ابوالحسن شیخ احمد ابن الحواری دمشق کے رہنے والے تھے حضرت ابوسلیمان دارانی کے مرید خاص تھے۔ آپ کے والد ماجد بھی عارفانِ حق میں سے تھے۔
شیخ احمد ابن الحواری نے اپنے مرشد سے یہ عہد کیا تھا کہ ان کے فرمان کے خلاف ایک قدم بھی نہیں اٹھائیں گے ایک دن حضرت ابوسلیمان اپنی مجلس میں بہت اچھی گفتگو فرما رہے تھے۔ سامعین پر بہت اچھا تاثر تھا۔ اسی دوران شیخ احمد حواری مجلس میں داخل ہوئے اور گزارش کی حضرت نور گرم ہوگیا ہے مجھے کیا حکم ہے حضرت مرشد نے توجہ نہ فرمائی شیخ احمد نے دوبارہ گزارش کی، تو حضرت سلیمان دارانی نے جواب نہ دیا، مگر ان کی یہ تکرار انہیں اچھی نہ لگی اور غصّے میں کہہ دیا، جاؤ تنور میں بیٹھو۔ شیخ احمد اسی وقت اٹھے اور تپتے ہوئے تنور میں داخل ہوگئے۔ چند لمحوں بعد حضرت سلیمان نے اپنے مرید شیخ احمد کو بلایا لوگوں نے تلاش کیا مگر ان کا کہیں پتہ نہ ملا۔ آپ نے فرمایا: تنور میں دیکھو وہ اس میں بیٹھا ہوگا، کیونکہ اس نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ میرے فرمان کے خلاف وہ قطعاً کوئی کام نہ کرے گا لوگوں نے دیکھا کہ آپ تنور میں بیٹھے ہیں، آگ نے ان کا ایک بال تک نہیں جلایا، آپ کی وفات ۲۳۲ھ میں ہوئی تھی۔
احمد کہ سر آمد جہاں بود دل گفت کبیر سال وصلش ۲۳۲
|
|
یکتائے جہاں بد و جہاں طاق فرمود خرد محب آفاق ۲۳۲
|
(خزینۃ الاصفیاء)