حضرت شیخ وجیہہ الدین گجراتی علیہ الرحمۃ
آپ علوی بزرگ تھے مشائخ متاخرین میں بلند مقام رکھتے تھے۔ ظاہری علوم میں اتنی استعداد رکھتے تھے۔ کہ بہت سی درسی کتابوں پر حواشی لکھے گئے اور شرحیں لکھیں اگرچہ آپ کی نسبت دوسرے سلاسل سے بھی تھی لیکن تربیت و تکمیل اجازت و خلافت طریقہ شطاریہ سے حاصل کی اور سید محمد غوث گوالیاری سے روحانی فیض پایا۔
کہتے ہیں کہ جب شیر شاہ سوری نے سید محمد غوث گوالیاری پر اس بنا پر سختی کرنا شروع کی کہ بادشاہ ہمایوں آپ کا عقیدت مند تھا۔ تو آپ گوالیار کو خیر باد کہہ کر گجرات تشریف لے آئے علماء نے بھی آپ کے رسالۂ معراج نامہ پر اعتراض کیے۔ اور بڑی مخالفت شروع کردی۔ ایک محضر نامہ لکھ کر بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ ان علماء کرام میں شیخ علی متقی قدس سرہ جو ظاہری اور باطنی علوم سے واقف تھے۔ ان علماء کے ساتھ تھے۔ جنہوں نے اس قتل نامہ پر دستخط ثبت کیے تھے۔ بادشاہ نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دینے میں تامل کیا۔ اور فرمایا۔ جب تک اس محضر نامہ پر مولانا وجیہہ الدین دستخط نہ کریں میں قتل کے حکم کی منظوری نہیں دے سکتا حضرت مولانا وجیہہ الدین گجراتی سند محمد غوث کی خدمت میں بہ نفس نفیس حاضر ہوئے اور آپ کی شکل و صورت دیکھتے ہی اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایسا شخص کلماتِ کفریہ نہیں کہہ سکتا۔ فتویٰ کو پارہ پارہ کردیا۔ آپ کے ہاتھ میں بیعت کرلی اور علماء کرام کو جواب میں کہا کہ تم لوگ ان الفاظ کے معانی اور مطالب سمجھنے سے قاصر ہو۔ اور ظاہری شریعت کی روشنی میں فتوی دے رہے ہو۔ یہ باطنی معاملہ ہے۔ شیخ نے یہ تمام باتیں خواب کی کیفیت میں بیان فرمائی ہیں۔ خواب کے واقعات کو ظاہر زندگی کے معاملات پر مامور نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کی وفات سفینہ الاولیاء اور مخبرالواصلین کی تحریر کے مطابق ۹۹۸ھ میں ہوئی آپ کا مزار پُر انوار احمد آباد میں ہے جو زیارت گاہ عام و خواص ہے۔
شیخ عالم وجیہہ دین نبی فیض حق کن رقم حفیظ نجواں ۹۹۸ ۹۹۸ نیز داں سال رحلتِ آں شاہ
|
|
شد چو از دہر سوئے خلد بریں سال وصلش بزنیت و تزئین صاحب حق سخی وجیہہ الدین ۹۹۸ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)