حضرت شیخ سوندہا کے اصحاب میں ایک شیخ عثمان کرنالی تھے۔ جو مادر زاد ولی تھے۔ اگر چہ وہ پہلے ہی سے کسی اور جگہ بیعت کر چکے تھے لیکن روحانی تربیت حضرت اقدس سے حاصل کی تھی۔ آپ کشف و کرامات میں بے نظیر اور ترک و تجرید میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ نے ساری عمر تقویٰ اور خلولت میں گذاردی اور اذکار ومشاغل کی وجہ سے مستفنی عن الناس ہوچکے تھے اور کسی شخص سے کوئی توقع نہیں رکھتے تھے۔ نقل ہے کہ ایک دفعہ کسی عالم نے آپ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ رات کو جب آپ نماز تہجد کے بعد شغل باطن میں مشغول ہوئے تو آپ کے سینہ مبارک سے دو صورتیں بر آمد ہوئیں اور ایک صورت نے دوسری صورت سے وہی مسئلہ دریافت کیا دوسری صورت نے اس سوال کے سات جواب دیدئیے۔ اسکے بعد وہ دونوں صورتیں آپ کے جسم میں گم ہوگئیں۔ دوسرے دن جب وہ عالم دوبارہ آپکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے وہی سات جواب سنادیئے یہ دکھ کر وہ عالم آپ پر شیفۂ ہوگیا۔ اور حلقۂ مریدین میں داخل ہوگیا۔
ایک دن شیخ عثمان نے اس فقیر سے کہا کہ ایک دفعہ رمضان المبارک میں تراویح سے فارغ ہوکر اپنے حجرہ میں مشغول تھا۔ میری روح مثالی صورت اختیا کر کے میرے جسم سے نکلی اور میرا جسم کپڑے کی طرح نیچے گر گیا۔ میری روح عروج کی طرف پرواز کر کے ہفت افلاک، عرش و کرسی سے نکل کر ایسے مقام پر جا پہنچی کہ حدِ فہم سے باہر ہے۔ صبح تک میں اس حالت میں مغلوب رہاجب افاقہ ہوا تو حضرت شیخ سوندہا کی خدمت میں ماجرا بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس چیز کو خلع بدن[1] کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور اس حالت میں طالب کی عالم جبروت میں رسائی ہوتی ہے۔ شیخ عثمان کا مزار قصبۂ کرنال میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
[1]۔ جسم کا ترک کرنا۔
(قتباس الانوار)