شیخ شرف الدین بن یحییٰ منیری قدس سرہٗ
شیخ شرف الدین بن یحییٰ منیری قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
ہندوستان کے مشاہیر مشائخ اور کبار اولیاء اللہ میں سے تھے۔ زہدو ریاضت اخلاص و عبادت میں یگانہ وقت تھے تقویٰ و ارشاد میں یکتائے روزگار تھے آپ کے اوصاف احاطہ تحریر سے باہر ہیں۔ آپ کی بلند پایہ تصانیف میں سے مکتوبات اور ملفوظات (المعروف بہ معدن المعنان) مشہور زمانہ ہوئے۔ ارشاد السالکین شرح آداب المریدیں آپ کی کتابیں تصوف میں بہترین کتابیں مانی جاتی ہیں آپ شیخ نجیب الدّین فردوسی جو شیخ رکن الدین فردوسی کے مرید تھے کے خلیفہ تھے ابتدائی دَور میں حضرت شیخ المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا بدایونی کی زیارت کے لیے دہلی آئے مگر اس وقت حضرت خواجہ کا وصال ہوچکا تھا چونکہ ان دنوں شیخ نجیب الدین دہلی میں ہی قیام فرما تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے شیخ نے آپ کا بڑا پرتپاک خیر مقدم کیا اور فرمایا میں ایک عرصہ سے آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ آپ کے لیے میرے پاس روحانیت کی امانت تھی حضرت شیخ شرف الدین آپ سے بیعت ہوئے خاص نعمت آپ کے سپرد ہوئی اور کچھ عرصہ کے بعد آپ وطن واپس آگئے راستہ میں بیانوں سے گزرتے رہے یہ موسم بہار تھا موسم کی خوشگواری اور لطافت نے آپ کو راجگیر کے مقام پر قیام فرما دیا آپ وہاں ہی ریاضت و عبادت میں مصروف ہوگئے اور اس طرح کئی سال گزاردئیے آپ نے اپنے آپ کو اس طرح تارک الدنیا بنالیا کہ کسی کو آپ کا علم نہ تھا صرف مولانا نظام الدین مغربی ایک ایسے بزرگ تھے جو وقتاً فوقتاً آپ کے پاس آئے اور آپ کی خبر گیری کرتے تھے چونکہ آپ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید تھے۔ آپ کے حکم سے ہی آتے اور ملاقات کرتے۔
حضرت شیخ شرف الدین منیری نے بڑی لمبی عمر پائی تھی آپ نے سید شریف سمنانی کی زیارت کی لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ زندگی کے آخرین حصہ میں حضرت شیخ یحییٰ منیری سے پوچھا گیا کہ آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا آپ نے فرمایا تم لوگ فکر نہ کرو۔ جنازہ کے وقت ایک سید زادہ حافظ قرآن تارک السطنت سید اشرف نامی آئیں گے وہ نماز جنازے کی امامت کریں گے۔ جنازے کے وقت ایسا ہی ہوا۔
معارج الولایت کے مصنّف لکھتے ہیں۔ کہ جب شیخ یحییٰ منیری کو قبر میں رکھا گیا تو شیخ کا ہاتھ بلند ہوا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کوئی چیز طلب فرما رہے ہیں تمام حاضرین حیران رہ گئے حضرت میرا شرف جہانگیر سمنانی کی خدمت میں یہ واقعہ پیش کیا گیا آپ مراقبہ میں بیٹھ کر متوجہ ہوئے کہ شیخ نے مردان غیب سے کلاہ حاصل کیا تھا۔ وہ ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ لوگ اسی وقت دوڑے اور وہ ٹوپی لاکر پیش کی شیخ نے ہاتھ بڑھا کر ٹوپی پکڑلی اور کفن میں رکھ لی۔
شیخ شرف الدین معارج الولائیت کی تحقیق کے مطابق ۷۸۲ھ میں فوت ہوئے یہ زمانہ فیروز شاہ تغلق کی سلطنت کا تھا۔
شیخ شرف الدین منیری راہنمائے راہ حق |
|
مقتدائے دین احمد عالم و عامل شریف |
(خزینۃ الاصفیاء)
حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ شرف الدین احمدیحییٰ منیری کاشمارمشائخ کبارمیں ہوتاہے۔
والدماجد:
آپ محمدیحییٰ منیری کےفرزندہیں۔
نام:
آپ کانام احمدیحییٰ منیری ہے،جیساکہ آپ خودفرماتےہیں۱؎
"یارقدیم امام نظام الدین سلام وتحیت ازفقیرحقیراحمدیحییٰ منیری الملقب بشرف مطالعہ کند۔۔۔"
القاب:
آپ کالقب "شرف"ہے،آپ شرف الدین کےلقب سے بھی پکارےجاتے ہیں۔آپ کو شرف الاولیاء کےلقب سے بھی پکاراجاتاہے۔
دہلی میں آمد:
آپ حضرت نظام الدین اولیاءکاشہرہ سن کربیعت کی غرض سےدہلی آئے، لیکن آپ کےدہلی پہنچنے سے قبل حضرت نظام الدین اولیاءوصال فرماچکےتھے۔۲؎
بیعت وخلافت:
آپ جب دہلی پہنچےتوحضرت نظام الدین اولیاء کی وفات کاحال معلوم ہوکرآپ کوسخت مایوسی ہوئی۔ ایک روزآپ ارادت کی نیت سےحضرت شیخ نجیب الدین فردوسی کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے۔حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی مریدوخلیفہ اعظم حضرت شیخ رکن الدین فردوسی کے ہیں۔
حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی نےفرمایاکہ۔۳؎
"شرفاابیا۔ازبرائےتوزمانےاست پیش ازماسالہائے سال مشتاق توبودیم وانتظار تومی نموویم"۔
اےشرف۔آؤ،ہم تمہارےبہت عرصےسےمشتاق ہیں اورتمہاراانتظارکررہےہیں۔
اسی وقت حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی نےآپ کوبیعت سےمشرف فرمایا۔خرقہ خلافت آپ کو عطافرمایااورتبرکات پیران عظام جوان کےپاس بطورامانت کےآپ کےواسطےرکھےہوئےتھے، آپ کےسپردفرمائے۔
پیرومرشدکی خدمت میں تحفہ:
ایک دن آپ نے اپنےپیرومرشدکی خدمت میں اکسیرپیش کی۔۴؎حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی نےآپ کاامتحان لینےکی غرض سےاس کو پانی میں ڈال دیا۔
خلاصی:
آپ کواس بات سے بجائےرنج ہونےکےخوشی ہوئی،آپ نےاپنےپیرومرشدسے عرض کیا۔۵؎
"اگرچہ ازیں خاک مس زری شداماکرانی بردل من می آورد،الحمداللہ کہ از کندآرزوہاخلاصی نصیب شد"۔
(اگرچہ اس خاک سے سوناہوجاتاتھا،مگرمیرےدل پراس سےگرانی ہوتی تھی۔الحمداللہ کہ کند آرزوؤں سےخلاصی نصیب ہوئی)۔
پیرومرشدکاعطیہ:
آپ کےپیرومرشدیہ کلمات سن کرخوش ہوئےاورانہوں نےچندحروف لکھ کرآپ کودیئے، جب آپ نےاس عبارت پرنگاہ ڈالی توہرچیززمین کی آپ پر مکشوف یعنی ظاہرہوئی۔
التجا:
آپ نےاس کاغذ کوچومااوراپنےپیرومرشدکےسامنےرکھ دیا،آپ کے پیرومرشدنےاس کی وجہ
دریافت کی۔آپ نےعرض کیاکہ یہ تواس کودیجئےجواس کاخواہش مندہو۔آپ کےپیرومرشد آپ کی اس بےنیازی سےبہت خوش ہوئےاورآپ کی ترقیٔ درجات کےواسطےدعافرمائی۔
پیرومرشدکی وصیت:
آپ کےپیرومرشدنےآپ سے فرمایاکہ۶؎"بقائےمن برارادت توموقوف بود"(میری زندگی تمہاری ارادت پر موقوف تھی)۔
آپ کوخداکےسپردکیااورچلتےوقت یہ وصیت فرمائی کہ جب ان کی وفات کی خبران(حضرت شرف الدین یحییٰ)کومعلوم ہوتووہ بہت جلداس طرف واپس آئیں۔
پیرومرشد کی وفات:
اپنےپیرومرشدسےرخصت ہوکرآپ روانہ ہوئے،کچھ دورہی گئےہوں گےکہ آپ نےپیرومرشد کے مکان سےرونےپیٹنےکی آوازسنی توآپ اپنےپیرومرشدکی وصیت کے مطابق واپس آئے۔
روانگی:
کچھ دن پیرومرشدکےمکان پرقیام کرکےرخت سفرباندھا۔آگرہ کےراستہ میں ایک جنگل میں مدتوں قیام فرمایااورعبادت وریاضت ومجاہدےمیں مشغول رہے۔۷؎
منیرمیں آمد:
مدتوں کےبعدآپ اپنےوطن منیرپہنچےاوروہاں تادم واپسیں رُشدوہدایت فرماتےرہے،آخر وہ وقت آیاکہ آپ نے اس جہان فانی سے سفردارالاخرت فرمایا۔
خلفاء:
آپ کےممتازخلیفہ حسب ذیل ہیں۔
شیخ مظفربلخی،شمس الدین۔
سیرت مبارک:
آپ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے۔ترک وتجرید میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ نےمدتوں صحرانوردی کی۔عبادت،ریاضت،مجاہد،صبروتحمل،جودوسخا،توکل و قناعت میں یکتاتھے۔
آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔"آداب المریدین"پرآپ نےشرح تحریرفرمائی ہے۔آپ کے مکتوبات بہت مشہورہیں اورآپ کی کتابوں کےمقابلے میں زیادہ مقبول ہیں۔
تعلیمات:
آپ کےمکتوبات تصوف وعرفان کابیش بہاخزانہ ہیں۔آپ نے اپنےبعض مریدوں کومکتوبات کے ذریعےتعلیم فرمائی۔
طلب طریقت:
آپ فرماتےہیں۸؎جوکوئی اس راہ کی طلب میں ہو،اس کوچاہیےکہ شریعت سےسرمایہ بنائے اس وقت تک کہ وہ شریعت سےطریقت میں راہ پائےاورجب طریقت میں راہ پائےطریقت سے حقیقت میں قدم نہیں رکھ سکتا۔جوابھی تک شریعت سےواقف نہیں،اس کی طریقت سےکہاں ملاقات اورجس کی طریقت سے ملاقات نہیں۔اس بےچارےکاحقیقت میں کیسےگزرہواوراس کا کیاکام۔۔جانناچاہیےکہ جوکوئی بےمعرفت وبےشریعت اس راہ میں قدم رکھے،بیم ہلاکت کوہواور کسی مرتبےپرنہ پہنچے۔۔۔"
عبادت:
آپ فرماتےہیں۔۹؎
"عبادت اولیاءکاسرمایہ ہے۔اتقیاکاپیرانہ ہے،مردوں کی حرفت ہے۔صاحب ہمت کاپیشہ ہے۔عمر کافائدہ ہے۔علم کاثمرہ ہے۔خداوندان بصیرت کاطریقہ ہےاورراہ سعادت وجنت ہے"۔
کارخداوندجل وعلا:
آپ فرماتےہیں۔۱۰؎
"اپنےکام میں مردانہ وارمشغول رہناچاہیے۔ایسانہ ہوکہ شدائدامور،کثرت ابتلااورگوناگوں امتحان کی وجہ سےجوسالک کےراستےمیں آتےہیں،اس کےکام میں قصوروفتورواقع ہوخداوند جل وعلاکاکام ایک روش پر نہیں ہے۔یہ نہیں معلوم ہوسکتاکہ حق سبحانہ تعالیٰ بندےکوکس راستےسے اقبال وفتوح عطاکرےگانعمت کےراستےیاعطاکےراستےسےیابلاکےراستےسے۔۔۔"
اقوال:
۔ ربوبیت کےاسرارغیرمعلومہ ہیں۔اگربندےپرکل احوال ایک ہی طریقےسےجاری ہوں تو بندے کاعلم ربوبیت کوگھیرلےاوراللہ تعالیٰ اپنی صفات کےساتھ گھیرانہیں جاسکتا۔
۔ انسانیت کی حقیقت ہی الوہیت کےرازحقیقت کی مظہروآئینہ دارہے۔
۔ راہ توحیدجومردوں کادین ہےایک دریائے محیط ہے،وہاں علم و عقل غرق ہیں،لکھناکہاں بات کرناکہاں،جوکوئی اس دریامیں گرا،گویاعالم حیرت میں ڈوب گیا۔
۔ مریدکےمراتب میں سےپہلامرتبہ راہ شریعت ہے۔
۔ تجرید وتفریدمریدکےلئےضروری ہیں،تجرید علائق وخلائق سےاورتفریدخودسے۔
اورادووظائف:
ذیل میں آپ کےبتائےہوئےاورادووظائف پیش کئےجاتےہیں۔
قضائےحاجات کےواسطے:
سورۂ انعام اکتالیس(۴۱)بارپڑھے،سات ہزارمرتبہ سورۂ اخلاص پڑھنابھی مفیدہے۔۱۳؎
مشکل کام کےواسطے:
عشاء کی نمازکےبعدسوباریافتاح پڑھے۔
برائے دفع تنگی معاش:
ہررات کوسورۂ جمعہ پڑھے۔
مناجات:
آپ کی مشہورمناجات حسب ذیل ہے۔۱۴؎
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الٰہی انت ربی وقوتی واناعاجز،الٰہی انت مالک ونامملوک،الٰہی عاجزترین عاجزانم،الٰہی جاہل ترین جاہلائم، الٰہی نمیدائم تاچگونہ رضائےتوجویم،الٰہی ،میدالم تاچہ گوئم،الٰہی عجزودرماندگی من تومی بینی، الٰہی حاجت من تومیدانی،الٰہی من بےچارہ وعاجزہیچ حیلہ وقوت ووسیلہ ندارم وانچہ جزتست ازاں بیزارم۔
الٰہی من ضعیف درماندہ راومن نحیف درہائےراندہدراومن مدہوش سیاہ کارگناہ کارراہ من بدکردار رادمن پذیرندہ فرمان شیطان راہ من استاد مکتب عاصیان راومن مدہوش سرگشتہ راومن عہدشکن خوو کام راومن گندم نمائےجوفروش راومن شناراوخرقہ پوش راومن سیاہ رونامہ سیاہ راہ ومن منافق بتاہکارابفضل عمیم و بہ لطف قدیم ازبندنفس امارہ۔
خلاصی دہ وتوبہ نصوحاعطاکن کہ طاعت حضرت عدل توندارم۔
الٰہی مراتوفیق دہ کہ ترابپرستم کہ بےتوفیق توترانتواں شناخت۔
الٰہی مراتعریف دہ کہ ترابشناسم کہ بےتعریف توترنتواں شناخت۔
الٰہی ضائع کردم عمرخویش بداں چیزکہ رضائےتوبنودومن نداستم ازاں توبہ کردم وبیزارگشتم۔
دائےچارہ سازبےچارگاں دائےقبول کندہ توبہ عاصیاں دائےپذیرندہ۔
گریخت گناں اےحلمےکہ حلم توماراگستاخ کرد۔
اے رحیمےکہ رحم تومارابیباک گردانید۔ایں گستاخ وبیباک گردانید۔ایں گستاخ وبیباکی ارناعفو۔
کن دازخلعیت معرفت ہمہ اعضائےمارابپوشان۔
الٰہی بحق تہلیل وتسبیح وتحمیدوتمجیدجملہ روحانیاں وکروبیاں۔
الٰہی بحرمت عابداں وزاہداں۔
الٰہی بحرمت خاص گانانِ درگاہ تو۔
الٰہی بحرمت لواحقاں حضرت تو۔
الٰہی بحرمت غریباں وشہادت جواناں۔
الٰہی بحرمت آب دیدہ عاصیاں۔
الٰہی بحرمت عفوتوکہ برعاصیاں درگاتست۔
الٰہی بحرمت عزوجلال تو۔
الٰہی بحرمت وعظمت توکہ حاجات من و جملہ مسلمانان رواکنی وایمان ماراوردنیاو آخرت برماارزانی داری۔
الٰہی چودوراں حجرۂ تنگ وتاریک بےشمع مارامبتلا کنی ایمان راچراغ لحد گردانی۔
لاالٰہ الااللّٰہ معبود الااللّٰہ لامحبوب الااللّٰہ لامطلوب الااللّٰہ لامقصود الااللّٰہ لاموجودالااللّٰہ لاالٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللّٰہ واشھد ان محمداعبدہ ورسولہ علی خیرخلقہ سیدنامحمد والہ واصحابہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین۔
حواشی
۱؎صدی مکتوبات(فرمودۂ حضرت شیخ شرف الدین منیری قدس سرہ)فارسی ص۴۸۰،۴۱۸
۲؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۲۵۷
۳؎کلمات الصادقین
۴؎روضہ اقطاب(فارسی)ص۵۵
۵؎روضہ اقطاب(فارسی)ص۸۵
۶؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)۲۵۷
۷؎صدی مکتوبات(فارسی)ص۶۴
۸؎صدی مکتوبات(فارسی)ص۱۰۰،۹۹
۹؎صدی مکتوبات (فارسی)ص۳۰۲
۱۰؎صدی مکتوب
۱۱؎صدی مکتوب
۱۲؎صدی مکتوب(فارسی)ص۹۹
۱۳؎صدی مکتوبات(فارسی)ص۵۵۶
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)