیاکرتااور کہتاکہ مجھے تلوار نہیں لگ سکتی۔آپ اس جگہ تشریف لے گئے۔وہ آپ کو سخت پیش آیا۔آپ نے جوش میں آکرفرمایا۔دیکھ میرے پیر حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضوری ہیں اور وہاں سے فیض لے کر تمام جہان میں تقسیم کرتے ہیں اورمجھے سب سے پہلے بڑوں کی طرح حِصّہ دیتے ہیں۔میری مثل کون ہے۔جومیرامقابلہ کرے۔ یہ کہہ کر آپ واپس تشریف لے آئے۔دوسرے روزمیں وہاں گیاتودیکھاکہ اس کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے اورخس وخاشاک پر پڑاہے۔میں نے پوچھاکیاحال ہے؟اُس نے کہاتیرے پیرنے مجھے ہلاک کردیا ہے۔۱؎
شاہ نتھاکا فیض سلب کرنا
منقول ہے کہ شاہ نتھاسلطان سوہدروی رحمتہ اللہ علیہ بصورت شیر متمثل ہوکرتمام یارانِ سچیار پیررحمتہ اللہ علیہ کو ڈراتےاور تنگ کیاکرتے۔سب نے آپ کے سامنے شکایت کی ۔توآپ نے شاہ نتھاکافیض سلب کرلیا۔۲؎
تمباکو نوش کا جل جانا
آپ کو تمباکوسے سخت نفرت تھی۔کوئی شخص حُقّہ یا تمباکو لے کر آپ کے سامنے سے نہ گذرتاتھا۔منقول ہے کہ ایک دن آپ راستہ میں جارہے تھے۔ایک سوار کے ہاتھ میں حُقّہ تھا۔شاہ مرادرحمتہ اللہ علیہ شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو بتادیاکہ یاحضرت فلاں سُوار حُقّہ پیتاجارہاہے۔آپ نے فرمایایہ جل جائے گا۔چنانچہ اسی وقت اُس کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اورجل گیا۔۳؎
سیدمحمدسعیدکی چوری ہونا
منقول ہے کہ آپ نے سیّد محمد سعیددُولا بن سیّد محمد ہاشم دریادل نوشاہی رحمتہ اللہ علیہ کونصیحت کی تھی کہ آیندہ روندہ مسافروں کی خدمت کرنا۔مگرکسی کوگھرمیں رات میں نہ رکھنا۔ایک مرتبہ انہوں نے ایک تاجرکو گھرمیں رات رہنے کی اجازت دے دی۔ امرالٰہی سےاُسی رات اُن کےگھرچوری ہوگئی۔انہوں نے آپ کے پاس نوشہرہ میں اطلاع بھیجی۔ آپ سن کرسخت ناراض ہوئے۔کہ ہمارے حکم کی خلاف ورزی کیوں کی ہے۔آخر آپ نے دو جاسوس بھیجے کہ چوروں کو تلاش کریں۔آخر ایک جگہ وہ چورمال تقسیم کرتے ہوئے پکڑے گئے۔۴؎
۱؎تحائف قدسیہ۱۲۔۲؎کنزالرحمت ص ۱۱۸۔۳؎کنزالرحمت ص ۱۲۵۔۴؎تحائف قدسیہ ۱۲ شرافت
ایک چورکوسزادینا
آپ کاایک مرید چوری کرتاتھا۔آپ منع کرتے ۔مگروہ بازنہ آتا۔آخر قید ہوگیا۔آپ نے فرمایااب اس کی شکایت نہیں آئے گی۔چنانچہ و ہ آٹھویں روزجیل خانہ میں مرگیا۔آپ نے سُناتومراقبہ کیااور فرمایاخداکاشکرہے کہ ایمان توسلامت لے گیا۔۱؎
وجدوتواجد
آپ کو خود بھی وجدہوتاتھااور آپ کی توجّہ سے لوگوں کو بھی وجد ہوتاتھا۔
بے ادب کو وجد
ایک مرتبہ آپ کو وجدہوا۔ایک شخص گستاخانہ کلام کرنے لگا۔آپ نے توجہ فرمائی تو وہ تڑپنے لگااوردیر تک وجد کرتارہا۔۲؎
مریدوں کو وجد
ایک روزمکان کے چھت پر محفل سماع ہورہی تھی۔آپ کے یاروں کو وجد ہوا۔کئی ان میں سے
وجد کی حالت میں نیچے گرپڑے اور لکڑیوں پر پڑے۔مگرکسی کو کچھ ایذانہ پہنچی۔ صحیح سلامت رہے۔۳؎
گائے اورچرخہ کی آوازپروجد
آپ فرمایاکرتے تھے کہ میرے مریدوں کاوجدقوالوں اور خوش خوانوں کامحتاج نہیں۔چنانچہ آپ کے ایک مرید کو گائے کی آواز پروجد ہوگیااور آپ کے ایک مرید کو چرخہ کی آواز پروجد ہوگیا۔۴؎
رونے کی آواز پروجد
ایک مرتبہ کسی ماتم پر عورتیں روپیٹ رہی تھیں۔آپ کا ایک مرید وہاں سے گذرا۔اُس کو اُن کی آواز پر وجد ہوگیااور وجد کی حالت میں یہ شعرپڑھتاتھا
ہےاوہ بوہ سایاں وے ہےاوہ بوہ سایاں |
گلی گلی دے کتّے بھونکن وحدت لیکاں لایا۵؎ |
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲۔۲؎تحائف قدسیہ ص۱۷۱۔۳؎تحائف قدسیہ ص۲۱۱۔۴؎تحائف قدسیہ
ص ۲۱۴۔۵؎تحائف قدسیہ ص ۲۱۳۔ سیّد شرافت ۱۲۔
گھوڑوں کووجد
ایک مرتبہ شہر قصور کے چند معزّز پٹھان گھوڑوں پرسوار ہوکر آپ کے پاس سے گذرے۔آپ نے ایک نعرہ ماراتو وہ سب وجد کرتے ہوئےگھوڑوں سے نیچے گرپڑے۔بلکہ اُن کے گھوڑے اورشکاری کتّے بھی وجد و رقص کرنے لگے
شتر خوکردۂ وجدو سماع ست |
ولیکن رقصِ اسپاں اختراع ست۱؎ |
وفات کے بعدکرامات
بی بی بَسّی کو زندہ ملنا
منقول ہے کہ ایک روز آپ کی مریدہ بی بی بَسّی مزارشریف کی زیارت کو آئی اور طواف کیااورنہایت فراق سے روتی اور باربار کہتی کہ بے ادب لوگوں نے میرے مرشد پر سینکڑوں من مٹی ڈال دی ہے۔ایک روزسارادن طواف کیااور یہی کہتی رہی ۔اُسی وقت آپ قبر سے ظاہرہوئےاور فرمایاکیاتومجھے عاجزسمجھتی ہے۔میں تو عالم علوی کی سیرمیں ہوں۔قبرمیں قید ی نہیں۔تم جاکر آرام کرو۔اس کے بعد ہم کو تکلیف نہ دینا۔۲؎
۱؎ثواقب المناقب۱۲۔ ۲؎تحائف ص ۲۳۸۔سیّد شرافت
ایک گونگے کاتندرست ہونا
منقول ہے کہ ایک زمیندار کے ہاں بچہ پیداہواجومادرزاد گونگا اوربہراتھا۔بڑے علاج کئے مگرکوئی فائدہ نہ ہوا۔وہ اس کو عُرس نوشہرہ پرلے آئے۔اس وقت میاں میہوں شیخوپوری رحمتہ اللہ علیہ اورشہمیرقلندر لاہوری رحمتہ اللہ علیہ اور سیّد حافظ قائم الدین برقنداز پاک پتنی رحمتہ اللہ علیہ اورشاہ مراد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ بخت جمال جھنگی والہ رحمتہ اللہ علیہ اور دیگریاران ِ قصور و لاہور و کوہستان حاضرتھے۔سب کے آگے عرض کیا۔سب نے متفقہ طورپرکہاکہ اس کو حضرت سچیار صاحب کے مزارپرلے جاؤاوروہاں عرض کرو۔وہ چراغاں کا روز تھا۔مزارشریف کے سامنے قوالی ہورہی تھی۔اس لڑکے کو وجد ہوگیا۔وہ اُٹھ کر رقص کرنے لگااور اس کاسمع اور نطق صحیح ہوگیا۔گونگاپن اوربہراپن جاتارہا۔تمام مخلوق حیران رہ گئی۔پوچھنے پر اس نے بتایاکہ مجھے حضرت سچیاررحمتہ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی۔آپ ضعیف العمرہیں اور مجھے فرمایا کہ تو کیوں سنتااور بولتانہیں۔اُسی وقت میرے کان اور زبان کھل گئے۔
بعدازاں وہ لڑک خواجہ بخت جمال رحمتہ اللہ علیہ کا مریدہوا۔۱؎
پنجابی مقولے
آپ کے چندپنجابی مقولے کتاب تحائف قدسیہ میں درج ہیں۔یہاں لکھے جاتے ہیں۔
۱۔ "جےشہ لوڑیں راویاں قدم شریعت رکھ"۔
۲۔
"من مارو بسمل کرو۔ڈِٹھاکرو اَن ڈِیٹھہ |
ہے پردہ نہ پھاڑئیے توڑے سرپر بلے اَنگیٹھ" |
۳۔ "ٹوٹے جوڑے کئے بھورے کامل مرشد سوئی"۔
۴۔ "شیررَجّے تاں گجّے"
۵۔ "بڈھاہویوں مَحنّاں کن ونہایووالہ"۔؟
۶۔ آپ نے شیخ محمد سوہدروی کو مخاطب ہو کرفرمایا "میراٹٹو ٹپناتیراٹٹو چُھو"۔
۷۔ آپ نے حافظ برقنداز رحمتہ اللہ علیہ کو مخاطب ہوکرفرمایا
"تینوں دتادائرہ میں تخت جھروکھا |
لیون تائیں سہل ہے پر رکھن اوکھا"۲؎ |
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲۔۲؎یہ ساتواں مقولہ مراۃ الغفوریہ میں ہے۱۲۔ سیّد شرافت
کلمات طیّبات
آپ کے چند کلمات ثواقب المناقب سے لکھے جاتے ہیں۔
۱۔فرمایا۔ عشق کستوری اور دل ناقہ ۔کستوری کے سوانافہ کی کوئی قدروقیمت نہیں۔
۲۔فرمایا۔ داغ مُہرہے۔اورسینہ لفافہ ۔مُہر کے سوا لفافہ معتبرنہیں ہوتا۔
۳۔فرمایا۔ جوآنکھ آنسو کے بغیر ہےوہ ایساچشمہ ہے ۔جس میں پانی نہیں۔
۴۔فرمایا۔ جودل چاک کے بغیر ہووہ ایساہے جیسا مسجد بے محراب۔
۵۔فرمایا۔ جوسانس بغیر آہ کے نکلے وہ ایساتیر ہے جو خطاجائے۔
۶۔فرمایا۔ جودل بغیر درد کے ہووہ ایسا ہے ۔جیساپسلی میں تیرلگاہو۔
۷۔فرمایا۔ وہ سینہ جس میں عشق کاداغ نہ ہو وہ ایساباغ ہے جس میں پھول نہ ہوں۔
۸۔فرمایا۔ جس آنکھ میں مستانہ رونانہ ہووہ ایساجام ہے جس میں شراب نہ ہو۔
۹۔فرمایا۔ جس زبان میں شوروفغان نہ ہووہ ایسانمکین لقمہ ہے جو ناگوارہو۔
۱۰۔فرمایا۔ جس جگرمیں شوق نہ ہو وہ کچااوربے لذّت کباب ہے۔
۱۱۔فرمایا۔ وہ دل جو یداللہ کی انگشتری کانگین ہے وہ عشق یمن سے معمور ہوتاہے۔
۱۲۔فرمایا۔ حسن کا سورج کہ ملاحت کی کان ہے۔عاشقوں کے رونے کے شورسے نمکسار
ہوجاتاہے۔
۱۳۔فرمایا۔ جوعاشق آرام طلب ہو وہ بجھی ہوئی شمع ہے۔
۱۴۔فرمایا۔ جومشتاق آسائش کا طلبگار ہووہ ایسی دیگ ہے جو سردہو۔
۱۵۔فرمایا۔ عشق کاباغ ایساپُربہار ہے۔جس کے سامنےجنت کی کوئی قد ر نہیں۔
ملفوظات
آپ کے بعض ارشادات عالیہ مختلف کتابوں سے انتخاب کرکے لکھے جاتے ہیں۔
فرمایا۔ فقیری مشکل ہے۔اس کادل میں پوشیدہ رکھناظاہر کرنے سے بہترہے۔۱؎
۱؎تحائف قدسیہ ص ۲۲۵ ۔شرافت
فرمایا۔ فقیری گھی کا برتن ہے اس کو محفوظ رکھیں توکام آتاہے۔
فرمایا۔ فقیرنیک و بدسے آزادہوتاہے۔
فرمایا۔ فقیرکودعااوربددعاسے کوئی سروکارنہیں۔
فرمایا۔ فقیرکی حاجت خودبخود پوری ہوتی ہے۔اس کے دشمن خود ہی منہ کی کھاتے ہیں۔
فرمایا۔ فقراقیدِ مذاہب سےآزاد ہوتے ہیں۔
فرمایا۔ فقیرکوکوئی چیزناپسند نہیں کرنی چاہیئے۔
فرمایا۔ فقیرکوشترمرغ کی طرح نہ ہوناچاہیئے ۔بلکہ شیر کی مانند ہوناچاہئے۔
فرمایا۔ علم قالب اورفقرجان ہے۔
فرمایا۔ علمأ علم الیقین کی جان ہیں اور فقرأ عین الیقین کی جان۔
فرمایا۔ عالم اور فقیرمیں یہ فرق ہے کہ عالم خود چل کر بادشاہوں کے دروازہ پرجاتاہےاورفقیر
کےدروازے پربادشاہ چل کر آتے ہیں۔
فرمایا۔ علمائے راسخین وارث انبیأ ہیں ۔اس لیے فقیر ان پر جان قربان کرتے ہیں۔
فرمایا۔ بعض اوقات درویش پرایسامقام کھلتاہے کہ اُس سے مباحات ومنہیات کی تمیزاُٹھ جاتی
ہے۔
فرمایا۔ جس شخص نے درویش سے دوستی رکھی ۔اس نے حق سے دوستی رکھی اور جس نے
درویش سے دشمنی کی۔ اس نے حق سے دشمنی کی۔
فرمایا۔ جوخدائے تعالےٰ کادوست ہےوہ ہمارا بھی دوست ہےاور جو حق تعالےٰ کادشمن ہے۔ وہ
ہمارا بھی دشمن ہے۔
فرمایا۔ حق تعالےٰ کارساز ہے۔دوریش کو وہ ہی فتوح بھیجتاہےاور جو شخص اس کی بھیجی ہوئی چیز
کو واپس کرتاہے۔وہ محتاج اور اندوہناک ہوجاتاہے۔
فرمایا۔ جو لوگ ہمارے امرکا اتباع کریں گے۔وہ قیامت کے روز بخشش کے مستحق ہوں گے۔
فرمایا۔ اگرسَرجداہوجائے توبھی خداکاراز ظاہرنہ کرو۔
فرمایا۔ جس مرید کی تعریف اس کا پیرکرے وہ بڑاسعادت مندہے۔اس کو اور کیامطلوب ہے۔
فرمایا۔ خداتعالےٰ کی حمد وثنااور رسالتمآب صلے اللہ علیہ وسلم کی نعت و توصیف خوش الحانی سے
کرنی چاہیئے۔
فرمایا۔ خداتعالےٰ کی یاد کرو۔ایک ہی دیکھو۔ایک ہی جانو۔ایک ہی کہو۔
فرمایا۔ خداکوایک جانو۔دوکودیکھنااَحُول (بھینگے) کاکام ہے۔
فرمایا۔ تکبّر کرنے سے آدمی ہلاک ہو جاتاہے۔
فرمایا۔ تکبّر بدبختی کاذریعہ اور بدگوہری کا اصل ہے۔
فرمایا۔ کنجوس آدمی اگرچہ سمندروں اورجنگلوں میں جاکر زہد وعبادت کرے۔وہ بحکمِ حضرت
رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم جنّت میں نہیں جاسکتا۔
فرمایا۔ یادِ الٰہی میں اپنادل لگاؤ۔
فرمایا۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کوکھاجاتی ہے۔
فرمایا۔ سیّدوں کاحسب و نسب کافخر راہ حق کی طرف آنے نہیں دیتا۔
؎ آپ نے ایک دوست کو فرمایامیں نے تجھ کو ایسے مقام پر پہنچادیاہے۔جہاں ہر دم حق کی
یاد ہوتی ہے۔اگرتوچاہےکہ جان سلامت رہےتوخدائے لایزال کے اسرار کو مت
ظاہر کر۔
فرمایا۔ ہمارے خاندان کی عطاشدہ نعمت باطنی صرف دوگناہوں سے زائل ہوسکتی ہے۔
لقمہ حرام کھانااورزناکاری کا ارتکاب۔ان دونوں کبیرہ گناہوں سے بچناچاہیئے۔ ان کے
سواذوق و شوق سرد نہیں ہوتا۔
فرمایا۔ جب تک انسان کے بال بال سے ذکر ہُو کی آواز نہ نکلے ۔تب تک رُوح ،جسم کی قید سے
نکل کرآزادی کے مصر کی تخت نشین نہیں ہوسکتی۔
؎ آپ نے اپنے مریدشیخ رحمت اللہ شاہ بیگووالیہ رحمتہ اللہ علیہ کو نصیحت فرمائی کہ
تمہارےبزرگ عامل ہو گذرےہیں تم کو چاہیئے کہ تین عملوں سے پرہیزکرو۔
اول تسخیر جنات کے لیے کوئی عمل نہ کرنا۔دوسراعورتوں کے لیے یعنی حب کاکوئی
عمل نہ کرنا۔تیسراچورکانام نہ نکالنا۔اگر ان نصائح پر عمل پیراہوگے تو دونوں جہان کی
سعادت حاصل کروگے۔
فرمایا۔ میرے دوستو۔اللہ تعالےٰ سے آشنائی پیداکروتم میں ایسی خوشبوآئے گی ۔جیسے پھول
میں سے آتی ہے۔
فرمایا۔ میرےدرویشوں کو چاہیئے کہ چارباتوں پرعمل پیرارہیں۔اول تمباکو نہ پئیں ۔دوم سرپر
لمبے بال نہ رکھیں ۔سوم قوالوں کو کپڑے نہ دیں۔چہارم غیروں کی مجلس میں نہ جائیں۔
پھراس کے وجوہات بیان فرمائے۔
اوّل ۔ہرایک غذاکاکوئی وقت مقررہوتاہے یا اس سے صبرہوسکتاہے۔تمباکو نوشی کا نہ
کوئی وقت ہے اور نہ اس سے صبرممکن ہے۔
دوم۔اگردرویش لمبے بال رکھیں گےتوان کے حسن میں افزائش ہوگی اور عورتیں ان پر
فریفتہ ہوں گی۔ممکن ہے کہ وہ گناہ میں مبتلاہوجائیں۔
سوم۔ہمارے درویشوں کاوجد قوالوں کا اور راگیوں کا محتاج نہیں۔ان کو کنوئیں کی آواز
اورگائے کی آواز پر بھی وجدہوسکتاہے۔
چہارم۔اگرغیروں کی مجلس میں بیٹھیں گے تو ممکن ہے کہ اُن کی صحبت سے متاثر ہوکر
گمراہ نہ ہوجائیں۔
فرمایا۔ جہاں میرےمرید جمع ہوں گےاورمحبّت کی شمع جلائیں گےاورمجھ کویادکریں گے تو
میں ان کی مجلس میں مخفی طورپرموجودرہوں گا اوران کو دیکھ کر خوش ہوں گا۔
؎ ایک شیخ وقت آپ کے حضورمیں آیا۔اس نے کہاکہ مرشدکامل وہ ہوتاہے۔جس کی
نظر بارہ بارہ کوس تک وسیع ہو۔آپ نے فرمایا۔اگربارہ کوس سے باہر مرید کوکوئی تکلیف
پہنچےاورمرشد کو خبرنہ ہوتوایسےمرشد کاکیافائدہ؟مرشدکامل وہ ہے۔جس کی نظر
مشرق سے مغرب تک وسیع ہو۔جہاں کسی مریدپر مشکل بنی جھٹ معلوم کیااور اس کو
حل کرنے کی کوشش کی۔
فرمایا۔ جومہمان گھرآئیں ان کی خدمت کا حق پوری طرح اداکرناچاہئیے۔
؎ آپ ایک دفعہ ایک مدرسہ کے پاس سے گذرے۔آپ کے ساتھ سماع ہورہاتھا۔آپ
نے قوالوں کو فرمایاکہ چپ ہوجاؤکہ طلبأ کی تعلیم میں حرج نہ ہو۔
فرمایا۔ اے قرآن پڑھنے والو۔تم قرآن توپڑھتے ہو۔لیکن اس کے حقائق سے ناواقف ہو۔
ابھی تک ذکرہُونے تمہارے دل میں گھرنہیں کیا۔
؎ ایک شخص نےعرض کیاکہ ہمسائے اور قریبی لوگ درویشوں کے فیض سے عموماً محروم
رہتے ہیں اوردُود کے لوگ فائز المرام ہوجاتے ہیں۔یہ کیاوجہ ہے؟فرمایا۔جاؤ ایک
گلاب کی ٹہنی پھولوں اورپَتیوں سمیت توڑلاؤ۔وہ لے آیا۔آپ نے فرمایا۔اس کو سونگھو
خوشبوکس چیزمیں ہے۔اس نے عرض کیا۔خوشبوصرف پھول میں ہے۔ٹہنی اور پتے
اس سے خالی ہیں۔آپ نے فرمایااب ان سب چیزوں کواپنےہاتھوں میں ملاکر خوب مَلو
اس نے اسی طر ح کیا۔پوچھااب سونگھو۔جب سونگھاتو کہاکہ اب سب میں سے پھولوں
کی خوشبوآرہی ہے۔آپ نے فرمایا۔اسی طرح ہمسایوں اورقرابتداروں کو سمجھو۔اگر
دُورہوں گےتوخوشبوئے فیض سےمحروم رہیں گےاور اگردرویش کی خدمت میں آمدو
رفت اورمیل جول رکھیں گےتوفیضیاب ہوجائیں گے۔
؎ ایک شخص نے خدمت میں عرض کیاکہ میرے دشمن میری جان کے درپَے ہیں۔اُن
سےبچنے کی کوئی تدبیرمجھے سکھائیں ۔آپ نے فرمایاایک کانا(نے)لاؤاوراُس کوہرگرہ
سےتوڑکر پوریاں بنادو۔اُس نے ایساہی کیا۔آپ نے فرمایا۔ان سب پوریاں کواکٹھا
کرکےتوڑواس نے بہت زورلگایامگر ٹوٹ نہ سکیں۔آپ نے فرمایااے دوست اگرتم بھی
اس طرح ملکررہوگےتو کسی دشمن کاوار تم پر نہ چلے گا۔
فرمایا۔ اگردودل جمع ہوجاویں توپہاڑ کواکھاڑ سکتے ہیں اور بڑی بڑی جماعتوں کوپراگندہ کر
سکتے ہیں۔
؎ آپ نے اپنے پیر بھائی خواجہ فضیل کابلی رحمتہ اللہ علیہ کو فرمایامیرے پیرحضرت نوشہ
گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے جوتم پر فیض عطاکیاہےاور باطنی اسرار کا خزانہ تم پرکھول دیا
ہے۔اس کو محفوظ رکھنااور نوشہ رحمتہ اللہ علیہ کے نام کو ہمیشہ یادرکھنااور اس کے دروازہ
پر سربجبین رہنا۔
معترفین کمالات
آپ کی تعریف میں اکثراولیأ اللہ اور مورّخین رطب اللسان ہیں۔
۱۔آپ نے ایک مرتبہ حضرت میاں میرقادری لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات کی۔انہوں نے فرمایامیاں پیر محمد سچیاررحمتہ اللہ علیہ تصرف والے ہیں۔دُور کے واقعات کو چشم زدن میں اپنے قریب لاسکتے ہیں۔۱؎
۲۔حضرت شیخ پیراشاہ غازی قلندردمڑیوالہ قادری ساکن کھڑی شریف جوسید علی امیر بالاپیر خلف الرشید سید محکم الدین محمد مقیم گیلانی حجروی رحمتہ اللہ علیہ کےاکابرخلیفوں میں سے تھے۔ایک مرتبہ آپ کی زیارت و ملاقات کے واسطے نوشہرہ میں آئےاورآپ کی توصیف کی۔۲؎
۱۔تحائف قدسیہ ص ۱۶۷۔۲؎بوستان قلندری ۱۲سیّد شرافت
۳۔حضرت سیّد محمدغوث بن سیّد حسن گیلانی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ آپ کی زیارت کو آئےاورآپ
کی ملاقات کاواقعہ اپنے رسالہ تصوّف المعروف اسرارالطریقت میں اس طرح تحریرکرتے ہیں۔
"میں نے فقیروں کے دیکھنے کے لیے ایک لمباسفراختیارکیااورگجرات میں پہنچا۔اس کے اطراف میں نوشہرہ ایک گاؤں ہے۔وہاں ایک بزرگ شیخ پیرمحمد نام سوسال سے زیادہ عمر کےرہتےتھےاور حضرت شیخ حاجی محمد نوشہ قادری رحمتہ اللہ علیہ کے صاحب نظر مریدوں سے تھےاوراس قدرجذب رکھتے تھےکہ ایک ہی نظراورتوجّہ سے اثر حرارت اورذکرقلب اور گریہ اور حال غالب ہوجاتا تھا۔ میں ان کی زیارت کے لیے گیا۔آپ ایک چھوٹے سے باغ میں پڑے تھے۔خادم آپ کے پاؤں داب رہاتھا۔میں نے بھی پاؤں دبانے شروع کئے۔آپ نے فرمایایہ کو ن عزیزہے کہ مجھ کواس کے ہاتھ کی آوازمسموع ہوتی ہے۔دوباریہ کلمہ فرمایاپھراُٹھ کربیٹھ گئےاورمجھ سے حال پوچھااور میرے حال پر توجہ اور مہربانی فرمائی تین دن مجھ کو اپنے پاس رکھا۔ہرروزتوجّہ فرماتے اوراپنےہاتھ سے میرےمنہ میں نوالے دیتے تھےاوران کی توجّہ سےمجھ میں اثرمعلوم ہوتاتھا۔لیکن غالب نہ تھا۔نیز مجھ کواپنی ٹوپی اور چادردے کراجازت دی اوررخصت کردیااور اس کے بعد ان کی خدمت سے میں رخصت ہوا۔آپ نےفرمایاکہ ہمارے دوستوں کوجوگوشہ نشین ہیں دیکھتے جانا۔دوتین دن تک ان کے یاروں کے دیکھنے کےلیے بھی اِدھراُدھرجاناپڑا۔پھرمیں گجرات میں آیا۔جب میں نے معلوم کیاتومجھ میں جذبہ کااثرموجودنہ تھا۔پھر دوسرے دن شیخ کی خدمت میں گیا۔آپ نے مہربانی کی اور فرمایاکہ تم کو سلوک کےطریقہ اور مجاہدہ کی عادات بہت ہیں۔ان کو ترک کردو۔تب یہ جذبہ کی
نسبت غالب ہوگی۔مگروہ مجھ سے ترک نہ ہوسکیں۔
۴۔حضرت سیّد شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان برخورداری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاہے کہ شیخ پیرمحمد سچیارنے جوپودابویاہے۔اُس کواکھاڑا نہیں۔یعنی جس کی باطنی تربیّت شروع کی ہے۔اُس کو نامکمل نہیں چھوڑا۔جس کو دیکھااس کو کمال تک ہی پہنچایا۔جس کا ہاتھ پکڑااُس کو مقصود تک پہنچاکر
چھوڑا۔۱؎
۵۔مرزامحمد اعظم بیگ اکسٹرااسسٹنٹ کمشنربندوبست ضلع گجرات ۔اپنی تاریخ گجرات ص ۴۲۹ میں لکھتےہیں۔
"میاں گکھڑ۔اصل میں مغل کیانی کہلاتے ہیں۔مورث ان کا اکبرخاں پسرکامل خاں تھا۔کامل خاں نے بملازمت سلطان محمودغزنوی رحمتہ اللہ علیہ کا اقتدارپایااورکابل میں رہائش پذیرہوا۔اس کا بیٹا گکھڑ ساتھ سلطان محمُد غزنوی رحمتہ اللہ علیہ ملک پوٹھیار۲؎میں آیااور اس ملک کو جو سابق تخت حکومت فرمانروائے کشمیرتھا۔اپنے قبضہ میں کرلیااور دان گلی کو اپنا دارالحکومت بنایا۔چند پشت ان کی پوٹھیار میں رہی۔وقت طوائف الملوکی مغلوب و ضعیف ہو کر بحسب اتفاقات و حوادثات ان کی اولاد جابجا چلی گئی۔منجملہ ان کے پیرمحمدنام وقت شاہجہاں بادشاہ کے خدمت میں نوشہ کے کہ فقیر کامل تھے۔ حاضر ہو کر بیعت اختیارکی اوربطریقِ سیراس ضلع میں آیااورکنارہ دریائے چناب جائے نشست پسند کرکے بیٹھ گیااورقوم کھوکھرکے گھربیاہاگیااوراپنے سُسرال سے بذریعہ ہبہ دختری کچھ رقبہ لے کرملکیّت بنائی۔خانقاہ ان کی موضع نوشہرہ میں ہے اوراس ملک میں پیری ان کی مشہورہے اوراولادان کی بنام میانہ شہرت رکھتی ہے۔دیہات ملکیّت ان کے یہ ہیں۔نوشہرہ ۔کوٹ میانہ ۔ مہوٹہ کلاں"۔بلفظہٖ
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲۔۲؎ صحیح لفظ پوٹھوہارہے ۱۲۔سیّد شرافت
بیویاں
آپ کی دواہلیہ تھیں۔
۱۔حضرت بی بی رانی رحمتہ اللہ علیہ۔ بنت شیخ عبدالرحمٰن بھٹی ساکن ہتار۔ان کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
۲۔دوسری شادی موضع بھکھڑیالی ضلع سیالکوٹ میں قوم کھوکھرکے ہاں کی ۔ان کے بطن سے اولاد
ہوئی۔
اولاد
آپ کے ایک ہی صاحبزادہ میاں عبدالجلیل تھے۔
آپ کی دو بیٹیاں تھیں۔
اول۔بی بی شہربانومنکوحہ سیّد شاہ حسین خوارزمی رحمتہ اللہ علیہم ساکن سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ۔
دوم ۔بی بی فیروز خاتون منکوحہ سیّد عبدالرحمٰن خوارزمی المعروف شاہ نتھاسلطان سوہدروی رحمتہ اللہ علیہم۔
یارانِ طریقت
آپ کے مریدین و معتقدین بے شمارتھے۔صاحب کنزالرحمت نے لکھاہے کہ آپ کے مرید چھتیس ہزارتھے۔
شش دسی ہزاراندروئے حصا |
نیائیند درزیرِ ترقسیمِ ما! |
جوشخص آپ کے صحبت میں داخل ہوتاتھااس پرحالت عجیب طاری ہوتی تھی۔تذکرہ نوشاہیہ میں ہے۔
"ہرکہ درصحبت ایشاں داخل میشداوراحالِ عجب رُومیداد"۔
یہاں آپ کے چند مشاہیراصحاب کے نام لکھےجاتے ہیں۔
۱۔میاں عبدالجلیل فرزندآنجناب رحمتہ اللہ علیہم نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۲۔میاں محمد اکرم بن میاں عبدالجلیل نبیرہ آنجناب رحمتہ اللہ علیہم نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۳۔میاں الٰہ داد المعروف کالاقوال خادم نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۴۔شیخ سید محمد سعید دُولابن سید محمد ہاشم دریادل نوشاہی رحمتہ اللہ علیہم نوشہرہ شریف ضلع گجرات
۵۔مولوی کوہان۱؎ نوشہرہ ککے زئیاں ضلع گجرات
۶۔میاں میہوں مہوٹہ مخاطب بہ فرزندرحمتہ اللہ علیہ شیخ پور ضلع گجرات
۷۔شیخ میرشاہ سلطان بگاشیر مست الست رحمتہ اللہ علیہ لکھنواں ضلع گجرات
۸۔سیدشاہ بولاق رحمتہ اللہ علیہ ہنج دھونجک ضلع گجرات
۹۔میاں رحیم شاہ رحمتہ اللہ علیہ شہبازپور ضلع گجرات
۱۰۔شاہ سَیدارحمتہ اللہ علیہ بھاروکے ضلع گجرات
۱۱۔شیخ فتح الدین بن شیخ محمد آفتاب سلیمانی رحمتہ اللہ علیہ رسول نگر گوجرانوالہ
۱۲۔سیدشاہ حسین خوارزمی ۲؎داماد آنجناب رحمتہ اللہ علیہم سوہدرہ گوجرانوالہ
۱۳۔سیدعبدالرحمٰن خوارزمی المعروف شاہ نتھاسلطان دامادآنجنابؒ سوہدرہ گوجرانوالہ
۱۴۔شیخ محمد قاضی تازی سوار رحمتہ اللہ علیہ سوہدرہ گوجرانوالہ
۱۵۔شیخ حبیب اللہ رحمتہ اللہ علیہ سوہدرہ گوجرانوالہ
۱۶۔شیخ ولی دادالمعروف رحمان قلی شہیدرحمتہ اللہ علیہ سوہدرہ گوجرانوالہ
۱۷۔شیخ اللہ بخش قریشی عباسی رحمتہ اللہ علیہ جلال پوربھٹیاں گوجرانوالہ
۱؎ان کا نام صرف زمزمہ نوشاہی میں ہے۔باقی کتابوں میں نہیں۱۲۔۲؎ان کا نام فہرست یاران سچیاریہ میں نہیں پایاگیا۔چونکہ یہ آپ کے دامادتھے۔اس لیے ضرورہے کہ مرید بھی ہوں گے۔ لہذامیں نے درج کردیاہے۔۱۲ سیّد شرافت
۱۸۔شاہ مراد شرقپور ضلع شیخوپورہ
۱۹۔شیخ محمد پناہ رحمتہ اللہ علیہ بَھدّوکے متصل گلہوٹیاں سیالکوٹ
۲۰۔شیخ رحمت اللہ شاہ قریشی المعروف رحمت سائیں رحمتہ اللہ علیہ بیگووالہ سیالکوٹ
۲۱۔شیخ گل محمد رحمتہ اللہ علیہ سلہر سیالکوٹ
۲۲۔شیخ محمد فاضل کلاں رحمتہ اللہ علیہ ۔۔ لاہور
۲۳۔مرزالالہ بیگ مجذوب ۔۔ لاہور
۲۴۔شیخ لکھمیرالمعروف شہمیر قلندرعباسی رحمتہ اللہ علیہ ۔۔ لاہور
۲۵۔حافظ محمد اسمٰعیل رحمتہ اللہ علیہ بھیلہ لاہور
۲۶۔سیّد شاہ فریدرحمتہ اللہ علیہ ڈھولن وال لاہور
۲۷۔سیّد شاہ جمال رحمتہ اللہ علیہ پَٹی لاہور
۲۸۔میاں عابد رحمتہ اللہ علیہ ستگھرہ لاہور
۲۹۔میاں سلطان ڈوگررحمتہ اللہ علیہ لدھودنکا لاہور
۳۰۔حافظ محمد صدیق عاشق حضوری رحمتہ اللہ علیہ قصور لاہور
۳۱۔حافظ سعداللہ رحمتہ اللہ علیہ قصور لاہور
۳۲۔میاں پہلورحمتہ اللہ علیہ قصور لاہور
۳۳۔شیخ اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ قصور لاہور
۳۴۔شیخ ماہی رحمتہ اللہ علیہ قصور لاہور
۳۵۔شیخ محمد صالح افغان امچوزیٔ رحمتہ اللہ علیہ قصور لاہور
۳۶۔شیخ عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ قصور لاہور
۳۷۔شیخ غلام حسین چھاپہ امرتسر
۳۸۔شیخ بخت جمال تیراندازامیرمنیررحمتہ اللہ علیہ جھنگی گورداسپور
۳۹۔سیّد حافظ قائم الدین محمد برقنداز سبزوار ی رحمتہ اللہ علیہ پاک پتن منٹگمری
۴۰۔سیّد شا ہ شریف تلونڈی چوہدریاں ریاست کپورتھلہ جالندھر
۴۱۔شیخ بدیع الزماں ابدال داؤدپوترہ مخاطب بہ بخشی رحمتہ اللہ علیہ پوتر ضلع ملتان
۴۲۔حاجی عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ کوچہ خاندوراں دہلی
۴۳۔میاں صابرشاہ رحمتہ اللہ علیہ دہلی
۴۴۔میاں خزانہ نٹ رحمتہ اللہ علیہ بنگال
۴۵۔میاں دینداررحمتہ اللہ علیہ علاقہ کوہستان
۴۶۔میاں اختیاررحمتہ اللہ علیہ جنڈیالہ کَلساں شیخوپورہ
۴۷۔میاں رستم رحمتہ اللہ علیہ۔
۴۸۔مرزاطاہربیگ۔
۴۹۔حاجی وسوندھی شاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۵۰۔شیخ بڈھن۔
۵۱۔شیخ فیض اللہ کلاں رحمتہ اللہ علیہ۔
۵۲۔شیخ فیض اللہ ثانی۔
۵۳۔میاں شاہ محمد کلاں رحمتہ اللہ علیہ۔
۵۴۔میاں شاہ محمد ثانی رحمتہ اللہ علیہ۔
۵۵۔شیخ نظرمحمدرحمتہ اللہ علیہ۔
۵۶۔شیخ عبدالخالق رحمتہ اللہ علیہ۔
۵۷۔میاں عیسےٰرحمتہ اللہ علیہ۔
۵۸۔شیخ محمد زاہدرحمتہ اللہ علیہ۔
۵۹۔سید محمدشاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۶۰۔سیّد عبدالغفاررحمتہ اللہ علیہ۔
۶۱۔شیخ محمد فاضل ثانی رحمتہ اللہ علیہ۔
۶۲۔شیخ فاضل محمدگل۔
۶۳۔میاں اللہ دتہ چٹھہ۔
۶۴۔شیخ عبدالرحمٰن ثانی۔
۶۵۔شیخ سعدالدین مسعودرحمتہ اللہ علیہ۔
۶۶۔شیخ عبداللہ دھول رحمتہ اللہ علیہ۔
۶۷۔شیخ فتح محمدرحمتہ اللہ علیہ۔
۶۸۔شیخ مرادثانی رحمتہ اللہ علیہ۔
۶۹۔میاں سید شاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۰۔سیّد الف شاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۱۔شیخ میرتقی رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۲۔شاہ تاج الدین خطاپوش رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۳۔سیّد حسن رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۴۔مرزاگل بیگ رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۵۔شیخ محمد گل رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۶۔میاں عالم رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۷۔شیخ نعمت اللہ نومسلم رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۸۔شیخ عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۹۔میاں احمدرحمتہ اللہ علیہ۔
۸۰۔میاں محمد سعی رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۱۔شیخ قائم الدین ثانی رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۲۔حاجی شاہ داؤد رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۳۔شیخ پیرمحمدرحمتہ اللہ علیہ۔
۸۴۔شیخ حیات رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۵۔شیخ دائم۔
۸۶۔میاں دادن رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۷۔شیخ معموری رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۸۔میاں بَسّور رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۹۔مرزااکرم بیگ رحمتہ اللہ علیہ۔
۹۰۔؟؟محمودرحمتہ اللہ علیہ۔
۹۱۔شیخ درگاہی رحمتہ اللہ علیہ۔
۹۲۔میاں عظیم اللہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۹۳۔میاں عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ۔؟؟
۹۴۔میاں غریب شاہ فقیر۔
۹۵۔شاہ جیون رحمتہ اللہ علیہ۔
۹۶۔میاں ماہی۔
۹۷۔میاں سمائل رحمتہ اللہ علیہ۔
۹۸۔میاں سیداثانی۔
مستورات میں سے
۹۹۔بی بی شہربانودخترآنجناب رحمتہ اللہ علیہا۔
۱۰۰۔بی بی فیروز خاتون دخترآنجناب رحمتہ اللہ علیہا۔
۱۰۱۔بی بی بسّی خادمہ۔
غیرمسلموں میں سے
۱۰۲۔سردارکوسالی سنگھ۔
۱۰۳۔لالہ انوپ رائے۔
۱۰۴۔سنگھ جی سَمکھا۱؎
تبرّکات
آپ کی تسبیح کاایک دانہ اورایک رومال جس پر ریشمی دھاگہ سے کلمہ طیّبہ لکھاہواہے۔یہ دونوں چیزیں آپ نے اپنے خلیفہ شاہ مراد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کو عطافرمائی تھیں۔یہ آجکل مجاورانِ درگاہِ شاہ مراد کے گھرمیں بمقام شرقپورضلع شیخوپورہ موجودہیں۔
کتاب اسرارالطریقت سے ثابت ہوتاہے۔کہ ایک ٹوپی اورچادرآپ نے حضرت سیّدمحمدغوث گیلانی قادری لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کوبھی عطافرمائی تھی۔
۱؎یہ سب یارانِ طریقت کے نام ثواقب المناقب ۔تحائف قدسیہ ۔مراۃ الغفوریہ۔کنزالرحمت میں سے لکھے گئے ہیں۱۲۔ سیّد شرافت
مدحیات
آپ کی مدح وتوصیف میں اکثر شعرأ نے نظمیں لکھی ہیں۔چند ایک ان میں سے نقل کی جاتی ہیں۔
(۱)
ازکتاب ثواقب المناقب مصنّفہ علّامہ محمد ماہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ
مبارک باد گوئد عندلیبم |
کہ عیدِ نوبہار آمد نصیبم |
نمیدانم چہ درسردارم امروز |
کہ مشقِ شورِ محشر دارم امروز |
من ومدحِ شہِ صاحب کرامت |
چراغِ زیرِ دامان قیامت |
چوفانوس خیالی لشکرِ او |
بلاگرداںشدہ گردِسرِاو |
فروغِ جلوہ صبح ایجاد دارد |
صفاوصدقِ مادرزاددارد |
ہمایوں افتتاح واختتامش |
کہ شد درعین طفلی پیرنامش |
دلش خورشیدوارآئینہ پرداز |
باکسیرِ تجلّی کیمیاساز |
ببزمِ رفعتِ آں شاہِ جم جاہ |
بودیک بندۂ شاھی نسب ماہ |
بذکرِ ارّہ دنداں تیزکردہ |
سمندِ شوق دامہمیزکردہ |
بیادش ہندوئے ظلمت سرشتہ |
زحل مانند ہمراز فرشتہ |
ہزاراں خیلِ زاغ کفرمانوس |
بہشتی گشتہ از فیضش چوطاؤس |
چوشمع آتش پرستانِ غلط کار |
بدیں درگاہ مے سوزندزنّار |
بوددرمشربِ اہلِ ارادت |
چومصحف جلوۂ روئیش عبادت |
تواندکردازبرق نظارہ |
فلک چوں شیشۂ ساعت دوپارہ |
زبیم قہرِاودریک کواکب |
شود محوِ عدم چوں ذرہ درشب |
سروپائے مغرّق یافت چوں ماہ |
مگرسائل شدہ ماہی بدرگاہ |
فقیرش گرچہ دنیادارباشد |
حریف ِمالکِ دینارباشد |
شودزلفِ سخن کوتاہ اینجا |
کہ لَا اُحصی مست بسم اللہ اینجا |
بدورِ روضۂ پاکش درختاں |
چوگردِ کعبہ فوجِ نیک بختاں |
خصوصاً آں کنارِ خیمۂ نور |
بہم پیوندیِ نخلِ سرِ طور |
زساقِ عرش برترپایۂ او |
چوسدرہ برملائک سایۂ او |
سراپاشاخِ عرش برترپایۂ او |
ثمرشیریں ترازآبِ حیات ست |
براتِ ہستیِ طوبےٰفرشتہ |
بآب خضربربرگش نوشتہ |
بود شمعِ مزارش شعلۂ طور |
فلک یک گنبدِاوچشمِ بددُور |
(۲)
آنکہ رُوح القدس بدمشتاقِ او |
صبحِ صادق پرتوِ اشراق او |
آہ سردش صیقلِ آئینہ با! |
مرہم کا فورزخمِ سینہ ہا |
درد باشد خانہ زادِ بامِ او |
گشتہ طاؤس ازبہارِ داغ او |
ابرِرحمت بحر لطفِ بےکنار |
کردہ ماہی تابمہ فیض آشکار |
عالمے گل چین شدازباغِ او |
گشتہ طاؤس ازبہارِ داغ او |
بلبلِ گلزارِ اوبیش ازشمار |
ہریکے گردیدہ ازشادی ہزار |
خضر باشد بندۂ درگاہِ او |
آب حیواں نذرِ خاکِ راہ او |
(۳)
باد قرآں شود سرمشقِ اعجاز |
بایں بت خانہ گردوجلوہ پرداز |
چہ نسبت کفربااسلام دارد |
نمودِ فرق صبح وشام دارد |
شعارکفربرداسلام درکون |
ستردہ تیغِ موسیٰ ریشِ فرعون |
(۴)
مےشودبزمِ چراغاں ہرکنار |
محشرِ پروانہ ہائے جاں نثار |
مجلسِ رضواں بلاگردانِ او |
خلوتِ رُوح القدس قربان او |
(۵)
چویوسف عالے سودائے اوست |
شہیدِ جلوۂ یکتائے اوست |
نگیں مانندِ محوِ نامِ اوئیم |
سیہ مستانِ دَورِ جام اوئیم |
(۶)
ازکتاب تحائف قدسیہ ۔مصنّفہ شیخ پیرکمال لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
فقیرواولیأ کنبل سیاہ پوش |
شدہ پیرِ محمدمستِ باہوش |
شریعت ہم طریقت کردہ یکجا |
حقیقت معرفت راگشت ملجا |
نرفتہ یک قدم از شرع بیروں |
ہمیشہ بوداندرحکم بیچوں |
نماندہ درجہاں ازغیرتش غیر |
زفیضِ نظر اوچوں کعبہ شددَیر |
گلِ گلزارِ وحدت گشت سیراب |
زباغِ عشق اوشدجملہ درآب |
چناں آں دستگیرِ وقت گردید |
کہ واصل ہمہ شد عالم بیک دید |
دوبارہ درجہاں نوشہ رسیدہ |
بہ بخشش ازجہاں سبقت گزیدہ |
درونِ فقرپیروبس جواں بخت |
کہ بعد از شاہ نوشہ گشت برتخت |
ہزاراں مُردہ دل گردیدہ زندہ |
شہانِ ملک درخدمت چوبندہ |
ہمہ عالم بفیضِ اوشدہ سیز |
ولیکن وے تحمل کروزاں دیر |
نماندہ قدرنعمت عام گرد |
طیورووحش مستِ جام گردد |
(۷)
ازکتاب کنزالرحمت۔مصنّفہ مولانامحمد اشرف فاروقی منچری رحمتہ اللہ علیہ
زہے غوثِ دوران و قطب زماں |
درونورِ ذاتِ الٰہی نہاں |
کمانِ کہ کردہ صلاحش بدست |
بیک زورِ بازوئے پاکش شکست |
زمعراجِ اوعرش یک پایۂ |
فلک زیرِ بام ودرش سایۂ |
قضاوقدر ہر دومحکومِ شاں |
ہمہ رازِ پوشیدہ معلومِ شاں |
شدہ توسنِ آرزو رامِ شاں |
اسم اعظمِ ایزدی نامِ شاں |
بیک قرت نوشیدہ جامِ الست |
ازاں جام بربادہ مادام مَست |
جنیدِ زماں شبلیِ وقت بود |
زپیشینیاں گوئے سبقت بود |
(۸)
از مولاناپیرغلام قادرشاہ اثر انصاری برقندازی جالندہری رحمتہ اللہ علیہ
کیاہی اپنا بخت یاوراورطالع یارہو |
جوہمیں حاصل حضورِ حضرتِ سچیارہو |
یادمیں شوخِ چنابی کی رسیلی آنکھ کے |
کیوں نہ قرابہ شکن یہ چشمِ دریابارہو |
خاکپاہوں اس کاجو عاشق ہے ہادی پاک کا |
کافرِ اسلام ہو یامومنِ دیندارہو |
آگیابغداداقدس کونوشہرہ میں ظہور |
دیکھ لے آنکھوں سے آکر جس کوکچھ انکار ہو |
حضرتاتکمیل وہ حاصل ہے تیری ذات کو |
اک نظر دیکھوجسے تو وہ اولی الابصار ہو |
کالاکنبل اوڑھ کرزلفوں کولنبے چھوڑکر |
خوابگاہِ ناز سے جلوہ نمااک بارہو |
رویتِ اقدس تیری خواب میں ہووے نصیب |
چشم خفتہ میری رشکِ طالعِ بیدارہو |
گرتراجوشِ تصرّف جوش ستّاری میں آ |
حافظ قائم کاجتنارجس ہو اطہارہو |
صدقہ محی الدین کا نوشہرہ میں بلوالو اسے |
یوں اثر کی کب تلک بستی ۱؎میں مٹی خوارہو |
(۹)
حامئے دنیاؤدیں اپن شہ سچیارہے |
نائبِ خاصِ رسول اللہ کاجو مختارہے |
زینتِ سجادۂ حاجی محمد گنج بخش |
شاہ سلیمانِ سخی کاخازنِ اسرارہے |
ہے وہ منظورجنابِ غوث ِاعظم محی دیں |
سالکانِ نوشہی کا قافلہ سالارہے |
دے رہے ہیں مبتدی کی اِنّی اَنَااللّٰہ صدا |
ہے یہاں آغاز میں جوکچھ مآلِ کارہے |
انمیں ہیں سارے خواصِ قطبِ ارشادو مدار |
فیض ان کا نقطۂ عالم پہ چوں پرکارہے |
پاتےہیں تکمیل حاضرہوکے خاصانِ خدا |
مجلسِ اُنس ان کی بزمِ خواجۂ احرارہے |
لی کفالت ہے کی مُرِیدِی لَاتَخَف آپ نے |
غم اثرکیاہم کو جب وہ مونس وغمخوارہے |
(۱۰)
جاں بلب ہوں ہجرِدلدارِ چنابی زادمیں |
رات دن جاتاہے آہ ونالہ وفریادمیں |
مجتمع ہیں سب خواص قطبِ ارشاد ومدار |
حضرتِ سچیارہادی صاحبِ ارشادمیں |
جس نے دیکھااک نظر مدہوش ومتوالاہوا |
ہے غضب کا نشہ انکی چشمِ سحرایجادمیں |
اُس بُتِ چنّاب سے کہناخدارااے صبا |
مررہاہے اک تیرامشتاق تیری یادمیں |
کلبۂ احزان بستی میں ۲؎ہوں یارب دم بخود |
یامجھے پہنچادے نوشہرہ میں یا بغداد میں |
روضۂ سچیار کی ہوگی زیارت کب نصیب |
بس یہی ہے رات دن حسرت دلِ ناشادمیں |
دَورگردوں گرمخالف ہے توکیاغم ہے اثر |
حضرت سچیارکے ہوں دامنِ امدادمیں |
۱؎،۲؎بستی سے مرادبستی شیخ درویش ہے۔جوشہرجالندھرکےپاس ایک قصبہ ہے۔مولانااثر رحمتہ اللہ علیہ کامولدو مسکن تھا۱۲۔سیّدشرافت
(۱۱)
ہادی راہِ نماپیرمحمّد سچیار |
قبلۂ اہلِ صفا پیرمحمّد سچیار |
انکی صورت ہے میاں عین لقائے رحماں |
مظہرِ ذاتِ خداپیرمحمّد سچیار |
مقعدِ صدق سے جسدم وہ سرفراز ہوئے |
تب خطاب ان کا ہواپیرمحمّد سچیار |
اسکی کشتی کو نہیں لطمئہ طوفاں سے خطر |
ناخداجس کا بناپیرمحمّد سچیار |
ٹل گئے دل سے غم ورنج کے سب بارگراں |
کہااک بارجویاپیرمحمّدسچیار |
بول اُٹھے اِنِّی اَناَسرّحقیقت سے جسے |
کریں آگہ جو ذراپیرمحمّد سچیار |
کیوں اثر ہوغم وغدغۂ یومِ نشور |
جس کے حامی ہوں بھلاپیر محمّد سچیار |
(۱۲)
نہ کیاشوخِ چنابی نےکبھی یاد ہمیں |
چین لینے نہیں دیتادلِ ناشادہمیں |
قبلۂ وکعبۂ دیں پیرمحمّد سچیار |
پیرکیاحق نے دیاصاحب ارشادہمیں |
ایسے سرمست ہوئے دیکھ کے وہ میگوں چشم |
کہ دوعالم کی نہ مطلق رہی کچھ یادہمیں |
سجدے کرتے ہیں تیرے عتبۂ عالیشاں کو |
کچھ ڈر نہیں ڈرپڑے کافرکہیں زہادہمیں |
عصرتابارِ علائق سے گھٹاجاتاہےدَم |
فکردنیاکی اسیری سے کرآزاد ہمیں |
خاکساری میں ہے اس قطب زماں کے یہ عروج |
شوق سے دیکھنے کو آتے ہیں اوتاد ہمیں |
اے اثردجلہ ہے چنّاب دکھائی دیتا |
اورنوشہرہ نظرآتاہے بغداد ہمیں |
(۱۳)
ازاعلیٰ حضرت مولاناسید غلام مصطفےٰ نوشاہی دام برکاتہہٗ
امیرِ تختِ عرفاں بودسچیار |
امام و رہنماباجودسچیار |
ولیِ باکمال وقبلۂ جاں |
حبیبِ ایزدِ معبود سچیار |
مریدِ پیر نوشہ صاحبِ ذوق |
بعشقِ مقتدربہبود سچیار |
مقدس اسمِ وے پیرِ محمّد |
بصدق و راستی مے بود سچیار |
بنوشہرہ مبارک روضۂ او |
بگردس زائراں مسجود سچیار |
بہرسومشک فقرش ہست بیحد |
بعرفاں گوئے حق بربودسچیار |
بہ نوشاہی نگاہے کن خدارا |
بقلبم ذوق جب موجودسچیار |
(۱۴)
شاہ سچیار ست پیر عارفاں |
مرشدِ آفاق شیخِ واصلاں |
درہمہ اوقات منظورِ خدا |
درہمہ ساعات ازشہوت جدا |
فیض اوعام ست چوں طوبیٰ دراز |
ہرکہ یارش گشت میشد سرفراز |
ہست نوشہرہ عجیبش خانقاہ |
فیضہاجوئیندزاں فقراؤشاہ |
درجنابِ شیخ خود منظور بود |
روزوشب درخدمتِ مرشدفزود |
درمریدانش زدنیادیں نشاں |
نیزاولادِ ولی کامل بداں! |
گفت نوشاہی دعائیش بیحساب |
درحضورِ پیر نوشہ بے حجاب |
(۱۵)
عاشق کردگارواں سچیار |
شائقِ تاجدار داں سچیار |
یافت عشقِ خدازنوشہ پیر |
زبدۂ اولیاعیاں سچیار |
واقعۂ وفات
منقول ہے کہ جب آپ کے ایام رحلت قریب آئے توآپ نے سب احباب کو پیغام بھیجے کہ بہت جلدی آکر اپنے مقاصد حاصل کریں۔کہ مجھ کو سفرِ آخرت درپیش ہے۔
جب وقت اخیرہواتومیاں کالاخادم نے عرض کیاکہ بعض یارانِ طریقت قریب اور بعض دُور ہیں اور بعض غائب اور بعض حضورہیں۔آپ نے فرمایامیں مجذوب نہیں ہوں ۔جوکچھ جس کاحِصّہ تھا۔ وہ پہلےروزہی اس کو دے دیاتھا۔میرے لیے نزدیک اور دُور یکساں ہے۔حق تعالےٰ نے مجھ کو ایسی طاقت عطافرمائی ہے۔پھرمیاں کالاکو فرمایاکہ تم جاکر عصرکی نماز پڑھو۔اس کے بعد اپنے بیٹے میاں عبدالجلیل رحمتہ اللہ علیہ اور اپنی بیٹی بی بی فیروزخاتوں رحمتہ اللہ علیہ کورخصت کیااور ذکروفکرمیں مشغول ہوئے۔۱؎
آپ کی عمر بقول صاحب مناقبات نوشاہیہ ایک سو سات سال تھی۔آپ کی آنکھوں پراخیرعمرمیں پلکیں ڈھلک گئی تھیں۔جو شخص زیارت کےلیے آتا۔اُس کانام ومقام پوچھ کر پتہ کرتے۔آپ نے آخری وقت میں وصیّت کی کہ میرے پیر روشن ضمیر حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کابُھورا (سیاہ کنبمل)جوبطور تبرّک میرے پاس موجودہے۔وہ بوقت دفن میرے سَر کے نیچے رکھنا۔چنانچہ اسی
طرح کیاگیا۔
فائدہ۔
اپنے مشائخ کے تبرّکات کواپنے ساتھ دفن کرنے کی وصیّت کرنامعمول صوفیہ ہے۔چنانچہ:
۱۔حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے وصیّت کی کہ حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ناخن اور بال جو میرے پاس موجودہیں۔میرے ہاتھوں اورمنہ میں رکھ کر دفن کرنا۔۲؎
۲۔خواجہ نصیرالدین محمود چراغ دہلی رحمتہ اللہ علیہ نے وصیّت کی کہ حضرت سلطان المشائخ کے تبرّکات بوقت دفن میرےساتھ رکھنا۔خرقہ سینہ پر ۔کاسہ چوبیں سرکےنیچے۔تسبیح زیرانگشت۔ ایک طرف نعلین۔ایک طرف عصا۔۳؎
تاریخ وفات
حضرت شیخ پیرمحمد سچیاررحمتہ اللہ علیہ کی وفات بقول صاحب کنزالرحمت پچیسویں ماہ ربیع الاوّل ۱۱۱۹ھ میں ہوئی اورکتاب تحائف قدسیہ میں ۱۱۲۰ھ لکھاہے۔
تقویم تاریخی کے مطابق اس روزپنجشنبہ ۱۴ جون ۱۷۰۸ء تھااور ہندی تاریخ اس کے موافق ماہِ جیٹھ
۱۷۶۵ بکرمی ہوتی ہے۔
مدفن
آپ کامزاراطہر نوشہرہ شریف (میانہ ) مضافات جلال پور جٹاں۔ضلع گجرات میں ہے۔
۱؎تحائف قدسیہ۱۲۔۲؎تاریخ الخلفأ۱۲۔۳؎تذکرۃ اولیائے ہندجلد اص ۱۳۱۔ سیّد شرافت
روضہ شریف کی تعمیر آپ کا روضہ شریف میاں عبدالجلیل رحمتہ اللہ علیہ کے عہد۱۱۲۲ھ میں تعمیر ہوا۔شیخ محمد فاضل لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سو روپیہ دیااورحضرت شہمیرقلندرلاہوری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ بخٹ جمال تیراندازجھنگی والہ نےبھی معقول رقمیں چندہ میں دیں اورروضہ مکمل ہوا۔
دوسری بارظاہرہونا
دریائے چناب کی طغیانی کی وجہ سے ۱۲۵۸ھمیں نوشہرہ دریابُرد ہوگیا۔آپ کا تابوت نکال کردریاسے دُور دفن کیاگیا۔۱۲۶۰ھ میں چوہدری قادربخش بھٹی وزیراعظم مہاراجہ ریاست کپورتھلہ نے اس پرگنبدبنوادیا۔معمار جالندھرکےتھے۔
نوشہرہ مغلاں کی ایک رئیسہ عورت نے پچیس بیگہہ زمین درگاہِ سچیاریہ کے مصارف کے واسطے نذر کی ۔اس وقت میاں الٰہی بخش بن میاں پیر بخش رحمتہ اللہ علیہ کاعہدخلافت تھا۔
مؤلف کتاب ہذافقیر سیدشرافت عافاہ اللہ نے ایک معمربزرگ سائیں غلام رسول برقندازی ساکن بڑکی شریف ضلع راولپنڈی کودیکھاہے۔جواُس زمانہ میں موجود تھے اور زیارت سے مشرف ہوئے تھے۔
تیسری بارظہور
۱۳۱۰ھ میں پھر دریائے چناب کی وجہ سے تابوت شریف نکالاگیامیاں محمد الدین بن میاں نبی بخش نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ۔کہ جس وقت حضرت سچیارصاحب رحمتہ اللہ علیہ کا صندوق نکالنے لگےتو کرم الٰہی اورحَسُّو اور گاماں قوال یہ شعرپڑھتے تھے اور بڑی تاثیراور وجدحالتیں رونماہوئیں
حب وطن دی عارفاں کیتاآن ظہور |
وچہ سیالاں چمکیامرزے والانور |
چیری لکھیں پریم دی لکھی مرزے ول |
توں پریم نگرداچوہدری اُتم ذات کھرل |
اُس وقت قبرسے نعروں کی آوازیں آئیں ۔پھرصندوق نکالاگیا۔
فائدہ۔
قبرسے نعروں کی آوازآناکوئی تعجب کاباعث نہیں ۔منقول ہے کہ میر سید علاؤالدین کتانوی کے دفن
کے وقت مزارسے تین بار کلمہ حق کی آوازآئی۔۲؎
۱؎تحائف قدسیہ ۱۲۔۲؎تذکرہ اولیائے ہندجلد ۲ص۵۳۔ سیّدشرافت۱۲
زیارت شریف
منقول ہے کہ جس وقت آپ کا صندوق شریف کھولاگیا۔توآپ کاجسم اطہر بالکل صحیح وسالم تھااور سرکے نیچے حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کابُھوراپڑاتھا۔
میاں محمد الدین بن میاں نبی بخش نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ بیان کیاکرتے تھے۔کہ جس وقت زیارت کھولی گئی تو اُس وقت قوالان مقدم الذکر یہ شعر پڑھتےتھے
جاں چڑھ دیکھاں عرش تے دلدل وااسوار |
پچھوں پَرت نہ دیکھدانبیاں داسردار |
اوروجد و ذوق کا بازار گرم تھا۔
کتاب مصباح نورانی درحالات خواجہ محکم الدین سیرانی رحمتہ اللہ علیہ ۔مترجمہ مولوی محمد باقر نقشبندی دھڑیالوی اور مولوی محمد اعظم قادری نوشاہی میرووالی ص ۱۳۴میں ہے۔
"۱۳۱۰ھ ماہ ساون بھادوں میں دریائے چناب کے سیلاب و طغیانی کے سبب سے جب کہ سیداولیأ حضرت پیر محمد سچیارقدس سرہٗ کاصندوق ان کے مزارپرانوارسے بمقام نوشہر ہ شریف تحصیل گجرات پنجاب جوبرلب آب چناب واقع ہے۔نکالاگیاتھا۔توخادم الفقرابھی سن کر وہاں پہنچا اور صندوق کوکھلاکر بچشم خود زیارت سےمشرف ہوا۔دیکھاکہ آپ کے کسی عضو میں ایک ذرّہ بھربھی فرق نہیں۔آنکھ۔کان۔ناک۔ہونٹ۔دانت۔بال سب بدستورہیں۔بیشک آپ کے وجود مقدس کی یہ عزّت آپ کے اتباع سنت کی برکت تھی"۔بلفظہٖ
منقول ہے کہ آپ کی زیارت شریف کے وقت کئی کرامات ظاہر ہوئے۔چنانچہ:
۱۔مسمات شاہ بیگم دخترمیاں وسّن نوشہروی نابیناتھی۔زیارت کرنے سے بیناہوگئی۔
۲۔سیّد جلال الدین چک سادہ والے کا قلب ذاکر ہوگیا۔
۳۔ایک زانی مرد اور زانیہ عورت محض زیارت کرنے سے گناہ سے تائب ہو کر آیند ہ کے لیے نیک بن گئے۔
مؤلف کتاب نے بہت سارے اشخاص کودیکھا۔جنہوں نے حضرت سچیارکے جسدِ اطہر کی زیارت کی تھی ۔مثلاً
۱۔میاں محمدالدین بن میاں نبی بخش نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ۔
۲۔حاجی الحرمین میاں نواب علی بن میاں میراں بخش سجادہ نشین نوشہروی۔
۳۔مولوی محمد ابراہیم قادری فاضلی امام مسجد نوشہرہ شریف۔
۴۔سائیں غلام رسول بن سائیں کالابرقندازی ساکن بڑکی شریف ضلع راولپنڈی۔
۵۔پیرمحمد شاہ بن شیخ گوہرشاہ سلیمانی ساکن رَن مل
یہ پانچویں صاحب سال تالیف کتاب ہذا۱۳۷۶ھ میں زندہ موجودہیں۔
یہ سب حضرات بیان کرتے تھےکہ چھ ماہ تک آپ کی زیارت کُھلی رہی۔پھردفن کئے گئےاور ہزاروں لوگ دُوردراز کے علاقوں سے آکر زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔یہ واقعہ میاں میراں بخش بن میاں سلطان بالانوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے سجادگی میں پیش آیا۔
عدالت گڑھ کے ٹیلہ پر دفن ہونا
کتاب انوارالقادریہ الملقب بہ ریاض النوشاہیہ میں لکھاہے کہ جب دوسری مرتبہ ۱۳۱۰ھمطابق۱۹۴۹بکرمی میں صندوق سچیار صاحب بمعہ صندوقہائے اولاد کے بباعث طغیانی دریاکے برآمد ہوا۔تو اولاد نے چاہاکہ عدالت گڑھ کے ٹیلے پر دفن کریں۔اُ س جگہ کے لوگ مزاحم ہوئے چنانچہ یہ مقدمہ بعدالت خان بہادراحمد شاہ ڈسٹرکٹ جج گجرات ۔سی۔ای ۔آئی ساکن بَستی نوعلاقہ ریاست کپورتھلہ دائرہوا۔انہوں نے فریقین میں صلح کروادی۔مالکوں کو زمین کی قیمت دلوادی اور پھرتمام
صندوق وہاں مدفون ہوئے۔
چاردیواری کی تعمیر
عرصہ بیتالیس سال تک قبریں کچّی رہیں۔۱۳۵۲ھ میں حاجی الحرمین میاں نواب علی بن میاں میراں بخش سجادہ نشین نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانہ میں پیرزمان شاہ نے پختہ بنوادیں اورآس پاس چاردیواری بھی تعمیرکرائی۔چاروں کونوں پر چھوٹے چھوٹے چارمینارہیں۔ تین فٹ بلند چبوترہ ہے۔اُس پر چار قبریں ہیں۔مغربی قبرحضرت سچیارصاحب کی ہے۔آپ کے متصل مشرقی قبرآپ کے پوتے میاں محمد اکرم رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔اس کے متصل مشرقی قبرآپ کے بیٹے میاں جلیل رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔اس کے متصل مشرقی قبرسلطان ملک بن سلطان محمد رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔
مشرق مغرب شمال جنوب دروازہ
سچیاررحمتہ اللہ علیہ محمد اکرم رحمتہ اللہ علیہ
عبدالجلیل رحمتہ اللہ علیہ سلطان ملک رحمتہ اللہ علیہ
تعمیر مسجد
عدالت گڑھ کے ٹیلہ پر درگاہ سچیاریہ رحمتہ اللہ علیہ کے متصل جنوب مغرب کی طرف حاجی میاں نواب علی رحمتہ اللہ علیہ کی خلافت میں ۱۳۵۲ھ میں پیرزمان شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مسجد بھی پختہ تعمیرکرائی۔
مکانات ملحقہ درگاہ شریف
حلقہ درگاہ میں ٹیلہ پر چند۱؎مکانات بھی ہیں۔جن میں مجاورانِ خانقاہ رہتے ہیں اور درگاہ شریف کا چڑھاوالیتے ہیں ۔اس میں اولاد یا سجادہ نشین کا کوئی حق نہیں۔ یہ مجاوران آباواجدادسے اس جگہ کے متولی اور وارث چلےآتےہیں۔زمانہ حاضرہ یعنی ۱۳۷۶ھ میں مندرجہ ذیل مجاوران زندہ موجود
ہیں۔
۱۔میاں غلام حسین بن میاں محمد الدین۔
۲۔میاں فضل حسین بن میاں محمدالدین۔
۳۔میاں غلام رسول المعروف امانت علی بن میاں شاہ محمد۔
۱؎۱۳۸۰ھ میں موضع نوشہرہ شریف دریابرد ہوگیااور سجادہ نشین حضارت نے اسی ٹیلہ پر درگاہ شریف کے متصل اپنے مکانات بنالیے ہیں اور باقی اولاد کے اکثر افراد نے جلالپور جٹاں سے مشرق کی طرف نوشہرہ آباد کیاہے۔۱۲ شرافت
حلقہ درگاہ میں پائیں طرف بوہڑ کا درخت ہے۔جنو ب کی طرف کنواں ہے۔ٹیلہ پر سب حضرات کی قبریں ہیں۔
عرس شریف
آپ کا عرس شریف دوجگہ پر ہوتاہے۔
۱۔آپ کے یوم وفات قمری تاریخ یعنی پچیسویں ربیع الاوّل کو ہرسال بمقام سندرپور شریف ضلع سیالکوٹ میں عُرس ہوتاہے۔یہ عرس آپ کے خلیفہ حضرت میرشاہ سلطان بگاشیرلکھنوالی رحمتہ اللہ علیہ کے پسماندگان اور فقراکیاکرتے ہیں۔اکثر فقرااس پر جمع ہوتے ہیں۔
۲۔اورشمسی تاریخ یعنی چوتھی ہاڑ کو ہرسال بمقام شرقپور شریف ضلع شیخوپورہ عُرس ہوتاہے۔یہ عرس آپ کے خلیفہ حضرت شاہ مراد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کےپسماندگان اور فقرا کیاکرتے ہیں۔غالباً یہ آپ کے چالیسواں کاختم ہے۔
میلہ نوشہرہ
ان کے علاوہ خاص نوشہرہ شریف میں ہرسال پانچویں ربیع الاوّل کو عُرس ہوتاہے۔جس کو "میلہ نوشہرہ"کہتے ہیں ۔دراصل یہ حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا عُرس ہے۔حضرت سچیارصاحب نے اپنی زندگی میں شروع کیاتھا۔حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی وفات آٹھویں ربیع الاوّل کو ہوئی تھی۔آپ کے زمانے سے یہ طریقہ جاری ہوا کہ پانچویں اور چھٹی تاریخ کو نوشہرہ میں عرس کرتے اور سب فقرائے سلسلہ شامل ہوتے۔ساتویں تاریخ کو لکھن وال میں حضرت میر شاہ سلطان بگاشیررحمتہ اللہ علیہ کے ہاں عُرس ہوتااور آپ بھی بمعہ فقراوہاں شامل ہوتے۔آٹھویں تاریخ کو شیخ پور میں میاں میہوں رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں عرس ہوتااورآپ بمعہ درویشاں وہاں شامل ہوتے۔وہاں عرس شریف کااختتام ہوتااور آپ واپس گھرآجاتےاور باقی فقرا بھی رخصت ہوکراپنےاپنے وطن کو چلے جاتے۔ابتدامیں آپ پیدل چل کر فقراکے ہمراہ آیا کرتے تھے۔لیکن اخیرعمر میں جب کہ آپ کی عمرسو سال سے متجاوزہوگئی۔تو مریدین آپ کو پالکی میں اٹھاکرلے جاتے۔چند سال اسی طرح سلسلہ رہا۔اُس روز سے اولاد میں پالکی نشینی کی رسم جاری ہوگئی۔
میلہ نوشہرہ کاتذکرہ تاریخی کتابوں میں بھی آیاہے۔
(۱)
مولاناحکیم محمد اشرف فاروقی منچری رحمتہ اللہ علیہ کتاب کنزالرحمت ص۱۱۴میں لکھتے ہیں
چوگردوبنوشہرہ روز چراغ |
جہاں ازچراغاں شود باغ باغ |
(۲)
مرزامحمد اعظم بیگ تاریخ گجرات ص۵۸۴پر لکھتے ہیں:
"نوشہرہ مکان۔خاندان نوشاہی ۔فقیروں سے بڑا نامی ملک پیرمحمد سچیاررحمتہ اللہ علیہ کی یہاں خانقاہ ہے۔وہ اہل سلسلہ اس خاندان کے تھےاوران کے مرید دوآبہ جالندھرو امرتسر و کوہستان جمّوں وغیرہ میں بکثر ت ہیں اور وہ صاحب عرصہ ایک سو برس سے اس موضع میں ہوئے ہیں اوران کی خانقاہ گاؤں سے شمال بفاصلہ دوسوکرم بیروں واقعہ ہے۔عمارت پختہ ہے اور ایک مسجد بھی پختہ اس کے متصل موجودہےاوران کی اولاد بھی اس گاؤں میں رہتی ۔ہرسال بتقریب عُرس ان کے فقیر لوگ دوابہ جالندھرملک مانجہہ۔ضلع سیالکوٹ وکوستانِ جموں وملک باروغیرہ علاق جات ضلع گجرات سے اس جگہ آتے ہیں اور لوگ غیر فقرابھی جو مرید اس خاندان کے ہیں۔جوانب صدرسے حاضر ہوتے ہیں۔یہاں پر راگ ہوتاہےاورفقیر حال کھیلتے ہیں کہ اس خاندان کاطریق ہے۔بعض فقیروں کوان کے پاؤں میں رسن ڈال کر درخت سے لٹکادیتے ہیں کہ وہ برابر ایک ایک پہر تک اسی حالت میں کھیلاکرتے ہیں۔ایک وقت کی روٹی تو خاص گدّ ی نشین فقیروں کودیتاہےایک سوروپیہ تک خرچ کرکے۔ہراولادکواہل مزار سے جوجوجس کا مرید ہوتاہے۔اس کے پاس روٹی کھاتے ہیں اور نذر نیاز بھی حسب ِ توفیق ایک دوروپیہ تک ان کودیتے ہیں جن کے مریدہیں دوروزتک اس طرح پر یہ میلہ تو خاص میں رہتاہے اور سوائے فقیروں کے اور لوگ رخصت ہوتے ہیں۔گدی نشین وغیرہ اولادحضرت کی مع فقرابروزسیوم موضع لکھنواں میں کہ متصل نوشہرہ کے بفاصلہ چار کوس ہے آتے ہیں۔ایک دن وہاں رہتےہیں اوروہاں منجملہ مریدان پیر محمد سچیاررحمتہ اللہ علیہ کے فقیر موجود ہیں۔اس روز روٹی جملہ واردین کو دیتے ہیں۔بروز چہارم وہاں سے اُٹھ کر اوروقت چاشت جلال پو ر میں رہ کر شام کو موضع شیخ پورمیں جاتے ہیں ۔وہاں لوگ مرید اس خاندان کے ہیں۔رات کوروٹی وہ جملہ فقرااوراولادِ حضرت کو دیتے ہیں ۔صبح کو میلہ تمام ہوکرفقراو مسافر اپنے گھروں کو اور گدی نشین واولادِ حضرت اپنے گھروں کو رخصت ہوتے ہیں۔یہ حرکات آمدورفت لکھنوال وغیرہ اس واسطے کرتے ہیں کہ ان کے بزرگ پیرمحمد سچیاررحمتہ اللہ علیہ بحیات ِ خودانہیں منزلوں سے ہر سال مریدوں کے پاس آتے جاتے رہے ہیں۔یہ اُن کی پیروی کرتے ہیں"۔بلفظہٖ
(۳)
چوہدری احمد حسن ایم اے ۔بی ۔ٹی۔ڈسٹرکٹ انسپکٹرمدارس ضلع جہلم ۱۹۲۸ء کتاب جغرافیہ ضلع گجرات ص۶۱میں لکھتے ہیں:
"میلہ نوشہرہ دریائے چناب کے کنارے حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ ۱؎کی خانقاہ پر یہ میلہ ماہ
ربیع الاوّل میں لگتاہے۔حضرت کے مریددوردورسے ہزاروں کے تعدادمیں جمع ہوتے ہیں۔قوالی کی محفلیں گرم ہوتی ہیں۔لوگ وجد میں آتے ہیں۔سجادہ نشین پالکیوں میں بیٹھتے ہیں اور لکھن والجلال پورجٹاں ۔شیخ پور۔سُوک وغیرہ مقامات میں سے ہوتے ہوئے لوگوں کونیک عمل کی نصیحت کرکے واپس آجاتے ہیں۔تم نے نوشاہی درویشوں کو دیکھاہوگا۔ان کی لمبی اُونچی چارگوشہ والی
ٹوپیاں کیانرالی اور بھلی معلوم ہوتی ہیں"۔بلفظہٖ
(۴)
امان اللہ خاں ارمان سرحدی۔کتاب عرس اورمیلے ص ۲۹۱میں لکھتے ہیں۔۲؎
"سچیارپیرکامیلہ ۔جلال پور جٹاں ضلع گجرات سے قریباً چارپانچمیل کے فاصلے پرپیر محمد سچیار نام ایک بزرگ کامزاربتایاجاتاہے۔جہاں یکم ربیع الاوّل سے ۶ ربیع الاوّل تک ان کا عرس منایاجاتاہے۔ اس عرس کو لوگ زیادہ ترمیلے کانام دیتے ہیں اورعرس کے موقعہ پر میلے ہی کی طرح رونق دیکھنے میں آتی ہے۔
مقام۔جلالپورجٹاں ایک مشہورقصبہ ہے جو گجرات شہرسے قریبًا۸۔۹میل کے فاصلہ پر ہے۔گجرات سے جلالپور جٹاں تک پختہ سڑک جاتی ہے۔جلالپورجٹاں سے چار پانچ میل وہ مقام بر لب پنجاب واقع ہے۔جہاں یہ میلہ لگتاہے۔
میلے کی کیفیت ۔میلے کے موقعہ پر دکانیں سجائی جاتی ہیں۔نعت خوانی اور قوالی ہوتی ہے۔راگ رنگ کی محفلیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔شامل ہونے والوں میں زیادہ تعدادکسانوں کی ہوتی ہے۔جو عموماً نواحی علاقوں یعنی گجرات اورجلالپورجٹاں کے دیہاتی ہوتی ہیں۔شہری لوگ بہت کم شرکت کرتے ہیں۔
عرس
پیرسچیار کا عرس بھی اسی دن ہوتاہے۔عرس کے موقعہ پر مزار پر قوالی کی جاتی ہے"۔بلفظہٖ
۱؎جغرافیہ میں نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا نام لکھاہے۔حالانکہ وہ سچیارصاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ ہے۱۲۔۲؎یہ کتاب ۱۹۵۹میں شائع ہوئی ۔یہ مضمون تالیف کتاب سے دوسال بعدداخل کتاب کیاگیا۱۲۔سید شرافت
مؤلف کتاب ہذافقیر سید شرافت عافاہ اللہ بھی ہرسال میلہ میں شامل ہواکرتاہے۔میلہ بڑابارونق ہوتاہے۔اس وقت ۱۳۷۶ھ میں میاں محمد اسلم خلف الرشید حاجی الحرمین میاں نواب علی نوشہروی گدی نشین ہیں اوررسومِ میلہ کو بڑے اہتمام سے کرواتےہیں ۔چوتھی ربیع الاوّ ل کوفقراآتے ہیں۔ پانچویں تاریخ کو ختم شریف ہوتاہے۔چھٹی تاریخ کو چراغان اور طواف ہوتاہے۔ساتویں تاریخ کو لکھنوال ۔آٹھویں کو شیخ پور جاتے ہیں۔وہاں سے سب اپنے اپنے گھروں کو چلے آتے ہیں۔
قطعہ تاریخ از کتاب کنزالرحمت
چوکردند زیں جائے نقلِ مکاں |
ربیع الاوّل بوداز سفرِ شاں |
زتاریخ ماہ بیست پنجم شمار |
کہ کردندزیں دارِ دنیاگذار |
بنوشہرہ شد روضۂ پاکِ شاں |
کنار چناب ست مرقدعیاں |
بہرسال آیند فقرابسے |
قدمبوس گردند آنجا بسے |
بہ پنجاب شد قبلہ زائراں |
شدہ مرجعِ اہلِ حاجات آں |
چواندیشہ کردم بتاریخِ دے |
خرد گفت درگوشِ من۔ذاتِ حے۱۱۱۹ھ |
قطعہ تاریخ از مؤلف
شاہِ سچیار رحمتہ اللہ علیہ پیشوائے زماں |
کاشفِ فیضِ حق بصد رحمت |
سالکاں رادلیلِ راہِ ھُدےٰ |
صوفیاں راخزینۂ صفوت |
کرد رحلت ازیں سرائے فنا |
درجناں یافت عزّت وبرکت |
بست و پنجم بُد از ربیعِ نخست |
چوں وصولش بحق شداز شفقت |
چوں شرافت بجست تاریخش |
ہاتفش گفت۔داخل الجنت ۱۱۱۹ھ |
منہ
حضرت ِ پیرمحمد ماہِ برجِ اتقا |
خازنِ گنجینۂ رمزِ طریقِ اِہتدا |
واقفِ اسرارِ عرفاں جامع علم وعمل |
شیرِ میدانِ طریقت سرنشینِ اولیا |
رازدارِ خاص حضرت نوشہ حاجی گنج بخش |
درصداقت بیعدیل آں شاہِ ملکِ ماطغےٰ |
رخت چوں بربست ازدارِ فناسوئے بقا |
شد وصالِ ایزدی اورامیسّر ہم لقا |
سال ترحیلش شرافت گفت ۔فرخندہ مقام |
نیز۔بحرفضل۔فاضل دَہر۔ختم الاولیا |
۱۱۲۰ |
۱۱۲۰ ۱۱۲۰ ۱۱۲۰ |
مادہ ہائے تاریخ
۱۔ آیت شریف ومایذکرالّااولوالباب ۱۱۲۰ھ
۲۔ آیت شریف ویعلمہ الکتاب والحکمتہ ۱۱۲۰ھ
۳۔آیت شریف خلیفتہ ۱۱۲۰ھ
۴۔ شیخ دہر ۱۱۲۰ھ
۵۔ رضائے حق ۱۱۲۰ھ
۶۔ خورشید ۱۱۲۰ھ
۷۔ مستِ خداداد ۱۱۲۰ھ
انتباہ حضرت شیخ پیرمحمد سچیارنوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کا مختصر تذکرہ شریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے پہلے حصّہ تحائف الاخبارنام؟میں بھی کیاجائے گا۱۲ شرافت
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)