شیخ شاہی موئے تاب
شیخ شاہی موئے تاب (تذکرہ / سوانح)
آپ بدایوں کے رہنے والے تھے، قاضی حمید الدین ناگوری آپ کو ’’شاہ روشن ضمیر‘‘ کہا کرتے تھے، آپ کو قاضی صاحب موصوف نے خرقہ پہنا کر شیخ محمود موئینہ دوز کی طرف کہلا بھیجا، کہ آج میں نے یہ کام کیا ہے کہ ایک بادشاہ کو گوڑی پہنادی ہے اُمید ہے کہ یہ بات آپ کو پسند آئے گی، چنانچہ شیخ محمود موئینہ دوز نے قاضی صاحب کو جواب میں کہا کہ آپ جو کچھ کریں قابل پسندیدگی ہے۔
دوستی ہو تو ایسی:
ایک دن شیخ شاہی موئے تاب کے کچھ دوست دھوپ میں اتنی دیر تک کھڑے رہے کہ ان کے بدن سے خون پسینہ بہنے لگا، اپنے دوستوں کی یہ حالت دیکھ کر شیخ نے اسی وقت ایک خون نکالنے والے کو بلوایا، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اس سے کیا کام لینا چاہتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میرے دوستوں کا جتنا پسینہ نکلا ہے میں اتنا خون اپنے بدن سے نکلوادوں گا۔
خیر المجالس میں یہ تمام واقعہ اس تفصیل سے لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ کے چند دوست آپ کو کہیں باہر لے گئے وہاں ان لوگوں نے کھیر پکائی جب کھیر پک گئی، تو کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا گیا شیخ نے کھانے کی طر ف دیکھ کر فرمایا، اس کھانے سے خیانت کی بُو آ رہی ہے میں اسے ہرگز نہیں کھاؤ گا، تمام دوستوں نے حیران ہوکر عرض کی ہم میں سے کسی نے بھی خیانت نہیں کی ہے، لیکن وہ دو ساتھی جو کھیر پکانے پر مقرر کیے گئے تھے، آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ جب دودھ کو اُبال آرہا تھا اور جھاگ بہہ رہے تھے اس وقت ہمارے پاس دوسرا کوئی ایسا برتن نہ تھا جس میں کچھ دودھ نکال لیتے تاکہ دودھ گرنے نہ پائے ہم نے مجبور ہوکر کچھ دودھ نکال کر پی لیا کہ گرنے سے تو یہی بہتر ہے، اس پر شیخ نے فرمایا کہ دوستوں کے سامنے کھانا رکھنے سے پہلے جو کوئی اس سے کھالیتا ہے وہ خیانت کرتا ہے، ان دونوں نے بہت عذر پیش کیا مگر آپ نے ان کی عذر خواہی قبول نہ کی اور ان دونوں کو شرمندہ ہونا پڑا، چونکہ گرمی کا زمانہ تھا اس لیے کھڑے کھڑے ان کو اتنا پسینہ آیا کہ بدن سے ٹپکنے لگا، یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ جاؤ اس مرتبہ تو معاف کیا آئندہ ایسا فعل نہ کرنا اس کے بعد خون نکالنے والے کو بلوایا اور فرمایا کہ میرے دوستوں کا جتنا پسینہ بہا ہے اتنا خون میرے بدن سے نکال کر زمین پر بہادو، شیخ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں کہ آپ کوا پنے دوستوں سے اتنی محبت تھی کہ اپنے بدن سے خون بہا دینے کا حکم دیتے ہیں اور شریعت کے آداب کا اتنا خیال کہ ان کی عذر خواہی قبول نہیں فرماتے۔
بیمار کے لیے دُعا کرنا سُنتِ اولیاء ہے:
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اتفاق سے شیخ نظام الدین اولیاء بیمار ہوگئے تو آپ نے شیخ شاہی موئے تاب کو بلا بھیجا اور فرمایا ہمت کیجیے کہ میری بیماری صحت سے بدل جائے، شیخ شاہی موئے تاب نے عذر خواہی کے ساتھ کہا، آپ بزرگ اور مجھ سے یہ خواہش کرتے ہیں، میں تو ایک بازاری آدمی ہوں میں کیا کرسکتا ہوں، شیخ نظام الدین نے ان کا عذر قبول نہ کیا اور فرمایا کہ آپ میرے لیے دعا کریں اور ہمت باندھیں تاکہ میری بیماری صحت سے بدل جائے، تو شیخ موئے تاب نے کہا اگر آپ مصر ہیں تو دو آدمی میرے پاس بلوا لیجیے چنانچہ دو آدمی بلوا لیے گئے جن مین سے ایک کا نام شرف تھا جو نیک اور بہت صالح آدمی تھا اور دوسرا درزی تھا، شیخ موئے تاب نے ان دونوں سے کہا کہ شیخ نظام الدین اولیاء نے مجھے اس کام کا حکم دیا ہے جو کام میں کہوں اس میں تم میری مدد کرو، شیخ کا جسم سر سے لے کر سینہ کے نیچے تک میرے سپرد ہے باقی ایک ایک ٹانگ تم میں سے ہر ایک کے حوالہ ہے، چنانچہ تینوں آدمی ازالہ مرض کے لیے مصروف کار ہوگئے اور شیخ نظام الدین اولیاء صحت یاب ہوگئے۔
اخبار الاخیار