حضرت شیخ سعدی بلخاری نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت شیخ سعدی بلخاری نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ سعدی بلخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا شمار اپنے وقت کے مشہور اولیاء کرام میں ہوتا ہے آپ حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ تھے اور ظاہری و باطنی علوم میں آپ کو درجہ کمال حاصل تھا صاحبِ کرامت ولی اللہ تھے بچپن سے ہی آپ سے ولایت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے آپ کے حالاتِ زندگی کے متعلق بہت سے بزرگوں نے کتب میں تحریر کیا ہے آپ نقشبندی سلسلہ طریقت کے عابد و زاہد بزرگ تھے اور مقامات عالیہ پر فائز تھے۔ آپ نے بہت سے مجاہدے اور ریاضتیں کی تھیں۔
بچپن کا واقعہ:
جناب شرف الدین مجددی کشمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی تصنیف ’’روضۃ السلام‘‘ میں حضرت شیخ سعدی بلخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات زندگی خود ان کی زبانی تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان فرماتے تھے کہ میری عمر تقریباً آٹھ برس کی ہوگی کہ میں اپنے گاؤں کے پاس واقع کنویں پر وضو کر رہا تھا کہ ادھر سے حاجی سعد اللہ وزیر آبادی گزرے جو کہ حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ تھے اور بنور تشریف لے جارہے تھے اُنہوں نے دیکھا کہ میں بڑی احتیاط سے وضو کر رہا ہوں تو بہت حیران ہوئے اور خوش بھی پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اس چھوٹی سی عمر میں یہ بچہ کس قدر توجہ و احتیاط سے وضو کر رہا ہے۔ چند لمحوں تک انہوں نے میری طرف اپنی توجہ مرکوز رکھی پھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آگے کی طرف چل پڑھے میں نے ان کے بعض ساتھیوں سے ان کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرت حاجی سعد اللہ ہیں جو اپنے مرشد پاک کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کے لیے بنور تشریف لے جارہے ہیں۔ یہ سُن کر میرے دل میں بھی شوق نے سر اُبھارا کہ ایسی بزرگ ہستی کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے چناں چہ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا حتی کہ جب بنور پہنچے اور حاجی سعد اللہ حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی زیارت کی سعادت سے مشرف ہوئے تو حضرت شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تمام لوگوں کا علیحدہ علیحدہ حال دریافت فرمایا جب میری باری آئی تو حضرت حاجی سعد اللہ نے میرے متعلق یہ کہا کہ یہ لڑکا بھی ہمارے ساتھ ہی آیا ہے اور اس کے حالات عجیب و غریب ہیں یہ سُن کر حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میری طرف دیکھا اور میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ یہ لڑکا ہمارے ساتھ آیا ہے بلکہ یہ کہو کہ ہم اس کے ساتھ آئے ہیں یہ لڑکا تو ازلی سعادت مند اور بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہے اگر اللہ تعالیٰ روز محشر تمہیں بخشے گا تو اس کے سبب سے بخشے گا اس کے بعد انہوں نے میرا نام پوچھا تو میں نے اپنا نام سعدی بتایا آپ نے فرمایا تم جہاں کہیں بھی جاؤ اور جہاں کہیں بھی رہو سعد ہو دنیا میں بھی تم سعد ہو آخرت میں بھی۔
حضرت شیخ سعدی بلخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے مجھ پر بے حد شفقت فرمائی اور اپنی اور خصوصی عنایات سے نوازا پھر مجھے اپنے گھر لے گئے اور اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ آج مجھے ایک ایسا کم عمر بچہ ملا ہے جسے حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی فرزندی میں قبول فرمایا ہے اس کےبعد حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجھے اپنی بیعت کی سعادت سے نوازا میں نے آپ کے گھر میں کئی برس گزارے اور آپ کے زیر سایہ تعلیم و تربیت اور روحانی فیوض و برکات حاصل کیں۔
لاہور میں آمد:
حضرت شیخ سعدی بلخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی لاہور تشریف آوری کے متعلق مختلف روایات ہیں چنانچہ حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک خلیفہ محمد یحییٰ زنگی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی تصنیف میں تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۰۵۳ھ میں حضرت شیخ سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مدینہ طیبہ میں وصال فرما گئے تو ان کے وصال کے بعد حضرت شیخ سعدی بلخاری نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لاہور تشریف لے آئے اور لاہور میں مستقل سکونت اختیار کرلی لاہور میں آپ خلق خدا کی رشد و ہدایت میں مصروف ہوگئے۔
اس ضمن میں ’’تحقیقات چشتی‘‘ کے مصنف نور احمد تحریر کرتے ہیں کہ جب حضرت شیخ سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیت اللہ جانے کی غرض سے براستہ لاہور روانہ ہوئے تو حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو لاہور میں لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے چھوڑ گئے اور حکم دیا کہ لاہور میں ہی رہیں۔
کرامات:
آپ مادرزار ولی اللہ تھے مستجاب الدعوات تھے لوگ آپ کی خدمت میں دُعا کے لیے حاضر ہوتے آپ کی بے شمار کرامات ہیں آپ کی کرامات کا تذکرہ ’’جواہر الاسرار‘‘ کے مصنف شیخ محمد عمر پشاوری اور ’’روضۃ السلام‘‘ کے مصنف شرف الدین کشمیری مجددی نے اپنی کتب میں کیا ہےت علاوہ ازیں ’’کتاب بلخاریہ‘‘ میں بھی آپ کی کرامات کا تذکرہ موجود ہے۔
آسیب زدہ ٹھیک ہوگیا:
آپ باعمل بزرگ تھے عابد و زاہد تھے جس کسی بھی آسیب زدہ کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا تو آپ صرف اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے اور وہ آسیب زدہ ٹھیک ہوجاتا تھا بعض مرتبہ یوں ہوتا تھا آسیب زدہ کو آپ کے پاس اگر کسی وجہ سے نہ لایا جاسکتا تو آپ یہ ارشاد فرماتے کہ جاکر آسیب زدہ کے کان میں یہ کہہ دو کہ شیخ سعدی(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں کہ اگر خیریت چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ ورنہ اچھا نہ ہوگا چنانچہ اس طرح آسیب زدہ ٹھیک ہوجاتا تھا۔
توجہ کامل کا اثر:
آپ نقشبندی سلسلہ کے باکمال بزرگ تھے اولیاء کرام میں سے جس کسی ولی اللہ کی روحانیت کی طرف توجہ مبذول کرتے وہ آپ کی توجہ کاملہ کے اثر سے فوری طور پر حاضر ہوکر کفایت فرماتے آپ بہت سے اولیاء کرام کی روحانیت سے فیض یاب ہوئے۔
غیبی تلوار اور جلال کی کیفیت:
حضرت شیخ سعدی بلخاری نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرشد حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ جب لاہور میں تھے تو لاہور میں نواب سعد اللہ خاں اور دیگر حاسد قسم کے لوگوں نے بادشاہ کو آپ کے خلاف کردیا اور چاہا کہ بادشاہ آپ کو تکلیف پہنچائے اس صورت حال پر حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور سے اپنے وطن واپسی کا ارادہ فرمالیا اور لاہور سے روانہ ہوگئے حضرت شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی جدائی آپ کو گوارا نہ تھی اس لیے آپ پر یہ بات بہت گراں گزری آپ جلال میں آگئے اور بادشاہ کی ہلاکت کے درپے ہوئے غیب سے اپنے ہاتھ میں ایک تلوار پکڑی اور چاہا کہ اس سے بادشاہ پر وار کریں مگر اچانک پیر و مرشد حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ظاہر ہوئے اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ تحمل و برداشت سے کام لو کیوں کہ یہ بادشاہ مسلمانوں اور رعایا کا خیر خواہ ہے۔
مرشد نے بادشاہ کو پھر بچالیا:
حضرت شیخ سعدی بلخاری نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب مغل بادشاہ شاہجہان نے بعض حاسدوں کے کہنے پر حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ہندوستان سے نکل جانے کا حکم دیا تو تمام مریدون و معتقدین خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس بادشاہ کو سبق سکھانا چاہیے اور اسے متنبہ کرنا چاہیے پیر و مرشد نے فرمایا کہ یہ بادشاہ مسلمانوں کا خیر خواہ اور رعایا کی بہبود کے لیے کوشاں رہتا ہے اس لیے اس کے حق میں بُرا ارادہ نہ کرنا چاہیے کیوں کہ وہ اس معاملے میں بے قصور ہے اسے ہمارے باطنی حالات کا علم نہیں ہے مریدین نے جب حضرت شیخ کا اس بابت یہ جواب سُنا تو وہ مطمئن نہ ہوئے وہ گویا مایوس ہوگئے آخر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ میں بادشاہ کی تنبیہہ کی طرف متوجہ ہوں لیکن مجھے اس معاملے میں پیر و مرشد کی ناراضگی کا خدشہ ہوا اس لیے میں نے پس و پیش سے کام لیا۔
پیر و مرشد کے ایک خلیفہ شیخ ابو الفتح نے مجھے قائل کرتے ہوئے کہا کہ پیر و مرشد کی رضا مندی اور خوشنودی کا میں ذمہ دار ہوں اگر وہ ناراض ہوں تو میں اُن کو منالوں گا اس پر میں نے اپنے ایک دوست کو اپنے ساتھ لیا اور کامران کے باغ میں جاکر اس مقصد کے لیے بیٹھ گیا میں نے ایسی توجہ کی کہ اپنی ہتھیلی پر بادشاہ کو تخت سمیت اُٹھالیا اور اس کے ساتھ اس کے تمام درباریوں اور اُن حاسدوں کو بھی ہتھیلی پر اُٹھالیا جو بادشاہ کو بد ظن کرنے کا سبب بنے تھے میں نے ابھی اس بات کا رادہ کیا ہی تھا کہ ان سب کو برباد کرکے رکھ دوں مگر فوری طور پر ایک رکاوٹ آڑے آگئی اور مجھے تصرف کرنے سے روک دیا دوسری مرتبہ میں نے پھر اپنا ہاتھ بڑھایا مگر کیا دیکھتا ہوں کہ بادشاہ کے دربار کے گرد ایسا زبردست حصار موجود ہے کہ کوئی بھی وہاں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا یہ دیکھ کر مجھے بڑی غیرت آئی اور جوش غیرت میں مَیں نے تیسری مرتبہ اپنا بڑھیا اور کوشش کی کہ حصار کو عبور کرکے بادشاہ تک پہنچوں اور بادشاہ کو ہلاک کردوں مگر عین اُسی وقت اچانک پیر و مرشد حضرت سید آدم بنوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات اقدس نے ظاہر ہوکر مجھے کمرے سے پکڑلیا اور مجھ سے ارشاد فرمایا بیٹا! ان کاموں میں تحمل سے کام لینا چاہیے پیر و مرشد کا ارشاد سُن کر میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور پھر اس واقعہ سے میں اس قدر شرمسار ہوا کہ تین یوم تک زیارت کی سعادت حاصل نہ کرسکا پھر جب زیارت کے لیے حاضر خدمت ہوا تو پیر و مرشد میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا تم تو اس معاملے میں قصور وار نہیں ہو سارا قصور تو ابو الفتح کا ہے کہ جس نے تمہیں اس کام کے لیے تیار کیا۔
وصال مبارک:
حضرت شیخ سعدی بلخاری نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک مدت تک خلق خدا کی رشد و ہدایت میں مصروف رہے بے شمار طالبان حق آپ کے روحانی فیض سے مستفید ہوئے کہا جاتا ہے کہ آپ نے چالیس برس تک لاہور میں طالبان حق کی رہنمائی کی اور ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ کیا بروز بدھ ماہ ربیع الثانی ۱۱۰۸ھ بمطابق ۲۰ اکتوبر ۱۶۹۶ء میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں آپ کا وصال ہوا۔
مہابت خاں ابراہیم اُس دنوں صوبہ لاہور تھا۔ آپ کا مزار مبارک ترمذی سٹریٹ سعدی پارک مزنگ لاہور میں واقع ہے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی قبر پر گنبد تعمیر نہیں کیا گیا۔
اولاد:
حضرت شیخ سعدی بلخاری نقشبندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چار صاحبزادے تھے جو کہ اپنے والد محترم سے فیض یافتہ تھے۔ ظاہری و باطنی علوم میں درجہ کمال پر فائز تھے عبادت و ریاضت کے معاملے میں بہت بڑھے ہوئے تھے چاروں صاحبزادوں کے نام یہ ہیں۔ خواجہ محمد سلیم، خواجہ محمد عبد الغنی، خواجہ محمد عارف اور خواجہ محمد یوسف۔
(مشائخ نقشبند)