آپ اولیائے متاخرین میں سے تھے، قطب الوقت تھے غوث زمانہ تھے، سلسلۂ عالیہ قادریہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ میں صاحب ارشاد تھے، آپ شاہ اکبر قدس سرہ سے نسبت روحانی رکھتے تھے، رات بھر ریاضت و عبادت میں مشغول رہتے تھے دور دراز سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے، آپ کی کرامات و خوارق کا بڑا چرچا تھا۔
آپ کے زمانہ میں وادی کشمیر میں گاؤ کشی کی قانونی ممانعت تھی، مگر آپ کا ایک عقیدت منداس جرم میں گرفتار کرلیا گیا، مہا راجہ جموں و کشمیر کا سخت گیر حاکم اس شخص کے در پے آزاد ہوگیا، اس شخص کا بھائی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے بھائی کی رہائی کے لیے دعا کا طالب ہوا۔ آپ کی مجلس میں ایک شخص لال دین موجود تھا، یہ مہاراجہ کے دربار میں ملازم بھی تھا، آپ نے اسے کہا کہ اس غریب کی رہائی کے لیے امداد کریں، مگر اس نے کہا: حضور! یہ کام ناممکن ہے کیونکہ گاؤ کشی کے مقدمہ میں حاکم وقت کسی کی سفارش بھی قبول نہیں کرتا، آپ نے فرمایا: پھر میں خود ہی بارگاہ الٰہی میں عرض کروں گا، دوسرے دن وہ شخص بری کردیا گیا۔
اس جامع کمالات کا وصال ۱۲۷۷ھ میں ہوا۔ آپ کا مزار پاک کشمیر میں ہے۔
چوں بحکم قضائے ربانی رحلتش ہست مظہر اسلام ۱۲۷۷ھ
|
|
کرد زین دہر رحلت احمد شاہ نیز سردار جنت احمد شاہ ۱۲۷۷ھ
|
قَدْ تمت مخزن ششم
(خذینۃ الاصفیاء)