آپ شاہ لطیف برہانی پوری قدس سرہ کے خلفاء میں سے تھے۔ آپ کی نسبت روحانیت حضرت شاہ سید محمد غوث گوالیاری سے جاملتی ہے آپ برہان سرالٰہی کے مرید تھے۔ وہ شیخ عیٰسی زندہ دل کے اور وہ وجہیہ الدین گجراتی کے اور وہ سید محمد غوث گیلانی گوالیاری قدس سرہ ہم کے مرید تھے آپ ستر (۷۰) سال کی عمر میں پہنچے تو آپ کے والد کو حضرت شیخ برہان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ارادت سے مشرف فرمایا شاہ برہان آپ کی ظاہری و باطنی تربیت شیخ عبداللطیف کے سُپرد کردی۔ حضرت شاہ عبداللطیف نے آپ کی ظاہری باطنی تربیت کی اور نہایت جذب و مستی میں فتح شاہ سرمست کے خطاب سے مشہور ہوئے حضرت مرشد نے تربیت کے بعد آپ کو لاہور کی ولایت پر مامور فرمایا۔ ایک بار دریائے راوی میں طغیانی آگئی۔ اُس کی موجیں قلعہ لاہور سے ٹکرانے لگیں حاکم لاہور بڑا گبھرایا۔ حضرت فتح شاہ سرمست کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دعا کی استدعا کی آپ نے حاکم لاہور کو فرمایا۔ میرا پیغام لے جاؤ اور دریا کو کہو کہ فتح شاہ نے حکم دیا ہے کہ جہاں سے آئے ہو چلے جاؤ ورنہ قیامت تک تمہارے پیٹ میں ایک قطرہ آب نہیں رہنے دوں گا حاکم وقت گیا دریا فوراً رک گیا اور اس کا پانی اتر گیا۔ اور اپنے مقام پر بہنے لگا۔
ایک دن حضرت شیخ فتح شاہ صاحب قدس سرہ نے برنے کی ایک لکڑی توڑی۔ اور اپنے خادم روشن شیخ کو پکڑ کر فرمایا کہ اسے زمین میں گاڑ دو۔ اس نے ایسے ہی کیا وہ لکڑی ایک دو روز میں سر سبز ہوگئی اور اس میں برگ و بار اُگ آئے۔ یہ درخت آج تک (مصنف کے زمانہ حیات تک) موجود ہے۔ آخر کار مہاراجہ رنجیت سنگھ نے فرانسس کا مکان تعمیر کرانے کے لیے اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے۔ شیخ فتح شاہ شطاری ۱۱۵۰ھ میں فوت ہوئے۔ آپ کا مزار پُر انوار لاہور کے باہر زیارت گاہ عام و خاص ہے۔
فتح شاہ مشکل کشائے دوجہاں طرفہ سال انتقالش شد عیاں
|
|
رفت چو در خلد زین دارالحق فتح دین فتاح ابواب زمن ۱۱۵۰ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)