آپ شیخ احمد شاہ بن شیخ جیون شاہ صاحب مانگہ والہ رحمتہ اللہ علیہ کے چوتھے فرزند تھے۔بیعت طریقت اور خلافت حضرت سید غلام علی شاہ بن سید قدم الدین صاحب برخورداری ساہنپالوی رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔جن کا ذکر دوسرے طبقہ کے آٹھویں باب میں گذرچکاہے۔
اخلاق وعادات
آپ فقیر صورت،درویش سیرت تھے۔کسی سے بَرسرپرخاش ہوتے نظرنہ آئے۔خاموشی پسند تھے۔آپ کی صورت دیکھنے سے ہی آپ کی بزرگی کا نقش دل میں بیٹھ جاتاتھا۔ عصر کےوقت گاؤں میں سیرکیاکرتےاور ہرگھر میں چلتی صداکرتےاور اسم شریف ہُوکاذکرجاری رہتا۔
سکونت
آپ ساہنپال شریف میں مسمات بیگم بیوہ سردارولد عادل تارڑ کے سکونت رکھتے تھے۔اُس کی بیٹیاں خورد سال اوریتیم رہ گئی تھیں۔ان کی تربیت کاخیال رکھتے۔
شعرخوانی
آپ کبھی کبھی حافظ برخورداربُچّہ والہ کے یہ اشعار قِصّہ مرزاصاحباں سے پڑھا کرتے
کونج میں تیری راکھویں تیرے زورپھراں
|
چوگ نہیں ملدی چگنی کینکرنِت چراں!
|
جہڑے ساتھی آہے نال دے اُڈ گئے نی وَل گھراں
|
میں بھی اُڈجاندی دانابادنوں جے ہوندا زورپراں
|
خط خطاں تے آوندے تازے مثل وحی
|
جِند ہَس ہَس رس دے چَھڈیارنوں مت سِر حرف رہی
|
صاحباں کتّے سن لے بھونکدے دیکھ جَناں دے دھوں
|
ستیں دیندی کھرل نوں دَنیں کیوں لاہنائیں توں
|
جِس پاڑاوَلّا پاڑ یا سَر پر مِلسی رُوں!
|
چورپچھاتامُدِّیاں کرن نہ دیسن ہُوں
|
اولاد
آپ کےایک ہی فرزند شیخ سردارشاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
یارانِ طریقت
آپ کے تین کس مرید خاص تھے۔
۱۔گہنامچھیانہ ساکن اگرویہ ۔
۲۔ غلام محمد بن گہنامچھیانہ ۔
۳۔گہناماچھی ساکن اگرویہ۔
تاریخ وفات
شیخ قائم الدین کی وفات بروز جمعہ ۔وقت۔عصر۔انتیسویں ماہ صفر۱۳۵۲ھ میں ہوئی۔دوسرے روزموضع اگرویہ ضلع گجرات میں اپنے والد صاحب کے پاس دفن ہوئے۔
مادہ تاریخ ہے۔ "خورشید پیکر"۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)