شیخ شیوخ العالم فرید الدین حالات
شیخ شیوخ العالم فرید الدین حالات (تذکرہ / سوانح)
عارفوں کے سلطان عاشقوں اور محقیقں کے تاج، اصحاب دین کے پیشوا، ارباب یقین کے مقتدا، عالمِ گمنامی و عزلت کے گوشہ نشین سِرّ دوست کے مخزن، اقلیم اعظم کے سردار اقطاب عالم کے قطب یعنی شیوخ العالم شیخ فرید الدین شکر بار مسعود گنج شکر اجودھنی چشتی قدس اللہ سرہ العزیز ہیں جو فقر اور مساکین کے پناہ اور سلمان کے فرزند رشید ہیں اور جوابدی سعادت اور سرمدی دولت سے مالا مال ہیں۔ شیخ فرید الدین قدس سرہ اتقا و پرہیز گاری ورع و زہد، ترک دنیا تجرید عشق کا شوق اور کلام محبت کے اشارات و رموز میں بے نظیر زمانہ اور اپنے عہد و دولت مہد میں یگانہ تھے۔ میدانِ کرامت اور عالم دین کے سرداروں سے سبقت لے گئے تھے اور اپنی بے مثل شہرت میں مستثنیٰ اور ممتاز تھے۔ آپ شیخ الاسلام قطب الدین بختیار اوشی کے معزز خلیفہ تھے اور ان کے باجاہ و جلال اور عظمت و بزرگی کے دربار سے عام اور مطلق اجازت رکھتے تھے آپ ایسے عالی ہمت اور بلند درجہ بزرگ تھے کہ تحیر عشق الٰہی کے کسی دنیاوی و اخری نعمت کی طرف کبھی ذرا التفات نہیں کیا۔ آپ کی ذاتِ مبارک ایسے عہد میں وجود کے لباس میں آراستہ ہوئی تھی جب کہ تمام عالم باغ ارم کی طرح آراستہ و پیراستہ تھا۔ اگرچہ آپ ایک ایسے با رونق شہر یعنی دہلی میں تشریف رکھتے تھے جو تمام دنیا میں قبہ اسلام سمجھا جاتا تھا بے شمار مشائخ و اہل کمال جو مقامات و کرامات کے دروازے کھولتے اور بند کرتے تھے اور علماء جو باریک اور دقیق معانی استنباط کرتے تھے موجود تھے۔ نیز متوسط درجہ کے لوگ نہایت ترفہ اور عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے تھے یہاں تک کہ اس راحت اور نشاط انگیز زمانہ میں خلائق میں سے کسی شخص اور کسی گروہ کو بجز خوش دلی اور فراخ عیشی کے کوئی کام نہ تھا ایسے مناسب اور خوشگوار زمانہ میں اس عالم حقیقت کے بادشاہ نے سب سے انقطاع اختیار کر لیا تھا اور کلیتہً دوست حقیقی کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ اس پاک نفس بزرگ نے ایسے سر سبز و پر رونق شہر کو چھوڑ کر شیرانِ دین کی طرح بیابان جنگل میں سکونت اختیار کی تھی اور درویشانہ روٹی فقیرانہ جامہ پر قناعت کر لی تھی۔ ہر چند اپنے تئیں مخفی و مستور رکھنا چاہتے تھے لیکن آپ کے حسنِ معاملہ کا شہرہ اور فضیلت و بزرگی کا آوازہ دنیا جہان میں پہنچ گیا تھا اور قیامت کے دن تک جس طرح آپ کی شہر کا غلغلہ ملاء اعلیٰ کے کانوں میں گونج رہا ہے اسی طرح اس جہان میں بھی باقی و دائم رہے گا اور تمام عالم آپ کے اور آپ کے فرزندوں کے وجود کے فرزندوں کے وجود با جود کے نام سے جن سے ہر ایک دریاء کرامت کا نہایت چمکدار اور تابان موتی تھا اور خاندان رحمت میں سے ایک روشن ومنور چراغ تھا۔ نیز ان مخلص اور بے ریا معتقدوں کے نام سے جو آپ کے شرف اتصال سے متصل ہیں قیامت کے دن تک منور و روشن رہے گا ایک بزرگ نے کیا ہی خوب فرمایا ہے۔
البدر یطلع من فرید جبینہ |
|
والشمس تغرب فی شفایق خدہٖ |
|
’’یعنی اس کی نرالی اور انوکھی پیشانی سے چود ہویں رات کا چاند طلوع کرتا ہےا ور اس کے رخسارہ کی سرخی میں آفتاب غروب ہوتا ہے وہ تمام حسن کا بادشاہ ہے اور کل مخلوق کو حسن اس طرف سے ملا ہے۔‘‘
اے سرورِ اولیایٔ عالم! |
|
اے قبلۂ اصفایٔ اکرم |
|
(ای اولیائے عالم کے سردار۔ اے صفیایٔ کرام کے قبلہ تیرا چہرہ حسن کا آفتاب ہے جس سے سارا جہان روشن و منور ہے)
ہر چند کہ یہ بے چارہ کاتب حروف آپ کے دریایٔ اوصاف میں غوطہ لگاتا لیکن اس کی تَہ اور گہرائی کو نہیں پاتا۔ ایک بزرگ نے خوب کہا ہے۔
بدر یاے در افتادم کہ پایا نش نمی بنیم
(میں ایک دریا میں غوطہ زن ہوں جس کی انتہا نہیں)
اس فقیر کی کہاں مجال ہے ہے کہ اس بادشاہ اہل یقین کی جمالِ ولایت کے اوصاف بیان کر سکے اس لیے بجز اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ آپ کے اوصاف سے در گذر کر کے دعا کرے۔
جھان تا قیامت بنام تو باد
فلک بامہ و خور غلام تو باد
بکام دل و جان عشاق تو
شراب محبت ز جام تو باد
(قیامت تک دنیا میں تیرے نام کا سکہ جاری ہو اور فلک مع چاند سورج اور ستاروں کے تیرا غلام بنا رہے۔ عاشقوں کے دل و جان کے حلق میں تیرے ساغر شراب سے شراب محبت ہمیشہ ٹپکتی رہے۔)
شیوخ العالم شیخ فرید الحق والدین قدس اللہ
سرہ العزیز کا حسب و نسب
یہ بادشاہ اہل دین فرخ شاہ عادل بادشاہ کابل کے شریف و نجیب خاندان کا روشن چراغ ہے غزنی کی حکومت سے پیشتر مملکتِ دنیا کی باگ فرخ شاہ کے ہاتھ میں تھی اور تمام اقلیتوں کے بادشاہ اور حکمران آپ کے مطیع و فرمانبردار تھے لیکن جب گردش فلکی نے کابل پر سایہ ڈالا اور زمانہ کے حوادث و آفات اس میں دخیل ہوئے تو کابل کی حکومت و سلطنت شاہانِ غزنی کے ماتحت ہوکر رہی مگر ابھی تک کابل کے قدیم فرمان روافرخ شاہ کی اولاد دیار کابل میں اپنے املاک و اسباب میں مشغول تھے اور نہایت امن و امان اور اطمینان سے زندگی بسر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ چنگیز خاں نے خروج کیا اور اپنی سفاک و خونخوار تلوار سے ایران و توران زیرو زبر کرتا اور تاخت و تاراج کرتا ہوا سلطنت غزنی کی طرف بڑھا اور ایک عظیم الشان اور خونریز لشکر کے ساتھ غزنی پر حملہ آور ہوا اور جب کابل میں پہنچا تو ان شہروں کو بھی خراب و تباہ کر ڈالا شیخ شیوخ العالم حضرت فرید الدین قدس سرہ کے جد بزرگوار نے کفار کی جنگ میں شہادت کا جام منہ سے لگایا اور جلیل القدر خاندان کابل کو خدا حافظ کہہ کر باہر نکل آیا شیخ فرید الدین قدس سرہ کے بزرگوار داد قاضی شعیب اپنے تین فرزندوں اور تمام خویش و اقارب اور اتباع و خدام کو ہمراہ لے کر لاہور میں تشریف لائے اور قصبۂ قصور میں نزول فرما ہوئے۔ قصور کا قاضی جو عدل و انصاف اور مروت و مروی میں اس زمانہ کے قاضیوں کا ذریعہ فخر اور باعث عزت سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ پہلے شیخ شیوخ العالم کے محترم خاندان کی عظمت و بزرگی کا شہرہ سن چکا تھا لیکن اب جو اس نے ان بزرگوں کو دیکھا تو جس شہرت کے ساتھ ان کا نام سنا تھا اس سے ہزار درجہ زیادہ وقعت اس کے دل میں پیدا ہوگئی۔ حکیم خواجہ سنائی کیا خوب فرماتے ہیں۔
آنچہ گوش از کمال خواجہ شنید
چشم ازو صد ھزار چندان دید
(کانوں نے جس قدر کمالات سنے تھے آنکھوں نے اس سے لاکھ درجہ زیادہ دیکھا)
قاضی نے ان بزرگواروں کی تشریف آوری کو اپنی ابدی سعادت اور سرمدی دولت خیال کیا اور انتہا درجہ کی تعظیم سے پیش آیا۔ بڑی فیاضی اور فراخ حوصلگی سے امیرانہ دعوت کی اور مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا اور اس کے ساتھ اس خاندان کے ان بزرگوں کے مختصر حالات جو کمال علم اور جمال حلم سے آراستہ تھے نیز ان کے خاندان کی عظمت و کرامات کا ذکر شاہِ وقت کو لکھا بادشاہ نے ایک فرمان نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ ان بزرگوں کی خدمت میں روانہ کیا جس کا ممضمون یہ تھا کہ دینی و دنیاوی تعلقات میں سے جو تعلق ان بزرگوں کو پسندِ خاطر ہو اسے شوق سے اختیار کر لیں میری طرف سے ہر بات کی اجازت ہے اور جس میں آپ لوگ راضی ہوں اس کو میں بھی پسند کرتا ہوں۔
رضائے دوست مقدم بر اختیار من است
شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ کے بزرگوار دادا قاضی شعیب نے فرمایا کہ ہمیں دنیاوی کوئی عمل مطلوب نہیں کیونکہ جو چیز ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ہم اس کے درپے نہیں ہوتے لیکن بڑی حیث بحث کے بعد آخر کار کھتوال (کھتوال ایک پرانا قصبہ تھا اب ایک گاؤں ہے اور کوٹھی وال کے نام سے مشہور ہے) کی قضاۃ کا ممتاز و معزز منصب قاضی شعیبقدس سرہ کے سپرد کیا گیا (کھتوال ملتان کے قریب ایک مشہور موضع ہے) اور آپ نے اس موضع میں رہائش اختیار کی حق تعالیٰ نے اس واجب الاحترام اور بزرگ خاندان سے یہی مقدس بادشاہ پیدا کیا یعنی جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والشرع والدین قدس سرہ العزیز کو فطرت نے اس لیے پیدا کیا کہ مملکت ہندوستان کی خلائق کو جو ایک زمانہ دراز سے ظلمت و معاصی کے دریا میں غرق تھی اور جس پر کفر و شرک کی ظلمت خیز تاریکی کا سناٹا چھایا ہوا تھا دستگیری کریں اور اندھیرے گڑھوں میں سے نکال کر شارع عام پر لائیں۔
شیخ فرید الدین قدس سرہ کا گوشہ نشینی اور گمنامی اختیار کرنے، مشغول بحق ہونے، شیخ الاسلام قطب الدین بختیار
قدس سرہ العزیز سے ملاقات اور آپ کی ارادت
کا حلقہ کان میں ڈالنے کا بیان
منقول ہے کہ شیخ الاسلام فرید الدین قدس سرہ غفوان جوانی کے زمانہ میں جو قوت و کامرانی کا زمانہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی عبادت و محبت میں مشغول تھے اور دفعۃً تمام دنیاوی علائق ترک کر دئیے تھے آپ نے خویش و اقارب سے ملنا جلنا بالکل چھوڑ دیا تھا اور دوست و دشمن سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
ھر کسے رابجھان خویشی و پیوندی ھست
غم تو خویش من وعشق تو پیو ندمن است
(ہر شخص کو اہل دنیا سے خویش اور تعلق ہے لیکن مجھے تیرے غم سے خویشی اور تیرے عشق سے تعلق ہے)
امیر خسرو بھی فرماتے ہیں۔
اگر تو باغم لیلی برغبت خویشی داری
چو مجنون فرد باید شدھم از خویش و ھم ازبیگان
(اگر تو لیلیٰ کے غم کے ساتھ خویشی کی رغبت رکھتا ہے تو مجنوں کی طرح خویش دبیگانہ سے علیحدگی اختیار)
چونکہ آپ کی نیت صادق تھی اور حق تعالیٰ نے روز ازل سے آپ کی تقدیر میں لکھ دیا تھا کہ ایک جہان قیامت تک آپ کے سایہ دولت میں آسائش پائے گا اور آخرت میں نجات ابدی حاصل کرے گا اس لیے جناب شیخ الاسلام قطب الدین قدس سرہ کی دست بوسی کی دولت اور ملاقات کی سعادت آپ کو نصیب کی۔ خدا تعالیٰ ہمیں ان دونوں بزرگواروں کی شفاعت نصیب کرے۔ چنانچہ شیخ نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہنوز شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ تعلیم ہی میں مصروف تھے کہ آپ کے تعلم و تجربہ اور تعبد کا شہر تمام عالم میں پھیل گیا تھا اور ذہانت و طباعی کا چرچا گھر گھر زبان زد تھا شدہ شدہ آپ کی شہرت کا آوازہ شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا نور اللہ مرقدہ کے مبارک کان میں پہنچا اور آپ کے اشتیاق ملاقات کی آگ یہاں تک بھڑکی کہ عزم بالجزم کر لیا کہ جس طرح بن پڑے شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز سے ملو اسی اثناء میں شیخ فرید الدین قدس سرہ تعلیم پانے کی غرض سے ملتان میں تشریف لے گئے کیونکہ اس زمانہ میں ملتان تمام عالم کا قبئہ اسلام تھا اور علوم و فنون کا مرکز بن گیا تھا بڑے بڑے مشاہیر علماء اور بے نظیر فضلا یہاں موجود تھے۔ ہر طرف طلبہ کے لیے درسگاہیں کھلی ہوئی تھیں شیخ شیوخ العالم ملتان میں پہنچ کر ایک مسجد میں نزول فرما ہوئے اور وہیں رہنا اختیار کیا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ آپ مسجد میں قبلہ رخ بیٹھے ہوئے کتاب نافع کا سبق ازبر کرنے میں مشغول تھے اتفاق سے ان ہی ایام میں شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کاکی قدس اللہ سرہ العزیز اوش سے ملتان میں تشریف فرما ہوئے اور اسی مسجد میں جہاں شیخ شیوخ العالم فروکش تھے نماز کے واسطے تشریف لائے شیخ شیوخ العالم کی نظر جوں ہی شیخ قطب الدین کی تابان درخشاں پیشانی پر پڑی نہیں معلوم کہ کیا دیکھا فوراً تعظیم کے لیے سر و قد کھڑے ہوگئے اور پھر نہایت ادب کے ساتھ خاموش بیٹھ گئے۔ شیخ الاسلام قطب الدین جب تحیۃ المسجد کے دوگانہ سے فارغ ہوئے تو شیخ شیوخ العالم کو دیکھ کر فرمایا۔ مسعود! تم کیا پڑھتے ہو۔ عرض کیا۔ کتاب فافع فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ کتاب نافع سے تمہیں نفع حاصل ہوگا۔ شیخ شیوخ العالم نے لجاجت آمیز لہجہ میں جواب دیا کہ خادم کو حضور کی سعادت بخش کیمیا اثر سے نفع حاصل ہوگا یہ کہہ کر شیخ شیوخ العالم ایک بے اختیارانہ جوش اور مضطر بانہ مسرت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور شیخ الاسلام قطب الدین کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کی اور اپنا سر شیخ کے قدموں میں ڈال دیا۔ آخر کار شیخ نے آپ سے ملاقات کی اور جو کچھ تلقین کرنا تھا اسی جلسہ میں کر دیا۔ اسی اثنا میں شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا بحکم ’’القادم یزار‘‘ شیخ الاسلام قطب الدین کے دیکھنے لیے اسی مسجد میں تشریف لائے جہاں شیخ بہاؤ الدین اور شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہما العزیز موجود تھے۔ تینوں حضرات نے باہم ملاقات کی لیکن جب شیخ الاسلام چلنے کے لیے اٹھے تو شیخ الاسلام بہاؤ الدین قدس سرہ نے جناب شیخ الاسلام قطب الدین کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سیدھی کیں (یہ مشائخ کبار میں ایک دستور رائج ہے کہ جب کسی سے معذرت کرنا چاہتے ہیں تو اس کی جوتیاں سیدھی کر دیتے ہیں) الغرض اس وقت شیخ الاسلام قطب الدین قدس اللہ سرہ العزیز عازم شہر دہلی ہوئے اور شیخ شیوخ العالم فرید الدین بھی آپ کے ہمراہ شہر دہلی میں آئے۔ یہاں آکر شیخ قطب الدین بختیار کی دولتِ بیعت سے مشرف ہوئے۔ منقول ہے کہ جس مجلس میں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز نے جناب شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کی خدمت میں بیعت کی ہے تو قاضی حمید الدین ناگوری اور مولانا علاؤ الدین کرمانی اور سید نور الدین مبارک غزنوی اور شیخ نظام الدین ابو الموید اور مولانا شمس الدین ترک اور خواجہ محمود موئنہ دوز اور ان کے علاوہ اور بہت سے وہ عزیز جن کی نظر میں عرش سے لے کر تحت الثریٰ تک کی تمام چیزیں موجود تھیں اس مجلس میں حاضر موجود تھے شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس سرہ بیعت کرنے کے بعد چند روز تک شیخ الاسلام قطب الدین کی خدمت میں دہلی ہی میں رہے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کی عبادت و بندگی میں مصروف رہے حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین (خدا ان کے مرقد کو پاک و ستھرا رکھے) اپنے پیر شیخ الاسلام قطب الدین کی خدمت میں دو ہفتہ رہتے۔ اور دو ہفتہ کے بعد تشریف لے جاتے۔ بخلاف شیخ بدر الدین غزنوی اور دیگر عزیزوں کے کہ وہ ہمیشہ شیخ کی خدمت میں رہتے گویا سلطان المشائخ کی اس تقریر کا خلاصہ یہ مصرعہ ہے جو اس باب میں آپ کی زبان پر جاری ہوا۔
بیرونِ درون بہ کہ درون بیرون
شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے مجاہد اور اس طرزِ روش کا ذکر جس میں آپ ابتداءِ عمر سے انتہاء زندگی تک مصروف رہے
حضرت شیخ سلطان المشائخ فرماتے ہیں تھے کہ جس زمانہ تک شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز شہر میں رہتے تھے۔ شیخ بدر الدین غزنوی کے وعظ میں حاضر ہوتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ شیخ بدر الدین غزنوی نے برسر منبر شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کی تعریف کی اور چند و زنی قیمتی جملے آپ کی نسبت بیان کیے لیکن حاضرین مجلس کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ شیخ بدر الدین کسی کی تعریف کر رہے ہیں کیونکہ شیخ شیوخ العالم کی ظاہری حالت بالکل رَدّی تھی تمام کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور اس کے ساتھ نہایت میلے کچیلے تھے۔ جب وعظ کا سلسلہ ختم ہوگیا تو آپ باہر تشریف لائے اور ایک شخص نے نیا کُرتا پیش کیا شیخ شیوخ العالم نے اپنا پھٹا ہوا کرتا اتارا اور بجائے اس کے نیا زیب تن فرمایا لیکن تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ آپ نے اسے جسم مبارک سے اتار کر شیخ نجیب الدین متوکل کو دے دیا اور فرمایا جو ذوق و شوق میں اسے پھٹے ہوئے کرُتے میں پاتا ہوں اس نئے کرتے میں نہیں پایا۔ الغرض جب آپ شیخ الاسلام جناب شیخ قطب الدین قدس اللہ سرہ العزیز کے منصبِ خلافت کے ساتھ مخصوص و ممتاز ہوئے تو خلق نے چاروں طرف سے آپ پر ہجوم کیا اور لوگ جوق جوق آنے لگے لیکن چونکہ آپ کو اپنے تئیں مخفی و مستوررکھنا مدِّ نظر تھا اس لیے شہر دہلی سے باہر نکل کر ہانسی میں تشریف لے گئے اور وہاں سکونت اختیار کی۔ ریاضت و مجاہدہ اور ظاہر و باطن کی مشغولی میں مصروف ہوئے لیکن اب بھی اپنے تئیں مستور رکھتے تھے اور اس بارے میں بہت کچھ کوشش کرتے تھے کہ کوئی شخص آپ کے احوال سے مطلع نہ ہو کسی سے ملنے جلنے کا تذکرہ تو الگ رہا یہی وجہ تھی کہ مولانا نور علی ترک اور دیگر علماء تعصب و حمیت کی وجہ سے آپ کو ناصبی اور مرجی کہتے تھے حالانکہ آپ کا دامن اس قسم کی آلودگیوں سے بالکل پاک و صاف تھا۔ آپ کا زہد و اتقا اور تورع و احتیاط اس سے کوسوں دور تھی جیسا کہ حضرت سلطان المشائخ نے آپ کی فضیلت و بزرگی کی نسبت بہت مرتبہ وزنی کلمات کہے ہیں جنہیں امیر حسن نے فوائد الفواد میں مفصل لکھا ہے۔ الغرض یہ بزرگ ہانسی میں پہنچے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی۔ شیخ شیوخ العالم ایک دفعہ مولانا نور علی ترک کی مجلس میں تشریف لے گئے۔ آپ کے جسم کے کپڑے نہایت میلے کچیلے اور ناصاف ینز پھٹے ہوئے تھے۔ جوں ہی مولانا نور علی ترک کی نظر شیخ شیوخ العالم کی جمال ولایت پر پڑی فوراً بول اٹھا کہ اے مسلمانو بات کا پرکھنے والا اور کھرے کھوٹے کا جانچنے والا آپہنچا ہے اس کے بعد اس نے آپ کی وہ مدح بیان کی جیسے او العزم اور عظیم الشان باشاہوں کی بیان کرتے ہیں ہانسی میں جب شیخ شیوخ العالم شیخ کبیر کی عظمت و کرامات خلق پر روشن و ہویدا ہوئی تو پھر آپ یہاں سے کھتوال کی طرف متوجہ ہوئے جو آپ کے آبا و اجداد کا قدیم وطن تھا اور ایک زمانہ دراز تک وہاں مشغول بحق رہے۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جس زمانہ میں شیخ جلال الدین تبریزی قدس اللہ سرہ العزیز ملتان سے شہر دہلی میں آتے تھے اس وقت جب کھتوال میں پہنچے تو لوگوں سے دریافت کیا کہ یہاں کوئی ایسا درویش ہے جسے میں دیکھوں۔ حاضرین نے جواب دیا کہ ہاں شیخ الاسلام قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہ العزیز کا مرید ایک قاضی زادہ ہے جو کھتوال کی عیدگاہ کی پشت کے پیچھے مشغول بحق رہتا ہے چنانچہ شیخ جلال الدین۔ جناب شیخ شیوخ العالم فرید الدین کی ملاقات کے قصد سے اس طرف روانہ ہوئے۔ رستہ میں ایک شخص نے ایک انار شیخ جلال الدین کی خدمت میں پیش کیا شیخ جلال الدین انار ہاتھ میں لیے ہوئے شیخ شیوخ العالم فرید الدین کی خدمت میں آئے اور ملاقات کرنے کے بعد بیٹھ گئے شیخ جلال الدین تبریزی نے انار توڑ کر کھانا شروع کیا۔ چونکہ شیخ شیوخ العام فرید الدین روزے سے تھے اس لیے آپ انار کھانے میں شریک نہ ہوسکے۔ شیخ شیوخ العالم کاتَہ بند جا بجا سے پھٹا ہوا تھا اس ملاقات اور گفتگو کے وقت جس وقت ہوا چلتی تھی شیخ شیوخ العالم فرید الدین اپنے دامن سے تَہ بند کے اس پھٹے ہوئے مقام کو ڈھانک لیتے تھے۔ شیخ جلال الدین نے یہ بات دریافت کر کے فرمایا کہ فرید الدین! بخارا میں ایک درویش تعلیم میں مشغول تھا جس پر سات سال ایسے گذرے جن میں اسے ثابت تہ بند نصیب نہیں ہوا صرف ایک جانگ پہنے پھرتا تھا تم اطمینان رکھو دیکھو کیا ہوتا ہے۔ یہاں تک پہنچ کر حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ جلال الدین کی مراد اس درویش سے خود اپنی ذات تھی۔ الغرض جب شیخ جلال الدین نے سارا انار کھا لیا اور شیخ فرید الدین نے روزہ افطار نہ کیا تو شیخ جلال الدین آپ سے رخصت ہو کر چلے آئے اس وقت شیخ فرید الدین نے افسوس کیا کہ کاش میں روزہ افطار کر لیتا اور شیخ جلال الدین کے انار میں شریک ہوجاتا۔ اتفاق سے اسی انار کا ایک دانہ زمین پر گر پڑا تھا جسے شیخ نے اٹھا کر پگڑی کے ایک کونے میں بایں نیت باندھ لیا کہ شام کو اسی دانہ سے روزہ افطار کروں گا چنانچہ جب شام ہوئی تو آپ نے اسی دانہ انار سے روزہ افطار کیا۔ دانہ جونہی اندر پہنچا آپ کے دل میں ایک روشنی سی پیدا ہوگئی اس سے آپ کو اور بھی افسوس ہوا کہ میں نے زیادہ کیوں نہیں کھایا۔ جب شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ شہر دہلی جناب شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کی خدمت میں آئے اور آپ سے ملاقات کی تو فرمایا۔ مسعود! تم اطمینان رکھو جس انار کے دانہ میں تمہارا بھید مضمر تھا اور جس کا تمہیں پوچھنا مقصود تھا وہ تمہیں پہنچا خلاصہ یہ ہے کہ جب شیخ شیوخ العالم کا شہرہ و آوازہ عالمگیر ہوگیا اور دنیا کے وضیع و شریف نے آپ کے قدموں پر اپنا منہ رکھ دیا اور ملتان کی مخلوق نے آپ کی طرف توجہ کی کیونکہ موضع کھتوال ملتان سے بہت نزدیک تھا تو آپ وہاں سے اجودھن میں تشریف لے لائے جو ایک غیر مشہور اور مجہول مقام تھا۔ ایک روایت کے مطابق اٹھارہ سال اور ایک روایت کے موافق چوبیس سال۔ غرضکہ آخر عمر تک اجودھن ہی میں سکونت رکھی اور وہ مجہول اور غیر معروف مقام آپ کے وجود مبارک سے ہندوستان اور خراسان کا قبلہ بن گیا بلکہ قیامت تک مسکینوں اور بیچاروں کی پناہ کی جگہ اور حاکموں اور بادشاہوں کا ٹھکانہ ہو گیا۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز چند روز تک ہانسی میں سکونت پزیر رہے لیکن چونکہ آپ علم کا بہت حصہ رکھتے تھےا ور علم کو عمل کے ساتھ ہمیشہ بستہ رکھتے تھے اس وجہ سے آپ کی غیر معمولی شہرت چاروں طرف پھیل گئی اور آپ انتہا سے زیادہ مشہور ہوگئے۔ جب ہانسی میں آپ کا شہرہ پھیل گیا تو وہاں سے کھتوال میں چلے آئے جو ایک مجہول اور غیر مشہور مقام تھا اور جہاں معاش کے اسباب بمشکل حاصل ہوتے تھے لیکن چونکہ یہ مقام ملتان سے نزدیک تھا آپ یہاں بھی مخفی و پوشیدہ نہ رہ سکے بار ہا آپ کے دل میں آیا کہ اس مقام کو بھی چھوڑدوں اور لاہور چلا جاؤں جو غیر آباد اور خراب جگہ ہے اور جہاں پانی جاری ہے لیکن یہ ارادہ پورانہ ہوا پھر بھی آپ آخر عمر میں اجودھن چلے گئے اور یہیں تمام عمر بسر کردی۔ اس حکایت کے نقل کرنے سے صرف اس بات کا ظاہر کرنا مقصود ہے کہ شیخ العالم نے اپنے تئیں ہمیشہ مخفی و پوشیدہ رکھنا چاہا اور شہرت دینے میں ذرا کوشش نہ کی آپ کی زبان مبارک پر بار ہا یہ بیت جاری ہوتی تھی۔
ھر کہ در بند نام و آوازہ است
خانۂ او برون دروازہ است
(جو شخص نام و شہرت کے فکر میں ہے اس کا گھر دروازہ کے باہر ہے۔)
حضرت سلطان شیخ المشائخ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ شیخ علی جو خطہ میرٹھ میں سکونت پزیر تھے اور وہی ان کا موطن اور مقام پیدائش تھا۔ ہانسی میں آئے جس زمانہ میں شیخ علی یہاں پہنچے ہیں ان دنوں شیخ شیوخ العالم روزہ داودی رکھتے تھے یعنی ایک دن روزہ سے ہوتے ایک دن افطار کرتے تھے جو دن آپ کے افطار کا تھا شیخ علی کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور دونوں بزرگوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول کیا۔ اسی اثناء میں شیخ علی نے دل میں کہا کہ اگر شیخ شیوخ العالم صائم الدہر ہوتے اور ہمیشہ روزہ رکھتے تو بہت اچھا ہوتا اس بات کا شیخ علی کے دل میں گذرنا تھا کہ شیخ شیوخ العالم نے نور باطن سے فوراً معلوم کر لیا کھانے سے ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ خدا کے خاص اور برگزیدہ لوگوں کے دل میں اس وقت جو کچھ گذرا میں نے اسے معلوم کرلیا۔ اب سے میں ہمیشہ روزہ ہی رکھا کروں گا۔ جب سلطان المشائخ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا شیخ الاسلام قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ صائم الدہر تھے فرمایا مجھے یہ بات تحقیق نہیں ہوئی۔ غالباً آپ صائم الدہر نہ تھے کیونکہ اگر آپ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تو شیخ شیوخ العالم فرید الدین ابتدا ہی سے اس میں آپ کی پیروی ضرور کرتے۔ حضرت سلطان المشائخ نے جہاں شیخ بدر الدین غزنوی کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کا اور ہی مقام تھا انہوں نے خلق اور آبادی کو ترک کر کے دشت و بیابان اختیار کیا اور لوگوں کے میل جول سے علیحدگی کر کے عزلت و گوشہ نشینی پسند کی تھی آپ اجودھن جیسے غیر آباد مقام میں سکونت پذیر تھے اور در ویشانہ روٹی پر قناعت کرلی تھی روٹی کے ساتھ صرف وہی چیزیں کھاتے تھے جوان شہروں میں پیدا ہوتی ہیں جیسے پیلو وغیر۔ باوجود اس کے پھر بھی خلق کے آمدورفت کی کوئی حد اور اندازہ نہ تھا آپ کے گھر کا دروازہ نہ تھا آپ کے گھر کا دروازہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ وقت میں بند ہوتا تھا یعنی ہر وقت دروازہ کھلا رہتا تھا اور خدا کے فضل و کرم سے ہر قسم کا کھانا اور ہر طرح کی نعمت موجود رہتی تھی جس سے آنے جانے والے لوگ بہرہ مند ہوتے تھے جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا کھانے سے سیر اور نعمت سے مالا مال ہوکر جاتا عجب قوت اور عجب زندگانی تھی جو بنی آدم میں کسی کو میسر نہیں ہوئی اگر آپ کی خدمت میں کوئی ایسا شخص حاضر ہوتا جو اس سے پیشتر کبھی حاضر نہ ہوا تھا اور ایک شخص جو چند سال سے آپ کا آشنا و شناسا ہوتا تو آپ کے ساتھ گفتگو کرنے میں دونوں برابر ہوتے اور شیخ کی توجہ دونوں کے ساتھ مساوی درجہ کی ہوتی یعنی آپ کا خلق صرف آشناؤں اور روشناسوں ہی کے ساتھ محدود نہ تھا بلکہ آپ اجنبی شخص کے ساتھ بھی اسی عام اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے جس کا آشناؤں کے ساتھ برتاوا ہوتا تھا۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ میں نے مولانا بدرر الدین اسحاق سے سنا ہے وہ کہتے تھے شیخ شیوخ العالم کا خادم تھا اور ہر وقت آپ کی خدم میں کمربستہ رہا کررتا تھا۔ جو کچھ ہوا کرتا مخدوم مجھ سے فرما دیا کرتے اور ہر کام کی طرف میری رہنمائی کرتے۔ ظاہر و باطن میں ایک سخن ہوتے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خلوت میں کوئی بات کہی ہو یا کسی کام کا حکم فرمایا ہو اور ظاہر میں اسے نہ کہا ہو۔ غرضیکہ آپ ظاہر و باطن ایک طریقہ رکھتے تھے اور یہ عجائب زمانہ ہے۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز اکثر اوقات شربت سے روزہ افطار کیا کرتے تھے شام کے وقت آپ کے خدام شربت کا ایک پیالہ لاتے جس میں کبھی کبھی تھوڑے سے خشک انگور بھی ملے ہوئے ہوتے تھے آپ اس شربت میں سے نصف بلکہ دو تہائی حصہ ان تمام لوگوں کو تقسیم کر دیتے تھے جو اس وقت حاضر ہوتے تھے اور ایک تہائی حصہ جو باقی رہتا خود نوش کرتے۔ اس کے بعد جو شربت باقی رہتا اس میں سے بھی آپ اس شخص کو عطا کرتے جو آپ سے مانگتا۔ اور جسے ابدی دولت حاصل کرنا ہوتی روزہ افطار کرنے کے بعد نماز سے پیشتر دو روٹیاں گھی سے چُپڑی ہوئی حاضر کرتے جو سیر بھر سے کم نہ ہوتیں آپ ایک روٹی کے بہت سے ٹکڑے کرتے اور ایک ایک ٹکڑا حاضرین مجلس کو تقسیم کرتے اور ایک روٹی خود تناول فرماتے اور اس روٹی میں سے بھی خاص اس شخص کو عنایت کرتے جو آپ سے درخواست کرتا۔ جب کھانے سے فراغت پالیتے تو نماز مغرب ادا کرتے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد حق تعالیٰ کی جناب میں تمام و کمال مشغول ہوتے جب ان تمام باتوں سے فارغ ہو لیتے تو آپ کے سامنے دستر خوان بچھا دیا جاتا جس پر کئی طرح کے کھانے چُنے جاتے لیکن آپ کا دستور تھا کہ جب تک ایک کھانا خرچ نہ ہوجاتا تو دوسرا کھانا تناول نہ فرماتے۔ مگر دوسرے روز افطار کے وقت۔
سلطان المشائخ نے اس کے بعد فرمایا کہ میں ایک رات آپ کی خدمت میں استراحت کے وقت تک حاضر رہا ایک خادم نے گھاس کے سخت پٹھوں کی ٹبی ہوئی چار پائی بچھائی اور جس کملی پر کہ آپ دن کو جلوس فرما ہوتے تھے اسے چار پائی پر ڈال دیا لیکن وہ کملی اس قدر کوتاہ تھی کہ پائینتی تک نہ پہنچتی تھی جس جگہ آپ کے پاؤں مبارک ہوتے تھے وہاں خادم ایک کپڑا لا کر ڈال دیا کرتا تھا اور جب آپ اس کپڑے کو اوڑھا کرتے تھے تو وہ جگہ بستر سے خالی رہا کرتی تھی آپ کے پاس ایک لکڑی تھی جو شیخ الاسلام قطب الدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت سے حاصل ہوئی تھی خادم اسے چار پائی کے سرہانے کی طرف رکھ دیا کرتا۔ شیخ شیوخ العالم اس پر سہارا لگاتے اور استراحت فرماتے۔ سوتے وقت لکڑی پر ہاتھ پھیر کر چومتے اور اسے سرہانے رکھ دیتے۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے ایک دفعہ شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ کے لیے خادم ایک دانگ نمک کسی سے قرض لایا لیکن افطار کے وقت جب کھانا شیخ کے آگے رکھا گیا تو آپ نے نورِ باطن سے دریافت کر کے فرمایا اس کھانے میں تصرف کی بو آتی ہے خادم نے عرض کیا حضور! آج گھر میں نمک نہ تھا قرض لے کر کھانے میں ڈالا گیا ہے فرمایا تو نے نہایت بیجا تصرف کیا تو اسی پر اکتفا کرتا اور ہمیں وہی بے نمک کا کھانا کافی ہوتا۔ میں اس قسم کا کھانا کبھی جائز نہیں رکھتا چنانچہ آپ نے وہ کھانا نہ کھایا۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز آخر عمر میں جبکہ آپ دار البقا کی طرف عنقریب رحلت فرمانے والے تھے نہایت مفلس اور تنگ عیش ہوگئے تھے اور آپ کے افلاس اور تنگ عیشی کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی تھی کہ رمضان کے مہینے میں میں وہیں موجود تھا آپ کے لیے اس درجہ کم کھانا آتا تھا کہ حاضرین کو کافی نہ ہوتا تھا میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان دنوں میں میں نے کسی رات کو سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا تھا آپ کے اسباب معاش کا دائرہ اس قدر تنگ تھا کہ ملاحظہ کے بعد معلوم ہوتا تھا کہ سہل و آسان چیز بھی دستیاب نہیں ہوسکتی ہے۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ جب مجھے شیخ شیوخ لعالم نے اجودھن سے رخصت کیا تو خرچ سفر کے واسطے ایک اشرفی عنایت فرمائی میں دہلی آنے کو تھا کہ اس روز مولانا بدر الدین اسحاق نے شیخ شیوخ العالم کا فرمان پہنچایا کہ آج اور ٹھہر جاؤ کل روانہ ہوجانا چنانچہ میں ٹھہر گیا اور اس روز کا قصد سفر ملتوی کیا جب یہ کیفیت مجھے معلوم ہوئی تو میں وہی اشرفی جو شیخ نے سفر خرچ کے لیے مرحمت کی تھی شیخ شیوخ العالم کے سامنے پیش کی اور عرض کیا کہ شیخ شیوخ العالم کے صدقہ سے ایک اشرفی مجھے خرچ کے لیے ملی ہے خادم کو حکم کیجیے کہ اس میں سے کچھ افطاری کا سامان لے آئے۔ شیخ شیوخ العالم میری اس عرض سے بہت خوش ہوئے اور چند دعائیہ کلمے اس فقیر کی نسبت زبان مبارک پر جاری فرمائے۔ اس حکایت کا بقیہ قصہ سلطان المشائخ کے ذکر میں اس حصہ کے ذیل میں تحریر ہے جس میں تحفوں اور ہدیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ حضرت سلطان المشائخ سے نقل کرے ہیں کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے گھر میں بہت سی حرمیں تھیں آپ کی ایک حرم کا خادم عرض کرتا ہے کہ خواجہ! آج حضور کے فلاں فرزند پر ایک فاقہ گذر گیا ہے یا فلاں صاحبزادی پر دو فاقہ گذر چکے ہیں لیکن خواجہ اس درجہ محو و مستغرق ہوتے تھے کہ ان کی یہ تمام باتیں آپ کے آگے باد ہوائی ہوا کرتی تھیں یعنی آپ پر ان باتوں کا مطلق اثر نہ پڑتا تھا اور ذرا التفات نہ کرتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک حرم محترم نے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ خواجہ آج فلاں بچہ بھوک کی بے قراری کی وجہ سے معرض ہلاکت میں ہے۔ شیخ شیوخ العالم نے مشغولی سے سر اٹھا کر فرمایا خدا کا بندہ مسعود کیا کرسکتا ہے اگر تقدیر الٰہی اس کے سر آدھمکی ہے اور وہ اس جہاں سے سفر ہی کرتا ہے تو اس کے پاؤں میں ایک مضبوط رسی باندھ کر باہر ڈال دے اورچلی آ۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ خواجہ اچھا کھائے۔ اچھا پہنے۔ آرام سے سوئے۔ اورخدا کی محبت کا دعویٰ کرے وہ محض جھوٹا اور مفتری ہے۔
منقول ہے کہ جب شیخ شیوخ العالم فرید الدین نے زیادہ مجاہدہ اختیار کرنا چاہا تو اسباب میں شیخ الاسلام قطب الدین بختیار نور اللہ مرقدہ سے التماس کی شیخ نے فرمایا کہ طے کا طریقہ اختیار کرو (صوفیوں کے نزدیک پے در پے اور متواتر روزے رکھنے اور جب تک غیب سے افطاری کا سامان مہیا نہ ہو افطار نہ کرنے کو طے کہتے ہیں) چنانچہ شیخ شیوخ العالم نے تین روز تک کچھ نہ کھایا تیسرے روز افطاری کے وقت ایک شخص چند روٹیاں خدمت اقدس میں لایا آپ نے یہ سمجھ کر کہ غیب سے سامان افطاری مہیا ہوا ہے روٹیوں سے روزہ افطار کر لیا۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد آپ نے ایک چیل کو دیکھا کہ مردار کی آنتوں کے ٹکڑے منہ میں لیے ہوئے بیٹھی تھی۔ جوں ہی شیخ شیوخ العالم کی نظر چیل پر پڑی آپ کے دل مبارک میں ایک طرح کی نفرت و کراہت پیدا ہوئی فوراً امتلا ہوا اور امتلا کے ساتھ وہ روٹیاں قے کے رستہ سے نکل گئیں جو آپ نے افطار کے وقت تناول کی تھی اور آپ کا پاک و بے لوث معدہ بالکل خالی ہوگیا جب آپ نے یہ کیفیت شیخ الاسلام جناب خواجہ قطب الدین قدس سرہ سے عرض کی توشیخ نے فرمایا۔ مسعود! تم نے تیسرا روزہ ایک شرابی کی روٹیوں سے افطار کیا تھا لیکن عنایت الٰہی تمہارے حال پر متوجہ تھی کہ اس کھانے نے تمہارے معدہ میں جگہ نہ پائی اب جاؤ اور تین روزے اور رکھو اور جو چیز غیب سے پہنچے اس سے افطار کرو چنانچہ شیخ شیوخ العالم نے دوسری دفعہ تین روزے رکھے اب آپ کو بغیر کھائے چھ روز ہوگئے اگرچہ افطار کا وقت ہوگیا لیکن کسی قسم کا کھانا پیدا نہ ہوا یہاں تک کہ جب ایک پہر رات گذر گئی تو اب ضعف و کمزوری اور بھی غالب ہوگئی اور بھوک کی حرارت و گرمی سے نفس جلنے لگا جب آپ بھوک کی وجہ سے بیتاب ہوئے تو دست مبارک زمین کی طرف دراز کیا اور چند کنکریاں زمین سے اٹھا کر منہ میں ڈال لیں خدا کی شان کہ آپ کے منہ کی برکت سے کنکریاں شکری ڈلیاں بن گئیں حکیم سنائی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
سنگ در دست تو گھر گردد
زھرد رکام تو شکر گردد
(تیرے ہاتھ میں پتھر موتی بن جاتے ہیں اور تیرے منہ میں زہر شکر ہوجاتی ہے۔)
شیخ شیوخ العالم نے جب یہ کرامت معائنہ کی تو اپنے دل میں کہا کہ ممکن ہے کہ یہ شیطان کا مکر و فریب ہو۔ لہذا آپ نے فوراً کنکریوں کو جو منہ مبارک میں شکر کی ڈلیاں ہوگئی تھیں اُگل دیا اور پھر اس طرح مشغول بحق ہوگئے یہاں تک کہ جب آدھی رات گزر گئی تو اب پرلے درجہ کا ضعف طاری ہوا آپ نے پھر چند کنکریاں زمین سے اٹھا کر منہ میں ڈالیں اور یہ کنکریاں بھی شکر کی ڈلیاں بن گئیں اس وقت پھر وہی شیطانی مکر کا خیال آپ کے دل میں گزرا اور یہ شکر بھی آپ نے منہ مبارک سے نکال کر پھینکی اور مشغول بحق ہوگئے۔ جب رات آخر ہوئی تو آپ نے دل میں کہا ایسا نہ ہو کہ انتہا ضعف کی وجہ سے خدا وندی بندگی سے باز رہوں اور فجر کی نماز نہ پڑھ سکوں یہ کہہ کر چند کنکریاں ہاتھ سے اٹھا کر منہ میں ڈالیں اور وہ بدستور سابق شکر ہوگئیں اس دفعہ آپ کے دل مبارک میں گزرا کہ یہ غیبی سامان ہے جو میری افطاری کے لیے مہیا ہوا کیونکہ تین دفعہ ایسا ہوچکا ہے اور شیخ الاسلام نے جو فرمایا تھا کہ تین روز کے بعد غیب سے جو چیز پہنچے اس سے افطار کر لینا وہ بھی غیبی سامان ہے۔ اب مجھے بالکل تردد نہ کرنا چاہیے جب دن ہوا تو آپ شیخ الاسلام جناب خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے فرمایا۔ مسعود! تم نے خوب کیا کہ شکر سے روزہ افطار جو کچھ غیب سے دستیاب ہو بہر صورت خوب ہے جاؤ شکر کی طرح ہمیشہ شیریں رہو گے یہی وجہ ہے کہ جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کو پھر شکر بار اور گنج شکر کہتے ہیں اس کے بعد شیخ شیوخ العالم نے مزید مجاہدہ کی بابت پھر شیخ الاسلام جناب خواجہ قطب الدین کی خدمت میں عرض کیا اور کہا اس سے بھی زیادہ مجاہدہ کرنا چاہتا ہوں اگر شیخ کی اجازت ہو تو چلہ کشی کروں لیکن یہ بات شیخ کے مزاج کے موافق نہ پڑی فرمایا چلہ کشی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان جیسی چیزوں سے بجز شہرت کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ شیخ شیوخ العالم نے جواب دیا کہ حضور خوب جانتے ہیں کہ بندہ کو شہرت مقصود نہیں ہے بلکہ ہمیشہ گمنامی اور گوشہ نشینی مدِّ نظر ہے۔ ازاں بعد شیخ شوخ العالم فرمایا کرتے تھے کہ میں عمر بھر پشیمان رہا کہ ایسی بات کا کیوں جواب دیا جو شیخ کے مزاج کے موافق نہ تھی۔ الغرض شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین قدس اللہ سرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر تمہیں چلہ کشی ہی کرنا ہے تو جاؤ معکوس چلہ میں مشغول ہو۔ لیکن شیخ شیوخ العالم کو معلوم نہ تھا کہ چلۂ معکوس کسے کہتے ہیں اور اس کا طریقہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ نے شیخ بدر الدین غزنوی سے کہا کہ شیخ نے مجھے چلۂ معکوس کا حکم فرمایا ہے اور میں شیخ کی ہیبت کی وجہ سے دریافت نہ کرسکا کہ چلۂ معکوس کا طریقہ کیا ہے یا تو تم مجھے اس کی تعلیم دو یا شیخ سے دریافت کردو۔ شیخ بدر الدین نے جناب شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین قدس سرہ سے چلۂ معکوس کی کیفیت دریافت کی فرمایا چلۂ معکوس یہ ہے کہ لگاتار چالیس روز چالیس رات پاؤں میں رسی باندھ کر کسی کنویں میں الٹے لٹک کر خدا کی عبادت میں مصروف ہوں جب شیخ شیوخ العالم کو چلۂ معکوس کے معنی تحقیق ہوگئے تو آپ نے اس کا مصمم ارادہ کر لیا لیکن آپ کو منظور تھا کہ یہ چلۂ اس جگہ پورا کیا جائے جہاں کسی کو اطلاع نہ ہو۔ چنانچہ ایسے مقام کی تلاش و جسجود میں نکلے اور ایسا موقع ڈھوڈنڈہتے پھرے کہ جہاں مسجد ہو اور مسجد میں کنواں بھی ہو اور کنوئیں کے پاس ایک ایسا درخت ہو جس کی شاخ کنویں کے سر پر چھائی ہوئی ہو نیز مسجد کا موذن ایک نہایت متدین اور درویشوں کی صحبت کے قابل ہو اور ساتھ ہی اس کے صاحب سر بھی ہو شیخ شیوخ العالم تمام شہر میں ایسے مقام کی تلاش کرتے پھرے لیکن اتفاق وقت سے آپ کو کوئی مقام دستیاب نہیں ہوا جن میں یہ تمام باتیں مہیا ہوں مجبوراً آپ کو ہانسی جانا پڑا اور اگرچہ ایک مدت تک وہاں بھی ایسے موقع کو تلاش کرتے رہتے لیکن میسر نہیں ہوا اب آپ وہاں سے بھی آگے بڑھے اور ہر قصبہ ہر خطہ میں اس قسم کی تنہائی ڈھونڈہتے پھرے یہاں تک کہ خط اوچہ میں تشریف لے گئے وہاں ایک مسجد دیکھی جو نہایت خوشنما اور پر فضا تھی اور اس اطراف کے باشندے اسے مسجد حاج کے نام سے پکارتے تھے اس مسجد میں کنواں بھی بہتا اور کنویں کے پاس ایک درخت بھی موجود تھا۔ مسجد کا مئوذن ایک نہایت متدین اور صاحب دل شخص تھا جو خواجہ رشید الدین کے نام سے شہرت رکھتا تھا۔ ہانسی کا باشندہ تھا اور یہ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ خود شیخ شیوخ العالم کا سچا اور بے ریا معتقد تھا۔ شیخ شیوخ العالم اس مسجد کو اپنی طبیعت کے موافق پاکر چند روز تک یہاں رہے اور جب مئوذن کی سچی محبت اور تدین و محافظت اسرار پر کامل وثوق ہوگیا تو آپ نے اس بھید کو اس پر ظاہر فرمایا لیکن بھید ظاہر کرنے سے پیشتر اس سے عہد لیا تھا اور شرط کر لی تھی کہ اس کا کسی پر اظہار نہ ہونے پائے ازاں بعد مئوذن سے فرمایا کہ عشا کی نماز پڑھ کر جب لوگ اپنے اپنے گھر چلے جائیں تو ایک مظبوط سی رسی بازار سے خرید لانا۔ مئوذن نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور ایک رسی خرید لایا۔ شیخ شیوخ العالم نے وضو کیا اور بے دھڑک اپنے ایک مبارک پاؤں کو جو حقیقت میں اولیا کے سر کا تاج تھا رسی کے ایک سرے میں باندھ دیا اور اس کا دوسرا سرا درخت کی شاخ میں لپیٹ دیا نظامی کہتے ہیں۔
در ددو سرایں رشتہ یکے عجزد گر ناز
زیں سو ھمہ عجز آمدو زاں سو ھمہ ناز
(یہ رسی دو سرے رکھتی ہے ایک عجز کا دوسرا ناز کا۔ پس اس طرف سے عجز اور اس طرف ناز حاصل ہوا۔)
بعدہ اپنے تئیں سرنگوں کنویں میں لٹکایا اور مشغول بحق ہوئے۔ امیر حسن نے خوب فرمایا ہے۔
ھر دل کہ درو مھر تو آویختہ شد
آیختہ شد عاقیت از کنگرۂ عِشق
(جس دل میں تیری محبت کا تعلق پیدا ہوا انجام کارکنگرۂ عشق سے لٹکایا گیا۔)
آپ نے مئوذن سے فرمایا تھا کہ تم صبح صادق کے طلوع ہونے سے پیشتر یہاں آموجود ہونا۔ مئوذن وقت مقررہ پر اپنے مکاں کو چلا گیا اور شیخ شیوخ العالم قدس سرہ تمام رات کنوئیں میں اُلٹے لٹکے ہوئے نماز میں مشغول رہے۔ صبح کی پوپھٹنے سے پہلے موذن آموجود ہوا دیکھا کہ شیخ شیوخ العالم اس طرح مشغول بحق ہیں اس نے دھیمی آواز میں کہا مخدوم! میں حاضر ہوں فرمائیے کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کیا صبح صادق طلوع ہوچکی ہے موذن نے جواب دیا کہ ہوا ہی چاہتی ہے فرمایا تو رسی کو اوپر کھینچ لو مئوذن نے ایسا ہی کیا۔ شیخ شیوخ العالم باہر تشریف لائے اور مسجد کے اندر قبلہ رو ہوکر بیٹھ گئے اور اب بھی مشغول بحق رہے۔ اس طرح چالیس راتیں چلۂ معکوس میں بسر کیں اور پیر کا فرمان اس طرح ادا کیا کہ تیسرے شخص کے کان میں اس بھید کی بھنک تک نہیں پہنچی۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ یہ مسجد اوچہ میں ہنوز بر قرار ہے اور وہ متبرک مقام خلق اللہ کی حاجت روائی کا عمدہ موقع ہے۔ اس طرح رشید الدین مینائی مئوذن نے ایک دفعہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں ایک مفلس اور درویش شخص ہوں آمدنی کچھ نہیں رکھتا اور کھانے والی لڑکیاں بہت سی ہیں خواجہ کا عین کرم اور بے حد بخشش ہوگی اگر میرے حق میں دعا فرمائیں گے میں اپنے لیے صرف اس قدر وسعت اور فراخی چاہتا ہوں کہ مجھے اور لڑکیوں کو کافی ہوجائے فرمایا تم وعظ کہا کرو مئوذن نے عرض کیا کہ حضور میں نے کچھ پڑھا نہیں ہے اور اس قدر قابلیت نہیں رکھتا ہوں شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ تیرا کام منبر پر قدم رکھنا ہے اور حق تعالیٰ کا کام کرم و فضل کرنا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا خدا تعالیٰ نے اس پر کرم کیا اور وہ علم و کرامات عطا فرمایا کہ وعظ و نصیحت میں بے نظیر عالم مشہور ہوگیا اور لوگ اس کے عالمگیری وعظ پر تعجب کرنے لگے تھوڑے دنوں میں اس کی روزی میں فراخی و وسعت ہوگئی اور اب خوشحالی میں زندگی بسر کرنے لگا۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ ابو سعید ابو الخیر رحمۃ اللہ کہتے تھے کہ جو کچھ مجھے پہنچا جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے پہنچا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سرنگوں نماز ادا کر رہے ہیں میں بھی ایک مقام پر پہنچا اور اپنے پاؤں میں رسی باندھ کر کنویں میں اُلٹا لٹک گیا۔
جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ
العزیز کے علم اور تبحر کا بیان
جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک دانشمند عالم جو ضیاء الدین کے لقب کے ساتھ شہرت رکھتا تھا مَنارہ کے نیچے بیٹھ کر طلبہ کو درس دیتا تھا اس سے میں نے سنا کہ ایک دفعہ میں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں گیا میں فقہ و نحو جو علوم عربیہ کے اصلی عنصر ہیں اور دیگر رسمیہ علوم سے محض نا بلد تھا البتہ یہی اخلاقی علوم کچھ سیکھ لیے تھے۔ میرے دل میں فوراً گزرا کہ اگر شیخ شیوخ العالم فقہ اور دوسرے علوم کا کوئی مسئلہ پوچھ بیٹھیں تو کیا جواب دوں گا یہ ایک بڑا بھاری اندیشہ میرے دل میں تھا کہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے مئودب بیٹھ گیا شیخ نے میرے طرف روئے سخن کر کے فرمایا کہ مناط کی تنقیح کیا ہے میں خوش ہوگیا اور اس بیان کی تفصیل کرنی شروع کی اور چونکہ نفی و اثبات کی بحث بیچ میں آگئی تھی اس کی میں نے خوب ہی توضیح و تفسیر کی۔ اس کے بعد حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا کہ شیخ کا یہ کمال کشف تھا کہ آپ نے ضیاء الدین سے اسی علم کی بابت دریافت کیا جس میں انہیں کامل مہارت حاصل تھی۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں حضور کے سامنے کلام اللہ پڑھتا ہوں فرمایا ہاں پڑھو چنانچہ جمعہ کے دن یا کسی اور روز کہ آپ کو فرصت تھی میں نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چھ سیپارے آپ کے سامنے پڑھ گیا۔ جب میں قرآن پڑھنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ الحمد للہ پڑھو میں نے الحمد للہ پڑھنی شروع کی جب والاالضالین پر پہنچا تو فرمایا ضا داس طرح پڑھو جس طرح کہ میں پڑھتا ہوں ہر چند میں نے اس مخرج کے پڑھنے پر زور دیا جس مخرج سے آپ نے پڑھا تھا لیکن مجھ سے بن نہ آیا یہاں تک پہنچ کر سلطان المشائخ نے فرمایا واہ واہ کیا فصاحت و بلاغت تھی شیخ شیوخ العالم ضاد کو اس طرح پڑھتے کہ کسی کو میسر نہ ہوتا تھا ازاں بعد فرمایا کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول الضاد بھی کہتے ہیں کس لیے کہ آپ پر حروف ضاد نازل ہوا چنانچہ اس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ لفظ جاری ہوئے رسول الضاد اے انزل علیہ الضاد۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ مولانا بدر الدین اسحاق کو اور ان کے ساتھ مجھ کو ایک لفظ میں شبہہ پڑا ہم دونوں مل کر شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مئودب کھڑے رہے فرمایا کیوں بیٹھتے کیوں نہیں کہا حضور ہمیں معلوم نہیں کہ شرعہ (جس کے معنی جوتی کے تسمہ کے ہیں) کے ساتھ سِرّک کا لفظ چسپاں ہے یا زرک کا۔ شیخ شیوخ العالم نے فرمایا زرک اور آپ نے فی البدیہ نظیر بیان کی کہ اُسترک سِرَّکَ من زِرَّکَ۔ یعنی اپنے بھید کی گریبان کی گھنڈی سے بھی حفاظت کر۔ مطلب یہ کہ اس پر بھی ظاہر نہ کر۔ اور فرماتے تھے کہ جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز ارشاد فرماتے تھے کہ صابر فقیر۔ شاکر متمول پر صریح ترجیح رکھتا ہے کیونکہ مال دار شاکر کو شکر کرنے پر بھی وعدہ دیا گیا ہے نا؟ کہ نعمت و دولت میں ترقی ہوگی جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے لان شکرتم لا زیدنکم یعنی اگر تم نعمتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھو گے اور شکر گزاری سے پیش آو گے تو میں تمہیں مزید نعمت سے سر افراز کروں گا بخلاف فقر کے کہ اسے صبر کی حالت میں نعمت معیت کی بشارت دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا ہے ان اللہ مع الصابرین یعنی خدا تعالیٰ کی معیت صابروں کے ساتھ ہے اور یہ ظاہر بات ہے کہ مزید نعمت اور معیت کے درمیان ظاہر اور بین فرق ہے۔
بہ بیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا
اسی تقریر کی اثنا میں قاضی محی الدین کاشانی نے جناب سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ حضرت آیہ وھو معکم اینما کنتم عام ہے اور جملہ ان اللہ مع الصابرین خاص اور جب یہ ہے تو اس صورت میں عام و خاص کے درمیان کیا تفاوت ہے۔ جناب سلطان المشائخ نے جواب دیا کہ عام کے لیے صرف معیت ہے اور جملہ وھو معکم اینما کنتم کے معنی ہیں کہ جہاں کہیں بھی تم ہوتے ہو خدا تعالیٰ دیکھتا اور جانتا ہے بخلاف خاص کے اس میں معیت اور معیت کے ساتھ عنایت ہے کیونکہ ان اللہ مع الصابرین کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ صابروں کے ساتھ یعنی انہیں دوست رکھتا اور ان سے راضی ہوتا ہے۔ شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر عرض کیا سلطان غیاث الدین بلبن کو ایک سفارشی رقعہ تحریر کر دیجیے شیخ شیوخ العالم نے قلم اٹھا کر یہ عبارت قلم بند کی رفعت قصتہ الی اللہ ثم الیک فان اعطیتہ شیئا فالمعطی ھو اللہ وانت المشکور وان لم تعطہ شیئا فالمانع ھو اللہ وانت المعذ ور۔ یعنی میں نے ایک اس شخص کا احوال خدا کی طرف پیش کیا ہے پھر تیری طرف اگر تو اسے کچھ عنایت کرے گا حقیقت میں دینے والا خدا ہے اور تو مشکور۔ اور اگر کچھ نہ دے گا تو حقیقت میں باز رکھنے والا خدا ہے اور تو معذور۔
شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدّین کے جناب شیخ الاسلام خواجہ معین الدین حسن سنجری اور شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس اللہ سرہما العزیز سے نعمت و برکت پانے کا بیان
حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک دن جناب شیخ الاسلام خواجہ معین الدین حسن سنجری اور حضرت شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین بختیار اوشی اور شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ اسرارہم ایک حجرہ میں موجود تھے اثناء گفتگو میں شیخ معین الدین نے خواجہ قطب الدین سے فرمایا کہ بختیار تو اس جوان کو مجاہدہ کی آگ میں کب تک جلائے گا جو کچھ بخشش کرنا ہو کردے۔ شیخ نے عرض کیا مجھے یہ طاقت کہاں ہے کہ جناب کی نظرِ مبارک کے سامنے کچھ بخشش کروں۔ شیخ معین الدین نے فرمایا کہ اس کی توجہ تجھ سے تعلق رکھتی ہے یہ کہہ کر شیخ معین الدین کھڑے ہوگئے اور فرمایا بختیار! تم بھی کھڑے ہوجاؤ تاکہ ہم دونوں مل کر بخشش کریں چانچہ دائیں جانب شیخ معین الدین کو کھڑا کیا اور بخشش کی۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
بخشش کونین از شیخین شد درباب تو |
|
بادشاھی یافتی زیں بادشاھان زمان |
|
(دو بزرگ شیخوں کی بخشش کونین تیرے حق میں ہوئی تو نے ان زمانہ کے بادشاہوں سے بادشاہی پائی دین اور دنیا کی مملکت تیرے واسطے ہے اور جس قدر عالم کن کی موجودات ہیں وہ سب تیرے لیے ہیں) جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جب شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو لوگوں نے ایک بزرگ کا نام لیا جو آپ کے پائینتی سوتے تھے اور جنہیں آرزو تھی کہ شیخ کے انتقال کے بعد خود شیخ کے مقام پر جلوہ فرما ہوں اس طرح شیخ بدر الدین غزنوی کو بھی اس بات کی تمنا تھی لیکن جس سماع کی مجلس میں کہ شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین انتقال کرنے والے تھے حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر بولے کہ میرا یہ جامہ یہ عصا یہ کھڑاویں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کو پہنچا دو جناب سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے اس جامہ کو اپنی آنکھ سے دیکھا تھا جو ایک دوہرا کپڑا سوزنی کے طور پر تھا جس رات شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ نے انتقال فرمایا تھا شیخ شیوخ لالعالم فرید الحق رحمۃ اللہ علیہ ہانسی میں تشریف رکھتے تھے اسی رات شیخ شیوخ العالم نے اپنے محترم پیر کو خواب میں دیکھا کہ آپ انہیں اپنے ابا جاہ و جلال دربار میں بلا رہے ہیں جب روز روشن ہوا تو شیخ شیوخ العالم ہانسی سے دہلی روانہ ہوگئے۔ چوتھے روز شہر میں پہنچے اور قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے وہ جامہ شیخ شیوخ العالم خواجہ فرالدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں پیش کیا شیخ شیوخ العالم نے اول دوگانہ ادا کیا کیا بعدہ اس جامہ کو زیب تن فرمایا۔ جا سے آراستہ ہوکر اس مکان میں تشریف لائے جہاں شیخ قطب الدین قدس سرہ رہتے تھے اور یہاں پہنچ کر آپ کی جگہ بیٹھ گئے۔ ابھی تین ہی روز ہوئے تھے کہ ایک شخص سر ہنگا نام ہانسی سے دہلی میں آیا اور اگرچہ دو تین مرتبہ شیخ شیوخ العالم کے پاس حاضر ہونا چاہا مگر دربان نے اندر آنے کی اجازت نہیں دی ایک دن خود شیخ شیوخ العالم گھر سے تشریف لائے سرہنگا جو آپ کی ملاقات کا منتظر تھا شیخ کو دیکھتے ہی آپ کے قدموں میں گر پڑا اور بھرائی ہوئی آواز میں رونے لگا۔ ازاں بعد نہایت لجاجت سے عرض کیا کہ جب آپ ہانسی میں تھے تو میں نہایت آسانی سے آپ کو دیکھا کرتا تھا اب آپ کا دیکھنا اور سعادت قدم بوسی حاصل کرنا نہایت دشوار اور سخت مشکل ہے۔ شیخ نے اس وقت یاروں سے فرمایا کہ میں ہانسی جاؤں گا حاضرین نے عرض کیا کہ شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین قدس سرہ نے جب کہ مقام آپ کو دیا ہے تو پھر آپ دوسری جگہ کیوں تشریف لے جاتے ہیں فرمایا جو نعمت مجھے پیر نے عنایت فرمائی وہ محدود نہیں ہے بلکہ پیر نے اسے رواں کر ؟؟؟ ہے وہی شہر میں ہے اور وہی جنگل و بیا بان میں۔ منقول ہے کہ جناب شیخ شیوخ العالم فرید فرماتے تھے کہ ایک دن میں شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نیت سے اٹھا کہ ہانسی کی طرف روانہ ہوں۔ شیخ کی نظر مبارک مجھ پر پڑی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا کر فرمایا جاؤ قلم تقدیر یوں چل چکا ہے کہ جب میرے سفر آخرت کا وقت نزدیک ہو تو تم یہاں موجود نہ ہو اس کے بعد آپ نے حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ سب مل کر اس درویش کی دین و دنیا کی مزید نعمت اور فقر کے لیے فاتحۃ اور سورۂ اخلاص پڑھو تمام حاضرین نے آپ کے ارشاد کی فوراً تعمیل کی۔ سب نے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھ کر میرے حق میں دعا خیر بھی کی اس وقت آپ نے اس دعا گو کو مصلّٰے خاص اور عصا عنایت فرمایا اور ارشاد کیا کہ میں تمہاری امانت یعنی سجادہ اور خرقہ اور دستار اور کھڑاویں قاضی حمید الدین ناگوری کو دے جاؤں گا وہ پانچ روز کے بعد تمہیں پہنچا دے گا تم انہیں نہایت حفاظت سے اپنے پاس رکھنا اور کبھی بھول کر جدا نہ کرنا ہمارا مقام حقیقت میں تمہارا ہی مقام ہے جس وقت شیخ قطب الدین قدس سرہ نے یہ فرمایا مجلس سے ایک اندوہ خیز شور و غل اٹھا اور سب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ شیخ شیوخ فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز نے ایک صاحب دل درویش کو دیکھا اور اس کا ذاتی کمال فوراً پہنچان لیا اور یہ بھی معلوم کر لیا کہ یہ اس وقت بھوکے ہیں جھٹ گھر میں تشریف لائے اور کھانے کی کوئی چیز تلاش کی اتفاق وقت سے گھر میں بجز تھوڑی سی جوار کے اور کوئی چیز موجود نہ تھی آپ نے اپنے ہاتھوں سے اسے چھڑا اور سل بٹے سے کچل کر خود ہی روٹی پکائی جامع مسجد میں جہاں وہ درویش نزول فرما تھا آئے اور جوار کی روٹی پیش کی۔ درویش نے کہا فرید الدین! میں دیکھ رہا تھا کہ تمہارے گھر میں بجز جوار کے اور کچھ نہ تھا اور میں یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ جس طرح تم نے آٹا پیسا اور روٹی پکائی۔ اب جو کچھ تمہیں مانگنا ہے مانگو شیخ شیوخ العالم کا جو مقصود تھا درویش سے بیان کر دیا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور درویش کی بخشش سے اس مطلوب پر کامیاب ہوئے۔ اس حکایت کے بیان کرنے کے بعد سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ اس زمانہ میں شیخ العالم با وجود سخت مشقتوں کی برداشت کرنے کے نہایت تنگ اور مفلس بھی تھے۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ جب کوئی درویش اپنی صاف باطنی سے کوئی چیز کسی دوسرے فقیر کو دیتا ہے تو درویشوں کا دستور یہی ہے کہ وہ درویش بھی بطریق مکافات اپنی گنجائش کے مقدار اس کی خدمت کیا کرتا ہے۔
شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ
العزیز کے بعض ملفوظات کا بیان
جناب سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز اپنے خطِ مبارک سے قلمبند کرتے ہیں کہ شیخ شیوخ العالم شیخ کبیر نے فرمایا کہ چار چیزیں ایسی ہیں جن کی بابت سات سو پیروں سے سوال کیا گیا اور سب نے ایک ہی جواب دیا۔ ایک یہ کہ من اعقل الناس۔ یعنی تمام لوگوں میں زیادہ تر عقلمند کون ہے۔ اس کا جواب دیا کہ تارک الدنیا۔ یعنی دنیا کو ترک کر دینا والا۔ دوسرے کہ ومن اکیس الناس یعنی تمام لوگوں میں زیادہ بزرگ کون ہے اس کا جواب دیا گیا الذی لا یغیر یشیء یعنی جو کسی چیز سے متغیر نہ ہو۔ تیرے یہ کہ ومن اغنی الناس یعنی تمام لوگوں سے زیادہ دولتمند اور مالدار کون ہے جواب دیا گیا۔ القانع یعنی قناعت کرنے والا۔ چوتھے یہ کہ ومن افقر الناس یعنی تمام لوگوں سے زیادہ محتاج کون شخص ہے جواب دیا گیا۔ تارک القناعتہ یعنی قناعت ترک کرنے والا۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا اللہ یستحیی من العبد ان یر فع الیہ یدیہ ویرد ھما خابین۔ یعنی خدا تعالیٰ بندہ کے اس کی طرف ہاتھ اٹھانے اور پھر انہیں نا مراد لوٹا دینے سے شرمندہ ہوتا ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا حکیمانہ مقولہ ہے کہ اگر ہے تو غم نہیں ہے نہیں ہے تو غم نہیں۔ یعنی بندہ کو دونوں حالتوں میں یکساں رہنا چاہیے۔ یہ بھی آپ نے فرمایا کہ نا مرادی اور نا کامیابی کا دن مرد کے لیے شب معراج ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ ہے کہ میں نے پورے دس سال صوفیوں کی شاگردی کی جب کہیں جا کر مجھے وقت کی قدر معلوم ہوئی۔ یہ بھی آپ ہی کا قول ہے کہ اپنا کام کرنا چاہیے اور پثر مردہ شخصوں کی باتوں میں اپنے تئیں چھوڑنا نہ چاہیے۔ ذیل کی بیت بھی آپ ہی کے ذہن رسا کا نتیجہ ہے۔
بقدر رنج یابی سروری را
بشب بیدار بودن مھتری را
(رنج کی مقدار خوشحالی اور سرداری پائے گا اور شب بیداری سے بزرگی حاصل ہوگی ۱۲)
یہ بھی آپ ہی کا حکیمانہ مقولہ ہے الصوفی یصفو بہ کل شیء ولا یکدرۂ شئی۔ یعنی حقیقت میں صوفی وہ ہے جس کی برکت کی وجہ سے تمام چیزیں صفائی قبول کریں اور اسے کوئی چیز تیرۂ مکدر نہ کرے۔ یہ بھی آپ نے فرمایا۔ کہ شیخ الاسلام جلال الدین نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ الکلام منکر القلوب ان اول الکلام و اخرہ ان کان للہ فتکلم والا فاسکت یعنی بہت سی باتیں ایسی ہیں جو دل کو غافل اور بدمست کر دیتی ہیں اگر بات کا اول و آخر خدا کے لیے ہے تو اسے منہ سے نکالنا چاہیے ورنہ خاموشی اختیار کرنی ضروری ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جب فقیر نیا اور جدید کپڑا پہنے تو یوں خیال کرنا چاہیے کہ کفن پہنتا ہوں۔ یہ بھی آپ ہی کا قول ہے کہ۔ الانبیاء احیاء فی لقبور یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام قبروں میں زندہ ہیں۔ ذیل کی رباعی بھی آپ ہی کی موزوں اور قابل طبیعت کا بد یہی نتیجہ ہے۔
لو کان ھذا العلم یدرک بالمنی
ما کان یبقی فی البریۃ جاھل
فاجھل ولا تکسل ولدیک غافلا
فندامۃ العقبی لمن یتکا سل
یعنی اگر علم کی تحصیل صرف خواہش و آرزو ہی پر موقوف ہوتی تو دنیا جہان میں کوئی جاہل باقی نہیں رہتا تو تجھے کوشش کرنا اور سستی و غفلت سے دور رہنا چاہیے کیونکہ عقبیٰ کی ندامت غافل و کاہل ہی کے لیے ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا قول ہے جو خدا وند تعالیٰ سے حکایت کرتے ہیں کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لا عرف یعنی میں ایک مخفی اور پوشیدہ خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں لہذا میں نے اپنے پہنچانے جانے کے لیے مخلوق پیدا کی۔ یہ بھی آپ ہی کا حکمت آمیز مقولہ ہے۔ ک تجھے اپنی اصلی حالت ظاہر کرنا چا ہیے ورنہ پھر خود تجھے ظاہر کریں گے جیسا کہ تو اصل میں تھا۔ یہ بھی آپ ہی کا فرمودہ ہے جذبۃ من جذبات الحق خیر میں عبادۃ الثقلین یعنی خدا کا ایک جذبہ جن و انس کی عبادت سے بہتر و افضل ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا قول ہے کہ قال علیہ السلام طوبی لمن شغلہ عیبہ عن عیوب الناس۔ یعنی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص مبارک ہے جس کا عیب لوگوں کا عیب دیکھنے اور ظاہر کرنے سے اسے باز رکھتا ہے۔ ذیل کا شعر بھی آپ ہی کا کہا ہوا ہے۔
رضینا قسمۃ الجبار
فینا لنا علم وللجھال مال
یعنی خدا تعالیٰ کی اس قسمت سے جو ہمارے حق میں جاری ہوئی ہے خوش ہیں کہ ہمارے لیے علم اور بہلاء کے واسطے مال ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا علاقلانہ مقولہ ہے۔ الصوفی یصفو ابہ کل شئی ولا یکدرۂ شیءٍ لو ارد تُم بلوغ درجۃ الکبار فعلیکم بعدم الا لتفات الی ابناء الملوک۔ یعنی صوفی وہ شخص ہے جس کی برکت کی وجہ سے ہر چیز صفائی قبول کرے اور اسے کوئی چیز تیرہ و مکدر نہ کرے اگر تم بزرگوں کے رتبہ پر پہنچنا چاہتے ہو تو بادشاہوں کی طرف بے التفاتی کو لازم پکڑو۔
دو شینہ شبنم دل حزینم بگر فت
واندیشہ یار ناز نینم بگر فت
گفتم بسرود دیدہ روم برد رتو
اشکم بدو یدو آسینم بگرفت
(کل کی رات شبنم نے میرے محزون و مغموم دل پر اثر کیا اور یار نازنین کے اندیشہ نے بر انگیختہ کیا میں نے کہا کہ آنکھ و سر کے بل تیرے دروازہ پر چلنے کو مستعد ہوں اس وقت میرے آنسو بہے اور آستین پکڑی۔)
یہ بھی آپ ہی کا قول ہے کہ المباحثۃ بین الاثنین خیر من تکرار السنتین۔ یعنی دو شخصوں کا باہم بحث کرنا دو سال کی تنہا تکرار کرنے سے بہتر ہے۔
اے مدعی بد عوی چندین مکن دلیری
یک حرف راز معنی سہ صد جواب باشد
(اے مدعی ان حقیر دعوؤں پر جرأت نہ کر کیونکہ راز کے ایک حرف میں تین سو جواب ہوسکتے ہیں۔)
یہ بھی آپ ہی کا قول ہے کہ الافت فی التدبیر والسلامۃ فی التسلیم۔ یعنی تدبیر میں آفت ہے اور اپنا کاروبار خدا کے سپرد کر دینے میں سلامتی ہے۔ یہ بھی آپ ہی کا قول ہے کہ العلماء اشرف الناس والفقراء اشرف الاشراف۔ یعنی علما تمام لوگوں سے شریف تر ہیں لیکن فقیر علماء سے بھی بہتر ہیں۔ یہ بھی آپ ہی کا قول ہے۔ الفقیر بین العلماء کالبدر بین کواکب السماء یعنی فقیر علماء کے جمگھٹے میں ایسا ہے جیسا ستاروں کے جھرمٹ میں چودہویں رات کا چاند۔ یہ بھی آپ ہی کا مقولہ ہے کہ ان ارذل الناس من اشتغل بالا کل واللباس۔ یعنی تمام لوگوں میں زیادہ رذیل و ذلیل وہ شخص ہے جس کی ہمت کھانے پہننے میں ہی مصروف رہے۔
منقول ہے کہ ایک بزرگ نے جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے ملفوظات اور حکیمانہ اقوال میں سے پورے پانچ سو کلمات جمع کیے ہیں جن میں سے چند کلمات یہاں مختصراً قلمبند کیے جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ ۱۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ اچھا برتاوا کرنا چاہیے کہ سب نظر قبول سے دیکھنے لگیں گے۔ ۲۔ ہر شخص کو وہی دیتا ہے اور جب وہ دیتا ہے تو کوئی چھین نہیں سکتا۔ ۳۔ اپنے آپ سے بھاگنا گویا خدا تعالیٰ تک پہنچنا ہے۔ ۴۔ جسم وتن کی خواہش پوری مت کر کہ وہ بہت منہ پھیلاتا ہے۔ ۵۔ جاہل و ناداں کو زندہ مت خیال کر۔ ۶۔ جو شخص نادان ہوکر اپنے تئیں دانا ظاہر کرے اس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ ۷۔ جو سچ کہ جھوٹ کے مشابہ ہو اسے زبان سے نہ نکال۔ ۸۔ دنیاوی جاہ و مال کے لیے اندیشہ نہ کرو۔ ۹۔ ہر شخص کی روٹی نہ کھاو۔ ہاں عالم لوگوں کو بغیر کسی تخصیص کے روٹی دو۔ ۱۰۔ موت کو کبھی اور کسی جگہ نہ بھولو۔ ۱۱۔ اٹکل پچو بات نہ کہو۔ ۱۲۔ جو آفت و بلا پڑے اسے نفسانی خواہش اور گناہ کا نتیجہ سمجھنا چاہے۔ ۱۳۔ گناہ کر کے شیخی بگھارنا سخت معیوب ہے۔ ۱۴۔ دل کو شیطان کا بازیچہ مت بناؤ۔ ۱۵۔ باطن ظاہر سے عمدہ اور بہتر رکھو۔ ۱۶۔ آرایش و نمائش میں کوشش نہ کرو۔ ۱۷۔ نفس کو جاہ و دولت کے لیے ذلیل و بے قدر نہ کرو۔ ۱۸۔ عاجز اور نو دولتیئے سے قرض نہ لو۔۱۹۔ قدیم خاندان کی حرمت و عزت محفوظ رکھو۔ ۲۰۔ ہر روز جدید و نئی دولت کی طلب میں رہنا چاہیے۔ ۲۱۔ جب تک بن پڑے عورتوں کو گالیاں دینے کی عادت پیدا نہ کرو۔ ۲۲۔ نعمت کی شکر گزاری کرو۔ ۲۳۔ کسی پر احسان نہ رکھو۔ ۲۴۔ مزاج کی صحت و عافیت کو بڑی بھاری نعمت سمجھو۔ ۲۵۔ جس نے تمہارے ساتھ نیکی کی ہے اس کی نسبت نیکی کرنے کو اپنی طرح خیال کرو۔ ۲۶۔ جس چیز کی برائی پر دل گواہی دے اس کا خیال جلد چھوڑدو۔ ۲۷۔ جو غلام بِکنا چاہے اسے خدمت میں رکھنا نہ چاہیے۔ ۲۸۔ نیکی کرنے پر بہانہ جوئی کی عادت ڈالو۔ ۲۹۔ سختی اور سبکساری کو ضعیفی سمجھو۔ ۳۰۔ کسی دشمن سے بے خوف نہ رہو۔ گو وہ تم سے خوش ہی کیوں نہ ہو۔ ۳۱۔ جو تم سے ڈرتا ہو تم اس سے ڈرو۔ ۳۲۔ اپنی طاقت و توانائی پر بھروسہ نہ کرو۔ ۳۳۔ شہوت کے وقت خود داری تمام وقتوں سے زیادہ کرنا چاہیے۔ ۳۴۔ جب اہل دولت کے ساتھ بیٹھو تو دین کو فراموش نہ کرو۔ ۳۵۔ عزت و حشمت انصاف و عدل میں جانو۔ ۳۶۔ تونگری اور دولت مندی کے وقت عالی ہمت رہو۔ ۳۷۔ دین کا کوئی معاوضہ نہیں ہوسکتا۔ ۳۸۔ وقت کا کوئی بدل نہیں مل سکتا۔ ۳۹۔ دارِ سخاوت راست قولی سے دے۔ ۴۰۔ گردن کشوں اور نخوت پسندوں پر تکبر واجب جانو۔ ۴۱۔ مہمان کے ساتھ تکلف کا برتاوانہ کرو۔ ۴۲۔ عقلمندی و تجرید کا نوشہ مہیا کرو۔ ۴۳۔ جب خدا کی مقرر کی ہوئی تکلیف تیری طرف ہو تو اس سے اعراض نہ کر۔ ۴۴۔ جس درویش کو تونگری کی امید ہو اسے حریص جانو۔ ۴۵۔ خدا ترس وزیر کی سپردگی میں ملک دینا چاہیے۔ ۴۶۔ دشمن سے مشورہ مت لو۔ ۴۷۔ دوست کو متواضعانہ اخلاق سے اپنا گرویدہ بنالو۔ ۴۸۔ جہان پرستی کو ناگہانی بلا جانو۔ ۴۹۔ اپنے عیب کو ہمیشہ زیر نظر رکھو۔ ۵۰۔ دولت مندی کو ہنر مندی کے جال میں پھنساؤ تاکہ ہمیشہ باقی رہے۔ ۵۱۔ ہنر ذلت سے حاصل کرو۔ ۵۲۔ دشمن کی کڑوی کسیلی بات سے متغیر نہ ہونا چاہیے۔ ۵۳۔ دشمن سے محفوظ رہنے کی ہمیشہ کوشش کرو۔ ۵۴۔ اگر تم ذلیل و رسوا ہونا نہیں چاہتے تو کبھی کسی سے لڑائی نہ کرو۔ ۵۵۔ اگر تم ساری خلق کو اپنا دشمن بنانا چاہتے ہو تو تکبری کی صفت پیدا کرو۔ ۵۶۔ اپنے نیک و بد کو مخفی رکھو۔ ۵۷۔ دین کی علم سے نگاہداشت کرو۔ اگر عزت و بلندی کے طالب ہو تو مفلسوں اور شکتہ دلوں کے پاس بیٹھو۔ ۵۸۔ اگر تمہیں آسودگی و آسایش پیش نظر ہے تو حسد نہ کرو۔ ۵۹۔ اس میں بہت کوشش کرو کہ مرنے سے ہمیشہ کی زندگی پاؤ۔
جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک شخص نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں نے اناج کے چند دانے چڑیوں کے آگے ڈالے تھے۔ دوسرے روز من بھر گیہوں اور سِکّہ رائج وقت مجھے پہنچا شیخ شیوخ العالم خواجہ فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کی زبان مبارک پر بے ساختہ یہ بیت جاری ہوئی۔
خورش دہ بکنجشک و کبک و ھمام
کہ ناگاہ ھماے در افتد بدام
معتبر اور ثقہ لوگوں سے منقول ہے کہ ایک دفعہ شیخ الاسلام خواجہ بہاؤ الدین زکریا نے شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ کی خدمت میں ایک ایسی بات پہنچادی تھی جو شیخ شیوخ العالم کی مجلس کے قابل نہ تھی جب شیخ الاسلام بہاؤ الدین کو یہ خبر ہوئی تو آپ نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں ایک معذرت نامہ لکھ کر بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ ہم میں اور تم میں عشق بازی ہے۔ شیخ شیوخ العالم نے فوراً اس معذرت کا یہ جواب دیا۔ کہ ہمارے تمہارے درمیان عشق ہے۔ بازی نہیں ہے۔
شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس سرہ العزیز اور آپ کی والدہ بزرگوار کی بعض کرامتیں
جناب سلطان المشائخ قدس سرہ اللہ العزیز فرماتے تھے کہ ایک دن میں نے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں عرض کیا کہ خواجہ! میری ایک درخواست ہے اگر حضور رغبت کے کانوں سے سنیں اور بخشش فرمائیں۔ فرمایا کہو کیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ حضور کی داڑھی مبارک کا ایک بال جدا ہوگیا ہے اگر حکم ہو تو میں اسے بجائے تعویز کے حفاظت سے اپنے پاس رکھوں۔ فرمایا ایسا ہی کرو۔ میں نے اس بال کو نہایت اعزاز سے لیا اور ایک پاک کپڑے میں لپیٹ کر تعویز بنالیا۔ اور شہر دہلی میں واپس آیا۔ جناب سلطان المشائخ جس وقت یہ واقعہ بیان کر رہے تھے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے آپ نے آنسو پونجھ کر فرمایا۔ آہ آہ اس ایک بال میں میں نے کیا کیا اثر دیکھے ہیں ازاں بعد فرمایا جو درد مند بیمار میرے پاس آکر تعویز مانگتا میں اسے وہ بال دے دیتا فوراً اس کی تمام تکلیف و زحمت دور ہوجاتی یہاں تک کہ میرے ایک دوست تاج الدین مینائی کا سب سے چھوٹا لڑکا جو صغیر سن تھا بیمار پڑا وہ میرے پاس آئے اور اس تعویز کی درخواست کی یہ عجب اتفاق کی بات ہے کہ جس جگہ میں نے تعویز رکھا تھا وہاں ہر چند تلاش کیا مگر کہیں سراغ نہ ملا یہاں تک کہ تاج الدین کا لڑکا اسی بیماری میں انتقال کر گیا۔ ازاں بعد جو میں نے ڈھونڈا تو تعویز غائب ہوگیا تھا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ دہلی میں ایک بزرگ اور متمول شخص رہتے تھے جنہیں لوگ ایتم کے نام سے یاد کرتے تھے انہوں نے ایک نہایت خوش وضع اور پرفضا مسجد بنائی تھی اور اس کا امام شیخ نجیب الدین متوکل کو قرار دیا تھا اس بزرگ نے اپنی لڑکی کی شادی کی اور ایک لاکھ روپیہ اس کے کار خیر میں خرچ کیا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ شیخ نجیب الدین متوکل نے باتوں باتوں میں ان سے کہا کہ کامل اور پورا ایماندار وہ شخص ہے جس پر خدا تعالیٰ کی دوستی اہل و اولاد کی محبت و دوستی پر غالب ہو اب تم پورے ایماندار اس وقت بن سکتے ہو جبکہ خدا کی راہ میں اس رقم سے دو چند خرچ کرو جو اپنی لڑکی کے حق میں خرچ کر چکے ہو۔ ایتم شیخ نجیب الدین متوکل کی اس بات سے سخت ناراض ہوا۔ اور منصب امامت اس سے لے لیا۔ شیخ نجیب الدین اجودھن گئے اور شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوکر صورتِ واقعہ عرض کی شیخ شیوخ العالم قدس سرہ نے فرمایا ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا او مثلھا یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو آیت ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا پیغمبر کے دل سے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آتے ہیں۔ بعدہ زبان مبارک پر جاری ہوا کہ اگر ایتمری گیا تو ایتگری کو پیدا کر۔ چنانچہ اسی زمانہ میں ایتگری نام بادشاہ ان شہروں میں پہنچا۔ اس شخص نے ایک بزرگ خانوادہ کی خدمتیں کی تھیں اور اس خدمت کی وجہ سے اس خاندان کی طرف منسوب ہوگیا تھا۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ جس زمانہ میں سلطان ناصر الدین اوچہ اور ملتان کی جانب گیا ہے تو اس کے تمام لشکر نے شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ کی زیارت کی طرف توجہ کی یہاں تک کہ جس مقام پر آپ سکونت پزیر تھے خلق کے ہجوم و کثرت سے بھرگیا اور تِل دھرنے کو جگہ باقی نہ رہی اس وقت لوگوں نے شیخ شیوخ العالم کی آستین مبارک کوٹھے کی طرف سے کوچہ کی جانب لٹکائی لشکری جوق جوق آتے تھے اور آستین مبارک کو چوم چوم کر چلے جاتے تھے پھر بھی آستین کی یہ حالت تھی کہ پھٹ کر ٹکرے ٹکرے ہوگئی تھی اس وقت شیخ مسجد میں تشریف لائے اور مریدوں کو ارشاد فرمایا کہ تم میرے گرد حلقے کر کے کھڑے ہوجاؤ تاکہ لوگ حلقہ کے اندر آ نہ سکیں اور دور ہی سے سلام کرے کے چلے جائیں۔ عقیدت کیش اور بے ریا مریدوں نے آپ کے حکم کی فوراً تعمیل کی۔ اسی اثناء میں ایک بڈھا فراش آیا اور مریدوں کے حلقہ سے تجاوز کر کے شیخ کے پاؤں میں گر پڑا۔ شیخ کا پاؤں پکڑ کر کھینچا اور بوسہ دے کر کہنے لگا۔ شیخ فرید! اس قدر تنگی و سختی نہ کرو اور خدا کی نعمت کا شکریہ اس سے بہتر ادا کرو۔ شیخ شیوخ العالم نے بڈھے کی جب یہ بات سنی ایک نعرہ مارا۔ بعدہ فراش کا بہت اعراز کیا اور بے انتہا معذرت کی۔ کاتب حروف نے اپنے والد سید محمد مبارک کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ فرماتے تھے اسی اثناء میں جبکہ سلطان ناصر الدین کا لشکر نہروالہ کے قریب پہنچا تو سلطان نے چاہا کہ اجودھن میں جاکر شیخ شیوخ العالم کی سعادت قدم بوسی حاصل کرے۔ سلطان غیاث الدین نے جو اس زمانہ میں وزیر السلطنت تھا اور الغ خان کے خطاب سے شہرت رکھتا تھا سلطان ناصر الدین سے عرض کیا کہ ہمارا لشکر بہت ہے اور اجودھن کے رستہ میں پانی کم یاب ہے لشکر کو سخت تکلیف ہوگی اور عجب نہیں کہ لوگ تلف ہوجائیں اگر حکم ہو تو میں شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوں اور تحفے تحائف پیش کر کے خدا وند عالم کی طرف سے معذرت کروں۔ سلطان غیاث الدین کے دل میں ان دنوں سلطنت و جہانگیری کی ہوس تھی اور سلطان ناصر الدین کی جگہ خود بادشاہ بننا چاہتا تھا اس نے اپنے دل میں خیال کیا تھا کہ اگر سلطنت و حکومت میرے نصیب ہیں ہے اور تحت و تاج مجھے پہنچنے والا ہے تو اس بارے میں شیخ شیوخ العالم کی زبان مبارک پر میرے حق میں وہ الفاظ جاری ہوجائیں گے جن سے میں اپنے مقصد پر استدلال کر سکوں گا۔ یہ بات سوچ کر اور سلطان سے اجازت لے کر چلا۔ چلتے وقت چاندی کی ایک کافی مقدار اور چار گاؤں کا فرمان اپنے ساتھ لیا اور شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوا سعادتِ قدم بوسی حاصل کی اور چاندی کا ڈھیر مع چار گاؤں کے فرمان کے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پیش کیا۔ شیخ نے فرمایا کہ یہ کیا ہے الغ خان نے عرض کیا یہ چاندی ہے اور یہ چار گاؤں کا فرمان ہے جو خاص آپ کے واسطے لایا ہوں۔ شیخ شیوخ العالم نے مسکرا کر فرمایا کہ نقد تو ہم کو دے دو کہ ہم درویشوں کو تقسیم کر دیں گے اور گاؤں کا فرمان لے جاؤ کیونکہ اس کے خواست گار بہت ہیں۔ اس گفت و شنید کے بعد الغ خان کے دل میں اس معنی کے کشف کی نسبت خلش پیدا ہوئی جس لیے وہ اس اہتمام سے یہاں آیا تھا اور منتظر تھا کہ دیکھیے شیخ شیوخ العالم اس معنی کا کشف کب کرتے ہیں۔ اس بات کے دل میں کھٹکتے ہی فوراً شیخ شیوخ العالم کی زبان مبارک پر ذیل کی ابیات جاری ہوئیں۔
فریدوں فرخ فرشتہ نبود |
|
ز عود و زعنبر سرشتہ نبود |
|
(فریدوں فرخ کوئی فرشتہ یا اس کا عو و عنبر سے خمیر نہیں کیا گیا تھا اس نے یہ نیک نامی صرف انصاف و بخشش سے پائی اگر تو بھی دادو دہش سے کام لے گا فریدون ہوجائے گا۔)
جوں ہی یہ لفظ الغ خان کے کان میں پہنچے دستار کی گرہ میں باندھ لیے اور زمینِ خدمت کو بوسہ دیا اور خوش دل ہوکر اٹھا چنانچہ اس کے تھوڑے ہی دنوں بعد الغ خان مستقل بادشاہ ہوگیا اور ہندوستان کی مملکت کے امور اس کے ضبطِ سلطنت میں آگئے ایک بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے۔
سرے کہ سودہ شود بر زمین بخدمت تو
زیک قبول تو تا حشر تاجدار شود
(جو سر کہ تیری زمین خدمت میں جھک گیا وہ صرف تیری ایک نظر قبول کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے بادشاہ ہوگیا۔)
جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز ایک دن صبح کی نماز ادا کر کے مشغول بحق تھے اور سر زمین پر رکھے ہوئے تھے (آپ اسی ہیئت پر اکثر اوقات مستغرق شغل ہوتے تھے) جاڑے کا موسم تھا اور خنکی میں بھیگی ہوئے ہوا کے جھونکے چل رہے تھے۔ آپ کے خادم نے ایک پوستین لا کر آپ کے جسم مبارک پر ڈال دیا تھا اور چاروں طرف سے جسم چھپا دیا تھا اس وقت آپ کی خدمت میں کوئی خدمت گار موجود نہ تھا صرف ایک میں ہی حاضر تھا اسی اثناء میں ایک شخص آیا اور اس زور سے چیخ کر سلام کیا کہ شیخ شیوخ العالم کے اوقات عزیز میں انتشار پڑگیا لیکن اس پر بھی شیخ اسی طرح زمین پڑے رہے اور پوستین سے اپنا سارا جسم چھپاتے رہے دفعۃً آپ نے فرمایا یہاں کوئی موجود ہے میں نے عرض کیا میں حاضر ہوں۔ فرمایا یہ شخص جو ابھی آیا ہے بالا قد اور زردگوں ہے میں نے جو اس شخص کو دیکھا تو یہی ہیئت رکھتا تھا لہٰذا میں نے جواب دیا کہ بے شک ایسا ہی ہے۔ ازاں بعد فرمایا کہ اس کی کمر میں زنجیر بھی پڑی ہوئے ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا جی ہاں۔ زنجیر بھی ہے۔ پھر فرمایا کہ کان میں کوئی چیز بھی پڑی ہوئی۔ میں نے دیکھ کر کہا جی ہاں ایسا ہی ہے۔ الغرض جو جو آپ بتلاتے گئے میں دیکھتا گیا اور جواب دیتا گیا لیکن جس وقت میں نے شیخ کے جواب میں عرض کیا کہ ہاں اس کے کان میں ایک بالی پڑی ہوئی ہے تو وہ شخص متغیر ہوا اور گرگٹ کے سے رنگ بدلنے لگا۔ شیخ نے فرمایا اس سے کہہ دو کہ زیادہ ذلیل و رسوا ہونے سے پیشتر چلا جا اب جو میں نے اس کی طرف نظر اٹھائی تو وہ خود چلا گیا تھا۔ منقول ہے کہ ایک دن شیخ شیوخ العالم خواجہ فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی کلمہ کی انگلی میں سانپ نے کاٹا لیکن آپ نے کوئی علاج نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی بندگی میں مشغول رہے غلبۂ مشغولی کے وقت آپ کے جسم مبارک سے پسینہ بَہ نکلا اور زہر نے مطلق اثر نہیں کیا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ہم چند لوگ اجودھن (پاک پتن) کی طرف چلے جا رہے تھے سری (ایک گاؤں کا نام ہے سری کا نام سرسہ ہے۔ پہلے دہلی سے یہی راستہ پاک پتن جانے کا تھا۔) کے جنگل میں جب پہنچے تو ایک سانپ نے مجھے کاٹ لیا ایک شخص نے جو ہماری محبت میں سفر کر رہا تھا سانپ کے کاٹے ہوئے مقام کو ایک کپڑے سے باندھ دیا تھوڑی دیر میں زہر اتر گیا اور زخم اچھا ہوگیا ہم اجودھن میں نا وقت پہنچے شہر کے دروازے بند ہوگئے تھے اور دکانیں کبھی کی بند ہوچکی تھیں یاروں نے کہا کہ ہم شہر کے قلعہ کی فصیل کود کر اندر جا پہنچیں گے چنانچہ ہم آگے بڑھے فصیل کے قریب جا کر دیکھا تو ہر طرف سے رستہ بند تھا آخر جس طرح بن پڑا سب لوگ اوپر چڑھ گئے چونکہ میں اوپر چڑھتے ڈرتا تھا اس لیے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر چڑھا لیا۔ صبح کے وقت ہم سب شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے سب کو پوچھا لیکن میری بابت کچھ نہ فرمایا۔ تھوڑی دیر کے بعد ارشاد کیا سانپ کا کاٹنا تعجب کی بات نہیں فصیل کا کودنا کہاں آیا ہے۔ لیکن شیخ نصیر الدین محمود اس حکایت کو یوں روایت کرتے ہیں کہ جب حدود سرسی میں سلطان المشائخ کو سانپ نے کاٹا تو شیخ شیوخ العالم پر یہ واقعہ نور باطن کی وجہ سے روشن ہوگیا آپ نے فوراً چند شخصوں کو حکم فرمایا کہ بہت جلد روانہ ہوں اور سلطان المشائخ کو سواری میں بٹھا کر لے آئیں چنانچہ انہوں نے ایک نہایت عاجلانہ حرکت کی اور سلطان المشائخ کو بہلی میں سوار کر کے لے آئے۔ جناب سلطان المشائخ نے فرمایا کہ شیخ شیوخ العالم قدس اللہ سرہ العزیز کو کوئی مرض لاحق ہوا اور چند روز میں نہایت ہی ضعیف ہوگئے۔ آپ نے چاہا کہ اٹھ کر چند قدم چلوں عصا ہاتھ میں لیا اور چلنے لگے چند ہی قدم چلے تھے کہ آپ نے عصا ہاتھ سے ڈال دیا اور پیشانی مبارک میں ندامت و پشیمانی کا اثر لوگوں نے محسوس کیا پوچھا کہ حضرت یہ کیا بات تھی کہ خواجہ نے عصا کو زمین پر پھینک دیا فرمایا ہمیں عتاب کیا گیا کہ تم نے ہمارے غیر پر بھروسہ کیوں کیا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ یوسف ہانسوی جو ہمارے قدیم دوستوں میں سے تھے ایک دفعہ اوچہ سے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں آئے۔ شیخ نے فرمایا کہ تم نے اوچہ میں کن کن لوگوں کو دیکھا ہے عرض کیا فلاں شخص ایسا ہے اور فلاں چیز میں مشغول ہے فلاں شخص ایسا عبادت گزار ہے اور فلاں ایسی ریاضت و جفاکشی میں زندگی بسر کرتا ہے شیخ شیوخ العالم کو ان کے اس بیان سے اوچہ کے لوگوں کے دیکھنے کی رغبت پیدا ہوئی۔ وضو کے بہانہ سے اٹھے اور اوچہ میں تشریف لے گئے جب دیر زیادہ ہوگئی تو لوگوں نے آپ کو مسجد کے اندر اوپر نیچے تلاش کرنا شروع کیا لیکن کہیں سراغ نہ لگا تھوڑی دیر کے بعد شیخ شیوخ العالم ظاہر ہوئے یوسف نے پوچھا کہ خواجہ کہاں تشریف لے گئے تھے فرمایا کہ تم نے اوچہ کے باشندوں کی اس قدر تعریف بیان کی کہ ان سے ملاقات کرنے کی رغبت پید ہوئی میں اس وقت اوچہ میں گیا تھا اور وہاں کے آدمیوں کو دیکھ رہا تھا وہ دوکانوں پر بیٹھے ہوئے روٹیاں پکا رہے ہیں۔ منقول ہے کہ سلطان المشائخ کی مجلس میں ایک یار نے بیان کرنا شروع کیا کہ بہاؤ الدین خالد کہتے تھے کہ میں اجودھن میں شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پہنچا اجودھن کی جامع مسجد میں محراب کے آگے میں بیٹھا ہوا تھا کیونکہ لوگوں نے مجھے خواجہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔ محراب میں ایک لمبا شگاف تھا جس میں ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑا ہوا تھا میں نے اس کاغذ کو کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا۔ فرید کی طرف سے خالد کو سلام پہنچے۔ میں یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا۔ حقیقت میں حقیر و فقیر پر شیخ کی یہ عنایت و مہربانی ایسی نہ تھی جو اس تعجب اور تعجب کے ساتھ حیرت میں نہ ڈالتی۔ الغرض میں اس کے بعد شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پہنچا اور اس تعجب انگیز واقعہ کی تقریر کی۔ اور اسی اثناء میں ایک یار نے جناب سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ یہ کاغذ کوئی شخص لکھتا ہے یا خدا کی طرف سے صادر ہوتا ہے۔ سلطان المشائخ نے فرمایا کہ اصل یہ ہے کہ ایک فرشتہ ہے جسے ملہم کہتے ہیں۔ یہ نقش وہی فرشتہ آدمی کے دل میں لکھ دیتا ہے جس سے الہام پیدا ہوتا ہے سائل نے کہا شاید کاغذ بھی وہی فرشتہ لکھ دیتا ہوگا۔ سلطان نے مسکرا کر فرمایا جس فرشتہ کو ملہم کہتے ہیں اس کی طرف سے تین چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ انسان کے دل میں کوئی چیز ڈال دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے کان میں غیب سے آواز پہنچتی ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کے سامنے لکھا ہوا کا غذ ظاہر ہوتا ہے۔ اولیاء اللہ نقش کو دیکھتے ہیں لیکن نقاش کو نہیں دیکھتے اور انبیاء علیہم السلام نقش و نقاش دونوں کو دیکھتے ہیں پھر جس وقت کہ یہ نقش پیدا ہوتا ہے اگر انسان کے دل میں اس کے ساتھ ہی ایک قسم کا نور ظاہر ہو تو اسے رحمانی نقش سمجھنا چاہیے کہ اسے فرشتہ لکھتا ہےا ور دل میں تاریکی و ظلمت پیدا ہو تو شیطانی سمجھنا چاہیے وجہ یہ کہ شیطان انسان کے دل میں القا کرتا ہے۔ ازاں بعد سلطان المشائخ نے فرمایا کہ بیچارے فرشتہ کو اس میں کیا دخل ہے اور شیطان لعین کیا کرسکتا ہے جو کچھ پیدا ہوتا ہے خدا ہی کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ کاتب حروف نے اپنے بزرگوار چچا جناب سید السادات سید حسین رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ ایک دن شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی جانب خط لکھنا چاہتے تھے کاغذ و قلم ہاتھ میں لیا اور متامل ہوئے کہ شیخ الاسلام بہاؤ الدین کو کون سے القاب کے ساتھ خط لکھنا چاہیے اسی اثناء میں آپ کے دل مبارک میں گزرا کہ شیخ الاسلام کا جو خطاب و لقب لوح محفوظ میں لکھا ہے وہی میں بھی اپنے خط کے عنوان میں درج کروں چنانچہ آپ نے سر مبارک اوپر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جب لوح محفوظ پر نظر پڑی تو لکھا دیکھا۔ ’’شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا‘‘۔ پس آپ نے اسی مکرم و معزز خطاب سے خط لکھنا شروع کیا۔ ایک ولی کا یہ قول آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
قلوب العارفین لھا عیون |
|
تری مالا یراہ النا ظرینا |
|
یعنی عارفوں کے دلوں کی آنکھیں جن سے وہ اس چیز کو دیکھ لیتے ہیں جو اور دیکھنے والے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ ملکوت رب العالمین کی طرف بغیر پر کے بازؤں سے اڑتے ہیں۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ ایک شخص محمد نامی جو ہمارے قدیم اور دوستوں میں نہایت دلسوز اور خیر خواہ دوست تھے شیخ شیوخ العالم خواجہ فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کے بعض اسرار سے واقف اور آپ کے راز دار تھے۔ جمعہ کے دن مسجد میں شیخ شیوخ العالم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعۃً مدہوش ہوگئے۔ شیخ نے دریافت کیا کہ محمد تمہارا کیا حال ہے اور یہ مدہوشی کیسی تھی ہنوز محمد نے شیخ کے اس سوال کا جواب نہ دیا تھا کہ خود شیخ شیوخ العالم کی زبان مبارک پر جاری ہوا کہ اس وقت حالتِ نماز میں مجھے معراج ہوئی تھی تمہیں بھی درویشوں کی نعمت سے ایک حصہ پہنچ گیا۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ نماز جمعہ میں تکبیر تحریمہ کے بعد جو حالت اور تحیر سلطان المشائخ پر طاری ہوا تھا اور پھر وہ انتقال کے دن تک لگاتار چلا گیا تھا (جیسا کہ حضرت شیخ شیوخ العالم کو ذکر حصہ مرض میں مفصل طور پر بیان کیا جائے گا) اسی معراج کے مشابہ تھا جو شیخ شیوخ العالم کو نماز جمعہ میں حاصل ہوئی تھی جیسا کہ اس حکایت کے عنوان میں مذکور ہے۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جب میں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت سے خرقہ اور خرقہ کے ساتھ اجازت عام حاصل کر کے دہلی میں آیا تو شیخ شیوخ العالم کا عنایت کیا ہوا کملی خرقہ زیب تن کر کے جامع مسجد میں گیا۔ شرف الدین قیامی نے مجھے بلایا اور کیفیت دریافت کی میں نے شیخ شیوخ العالم سے بیعت کرنے اور خلعت پانے کی ساری کیفیت بیان کی جوں ہی اس نے میرا یہ حال سنا نہایت برہم وافروختہ ہوا اور شیخ شیوخ العالم کو دو دفعہ ان نامناسب الفاظ سے یاد کیا جو شیخ کے منصب و مرتبہ کے کسی طرح شایان نہ تھے اور مجھے تو بہت ہی برا بھلا کہا اگرچہ میں بھی جواب دینے کی قوت رکھتا تھا اور ممکن تھا کہ ترکی بتر کی جواب سے اپنے دل کا بخار نکال لیتا لیکن میں نے تحمل کیا اور منہ سے اُف تک نہ نکالا شیخ سعدی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
بخدا و بسرو پائی تو کز دوستیت
خبر از دشمن و اندیشۂ دشنامم نیست
(خدا اور تیرے سرو پاؤں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیری دوستی کے آگے مجھے دشمن کی خبر ہے نہ دشنامی کا اندیشہ)
لیکن جب دوسری مرتبہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس واقعہ کا تمام و کمال ذکر کیا۔ شیخ شیوخ العالم زارو قطار رونے لگے اور مجھے اس تحمل و برداشت پر شاباش دی اور اسی حالت کے غلبہ میں آپ کی زبانِ مبارک پر پھر جاری ہوا کہ مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ شیخ شرف الدین چلا گیا جب میں دہلی میں آیا تو شرف الدین قیامی سفر کر چکا تھا شیخ نصیر الدین محمود سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوا شیخ نے خدام کو حکم دیا کہ اس کے آگے کھانا لاؤ اس شخص نے عرض کیا کہ چند روز سے میں نے کھانا چھوڑ رکھا ہے۔ شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کھانا چھوڑنے کا کیا سبب ہے جواب دیا کہ میں ایک گاؤں میں سکونت رکھتا تھا اتفاق سے وہاں کے مسلمانوں کو گاؤں کے سرکش اور متمرد کفار کی وجہ سے بھاگنا پڑا۔ میرے فرزند اور دوسرے عزیز و اقارب گرفتار ہوگئے۔ میرے پاس ایک نہایت ہی حسین و خوبصورت عورت تھی جس کے ساتھ میرے جان و دل وابستہ تھے اور میں ہمیشہ اسے دنیا بھر سے زیادہ عزیز رکھتا تھا وہ بھی ان ہی لوگوں کے ساتھ قید کردی گئی اس کی وجہ سے میرے دل کو چین و اطمینان نہ تھا اس لیے میں اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتا اور اپنے تئیں ہلاک کرنے کی تدبیریں کرتا ہوں شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ کھانا کھا۔ دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ اسی اثناء میں آپ کی خدمت میں ایک اور شخص آیا جو خوش خطی اور منشی گری میں مشہور تھا۔ چونکہ یہ شخص اپنے بادشاہ کا مجرم تھا اس لیے پابزنجیر تھا خواجہ نے فرمایا کہ اے شخص تجھے اس زحمت و تکلیف سے خلاصی ہوجائے گی لیکن اس مرد کو ایک لونڈی دے دیجیو۔ اس شخص نے شیخ شیوخ العالم سے وعدہ کیا اور آپ کا فرمان قبول کے کانوں سے سنا لیکن اس مرد نے منشی کے ساتھ چلنے سے انکار کیا اور کہا مجھے کنیزک نہیں چاہیے۔ منشی جی نے کہا کہ میری رہائی اس شرط پر منحصر ہے کہ تجھے کنیزک دوں لہذا اب بجز اس کے اور کوئی علاج ہی نہیں ہوسکتا کہ تمہیں ساتھ لے جا کر کنیزک دوں۔ چنانچہ اس نے اپنے لوگوں کو اس شخص پر مقرر کیا اور وہ اے ایک گھوڑے پر سوار کر کے لے چلے۔ خدا کی قدرت جب یہ منشی اس بادشاہ کے پاس پہنچا جس نے اسے مجرم قرار دے کر مقید کیا تھا تو اس شخص پر اس سے ملاقات کرتے ہی رہائی کا حکم دے دیا اور جو لونڈی گاؤں کے غارت و تاراج کرنے کے بعد اس کی قید میں آئی تھی منشی جی کے سپرد کر دینے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا ہی کیا منشی نے اس لونڈی کو اس مرد کے حوالہ کیا۔ اس شخص نے جو لونڈی کو دیکھا تو تقدیر الٰہی سے اپنی عورت کو پایا یعنی وہ لونڈی حقیقت میں اس کی عورت تھی یہ دیکھ کر اس شخص کے دل کو اطمینان ہوا اور شیخ شیوخ العالم کی معجز نما کرامت کا قائل ہوگیا۔ ایک مرتبہ نماز جمعہ میں اس نے قرأت پڑھی اور کچھ غلطی کر گیا شیخ شیوخ العالم کے ایک مرید نے آپ کی اجازت سے پکار دیا کہ یہ نماز ازسر نو پڑھنی چاہیے کیونکہ خطیب سے غلطی ہو گئی ہے چنانچہ تمام لوگوں نے نماز کو دوہرایا قاضی عبد اللہ جو اجودھن کا قاضی تھا اور اس شہر کی قضاۃ اس کے ہاتھ میں تھی اور جسے وہاں کے باشندے قاضی محمد ابو الفضل کے نام سے یاد کرتے تھے شیخ شیوخ العالم کو بہت برا بھلا کہنے لگا اور چونکہ یہ شخص نہایت جنگ جو اور غصیلا تھا بے ساختہ کہنے لگا کہ چند نا تجربہ کار ادھر اُدھر سے بھاگ آئے ہیں اور یہاں بیٹھ کر اشراف شہر کی بے وقعتی کرتے ہیں شیخ شیوخ العالم خاموشی کے ساتھ مسجد جامع سے چلے گئے لیکن جب مکان پر تشریف لائے تو اپنے یاروں سے فرمایا۔ کہ اگر کوئی شخص کسی پر بے جا بہادری کا اظہار کرے تو وہ تحمل و برداشت سے کام لے اور اگر اسے اپنے گروہ اور قبیلہ سے نکال دے تو بھی اسے اس بات کا مجاز ہے جوں ہی یہ کلمہ شیخ کی زبان مبارک پر جاری ہوا قاضی عبد اللہ پر فالج گرا اور اس کا منہ بالکل ٹیڑھا ہو گیا۔ اب قاضی عبد اللہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں ایک شکر کا ٹوکرا اور آٹا اور ایک بکرا لے کر حاضر ہوا اور خواجہ فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کے قدموں میں گرپڑا۔ شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ عبد اللہ اٹھارہ سال سے ہر شخص تیری طرف سے کچھ نہ کچھ پہنچاتا تھا لیکن اب جو کچھ قرآن مقدس کی فال حکم دے گی اسی حکم کی تعمیل کی جائے گی۔ یہ کہہ کر جب آپ نے مصحف کھولا تو حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ نکلا اور پہلی نظر اس آیت پر پڑی قال یا نوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالحط یعنی خدا تعالیٰ نے فرمایا نوح! تیرا لڑکا تیری اہل میں سے نہیں ہے کیونکہ اس کے عمل ناشائستہ و قبیح ہیں۔ شیخ شیوخ العالم نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ عبد اللہ! یہی حکم ہمیں اور تمہیں بس ہے۔ ہر چند کہ قاضی عبدا للہ نے بہت کوشش اور نہایت منت و سماجت سے پیش آیا لیکن شیخ نے ایک نہ سنی اور اس کے لائے ہوئے تحفے واپس کر دئیے۔ قاضی عبد اللہ گھر پہنچا ہی تھا کہ دنیا سے سفر کر گیا۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ اجودھن میں ایک شخص شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت آہستگی سے کان میں کہا کہ دہلی میں ہم تم دونوں ہم سبق تھے یہاں تک کہ تم شہر کے قاضی و مفتی قرار دئیے گئے۔ اس شخص کا اس سے مقصود یہ تھا کہ تم نے اس قدر علوم تحصیل نہیں کیے جو منصب قضا وافتاء کو کافی ہوں چنانچہ شیخ شیوخ العالم نے اس کی اس بات کو نورِ باطن سے معلوم کر لیا اور کہا اے غریب اگر تحصیل علوم جدل و بحث کے لیے ہے تو اس تحصیل کو سلام ہے اس نیت سے علم پڑھنا اور خلق کو ایذا پہنچانا ہر گز جائز نہیں۔ اور اگر عمل کے لیے ہے تو اسی قدر کافی ہے کہ پڑھتے اور عمل کرتے ہیں۔ علم شریعت کے پڑھنے سے مقصود صرف عمل کرنا ہے نہ خلق خدا کو ایذا دینا۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ ایک شخص دہلی سے بایں غرض روانہ اجودھن ہوا کہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پہنچ کر تائب ہوا ثناء راہ میں ایک پریشان و خانہ بدوش و زانیہ عورت چند منزل اس کی ہمراہی میں چلی ہر چند کہ اس فاحشہ نے بہت چاہا اور ہر طرح سے اس فکر میں پڑی کہ کسی طرح یہ شخص اس سے تعلق پیدا کرلے۔ لیکن چونکہ یہ مرد سچی نیت رکھتا تھا اس زانیہ اور فاحشہ کی طرف مطلق مائل نہیں ہوا یہاں تک کہ ایک منزل میں دونوں ایک بہلی میں سوار ہوئے اور وہ بدکار عورت اس کے پاس آبیٹھی رفتہ رفتہ یہاں تک نوبت پہنچی کہ دونوں میں کسی قسم کا حجاب نہیں رہا اور اس وقت کچھ کچھ اس شخص کا دل بھی اس زانیہ کی طرف میل کرنے لگا جس کا بد یہی نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے عورت سے کوئی بات کہی یا دست درازی کی کہ دفعۃً ایک مرد سامنے سے نمودار ہوا جس نے آکر اس شخص کے منہ پر اس زور سے طمانچہ مارا کہ آنکھیں کھل گئیں اور نہایت کرخت آواز میں بولا کہ تو توبہ کی نیت سے فلاں بزرگ کی خدمت میں جاتا ہے اور اس قبیح و ناشائستہ حرکت کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ شخص فوراً متنبہ ہوگیا اور اپنے نفس کو سخت لعنت ملامت کرتا ہوا شیخ کی خدمت میں پہنچا۔ جب شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے سب سے پہلے جو بات زبان مبارک سے نکالی یہ تھی کہ خدا تعالیٰ نے تجھے اس روز بہت ہی محفوظ رکھا۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ شیوخ العالم کے عقیدت مندوں میں سے ایک بے ریا اور مخلص عقیدت مند آپ کی خدمت میں آیا اور نہایت اضطراب و حیرانی کی حالت میں آیا۔ اس عقیدت مند کا نام محمد شاہ غوری تھا جو شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کا نہایت سچا مرید اور راسخ و ثابت قدم معتقد تھا جنابِ شیخ نے اسے مضطرب و حیران دیکھ کر فرمایا محمد شاہ! کیا حال ہے۔ عرض کیا۔ حضور! میرا بھائی نہایت بیمار ہے اور اب تو یہ حالت ہے کہ سانسوں کا شمار ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ میرے یہاں آنے اور سعادت قدم بوسی حاصل کرنے کے بعد تمام ہوگیا۔ اس وجہ سے میں حیران اور زیر و زبر ہوں۔ شیخ شیوخ العالم نے فرمایا۔ کہ محمد شاہ! جیسا کہ تو اس وقت مضطرب و حیران ہے میں تمام عمر اسی حالت میں رہا ہوں لیکن آج تک کسی پر اس کا اظہار نہیں کیا اور نہ آئندہ کروں گا۔ ازاں بعد فرمایا کہ جا تیرا بھائی صحت یاب ہوچکا ہے۔ محمد شاہ گھر میں آکر دیکھتا ہے کہ اس کا بھائی بیٹھا ہوا کھانا کھا رہا ہے سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ پانچ درویش شیخ شیوخ العالم شیخ کبیر قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں پہنچے جو مزاج کے اکھڑ اور نہایت بد زبان تھے اور جن کے چہرہ سے درشت مزاجی فراخ کلامی برستی تھی۔ شیخ کی مجلس میں تھوڑی بیٹھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت غضب ناک لہجہ میں بولے کہ ہم نے جہاں تک چھان بین کی اور جس دیر قدر دنیا میں گشت لگایا اسی قدر درویش کو کم یاب بلکہ عنقا پایا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی درویش نہیں رہا ہے۔ شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس اللہ سرہ العزیز نے ان کا یہ طیش و غضب ملاحظہ کر کے فرمایا کہ صاحبو! ذرا تشریف رکھیے میں ابھی آپ کو ایک درویش سے ملاتا ہوں لیکن انہوں نے جانے پر اصرار کیا اور آخر کار روانہ ہوگئے۔ شیخ نے فرمایا کہ اگر تم جاتے ہی ہو تو بیابان کی راہ سے مت جاؤ کیونکہ اس میں تمہاری جانوں کو خطرہ ہے۔ مگر انہوں نے شیخ الشیوخ کی اس بات کو بھی رغبت و قبولیت کے کانوں سے نہ سنا اور آپ کے ارشاد کے خلاف کیا۔ یہ درویش چند قدم گئے ہوں گے کہ شیخ شیوخ نے ایک شخص ان کے پیچھے دوڑایا اور فرمایا کہ جا کر دیکھ کہ درویش کس رستہ سے گئے ہیں۔ شخص مذکور تعاقب کرتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا۔ دیکھتا ہے کہ وہ بیابان ہی کے رستہ سے جا رہے ہیں چنانچہ شیخ کی خدمت میں آکر بیان کیا شیخ شیوخ العالم نے جب یہ خبر سنی تو زارو قطار رونے لگے اور پر نم آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہا کر فرمانے لگے افسوس انہوں نے اچھا نہیں کیا اس وقت ایسے روئے جیسا کہ کسی کے ماتم پر لوگ روتے ہیں۔ ازاں بعد لوگوں نے خبر دی کہ وہ پانچوں درویش بیابان میں بادسموم سے مرگئے۔ چار درویش تو ایک ہی جگہ مر گئے اور ایک درویش دریا کے کنارے پہنچا اور اس قدر پانی پیا کہ اسی جگہ مر کر رہ گیا۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ خواجہ احمد سیوتانی جو شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے قدیم مریدوں میں سے ایک نہایت ہی وفا کیش اور عقیدت مند شخص ہیں فرماتے ہیں کہ میں شیخ شیوخ العالم کے وضو اور غسل کے لیے پانی لایا کرتا تھا ایک دن کا ذکر ہے کہ میری کمر میں درد اٹھا۔ شیخ نے مجھے پانی حاضر کرنے کے لیے طلب فرمایا لیکن چونکہ میں درد کے مارے بے قرار تھا اس لیے عرض کیا کہ میری کمر میں سخت درد ہے جس کی وجہ سے اس وقت پانی کی مشک لا نہیں سکتا شیخ شیوخ العالم نے خادم سے فرمایا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ۔ جب میں شیخ کی خدمت میں گیا تو بڑی شفقت و مہربانی سے اپنے پاس بلایا اور فرمایا تم اپنی پیٹھ خم کرو۔ میں آپ کی جانب پیٹھ جھکادی شیخ شیوخ العالم نے دست مبارک پیٹھ پر پھیرا اور اوپر سے نیچے کی طرف لے آئے۔ ازاں بعد فرمایا جاؤ پانی لے آؤ اس وقت سے جو کہ جوانی کا زمانہ تھا اس وقت تک کہ میری عمر سو برس کے ہے کبھی میری پیٹھ میں درد نہیں ہوا۔ باوجودیکہ پانی کی مشکیں بکثرت لاتا تھا۔ یہی خواجہ احمد یہ بھی فرماتے تھے کہ ایک دن شیخ شیوخ العالم نے مجھے اپنے کپڑے مبارک دھونے کا حکم کیا۔ میں کپڑے لے کر دریا کے کنارے آیا اور کپڑوں کو دھو دھلا کر خوب صاف کردیا۔ خشک ہو جانے کے بعد شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوا فرمایا کہ جاؤ اور ان کپڑوں کو ایک دفعہ اور دھو لاؤ میں اپنے دل ہی دل میں کہا کہ شاید اس فرمان میں کوئی مقصد مخفی ہوگا۔ یا حقیقت میں اس دفعہ کپڑوں کے وھونے میں مجھ سے کوئی تقصیر واقع ہوگئی ہوگی۔ سوچتے سوچتے یاد آیا کہ آہا میں نے پہلے کپڑے دھونے تھے پھر وضو کیا تھا حالانکہ ادب کا مقتضا یہ تھا کہ اول وضو کرتا بعدہ کپڑے دھوتا چنانچہ اس دفعہ اول وضو کیا اور دوگانہ ادا کر کے نہایت احتیاط کے ساتھ کپڑے دھوئے اور شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں لے گیا اس مرتبہ بھی شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ ایک دفعہ اور دھو کر لاؤ۔ اب مجھے تعجب اور تعجب کے ساتھ حیرت تھی کہ میں نے نہایت احتیاط سے کپڑے دھوئے ہیں۔ اور ادب و تطہیر کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ہے جو احتیاط کی شرطیں ہیں میں سب بجالایا لیکن پھر میں نے خود ہی اپنے تئیں جواب دیا کہ چونکہ فرمان شیخ کبیر کا ایسا ہے ضرور اس دفعہ بھی کوئی نہ کوئی تقصیر واقع ہوئی ہوگی جب میں نے اپنے دماغ پر بہت زور ڈالا اور حافظہ سے انتہا سے زیادہ مد دلی تو یاد آیا کہ میں نے اس مرتبہ کپڑے دھو کر سکھانے کے لیے درخت کی شاخوں پر پھلا دئیے تھے جن کے اوپر اور بھی بہت سی شاخیں تھی اور ان پر پرند بیٹھے ہوئے تھے ممکن ہے پرندوں سے کوئی چیز جدا ہوئی ہو اور ان کپڑوں پر پڑگئی ہو چنانچہ اب کی دفعہ جو میں کپڑے دھوئے اور سکھانے کے لیے انہیں جنگل میں ڈال دیا اس دفعہ جو میں کپڑے لے کر حاضر خدمت ہوا تو آپ نے انہیں نگاہ قبول سے دیکھا اور زیب تن فرمایا۔ کاتب حروف نے خواجہ احمد سیوستانی کو پایا ہے اور قدم بوسی کی سعادت سے معز و ممتاز ہوا ہے۔ آپ سلطان تغلق کے عہد میں اجودھن سے غیاثپور میں تشریف لائے اور ایک زمانۂ دراز تک سلطان المشائخ کی خدمت میں رہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھے عزیز تھے اور سو برس کے قریب قریب عمر رکھتے تھے باوجود اس سن رسیدگی کے آپ کے قد مبارک میں ذرا بھی کجی واقع نہیں ہوئی تھی اسی زمانہ میں کاتب حروف کے والد بزرگوار سید محمد مبارک کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے خواجہ احمد کو اپنے گھر بلایا تھا اور میرے بھائی امیر داؤد ہنوز چھ مہینے کے تھے انہیں کوئی مرض لاحق ہوا اور چند روز تک مطلقاً دودھ نہیں پیا۔ جب انہیں بزرگ خواجہ احمد کی نظر مبارک کے سامنے کیا گیا اور بیان کیا گیا کہ چند روز سے اس بچہ نے بیماری کی تکلیف کی وجہ سے دودھ نہیں پیا تو اس بزرگ نے فوراً اپنی انگلی منہ کے لعاب سے تر کر کے بھائی امیر داؤد کے ہونٹوں پر مل دی اسی وقت بچہ نے لبوں کو جنبش دی اور ہوشیار ہوگیا۔ خواجہ احمد نے دایہ سے فرمایا کہ اب اس کے منہ میں دودھ دو۔ جوں ہی دایہ نے چھاتی منہ میں دی۔ بچہ نے دودھ چوسنا شروع کیا اور خوب سیر ہوکر پیا۔
شیخ شیوخ العالم خواجہ فرید الحق والدّین قدس اللہ
سرہ العزیز کی والدہ محترمہ کی بعض کرامات
جناب سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ شیوخ العالم کی والدہ مکرمہ نہایت بزرگ اور واجب الاحترام ہیں۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ چور آپ کے مکان میں گھس آیا گھر کے تمام لوگ میٹھی نیند میں سوتے تھے لیکن شیخ شیوخ العالم کی والدہ بیدار اور عبادت الٰہی میں مصروف تھیں چور گھر میں داخل ہوتے ہی اندھا ہوگیا اور ایک بھرائی ہوئی آواز میں پکارا کہ اگر اس گھر میں کوئی مرد ہے تو میرا باپ بھائی ہے اور عورت ہے تو میری ماں بہن ہے بہر صورت جو شخص بھی ہے میں بالیقین اس کی ہیبت و رعب سے اندھا ہوگیا ہوں۔ خدا کے واسطے میرے حق میں دعا کرو کہ میں بینا ہوجاؤں اور میں توبہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی چوری نہ کروں گا۔ چنانچہ شیخ کبیر کی واجب الاعتصام والدہ نے دعا کی اور چور بینا ہوکر چلا گیا۔ شیخ کی والدہ نے اسی کا کسی سے ذکر نہیں کیا لیکن جب ایک ساعت گزری تو لوگوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ دہی کا ہنڈا سر پر رکھے ہوئے اور اہل و عیال کو ساتھ لیے ہوئے آیا۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ تو کون ہے اور کس غرض سے آیا ہے جواب دیا کہ میں آج کی رات اس گھر میں چوری کرنے آیا تھا۔ ایک محترمہ و بزرگ عورت بیدار تھی جس کی ہیبت و رعب کی وجہ سے میں اندھا ہوگیا اور پھر اس کی دعا سے میں نے آنکھیں پائیں۔ میں نے اب مستحکم عہدو پیمان کر لیا ہے کہ اس کے بعد کبھی چوری نہ کروں گا اس وقت میں خود اور یہ میری اہل و عیال اس لیے آئے ہیں کہ پاک و مقدس اسلام میں داخل ہوں اور اس کی برکت سے ابدی نجات حاصل کریں۔ الغرض اس ولیہ کی برکت سے یہ تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں شیخ شیوخ العالم جناب فرید الدین قدس سرہ اجودھن میں تشریف رکھتے تھے اس وقت شیخ نجیب الدین متوکل کو والدہ ماجدہ کے لے آنے کے لیے روانہ کیا۔ شیخ نجیب الدین متوکل شیخ شیوخ العالم کی محترم و مقدس والدہ کو لے کر روانہ ہوئے اثناء راہ میں ایک درخت کے نیچے اترے اور پانی کی ضرورت واقع ہوئی شیخ نجیب الدین پانی کی تلاش میں گئے لوٹ کر جو آئے تو والدہ مکرمہ کو نہ پایا حیران و متحیر ہوکر ادھر اُدھر دیکھنے لگے اور ہر چند تلاش کیا لیکن کہیں پتہ نہ چلا شیخ نجیب الدین اسی حیرانی و پریشانی کی حالت میں شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا قصہ دوہرایا۔ شیخ نے فرمایا کہ کھانا تیار کریں اور جو صدقہ آیا ہے خیرات کریں۔ ایک مدت کے بعد شیخ نجیب الدین متوکل کا پھر ان حدود میں گزر ہوا جب اسی درخت کے نیچے پہنچے تو دل میں آیا کہ اس مقام کے دائیں بائیں بستیوں اور گزر گاہوں میں گشت کروں شاید والدہ مکرمہ کا نشان و پتہ پاؤں چنانچہ ایسا ہی کیا۔ اور ایک مقام پر آدمی کی چند ہڈیاں پائیں۔ دل میں کہا کہ مجھے یقین پڑتا ہے کہ ہماری والدہ محترمہ کو کسی شیر یا درندہ نے ہلاک کیا اور ان ہی کی ہڈیاں ہیں یہ خیال کر کے تمام ہڈیاں جمع کیں اور ایک تھیلی میں رکھ کر شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پہنچے اور سارا قصہ بیان کیا۔ شیخ شیوخ العالم خواجہ فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز نے فرمایا کہ وہ ہڈیوں کی تھیلی میرے سامنے لاؤ۔ جب تھیلی سامنے رکھی گئی اور آپ نے اسے جھاڑا تو ایک ہڈی بھی نہیں نکلی۔ سلطان المشائخ یہاں تک پہنچ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا یہ عجائب روزگار سے ہے۔
شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز
کی بیماری اور دنیا فانی سے عالم باقی کی طرف رحلت فرمانا
حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ شیوخ العالم جناب خواجہ فرید الدین قدس سرہ کو انتڑی کی بیماری لاحق ہوئی اور اسی بیماری میں آپ نے انتقال فرمایا۔ لوگوں نے جناب سلطان المشائخ سے دریافت کیا کہ آپ شیخ کے انتقال کے وقت موجود تھے سلطان المشائخ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا کہ نہیں آپ نے مجھے شوال کے مہینے میں دہلی روانہ کر دیا تھا اور انتقال پانچویں محرم الحرام کو واقع ہوا۔ رحلت کے وقت حضور نے مجھے یاد فرمایا پھر خود ہی ارشاد کیا کہ ہاں وہ تو دہلی میں ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ خواجہ قطب الدین قدس سرہ کے انتقال کے وقت میں بھی حاضر نہ تھا بلکہ ہانسی میں موجود تھا۔ الغرض سلطان المشائخ یہ واقعہ بیان کر رہے تھے اور زارو قطار روتے جاتے تھے یہاں تک کہ حاضرین مجلس کے دل میں بڑا بھاری اثر پڑا اور سب چشم پر آب ہوگئے آپ فرما رہے تھے کہ محرم کی پانچویں شب شیخ شیوخ العالم پر مرض غالب ہوا اور گو طبیعت نہایت بے چین تھی مگر پھر بھی آپ نے عشا کی نماز جماعت سے اداکی بعدہ بے ہوش ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش میں آئے تو فرمایا کہ میں عشا کی نماز پڑھ چکا ہوں۔لوگوں نے کہا ہاں فرمایا ایک دفعہ اور پڑھ لوں پھر نہ معلوم کیا ہو۔ چنانچہ دوسری مرتبہ نہایت اطمینان و اعتدال کے ساتھ نماز پڑھی نماز پڑھتے ہی پھر بے ہوش ہوگئے۔ اس مرتبہ زیادہ دیر تک عالم بے ہوشی میں رہے اور یہ بے ہوشی پیشتر کی بے ہوشی سے زیادہ خطر ناک معلوم ہوتی تھی۔ جب ہوش ہوا تو لوگوں سے پوچھا کیا میں نمازِ عشا پڑھ چکا ہوں حاضرین نے عرض کیا کہ ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ پڑھ چکے ہیں فرمایا ایک دفعہ اور پڑھ لوں پھر نہیں معلوم کیا ہونے والا ہے۔ چنانچہ تیسری دفعہ نمازِ عشا ادا کی اور اس کے بعد انتقال فرمایا۔ کاتبِ حروف نے اپنے والد بزرگوار سید مبارک محمد کرمانی رحمۃ علیہ سے سنا ہے کہ جب شیخ شیوخ العالم رحمتِ حق سے جا ملے اور مقعد صدق میں مقام کیا تو لوگوں نے آپ کو غسل دیا کفناکر چادر مانگی جو آپ کے جنازہ پر ڈالنے کے لیے چاہیے تھی۔ میرے والد بزرگوار کہتے تھے کہ مجھے خوب یاد ہے کہ سید محمد کرمانی یعنی کاتبِ حروف کے جدِّ امجد ایک عاجلانہ حرکت کے ساتھ گھر میں گئے اور اپنی والدہ محترمہ سے (جو کاتب حروف کی پر دادی ہوتی تھی) چادر مانگی انہوں نے ایک بالکل نئی اور سفید چادر سید محمد کرمانی کے حوالہ کی۔ جو شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے جنازے پر ڈالی گئی جب آپ کا جنازہ لے کر چلے تو شیخ کے تمام فرزند اس پر متفق تھے کہ شیخ کو اجودھن کی فصیل کے باہر اس مقام پر دفن کرنا چاہیے جہاں شہدا پاؤں پھیلائے سوتے ہیں چنانچہ اس ارادہ سے فصیل کے باہر جنازہ لائے۔ اسی اثناء میں میاں خواجہ نظام الدین شیخ شیوخ العالم کے سب میں عزیز اور چہیتے فرزند پہنچے۔ آپ سلطان غیاث الدین بلبن کے ملازم تھے اور قصبہ پٹیالی میں رہتے تھے آپ نے شیخ شیوخ العالم کو خواب میں دیکھا کہ اپنی خدمت میں بلا رہے ہیں۔ خواجہ نظام الدین نے فوراً رخصت طلب کی اور اس وقت اجودھن روانہ ہوئے جس رات کو جناب شیخ شیوخ العالم انتقال فرمانے والے تھے خواجہ نظام الدین اجودھن پہنچ گئے تھے لیکن چونکہ قلعہ کے دروازے کبھی کے بند ہوچکے تھے اس لیے آپ کو رات قلعہ کے باہر ہی بسر کرنی پڑی جس رات کہ شیخ شیوخ العالم انتقال کرنے والے تھے بار بار ارشاد فر ما رہے تھے نظام الدین آگیا لیکن کیا فائدہ کہ ملاقات نہ ہوئی۔ الغرض جب صبح ہوئی تو خواجہ نظام الدین نے قلعہ کے اندر جانا چاہا جوں ہی آپ دروازے کے قریب پہنچے شیخ شیوخ العالم قدس سرہ کا جنازہ نظر پڑا جسے لوگ قلعہ کے باہر لیے چلے آتے تھے آپ نے بھائیوں سے دریافت کیا کہ شیخ کو کہاں دفن کرو گے کہا قلعہ کے باہر شہدا کے مزاروں کے نزدیک۔ کیونکہ شیخ شیوخ العالم اکثر اوقات وہاں مشغول رہتے تھے قطع نظر اس کے وہ ایک مقام نہایت پر فضا و دلکش بھی ہے خواجہ نظام الدین نے فرمایا کہ اگر تم شیخ شیوخ العالم کو قلعہ کے باہر دفن کرو گے تو تمہاری کوئی شخص وقعت نہ کرے گا اور اعتبار و قدر کی نظر سے نہ دیکھے گا کیونکہ جو لوگ شیخ کی زیارت کے لیے آئیں گے باہر کے باہر ہی زیارت کر کے چلے جائیں گے یہ بات سمجھ میں آگئی اور سب نے خواجہ نظام الدین کی رائے کے ساتھ اتفاق کرلیا۔ قلعہ کے باہر نماز جنازہ پڑھ کر اندر آئے اور اس مقام پر دفن کیا جہاں اب تک مدفون ہیں۔
سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے شیخ شیوخ العالم خواجہ فرید الحق والدین قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اگر اجازت ہو تو میں ان مسکینوں کے لیے جو پانی لکڑی باہر سے لاتے ہیں اینٹ کا ایک حجرہ تیار کرادوں شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ سات سال گزر چکے ہیں جو مسعود خدا کا غلام نیت کر چکا کہ اینٹ پر اینٹ نہ رکھے گا لیکن اس شخص نے شیخ کی اولاد کو اس پر آمادہ کیا کہ ایک پختہ حجرہ یہاں ضرور بننا چاہیے اور ان کی رائے سے حجرہ بن کر تیار ہوگیا۔ مگر شیخ شیوخ العالم کے انتقال کے بعد وہ پختہ حجرہ خراب و مسمار کر دیا گیا اور شیخ کا روضہ متبر کہ وہی مقام قرار دیا گیا۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم کے گھر گا دروازہ جو کچی انیٹوں سے بنایا گیا تھا ڈہا دیا اور اس میں سے انیٹیں نکال کر لحد میں خرچ کیں (خدا تعالیٰ آپ کے مرقد کو پاک کرے اور آپ کے رہنے کی جگہ خطیرۃ القدس کو ٹھہرائے) واضح ہو کہ حضرت شیخ فرید الحق والدین مسعود گنج شکر قدس سرہ ۵۲۹ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۶۶۴ ہجری میں انتقال فرمایا۔ اس لحاظ سے آپ کی عمر پچانوے سال کی ہوئی جس زمانہ میں حضرت گنج شکر نے جناب شیخ الاسلام خواجہ بختیار قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں اعتقاد و ارادت ظاہر کیا وہ ۵۸۴ ہجری تھا اور اس ارادت کے بعد آپ اسی (۸۰) سال زندہ رہے۔ حضرت سلطان المشائخ سے جب لوگوں نے دریافت کیا کہ جناب شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی عمر شریف کس قدر تھی تو آپ نے فرمایا پچانوے (۹۵) برس کی۔ آپ انتقال کے وقت برابر فر ما رہے تھے یا حی یا قیوم جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ سب سے پہلے شیخ سعد الدین حمویہ نے انتقال فرمایا اور ان کے تین سال بعد شیخ سیف الدین باخرزی نے رحلت کی اور ان کے تین سال بعد شیخ بہاؤ الدین زکریا دنیا سے اُٹھے اور ان کے تین برس بعد شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز نے انتقال فرمایا۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے فرمایا وہ بھی کیا مبارک اور عمدہ زمانہ تھا جس میں آپ سے جلیل القدر عظیم الشان پانچ بزرگوار موجود تھے جن کی نظیر دنیا میں نہ تھی۔ شیخ شیوخ العالم فرید الدین قدس سرہ ایک۔ ابو الغیث یمنی دو۔ شیخ سیف الدین باخرزی تین۔ شیخ سعد الدین حمویہ چار۔ شیخ بہاؤ الدین زکریا پانچ۔ قدس اللہ سرہم العزیز۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
شیخ اعظم فرید ملت و دین |
|
شیخ ابو الغیث سیف الدین |
|
||
|
(یعنی جناب شیخ فرید الدین اور شیخ ابو الغیث اور شیخ سیف الدین اور شیخ سعد الدین حمویہ اور شیخ بہاؤ الدین زکریا۔ یہ پانچوں پیر ایک زمانہ میں موجود تھے جن میں سے ہر ایک دین و دنیا کا بادشاہ تھا۔)