حضرت خانوادہ چشتیہ میں بڑے معروف ولی اللہ ہیں آپ اس سلسلہ میں منسلک ہونے سے پہلے دہلی کے بہت بڑے روسا میں شمار ہوتے تھے ایک دن حضرت شیخ سلیم چشتی کے ایک مرید سے کہنے لگے مجھے ایسے پیر کی تلاش ہے جو مجھے پہلی ملاقات میں ہی اپنی طرف کھینچ لے۔ اور اس کاروبار دنیا سے ہٹا کر اللہ کی طرف لگا لے میں اس پیر سے بیعت کروں گا۔ اس نے کہا یہ اوصاف تو میرے پیر شیخ سلیم چشتی میں پائے جاتے ہیں جو فتح پور میں رہتے ہیں سیّد چبو نے فرمایا میں اس کے پاس اس صورت میں جاؤں گا کہ وہ خود میرے استقبال کے لیے تشریف لائیں اس مرید نے کہا آپ اپنے چاہنے والوں کی آرزوئیں پوری کرتے ہیں آپ میرے ساتھ چل کر تو دیکھیں دونوں فتح پور کی طرف روانہ ہوئے تو شیخ سلیم استقبال کو نہ آئے سیّد چبو کا ساتھی کہتا رہا بس ابھی آتے ہوں گے مگر دونوں فتح پور کے دروازے تک جاپہنچے مگر آپ استقبال کو نہ آئے حتٰی کہ دونوں آپ کی خانقاہ میں جا بیٹھے مگر اس کے باوجود حضرت سلیم چشتی ان کے سلام کا جواب بھی دینے نہ آئے سید چبو کی رگ حمیت اور دنیا داری بھڑکی آپ غصے سے اٹھے اور دہلی کو روانہ ہوئے حضرت شیخ سلیم نے سنا تو اپنے ایک خاص مرید کو پیچھے دوڑایا کہ انہیں واپس لے آئیں وہ مرید ابھی کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ سیّد چبو گھوڑے سے اُترے اور خاموشی کے ساتھ سر جھکا کر واپس حضرت سلیم چشتی کی خانقاہ کی طرف چل پڑے حضرت شیخ کی زیارت ہوئی تو بے خود ہوکر قدموں میں گرپڑے تین دن تک مدہوش رہے تیسرے دن ہوش آیا تو آپ نے بڑی شفقت اور محبت سے اپنایا بیعت سے مشرف فرمایا خرقہ خلافت دیا اور وطن کو روانہ ہونے کی اجازت دی۔
شیخ سید چبو کی وفات ۱۰۱۵ھ میں ہوئی آپ کا مزار دہلی میں ہے۔
رفت چوں سید بخلد جاوداں
یافت از ویرانہ فانی اماں
گو بسال وصل تاج بو تراب
مقتدائی مہدی عرفانی بخواں
۱۰۱۵ھ