شیخ بڈھابھلوالی رحمتہ اللہ علیہ
شیخ بڈھابھلوالی رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
شیخ بڈھادستگیراولیأ شاہِ زماں |
واقفِ سرِّ حقیقت رہنمائے گمرہاں |
آپ شیخ فیض بخش بن شیخ عبدالہادی صاحب بھلوالی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداکبراورسجادہ نشین تھے۔اکابراولیائےخاندانِ نوشاہیہ سلیمانیہ سے تھے۔صاحب جذب وسکرو وجدو سماع تھے۔
تعلیم وبیعت و خلافت
آپ نے ابتدأمیں ظاہر ی تعلیم پائی۔قرآن مجید قرایت و تجوید سے پڑھا۔ملکہ کتب خوانی ہوگیا۔پھرخواجہ شاہ محمد دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت کرکے خرقہ خلافت حاصل کیا۔خواجہ صاحب فقرائے نوشاہیہ میں کامل اکمل درویش تھے۔ان کا ذکر کتاب ہذا کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے چھٹے حِصّہ صحائف الاسرار کے نام میں لکھاجائے گا۔ انشأ اللہ تعالیٰ۔
شجرہ بیعت
شیخ بڈھا صاحب مریدخواجہ شاہ محمد دہلوی المعروف چراغ علی درویش رحمتہ اللہ علیہ کے وہ مرید سیّد محمد حسن بن سیّد خدابخش صاحب برخورداری ساہنپالوی رحمتہ اللہ علیہ کے جن کا ذکرطبقہ دوم کے چھٹے باب میں گذرچکاہے۔
سلوک و جذبہ
آپ گاہ بگاہ سالک اوراکثر مجذوبی حالت میں رہاکرتے۔ڈھول کی آواز سے آپ کووجدہواکرتاتھا۔
کرامات
عمل چہل کاف
آپ نے چہل کاف بامؤکل کی دعوت کی تھی۔اِس کے عامل تھے۔ایک روز ایک شخص نے عرض کیا۔یاحضرت !چہل کاف کے پڑھنے میں کوئی تاثیربھی ہوتی ہے یا نہیں۔آپ کے نزدیک بٹھونی(گَھڑوَنج)پرپانی کے گھڑے دھرے تھے۔آپ نے انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا۔ کَفَاکَ رَبُّکَ۔تووہ سب گھڑے نیچے آگئے پھراُوپرکواشارہ کرکے فرمایا۔کَم یَکفِیکَ۔تو وہ سب بٹھونی پرچلےگئے۔آپ نے فرمایایہ چہل کاف کی تاثیرہے۔
فائدہ
عملیات سے ایسی تاثیر ہوناممکن ہے اورکئی بزرگوں سے ایساوقوع میں آیا ہے۔چنانچہ شیخ پایندہ بنوری ؒ (خلیفہ شیخ نظام بلخی رحمتہ اللہ علیہ )جنگل میں جاکرذکرجہرکیاکرتے۔ جب لَااِلٰہَکہتےتو تمام درخت سرنگوں ہوجاتے۔جب اِلَّااللّٰہکہتےتوسب سیدھے ہوجاتےتھے۱؎۔
مُردہ زندہ ہونا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ موضع پِنڈی کالوکے قریب بازیگروں کاڈیرہ اتراہواتھا۔آپ بحالتِ جذب اُدھرجانکلے۔دیکھاکہ ان میں سے ایک عورت سخت دردناک بَین کر رہی ہے۔آپ کے دل میں اثرہوا۔پوچھا۔مائی کیوں روتی ہے۔اُس نے کہامیراایک ہی بچّہ تھا۔ وہ آج مرگیاہے۔آپ نے اس کی نعش پر اپنی چادرڈال کر فرمایاقم باذن اللّٰہ۔چنانچہ وہ لڑکا زندہ ہوگیا۔یہ کرامت دیکھ کر بازیگروں کا ساراڈیرہ آپ کامُرید ہوگیا۔
فائدہ
مُردوں کازندہ ہوجاناکئی اولیأ اللہ سے منقول ہے۔چنانچہ شاہ ابوالمعالی تھانیسری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک گائے کے کان میں کہا۔لَااِلٰہَ۔تووہ مرگئی۔پھرکہااِلَّااللّٰہ تووہ زندہ ہوگئی۔
۱؎تذکرہ اولیائے ہندجلد۲ ص ۶۴۔۲؎تذکرہ اولیائے ہندجلد۲ص ۱۰۹۔سید شرافت
مذبوحہ بھینسوں کازندہ ہونا
منقول ہے کہ ایک مرتبہ موضع چاوہ میں آپ بحالتِ جذب و سکر زمینداروں کے بَھینسوں کے واڑہ میں اکیلےچلے گئےاورچُھری سے سب بھینسوں کو ذبح کردیا۔ جب ان کے مالک آئے تودیکھ کر نہایت بیقرارہوئے اورعرض کیاکہ ہم آپ کے لیے دُودھ کہاں سے لاویں گےاوران کے بچّوں کو کس طرح پالیں گے۔آپ نے فرمایااچھاان کے نام لے کر بُلاتے جاؤ بحکمِ الٰہی زندہ ہوجائیں گی۔چنانچہ جب انہوں نے نام لے کر پکارا۔توسب زندہ ہوگئیں اور دودھ دینے لگیں۔
فائدہ:۔
اولیأاللہ کی کرامت سے ایساہوناکوئی حیرت انگیزنہیں۔شاہ عبداللہ قریشی ملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بکری کا بچّہ زندہ کیاتھا۱؎۔
۱؎تذکرہ اولیائے ہند جلد ۳ ص ۱۵۴۔سیدشرافت
بے ادب کوسزاملنا
باباعلی ولد حسناوڑائچ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ ہمارے گاؤں چک جانوکلاں میں اپنے مرید میاں نظام الدین آہدی والہ کے گھر تشریف لائے ۔دائرہ میں ڈیرہ کیا۔ گاؤں کے سب لوگ سلام کرنے آئے۔آپ چارپائی پر بیٹھےہوئے تھے۔سب معزّزین دیہہ صفوں پر بیٹھے تھے۔ایک شخص محمداولد بیغم وڑائچ نام جو اہل حماقت تھا۔آکر بوجہ تکبّر آپ کی چارپائی پر بیٹھ گیا۔آپ نے زبان سے تو کچھ نہ فرمایا۔البتہ ایسی نگاہ کی کہ وہ کانپ کانپ کرچارپائی سے نیچے گرپڑااورتمام عمرکے لیے اس کو رعشہ ہوگیااوررعشہ کی وجہ سے اُس کے نام محمداچَکرا پڑگیا۔
راوی مذکور نے محمداچکراکودیکھاہے۔
اولاد
آپ کے تین بیٹے تھے۔
ا۔شیخ احمد صاحب مجذوب رحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔شیخ احمدالدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ ۔
۳۔شیخ غلام حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص مریدیہ تھے۔
۱۔شیخ نظام الدین بن شیخ عطأ اللہ صاحب سلیمانی رحمتہ اللہ علیہ گھنگول ضلع سرگودھا
۲۔شیخ ماہی شا ہ بن شیخ موج الدین صاحب سلیمانی رحمتہ اللہ علیہ رنمل ضلع گجرات
۳۔میاں سلطان مست بن میاں سلطان مُلک صاحب سچیاری ؒ نوشہرمیانہ ضلع گجرات
۴۔پیر لقمان شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
اِن کے سلسلہ فقرمیں آجکل حکیم حاجی پیرمحمد شاہ زائر کربلابن سید امیرشاہ نقوی بخاری رحمتہ اللہ علیہ لاہورمیں سکونت رکھتے ہیں۔کتاب خزینہ عملیات کے مصنّف ہیں۔یہ مریدپیر گوہر شاہ کے وہ مریدپیر لقمان شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے۔
۵۔میاں نظام الدین صاحب ساکن اَہدی ضلع گجرات
یہ جب مریدہواتوعرض کیاکہ میں بوڑھاہوں تو آپ نے فرمایاکہ جو شخص ہمارامرید ہے وہ بوڑھا نہیں ہوتا۔آپ کی دعاسے یہ مستجاب الدعوات ہوگیا۔یہ موضع چک جانو کلاں میں سکونت گزین ہوگیاتھا۔ایک بارجامی ڈھینگسہ کو کہاکہ جب توکھیت میں کسی چیزکابیج بوئے تویَابَاسِطُپڑھ کر بویاکر۔ ایک مانی غلہ فی بیگہ نکلاکرے گااورجب اس حساب سے غلّہ پیدانہ ہواتو سمجھ لیناکہ تیرا وقت اخیر ہے۔چنانچہ اُس کی زندگی تک اسی طرح غلّہ برآمدہوتارہا۔
تاریخِ وفات
شیخ بڈھاکی وفات بروز سہ شنبہ ۔چودہویں صفر ۱۲۴۴ھ مطابق ۲۶ اگست ۱۸۲۸ء موافق ۱۱بھادوں ۱۸۸۵بکرمی میں ہوئی۔
آپ کی قبرموضع چاوہ ضلع سرگودھامیں ہے۔گاؤں سے مغربی جانب ہے۔اُوپرپالکی بنی ہوئی ہے۔
مادۂ تاریخ ہے "باغِ ارم"۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)