شیخ سہیل بن عبداللہ تستری
شیخ سہیل بن عبداللہ تستری (تذکرہ / سوانح)
آپ کی کنیت ابو محمد تھی آپ اپنے زمانہ کے اکابر علماء کرام اور مقتدر اولیاء عظام میں سے تھے عراق کے روحانی شہنشاہ تھے۔ علوم شریعت، طریقت حقیقت اور معرفت میں یکتائے روزگار تھے۔ حنفی مذہب کے پیروکار تھے۔ حضرت شیخ ذوالنون مصری کے جلیس خاص تھے ۔ سلسلۂ سہیلیہ کا آپ ہی سے آغاز ہوا تھا۔ اس طریقہ کی بنیاد اجتہاد و مجاہدہ نفس پر رکھی گئی ہے۔
آپ مادر زاد ولی تھے، فرمایا کرتے تھے مجھے یاد ہے جب اللہ تعالیٰ نے اَلستُ بربکم فرمایا تھا، تو میں ان لوگوں میں سے موجود تھا، جنہوں نے قالو بلی کہا تھا، مجھے ماں کے پیٹ کے حالات سارے یاد ہیں، آپ فرمایا کرتے میں ابھی تین سال کا تھا کہ قیام اللیل پر کار بند تھا، چھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا، اور روزہ رکھتا تھا، بارہ سال کی عمر میں علوم شرعیہ میں ممتاز ہوگیا تھا۔
نوعمری میں حضرت سہیل بن عبداللہ سال بھر کے لیے ایک درہم کے جو خریدتے، اور کھاتے رہتے، ایک اوقیہ سے روزہ افطار کرتے، پھر تین دن کا متواتر روزہ رکھتے، پھر سات سات دن کا روزہ ہوتا، پھر بیس بیس دن پھر پچیس دن کا حتی کہ ایک وقت آیا، کہ پچھتر دن کا روزہ رکھتے تھے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ پورے چالیس دن میں صرف ایک بادام کفایت کرتے۔
حضرت شیخ سہیل سن بلوغ کو پہنچے تو ہر برتن میں علیحدہ علیحدہ جنسیں رکھ لیں اور ان پر ان کے نام لکھ دیے، مخلوق کو جمع کیا، اور ان لکھے ہوئے کاغذوں کو ان کے سروں پر نچھاور کردیا جو بھی کاغذ پاتا، اس پر جو کچھ لکھا ہوتا پالیتا، اور اس جنس سے اسے اس قدر ملتا کہ ساری زندگی کے لیے کافی ہوتا۔
ایک دفعہ حضرت عمر لیث سخت بیمار ہوگئے۔ طبیب علاج کرتے رہے مگر صحت نہ ہوئی، آخر کار حضرت شیخ سہیل کو طلب کیا، اور دعا کی التجا کی، آپ نے فرمایا، میری دعاظالموں کے حق میں پوری نہیں ہوتی۔ ہاں اگر تم گناہوں سے توبہ کرلو، قیدیوں کو رہا کردو، تو دعا قبول ہوگی، اس نے ایسا ہی کیا، آپ نے دعا کی صحت ہوگئی، اس نے اس شکرانہ میں بہت سا مال و دولت حضرت خواجہ کے نذر پیش کیا، مگر آپ نے لینے سے صاف انکار کردیا اور عمر و لیث کے محل سے باہر آگئے واپسی پر صحرا سے گزرے ایک مرید نے عرض کی حضرت اگر نذرانہ قبول کرلیتے تو قرض خواہوں کو ادا کردیاجاتا غریبوں میں تقسیم کردیتے، آپ نے مرید کو کہا، اس صحراء پر نظر ڈالو، مرید نے دیکھا تو سارا صحراء سونے اور جواہرات سے بھرا پڑا تھا، آپ نے فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں سے یوں نوازا ہو، وہ اہل دنیا سے کیا لے۔
حضرت خواجہ سہیل سماع سنتے تو بے ہوش ہوجاتے پچیس دن تک وجد میں رہتے، کھانا نہ کھاتے، سردیوں میں بھی جسم مبارک سے پسینہ بہتا آپ کے کپڑے شرابور ہوجاتے حضرت پانی پر پاؤں رکھتے تو پاؤں تر نہ ہوتے، شیر اور چیتے آپ کی قدم بوسی کرتے تو آپ ان پر مہربانی فرماتے اور مختلف جانوروں کو غذا دیتے ، آج تک آپ کا وہ گھر بیت السباع میں مشہور ہے۔
حضرت کی وفات کا وقت آیا، تو آپ کے مریدوں میں سے چار صد کامل اولیاء اللہ آپ کے پاس موجود تھے، میں نے گزارش کی کہ آپ کی مسند پر کون بیٹھے گا منبر پر کون وعظ کرے گا۔ اس شہر میں ایک آتش پرست رہتا تھا، جس کا نام شاد دل تھا، آپ نے فرمایا، میرے بعد میری مسند پر شاد دل بیٹھے گا، مریدوں نے سمجھا، آپ پر موت کا غلبہ ہے یوں بات کرتے ہیں۔ حضرت نے حکم دیا کہ شاددل کو بلایا جائے جب وہ آیا تو آپ نے فرمایا میں اپنے بعد تمہیں اہل اسلام کا مقتدا مقرر کر رہا ہوں، میرے مرنے کے بعد تیسرے دن میرے منبر پر بیٹھ کر وعظ کرنا یہ کہہ کر واصل بحق ہوئے، تیسرے دن مسلمانوں کا بہت بڑا مجمع تھا، آتش پرست شاددل اپنے مجوسی لباس میں زنار باندھے منبر پر آبیٹھا اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، مسلمانو! آپ کے پیرو مرشد نے مجھے آپ کی طرف رسول بناکر یہاں بٹھایا ہے اور مجھے بشارت دی ہے کہ اے شاد دل اب وقت آپہنچا ہے کہ تو ظاہری اور باطنی طور پر شاد دل (خوش دل) ہوجاؤ، تم دیکھ لو، میں نے تمہارے سامنے ظاہری زنار توڑ دیا ہے۔ اور اب شاد دل ہو رہا ہوں، تم بھی اپنے اندر کے زنار توڑ کر میرے نزدیک شاد دل ہوجاؤ، یہ بات سن کر مجمع نعرۂ تکبیر سے گونج اٹھا، لوگوں کی دنیا بدل گئی، اسی دن سے شاد دل سجادہ مشیخیت پر جلوہ فرما ہوگیا، اور طالبان حق کی تکمیل میں مصروف ہوگیا۔
حضرت ابوطلحہ مالک فرماتے ہیں حضرت سہیل جس دن ماں کے پیٹ سے باہر آئے تھے اسی دنس ے روزہ دار تھے جس دن فوت ہوئے روزہ دار تھے ساری عمر روزہ رکھا ساری عمر دن کے وقت کبھی کھانا نہ کھایا۔
آپ کی وفات ماہ محرم الحرام ۲۸۶ھ کو ہوئی۔ صاحب نفحات الانس نے ۲۸۳ھ سن وفات لکھا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے ۲۸۳ھ سال وفات لکھا ہے۔
جناب سہیل شاہنشاہ ذیجا |
|
کہ در ملک دو عالم یافت شاہی |
مبارک ہادی ۲۸۳ھ سہیل عبداللہ ولی ۲۸۳ھ سے بھی سال وفات نکلتا ہے۔
(خزینۃ الاصفیاء)