آپ شاہ فیروز کے نزدیکی رشتہ دار تھے۔ ایک عرصہ تک اغنیا اور امراء کے انداز میں زندگی بسر کی۔ اتنے متکبر۔ درشت خو۔ اور متکبر تھے کہ کسی کو آپ سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔اچانک شیخ رکن الدین بن شیخ شہاب الدین امام کی نگاہ پڑی۔ تو آپ کے مرید ہوگئے ہر وقت خوف الٰہی سے روتے رہتے سلسلہ چشتیہ میں سے آپ کے علاوہ کسی نے اسرار الٰہیہ کو فاش نہیں کیا اور نہ ہی جذب و مستی کا اظہار کیا جس قدر حضرت شیخ شیر خان نے کیا تھا۔ آپ کے آنسو اس قدر گرم تھے۔ اگر ایک قطرہ کسی کے ہاتھ پر گر پڑتا تو جل جاتا آپ نے علم و تصوف و توحید میں چند گراں قدر کتابیں اور امیر خسرو کے دیوان کے جواب میں ایک دیوان لکھا۔ اور عین القضا ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی تمہیدات پر تعلیقات لکھیں آپ کی کتاب یوسف و زلیخا اور مراۃ العارفین لوگوں میں بہت مقبول و مشہور ہوئیں آپ کو مقبول اللہ کا خطاب ملا تھا۔ آپ کی وفات ۸۳۶ھ میں ہوئی تھی۔
شیر خان چوں ز دار فانی دہر
یافت و صلے بقرب سجانی
دل بسال وصال اے سرور
گفت شیر دلیر یزدانی
۸۳۶ھ
حضرت شیر خان رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے ایک سال بعد ۸۳۷ھ میں سیّد مضرالدین ابوالفتح مبارک شاہ بادشاہ میراں صدر اور قاضی عبدالصمد کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ اور بمقام کوٹلہ جسے اس نے تعمیر کرایا تھا۔ دفن کردیا گیا۔ اس نے تیرہ سال اور ایک ماہ حکومت کی تھی یہ بادشاہ خوشرروئی۔ نیک سیرتی اور خوش اخلاقی میں بڑا مشہور تھا اس کے قتل کے بعد اس کا برادر زادہ محمد خان تخت نشین ہوا اور محمد شاہ کے خطاب سے مشہور ہوا۔
چوش مظلوم زین دہر پر امت
مبارک شاہ والا جاہ مقبول
بسالس گو امن دہر بو الفتح
دگر والی دین سلطان مقبول
۸۳۷ھ