آپ حضرت شیخ اسلیم چشتی کے خلیفہ تھے اور اپنے وقت کے عظیم مشائخ میں شمار ہوتے تھے کہتے ہیں کہ شہزادہ سلیم جہانگیر کو اُس کے والد جلال الدین اکبر بادشاہ اپنے ساتھ لے کر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے روضہ منورہ کی زیارت کو گئے اس سفر میں شیخ پیارا کو ساتھ لے لیا گیا تاکہ وہ شہزادہ ج ۔۔۔۔
آپ حضرت شیخ اسلیم چشتی کے خلیفہ تھے اور اپنے وقت کے عظیم مشائخ میں شمار ہوتے تھے کہتے ہیں کہ شہزادہ سلیم جہانگیر کو اُس کے والد جلال الدین اکبر بادشاہ اپنے ساتھ لے کر حضرت خواجہ معین الدین اجمیری کے روضہ منورہ کی زیارت کو گئے اس سفر میں شیخ پیارا کو ساتھ لے لیا گیا تاکہ وہ شہزادہ جہانگیر کی نگرانی کر سکیں اتفاق ایسا ہوا کہ اجمیر میں پہنچ کر شہزادہ بیمار ہوگیا اس وجہ سے اکبر بادشاہ بڑا ہی پریشان ہوا۔ اکبر نے شیخ پیارا کو کہا کہ آپ کے پیر و مرشد نے ہمارے ساتھ اس لیے بھیجا تھا کہ شہزادے کی دیکھ بھال کر سکیں شیخ پیارا نے جواب دیا کہ ہم حضرت کی خدمت میں عرض لکھ رہے ہیں آپ جو کچھ فرمائیں گے اس پر عمل کیا جائے گا چنانچہ آپ نے ایک شاہی قاصد کے ہاتھ شیخ سلیم کے نام عرضی لکھی جس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ بادشاہ کو کہہ دیں کہ انشاء اللہ شہزادہ تندرست ہوجائے گا چونکہ ہم نے تمہیں شہزادہ کی حفاظت کے لیے بھیجا تھا اس لیے شہزادہ کی بیماری کو اپنے جسم پر لے لو خط پڑھنے کے بعد شیخ پیارا نے بادشاہ کو تسلی دی اور شہزادے کی بیماری اپنے آپ پر لے لی اور شہزادہ تندرست ہوگیا شیخ پیارا اس بیماری میں کئی مہینوں تک مبتلا رہے۔
ایک بار شیخ پیارا بادشاہ کے دربار سے اُٹھ کر اپنے گھر آ رہے تھے راستے میں ایک مست ہاتھی نے پر حملہ کر دیا۔ ہاتھی آپ کے نزدیک پہنچا تو آپ اپنے گھوڑے سے اُتر کر فوراً قبلہ رُخ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے ہاتھی آپ سے ہٹ کر دوسری طرف چلا گیا۔
شیخ پیارا ۹۸۶ء کو فوت ہوئے آپ کا مزار پُر انوار دریائے نبرد کے کنارے پر ہے جو دکن اور گجرات کے درمیان میں ہے۔
چو از دنیا بفردوس بریں رفت
شہ مطلوب پیارا رحمت اللہ
عیانشہ فخرن الانوار تاریخ
۹۸۶ء
دگر محبوب پیارا رحمت اللہ