شیخ وجیہ الدین علوی گجراتی: عالم ماہر،فاضل متجر،زاہد،عارف،فقیہ، محدث،جامع کمالات ظاہری و باطنی تھے۔۹۱۱ھ میں قصبہ جابانیر واقع صوبہ گجرات میں پیداہوئے اور وہاں ہی نشو و نماپاکر طلب علم میں نکلے اور ملا عماد طارمی سے علوم حاصل کیے اور شیخ فاضن سے خرقہ پہنا۔تمام عمر تدریس علوم اور تصنیف کتب میں مصرور رہے اور اکثر کتب کے شروح و حواشی تصنیف فرمائےچنانچہ شرح نخبۃ الفکر (اصول حدیث میں)۔حاشیہ تفسیر بیضاوی،حاشیہ عضدی،حاشیہ تلویح،حاشیہ بزدوی،حاشیہ ہدایہ،حاشیہ شرح وقایہ، حاشیہ مطول،حاشیہ مختصر،حاشیہ شرح تجرید،حاشیہ اصفہانی،حاشیہ شرح عقائد تفتازانی،حاشیہ قدیمہ محقق دوانی، حاشیہ مواقف،حاشیہ شرح حکمۃ العین،حاشیہ شرح مقاصد،حاشیہ شرح چغمپنی،حاشیہ شرح جامعی،شرح ارشاد فی النحو وغیر ذلک آپ کی تصنیفات سے ہیں۔
آپ کا بادشاہ اور علماء و فضلاء کے نزدیک یہاں تک اعتبار تھا کہ جب سید محمد غوث صاھب جواہر الخمسہ بسبب ایذاء شیر شاہ بادشاہ کے گوالیار سے گجرات میں پہنچے تو وہاں کے علماء ان کے رسالہ معراج نامہ کے مضامین پر معترض ہوکر منازعت میں اٹھے اور سید موصوف کے قتل میں ایک محضر نامہ لکھ کر تمام علماء نے مہریں ثبت کردیں یہاں تک کہ شیخ علی متقی نے بھی جو صاحب علوم ظاہری وباطنی تھے محضر نامہ مذکور پر اپنی مہر ثبت کر کے بادشاہ کے پاس بھیج دی،بادشاہ نے تامل کر کے فرمایا کہ جب تک شیخ وجیہ الدین کی اس پر مہر ثبت نہ ہوگی قتل کا حکم نہ دیا جائے گا۔پس محضر مذکور آپ کے پاس بھیجا گیا اور آپ بغرض دریافت ھال کے سید صاحب موصور کی خدمت میں تشریف لے گئے اور پہلی ہی ملاقات میں فریفتہ حال وقال سید صاحب موصوف کی خدمت میں تشریف لے گئے اور پہلی ہی ملاقات میں فریفتہ حال و قال سید صاحب ہوکر استفتا کو پارہ پارہ کردیا اور علماء کو جواب میں فرمایا کہ تمہارا فہم کلمات و معانی سید صاحب کو نہیں پہنچ سکا اور جو تم نے حکم کیا ہے ظاہر شریعت میں ایسا ہی ہے لیکن یہ معاملہ باطنی ہے اور معراج سید صاحب کا عالم واقع میں وقوع میں آیا ہے اور حالات واقع کو عالم ظاہر کے ساتھ کچھ اعتبار نہیں۔وفات آپ کی ۹۹۷ھ میں ہوئی اورقبر آپ کی احمد آباد میں زیارت گاہِ عام ہے۔تاریخ وفات آپ کی لِہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً سے نکلتی ہے۔
(حدائق الحنفیہ)