شیخ یحییٰ بن معاذ رازی
شیخ یحییٰ بن معاذ رازی (تذکرہ / سوانح)
ناطق حقائق۔ واعظ خلایق تھے۔ اچھا خلق کریم طبع اور عام فیضاں کے مالک تھے۔ صاحب تصانیف کثیرہ ہوئے ہیں۔ مشائخ کبار میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ بزرگان دین فرماتے ہیں عالم اسلام میں دو یحییٰ ہوئے ہیں۔ ایک تو انبیاء کرام میں سے جو یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کے نام سے مشہور ہوئے۔ دوسرے یحییٰ ابن معاذ رازی خلفاء کرام کے بعد جس شخص نے منبر پر کھڑے ہو کر وعظ کا آغاز کیا وہ آپ ہی تھے حضرت یحییٰ کے ایک بھائی مکرہ مکرمہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے آپ کو خط لکھا کہ میری زندگی میں تین آرزوئیں تھیں۔ دو پوری ہوگئی ہیں مگر ایک آرزو ابھی باقی ہے آپ دعا فرمائیں کہ وہ بھی پوری ہوجائے۔ پہلی آرزو تو یہ تھی کہ میں اپنی زندگی زمین کے بہترین حصہ میں بسر کروں۔ الحمدللہ میں حرم پاک میں رہ رہا ہوں۔ دوسری آرزو یہ تھی کہ میرا کوئی خادم نہ ہو مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک نیک سیرت کنیز دی ہے۔ جو میری خدمت کے لیے مامور ہے۔ تیسری آرزو یہ ہے کہ مرنے سے پہلے تمہیں دیکھ لوں۔ اللہ کرے میری یہ آرزو بھی پوری ہوجائے۔
حضرت یحییٰ نے جواب لکھا کہ آپ خود بہترین انسان بن جائیں تو آپ اللہ کی زمین کے جس حصہ میں رہیں گے وہی حصہ بہترین ہوگا۔ اگر آپ خود خدمت خلق میں لگ جائیں تو آپ کو خادم کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی اور اس طرح خادم بن کر آپ مخدوم کہلائیں گے آپ میرے ملنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو اللہ کی خبر ہوتی تو مجھے ملنے کی آرزو کبھی نہ کرتے۔
حضرت یحییٰ کی عادت تھی کہ صوفیاء، علماء اور غازیوں کے لیے اپنا دستر خواں کھلا رکھتے۔ اس طرح آپ پر تقریباً ایک لاکھ روپیہ قرضہ آگیا۔ قرض خواہ تقاضا کرنے لگے۔ آپ کو بھی اس قرضہ کا بڑا فکر رہتا۔ جمعہ کی رات کو آپ نے حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا آپ نے فرمایا یحییٰ تنگ دل نہ ہونا اٹھو! اور خراسان کا سفر کرو۔ ان شاء اللہ تمہارا قرض بیباق ہوجائے گا۔ ایک شخص تمہارے لیے تین لاکھ دینار رکھے انتظا کر رہا ہے۔ آپ نے عرض کی: یا رسول اللہ! اس کا نام کیا ہے، آپ نے فرمایا: تم شہر بہ شہر پھرو اور اچھی اچھی باتیں سناتے چلو، تمہاری باتیں دلوں کی شفا ہوں گی۔ میں جس طرح تمہیں خواب میں بشارت دے رہا ہوں۔ اسے بھی خواب میں حکم دے دوں گا، آپ نیشا پور پہنچے۔ آپ نے مسجد میں وعظ فرمایا اور کہا لوگو میں ایک لاکھ دینار کا مقروض ہوں، مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حکم دیا ہے کہ آپ کی طرف آؤں۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ میرا قرضہ ادا کرو ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا میں پچاس ہزار دینار دینے کو تیار ہوں۔ ایک اور اٹھا اس نے کہا: میرے پاس چالیس ہزار دینار موجود ہیں۔ میں آپ کو دے دوں گا۔ ایک تیسرا اُٹھا اس نے کہا: میرے پاس دس ہزار دینار ہیں۔ میں بھی آپ کو دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں آپ لوگوں سے کچھ نہیں لے سکتا۔ کیونکہ مجھے تو حضور نبی کریم نے ایک شخص سے ایک لاکھ دینار لینے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ آپ نیشا پور سے بلخ کو روانہ ہوگئے۔ بلخ کے لوگوں نے آپ کا بڑا احترام کیا۔ شاندار استقبال کیا۔ ایک عرصہ تک وہاں رہے اور وعظ کرتے رہے۔ آپ اپنی خواب کی روشنی میں امراء کی تعریف و توصیف کیا کرتے تھے۔ مگر اہل بلخ نے آپ کو ایک لاکھ دینار نہ دیے۔ آپ کی مجالس میں ایک زندہ دل درویش آیا کرتا تھا۔ اسے آپ کے منہ سے امراء کی تعریف پسند نہ آئی۔
آپ بلخ سے نکلے اور بخارا کو روانہ ہوئے۔ راستے میں راہزنوں نے آپ کو لوٹ لیا اور جو کچھ تھا لے گئے آپ نے کہا: یہ اس بزرگ کی دعا کا اثر ہے آپ ہرات پہنچے اور وعظ کا سلسلہ شروع کیا۔ ساتھ ساتھ قرضہ کی ادائیگی کا واقعہ بیان کرتے رہے اور کہتے میں تو ارشادِ نبویہ سے یہاں آیا ہوں۔ اس شہر میں ایک امیر زادی رہا کرتی تھی ۔ اس نے کہا حضرت آپ اپنے قرضہ کا غم نہ کریں یہ قرضہ ادا کرنے کے لیے مجھے حکم نبوی مل چکا ہے۔ میں آپ کے انتظار میں تھی۔ میں تین لاکھ دینا رلے کر آپ کی راہ میں دیکھ رہی ہوں۔ یہ سارے دینار آپ کی دولت ہیں۔ ایک لاکھ قرض خواہوں کو دے دیں۔ دو لاکھ دینار اپنے اخراجات کے لیے محفوظ فرمالیں، حضرت یحییٰ اس شہر میں مزید چار دن رہے اور وعظ کرتے گئے۔ پہلے دن آ پ کے وعظ کی تاثیر سے دو آدمی مر گئے۔ دوسرے دن چار جنازے اٹھائے ۔ تیسرے روز چالیس جنازے اٹھے۔ چوتھے روز ستر جنازے اٹھائے گئے۔ پانچویں دن آپ نے اونٹوں پر مال و اسباب لادا۔ آپ کا بیٹا بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ اس کے دل میں شیطانی خیال آیا کہ میرا والد ایک لاکھ دینار قرض خواہوں کو دے گا دو لاکھ دینار نمازیوں صوفیوں اور علماء و طلباء کو بانٹ دے گا۔ میں محروم رہ جاؤں گا۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کرلیا کہ والد کو قتل کردوں اور سارے دینار سنبھال لوں۔ اس کام کے لیے چند اور لوگوں کو بھی آمادہ کرلیا۔ ایک دن آپ سر بسجود نماز ادا کر رہے تھے۔ لڑکے نے ایک بھاری پتھر مارا۔ آپ کا سردو ٹکڑے ہوگیا۔ مگر جان دینے سے پہلے آپ نے فرمایا: بیٹا، میرا قرض بیباق کردینا۔ آپ کا جنازہ اٹھاکر صوفیا کرام نیشا پور لے آئے اور وہاں ہی دفن کردیا۔
سفینۃ الاولیاء نفحات الانس اور دوسری کتابوں میں آپ کا سالِ وفات ۲۵۸ھ لکھا ہے۔ البتہ مخبر الواصلین نے ۲۵۷ھ اور ۲۵۹ھ لکھا ہے۔
جناب شیخ یحییٰ شاہ والا سرور عالم |
|
سفر چوں کر وزیں دار فنا در جنت الاعلیٰ |
(خزینۃ الاصفیاء)