آپ ہندوستان کے عظیم مشائخ میں سے تھے زہدو ورع میں بے مثال تھے۔ قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی کے ہم عصر تھے حضرت حضرت شیخ نظام الدین قدس سرہٗ فرماتے ہیں حضرت صوفی بدہنی ہر وقت مسجد میں رہتے نماز و روزہ کے علاوہ کسی چیز سے سروکار نہیں تھا ایک دن شہر کے علماء کرام جمع ہوئے آپ نے ان سے پوچھا کیا بہشت میں نماز ادا کی جایا کرے گی علماء نے آپ سے فرمایا بہشت جائے عبادت اور نماز نہیں وہ تو عیش و ناز کی جگہ ہے آپ نے فرمایا پھر مجھے وہ جنت قبول نہیں جہاں اللہ کی عبادت اور نماز نہیں ہوگی۔
شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلی فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت شیخ بدہنی کے پاس آیا کرتے تھے ایک دن اس شخص نے ایک شخص سے ملاقات کی جو رجال الغیب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے پوچھا شیخ بدہنی کیسے شخص ہیں اور وہ کس مقام پر ہیں اس نے بتایا وہ بزرگ مرد ہیں مگر افسوس وہ استغفراللہ کہہ کر بھاگ گیا وہ شخص حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور سارا واقعہ سنایا حضرت شیخ نے کہا کہ اگر وہ استغفراللہ نہ کہتا تو میں اسے زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جاتا اور اسے زمین پر دے مارتا اس کی ہڈیاں ٹوٹ جاتیں اس نے دلی طور پر میرے مقام سے انکار کردیا تھا۔
حضرت شیخ محدث دہلوی نے اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ شیخ بدہنی ذکر خداوندی میں مشغول ہوتے تو آپ کا ایک ایک جوڑ علیٰحدہ ہوجاتا پھر خاموش ہوتے تو آپ کا جسم درست ہوجاتا تھا۔ آپ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کے زمانہ میں زندہ تھے اتفاق ایسا ہوا کہ یہ دونوں بزرگ تاتاری لشکر کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے یہ تاتاری آپ کو دوسرے قیدیوں کے ساتھ پکڑ کر قندھار کے قید خانے میں لے گئے بھوکے پیاسے ایک قید خانے میں بند رہے آخر کار حضرت خواجہ کاکی نے بغل سے ایک کاک کی روٹی نکالی اور صوفی بدہنی نے اپنے دامن سے پانی کا لوٹا نکالا تمام قیدیوں کو اس روٹی سے کھلایا اور پانی پلایا اس دن سے حضرت شیخ کا خطاب بدہنی پڑگیا اور حضرت خواجہ بختیار کو کاکی کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
حضرت شیخ بدہنی کی وفات ۶۳۸ھ میں ہوئی۔
بدہنی صوفی صفا کیش است رفت چوں از جہاں بخلد بریں
|
|
ذات او بود قطب ربّانی گفت سرور ولی لاثانی ۶۳۸ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)