آپ کا نام عبداللہ بن علی طوسی تھا، فقیر لقب تھا، علوم شریعت، طریقت میں کامل و اکمل تھے، ریاضات و مجاہدات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے آپ کی قابلِ قدر تصانیف آپ کی لیاقت علمی اور روحانی کی آئینہ دار ہیں، کتاب لمعہ نے تو خصوصی طور پر تصوف میں اپنا مقام پیدا کیا، آپ شیخ ابو محمد مرتعش سے نسبت روحانی رکھتے تھے۔
شیخ ابونصر جب بغداد میں وارد ہوئے تو ماہ رمضان تھا، آپ مسجد شونیزیہ میں گوشہ گزین ہوگئے اور درویشوں کی امامت آپ کے حوالے ہوگئی، ہر رات نماز تراویح میں پانچ قرآن شریف ختم کیا کرتے تھے، آپ کا خادم رات کو ایک جَو کی روٹی پکالاتا اور آپ افطاری فرماتے، عید کے دن آپ نے امامت فرمائی، لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے حجرے میں تیس روٹیاں جوں کی توں پڑی ہوئی تھیں۔
شیخ ابو نصر جب بغداد میں وارد ہوئے تو ماہ رمضان تھا، آپ مسجد شونیزیہ میں گوشہ گزین ہوگئے اور درویشوں کی امامت آپ کے حوالے ہوگئی ہر رات نماز تراویح میں پانچ قرآن شریف ختم کیا کرتے تھے، آپ کا خادم رات کو ایک جَو کی روٹی پکالات اور آپ افطاری فرماتے، عید کے دن آپ نے امامت فرمائی، لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے حجرے میں تیس روٹیاں جوں کی توں پڑی ہوئی تھیں۔
ایک رات چند حضرات آپ کی مجلس میں بیٹھے تھے، سردیوں کی راتیں تھیں، آگ جل رہی تھی، توحید و معرفت کی باتیں ہو رہی تھیں، شیخ اچھے مزاج میں تھے، اٹھے اور آگ میں جا کھڑے ہوئے، اور آگ پر ہی مصلی بچھا کر نماز ادا کرنا شروع کردی، سجدے سے سر اٹھایا تو آپ کا ایک بال بھی نہیں جلا تھا۔
آپ نے اپنی زندگی میں ہی فرما دیا تھا کہ میرے مزار کے سامنے سے جو جنازہ گزرے گا بخشا جائے گا اب تک یہ رسم جاری ہے کہ لوگ آپ کے مزار کے سامنے سے جنازہ لے کر گزرتے ہیں۔
آپ ۳۷۷ھ میں فوت ہوئے، ایک اور قول کے مطابق ۳۷۸ھ میں وفات پائی، ہماری تحقیق میں دوسری تاریخ وفات صحیح ہے۔
مقتدائے زمانہ شیخ کبیر سالِ وصلش سراج اقطاب است ۳۷۷ھ
|
|
شیخ بو نصر ھادی دو جہاں ہم رقم کن سراج اوج جناں ۳۷۸ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)