آپ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے جب سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ سفرِ حج پر روانہ ہوئے تو آپ بھی اُن کے ساتھ تھے حج سے واپسی پر گجرات پہنچے تو شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے احمد آباد میں مقرر کردیا۔ شیخ محمد شیروانی اور بعض دوسرے عزیزوں کو بھی آپ کے ساتھ ر ۔۔۔۔
آپ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید بھی تھے اور خلیفہ بھی تھے جب سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ سفرِ حج پر روانہ ہوئے تو آپ بھی اُن کے ساتھ تھے حج سے واپسی پر گجرات پہنچے تو شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے احمد آباد میں مقرر کردیا۔ شیخ محمد شیروانی اور بعض دوسرے عزیزوں کو بھی آپ کے ساتھ رہنے کا حکم دیا۔ شیخ طہ نے عرض کی حضور اس علاقے میں بڑے بڑے اولیاء اللہ ہیں جن کی شہرت سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے میں یہاں رہ کر کیسے کام کرسکوں گا۔ آپ نے فرمایا یہ تمام لوگ تمہارے مطالع اور فرما نبردار بن جائیں گے شیخ طاہا احمد آباد میں قیام پذیر ہوئے وہاں کے بزرگوں نے آپ کا باطنی امتحان لیا اور پھر آپ کے تابعدار بن کر روحانی فائدہ حاصل کرنے لگے۔ معارج الولایت کے مصنف لکھتے ہیں کہ اکبر کے زمانے میں مظفر ہوائی کو گجرات کا سلطنت دار بنادیا گیا۔وہ حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اورالتماس کی کہ شیخ اپنے ہاتھ سے اس کی کمر پر تلوار باندھے۔ تاکہ ہندوستان کی سلطنت اُس کے زیر نگیں رہے حضرت شیخ نے جواب دیا کہ ہندوستان کو اللہ تعالیٰ نے اکبر بادشاہ سپرد کردیا ہے میں کون ہوتا ہوں کہ اُس میں تبدیلی کی کوشش کروں یہ بات سنتے ہی مظفر غصّے سے بھڑک اٹھا اور کہنے لگا اکبر کے لشکر سے لڑنے کی بجائے میری تلوار تمہارے خون سے تر ہوگی شیخ نے کہا میرے اور آپ کے درمیان ایک ہفتے کی مہلت ہونی چاہیے اُس کے بعد جو مرضی ہو کرنا ابھی ہفتہ نہ گزرا تھا کہ اکبر بادشاہ کی فوجیں گجرات آپہنچیں اور گجرات پر قبضہ کر کے مظفر کو وہاں سے نکال دیا۔
شیخ طاہا کی وفات ۱۰۰۰ھ ہجری میں ہوئی۔
چو طاہا بلطف خدا و نبی
ازین دیر دون شد بجنت رواں
۱۰۰۰ھ
شود وصال ترحیل آن شاہ دین
ز محذوم مرحوم طاہا عیان