حضرت شیخ سعد الدین حموی
حضرت شیخ سعد الدین حموی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ سعد الدین حموی علیہ الرحمۃ
آپ کا نام محمدبن الموید بن ابی بکر بن ابی الحسن بن محمدبن حمویہ ہے۔آپ شیخ نجم الدین کبرے قدس اللہ تعالٰیروحہ کےامام یافعی کی تاریخ میں ہے کہ وہ صاحب احوال اور ریاضت تھے۔ان کے اصحاب و مرید تھے"وہ صاحب کلام تھے۔قاسیوں کے دامن میں(یعنی صالحہ و مشق) ایک مدت تک رہے تھے۔پھر خراسان کی طرف لوٹ آئےاور وہی فوت ہوئے۔ظاہری باطنی علوم میں یگانہ تھے۔ان کی تصنیفات بہت ہیں۔جیسے کتاب محبوب سنجل الارواح وغیرہ ان کی تصنیفات میں رموڑ کی باتیں اور مشکل کلمات"رقمیں"شکلیں" وائرہ ایسے بکثرت ہیں کہ عقل فکر کی نظر اس کے کشف و حل سے عاجز ہے اور بیشک جب تک بصیرت کی آنکھیں کشف کے نور سے نہ کھلیں۔ان کا سمجھنامشکل ہے۔آپ فرماتے ہیں:بشرنی اللہسبحانہ وقال من اصغی کلامک بحسن القبول والا عتقاد فی ذکری و تعریفی فقد اندرجت فیہ نطفۃ العلم و المعرفۃ وان التبس علیہ فی الحال فقد ثبت لہ النصیب فی طور من اطوارہ۔یعنی مجھ کو خدا تعالٰی نے خوشخبری دی ہے اور فرمایا ہے کہ جو شخص تیری با ت کو حسن قبول اور اعتقاد کے ساتھ میرے ذکر اور میری تعریف میں سنے تو اس میں علم اور معرفت کا مایہ خمیرموجود ہوگااوراگر بالفعل اس پر وہ امر مشتبہ ہو"لیکن اس کے لیے ایک قسم کا حصہ موجود ہو جائے گا۔شیخ صدر الدین قویزی قدس اللہ تعالٰی سروان کی خدمت میں پہنچے تھے"وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے سنا تھا کہتے تھے"عہد سات ہیں۔صرف نہدالست بربکم میں منحصر نہیں ہے۔میں نے یہ بات شیخ محی الدین علیہ الرحمۃ سے کہی۔انہوں نے فرمایا کہ وہ کلمات کہتے ہیں۔ورنہ جزئیات تو اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔شیخ مویدالدین جنیدی قصوص الحکم کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شیخ صدر الدین ایک دن سماع کی مجلس میں شیخ سعد الدین کے ساتھ حاضرتھے۔شیخ سعد الدین نے سماع کے درمیان اس صفہ کی طرف نہ کیا۔جو اس مکان میں تھااورپورے ادب سے کھڑے ہوگئے۔اس کے بعد اپنی آنکھیں چھپالیں"اور آواز دی کہ صدر الدین کہاں ہیں؟ جب شیخ صدرالدین سامنے آئے تو اس کے سامنے آنکھیں کھولیں اور کہا کہ حضرت رسالت پناہ ﷺ اس صفہ میں تشریف رکھتے تھے۔میں نے چاہا وہ آنکھیں کہ آنحضرت ﷺ کے جمال مبارک سے مشرف ہوئی ہیں۔پہلے تیرے منہ پر کھولوں۔وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میری روح کو عروج ہوا۔قالب سے علیحدہ ہوگئی۔تیرہ دن تک مردہ کی طرح پڑا رہا۔کوئی حرکت نہ کرتا تھا۔جب روح قالب میں آئے۔جسم کھڑا ہو گیا۔اسے خبر ہی نہیں تھی کہ کتنے دن تک پڑا رہا ہے۔اوروں نے جوحاضرتھے بتلایا کہ تیرہ دن ہوگئے ہیں کہ آپ کا قالب ایسا ہی پڑاہے۔آپ کے اشعار جو کتاب محبوب میں ہیں۔
یاراحۃمھحبتی و نور البصر استیقط قلبی بک وقت السحر
ناجیت ضمیر خاطری یا قمری انی انا فیک وانت فینظری
یعنی اے میری جان کی راحت اور آنکھوں کی بینائی میرا دل تیرے لیے صبح کے وقت بیدارہوا۔میرے دل نے سرگوشی کی اے میرے چاند میں تجھ میں ہوں اور تو میری نظر میں ہےاور یہ فارسی کی رباعیاں بھی اسی طرح کی ہیں۔رباعی:
کافر شوی ارزالف نگارم بینی مومن شوی ارعارض یارم بینی
درکفر میامیز دورایمان سنگر تاعزت یارو اقتقارم بینی
بے تو نظر نیست مرادرکارے بے روئے تو خوش نیاندم گلزارے
درباغ رضائے چونتو زیبا یارے پید اونہاں روئے تو بینم بارے
بے تو نہ بہشت بایدم نے رضوان نے کوثر و زنجیل و بحر حیوان
باقہر تو دوزخ است واز رضوان بالطف تو دوزخ ہمہ روح و ریحان
یہ شعر بھی اس طرح کے ہیں:
انت قلبیوانتفیہ حبیب ولسقم القلوب انت طیب
لیس فی القلب من یحبک صدقا غیر ذکر اک جالہ یستطیب
انت سمقی و صحتی و شفائی ویک الموت والحیاۃ یطیب
واذاما نظرت فی بلطف عن فوادی راعینی لاتغیب
لک سری و مھحبتی و ضمیری ساجد شاھد ومالی نصیب
یعنی تو میرا دل ہے اور اس میں تو حبیب ،اور دلوں کی بیماری کا تو طیب ہے ۔اس شخص کے دل میں جو تجھے دوست رکھتا ہے ۔تیرے ذکر کے سوائے اور کوئی ایسی حالت جو اچھی ہو۔نہیں ہے تم ہی بیماری اور صحت وشفا ہو۔تیرے ساتھ مرنا جینا اچھا معلوم ہوتا ہے۔اور جب تو میری طرف بنظر لطف دیکھتا ہےتو میرے دل اور آنکھ سے غائب نہیں ہوتا۔تیرے لیے میرا باطن جان و دل سجدہ کرانے والے اور حاضر ہیں۔اور میرا اس میں کچھ حصہ نہیں ہے۔یعنی سب کچھ تیرا ہی ہے۔آپ کی عمر ۶۳سال کی ہوئی ہے۔عیدالاضحیٰ کے دن ۶۲۵ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔آپ کی قبر شریف بحر آبا د میں ہے۔رحمتہ اللہ علیہ۔
(نفحاتُ الاُنس)