اسم مبارک محمد بن موّید بن ابی بکر بن ابی حسین تھا شیخ نجم الدین کبریٰ کے مرید تھے عالم اور فاضل عامل کامل تھے یگانۂ روزگار تھے سجل الارواح آپ کی مقبول و معروف تصنیف ہے اس کتاب کے معانی بجز اصحاب اسرار و بصیرت دوسرے نہیں جانتے اس کتاب کے علاوہ آپ کی اور بھی بہت سی تصانیف ہیں۔ صدرالدین قونیوی قدس سرہٗ سے خصوصی صحبت رکھتے تھے شرح خصوص الحکم میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن سعد الدین حموی جناب صدرالدین قونیوی کے ساتھ ایک مجلس سماع میں موجود تھے شیخ سعدالدین پر ایک کیفیت طاری ہوئی تو آپ چشم بستہ خانقاہ کی طرف متوجہ ہوکر کھڑے رہے تھوڑی دیر بعد آواز دے کر کہنے لگے صدرالدین آگئے ہیں آپ سامنے حاضر ہوئے تو فرمانے لگے مجھے حضور سرور کائناتﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تھی میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں آنکھیں کھول کر اس نعمت سے محروم رہوں اب میرا دل چاہا کہ آنکھیں کھولوں تو تمہارے چہرے پر نظر پڑے۔
ایک دفعہ حضرت شیخ سعدالدین حموی پر ایک ایسی کیفت طاری ہوئی کہ آپ تیس دن تک بے خود رہے یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ بے جان پڑے ہوئے ہیں دوبارہ روح جسم میں آئی آپ ہوش میں آئے تو آپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ کتنے دن حالت بے خودی میں رہے۔
آپ کی وفات عیدالضحٰی ۶۵۰ھ کو ہوئی تھی آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی آپ کا مزار پُرانوار محمد آباد میں ہے۔
سعدالدین چوں ازیں سرائے ہموم پیشوائے امام سعدالدّین زندہ دل متقی رقم کن نیز ۶۵۰ھ
|
|
رفت خنداں بجنت گلزار ہلست تاریخ وصل آں سردار سال ترحیل آں شہِ ابرار
|
(خزینۃ الاصفیاء)