حضرت شاہ سلیمان قادری کے چھوٹے لڑکے تھے۔ وضع قلندرانہ وطبع رندانہ رکھتے تھے۔ ظاہر میں پریشان حال اور باطن میں صاحبِ جمیعت تھے۔ حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کی خدمت میں حاضر رہ کر تکمیلِ سلوک کی اور اپنے والدِ ماجد کی وفات کے بعد بزرگی کے مصلّے پر عبادت میں مصروف رہے۔ جو کچھ زبان سے فرماتے وُہ پورا ہوجاتا۔ صاحبِ تذکرہ نوشاہی لکھتے ہیں: ایک مرتبہ آپ موضع گھگانوالی[1] میں تشریف لے گئے۔ ان دنوں سخت امساکِ باراں تھا۔ ان کاایک مرید چودھری جیا نامی تھا اس نے حاضرِ خدمت ہو کر دعائے بارانِ رحمت کی التجا کی۔ اس وقت دوپہر کا وقت تھا، شدّت کی گرمی پڑ رہی تھی، آپ حجرے سے باہر نکل کر دھوپ میں آبیٹھے اور بارگاہِ الٰہی میں دُعا مانگی۔ اُسی گھڑی بادل آیا اور بارش ہونی شروع ہوگئی۔ جب آپ کے کپڑے بھیگنے لگے تو حاضرین نے درخواست کی کہ حجرے میں تشریف لے آئیے۔ جونہی آپ حجرے میں داخل ہوئے مینہ برسنا بند ہوگیا۔ لوگ غمگین ہوئے۔ فرمایا: اگر پھر بارش مطلوب ہے تو میں باہر جا کر بیٹھتا ہوں۔ چنانچہ آپ باہر آبیٹھے بارش پھر برسنا شروع ہوگئی۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ جب بارش خوب برس چکی تو آپ حجرے میں آبیٹھے، بارش تھم گئی۔ نقل ہے ملّا غازی اپنے مرشد کے بڑے فرزند شیخ رحیم داد سے زیادہ الفت و محبّت رکھتے تھے۔
ایک دفعہ شاہ سلیمان کے دونوں فرزندوں یعنی شیخ رحیم داد اور شیخ تاج محمود میں زمین کی تقسیم میں اتفاقاً نزاع واقعہ ہوگئی۔ ملّا غازی جو شیخ رحیم داد کے حمایتی تھے انہوں نے تاج محمود کو کچھ سخت سُست کہا ور انہیں لکڑی مارنے کے لیے اٹھائی۔ حاضرین مانع آئے۔ تاج محمود نے فرمایا: میں نے اللہ سے چاہا ہے کہ جس ہاتھ سے اُس نے مجھے لکڑی مارنے کے لیے اٹھائی ہے اس کا وہی ہاتھ ٹوٹ جائے۔ اور آٹھ ماہ بیمار رہ کر مر جائے۔ پس اتفاقاً ایک روز ملّا غازی اپنے کھیت میں چنی کا غلّہ کاٹ رہا تھا کہ غیب سے ایک شیر نے آکر اُس کا ہاتھ مروڑ دیا۔ اس کے ساتھی خوف زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ چنانچہ ملّا غازی آٹھ ماہ اسی درد و کرب میں مبتلا رہ کر اس دنیا سے چل بسا۔ صاحبِ تذکرہ نوشاہی آپ کے صاحبزادے شیخ آفتاب کی زبانی نقل کرتے ہیں کہ ایک روز شیخ تاج محمود موضع پانڈوکی میں بحالتِ سکرو استغراق کنویں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک نئی دُلہن کی ڈولی اس طرف سے گزری۔ آپ چونکہ حسن پرست اور عشق و دست تھے اس ڈولی کے پاس جاکر دُولھا سے کہا، اس ڈولی کا پردہ اٹھا تاکہ میں اس صانع حقیقی کا جلوہ اس آئینۂ قدرت میں دیکھوں۔ دُولھا یہ سُن کر بڑے غصّے میں آیا اور بدکلامی سے مخاطب ہوا اور آگے بڑھ گیا۔ ابھی تھوڑی ہی راہ طے کی تھی کہ دُلہن خودبخود ڈولی سے دیوانہ وار نکل آئی اور زمین پر تڑپنے لوٹنے لگی اور کپڑے پھاڑ ڈالے۔ اس کا شوہر بے حد پریشان ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنی گستاخی کی معافی چاہی۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تمہاری دُلہن اصلی حالت پر آگئی۔ ۱۱۲۳ھ میں بعہدِ شاہ عالم اورنگ زیب عالمگیر وفات پائی۔ مزار بھلوال میں ہے۔
کرو از دنیا چوں درجنّت سفر |
|
تاج محمود آں ولی مقتدا |
[1]۔ اس گاؤں کا نام کیلیانوالہ تھا گھوگا نہیں تھا۔ (تذکرہ نوشاہی۔ شریف التواریخ جلد دوم موسوم بہ طبقات)۔
[2]۔ شیخ تاج محمود کا صحیح سالِ وفات ۱۰۸۴ھ ہے۔ (شریف التواریخ۔ جلد سوم۔ حصّہ اول۔ موسوم بہ طہائف الاطہار قلمی ص۱۲۰ از شرافت نوشاہی)۔