شاہ سلیمان قادری کے فرزند اکبر اور سجادہ نشین تھے۔ حضرت نوشاہ گنج بخش سے بھی اکتسابِ فیض کیا تھا اور ترتیب و تکمیل پائی۔ متوکل صاحب علم و فضل اور جامع اوصافِ کمالاتِ ظاہری و باطنی تھے۔ استفراق بحدِ کمال تھا۔ بڑے سادہ مزاج اور سادہ لباس تھے۔ صرف ایک تہبند، ایک چادر اورسفید پگڑی زیبِ تن ہوتی تھی، جن کی قیمت دو روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ اپنی محنت و کاشت سے رزقِ حلال حاصل کرتے تھے۔
نقل ہے ایک دفعہ اپنے پوتے محمد شفیع کو خربوزوں کے کھیت کی نگہبانی کے لیے حکم دیا۔ ایک روز یہ کھیت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک سپاہی نے آکر خربوزہ لینا چاہا۔ انہوں نے منع کیا سپاہی نے صاحبزادہ کے مُنہ پر تھپّڑ مارا اور خربوزہ لے کر چلتا بنا۔ صاحبزادہ نے آکر دادا سے شکایت کی۔ فرمایا: صبر کرو، وُہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ چنانچہ اسی رات اس سپاہی پر حالتِ زندگی دیوانگی طاری ہوگئی۔ دیوانوں کی طرح ہر شخص کے پاس جاتا اور کہتا: میرے سر پر جُتے لگاؤ۔ ساری رات اسی طرح گزری، صبح اس کے وارث اسے ساتھ لے کر حاضرِ خدمت ہُوئے۔ بڑی عاجزی و انکساری سے معافی چاہی۔ آپ نے درگزر فرما کر اسے معاف کردیا۔ وُہ اسی وقت اپنی اصل حالت پر آگیا۔ شیخ رحیم داد نے ۱۱۱۵ھ میں وفات پائی۔ مزار بھلوال میں حضرت شاہ سلیمان کے مزار کے متصل ہے۔
شد زونیا چو در بہشتِ بریں سال تاریخ رحلتِ آں شاہ!
|
|
متقی اعظم و عظیم و رحیم گفت دل ’’اشرف و کریم رحیم[1]‘‘ ۱۱۱۰ھ
|
[1]۔ شیخ رحیم داد کا صحیح سال وفات ۱۰۹۳ ھ ہے (شریف التواریخ جلد سوم، حصّہ اوّل موسوم بہ تحائف الاطہار قلمی ۱۶۲)۔