شیخ حسّام الدّین چلپی قدس سرہٗ
شیخ حسّام الدّین چلپی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
اسم گرامی حسین بن محمد بن حسن بن اخی ترکی تھا حضرت مولٰینا روم کے خلیفہ اکبر اور مرید خاص تھے حضرت مولانا روم نے آپ کی تربیت میں بڑی دلچسپی سے حصہ لیا اور اپنی نظر خاص میں رکھا۔
جب شیخ شمس الدین تبریزی کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا۔ مولٰینا روم نہایٔت افسردہ خاطر اور شکستہ دل تھے ان دنوں آپ صلاح الدین زرکوب فریدوں کی مجلس میں بیٹھا کرتے صلاح الدین شیخ برہان الدین محقق کے مرید تھے حضرت مولٰینا روم زرکوبوں (سناروں) کی گلی سے گزرتے تو زرکوبوں کی صدائے زرکوبی سے وجد میں آتے شیخ صلاح الدین دکان سے اٹھے مولٰینا کے قدموں میں سر رکھ دیا حضرت مولٰینا روم نے اسی دن سے آپ کو اپنا ساتھی بنالیا اور بے پناہ نوازشوں سے نوازا۔
یکے گنجے پدید آمد درین دکان زر کوبی |
|
زہے صورت زہے معنٰی ازہے خوبی زہے خوبی |
شیخ صلاح الدین نے اس دن اپنی دکان زر فروشی اور زرکوبی کو لٹا دیا۔ اور مولٰینا روم کی رفافت کی دولت کو پالیا دوسال کے بعد فوت ہوئے تو حسام الدین چلپی قدس سرہٗ مولانا روم کے مصاحب اور رفیق ناصر بن گئے آپ نے حسام الدین کا لقب ضیاءالحق رکھا حسام الدین نے شیخ فرید الدین عطار کے مصیبت نامہ منطق الطیر اور حکیم سنائی کا الٰہی نامہ دیکھا تو انتہائے اشتیاق میں مولانا روم کو فرمائش کی کہ وہ بھی ایسی مثنوی لکھیں تاکہ زمانہ میں یاد گار رہے اگرچہ مولانا کا دیوان اور غزلیات اس سے پہلے چھپ چکی تھیں مولانا روم نے اپنی دستار مبارک سے ایک کاغذ نکال کر حسام الدین کے حوالے کیا اس پر مثنوی معنوی کے ابتدائی تیرہ اشعار لکھے ہوئے تھے۔
بشنواز نے چوں حکایت می کند |
|
وز جدایٔہاء شکایت می کند |
یہ اشعار پس سُخن کوتاہ باشد والسلام تک تھے آپ نے فرمایا تمہاری فرمائش سے پہلے ہی مجھے یہ تیرہ اشعار اشارہ غیبی سے وارد ہوئے تھے اس دن سے حضرت مولانا پوری توجہ سے مثنوی لکھنے میں مشغول ہوگئے بسا اوقات یوں ہوتا کہ آپ اول رات سے لے کر سحری تک مثنوی املا کراتے جاتے اور حسام الدین قلم دوات لیے لکھتے جاتے ساری رات گزر جاتی دونوں مثنوی میں مشغول رہتے۔
جلد اول ختم ہوئی تو حسام الدین چلپی کی بیوی کا انتقال ہوگیا اس واقعہ نے مثنوی کی اِملا میں توقف پیدا کردیا دوسال بعد پھر حسام الدین نے اِملا کا سلسلہ شروع کیا مولانا نے دوسری جلد کے آغاز میں اشارہ فرمایا ہے۔
مدئے این مثنوی تا خیر شد |
|
مہلتے باید کہ تاخوں شیر شد |
اس کے بعد حضرت مولانا روم کا چشمۂ شعریت رواں رہتا اور حضرت حسام الدین لکھتے جاتے حتی کہ کتاب کی چھ جلدیں مکمل ہوگئیں[۱]
[۱۔حضرت مولانا جلال الدین رومی کے فرزند ارجمند سلطان ولد کی تصنیف ’’رباب نامہ‘‘ دکتر علی سلطانی گرد فرامزوی کے اہتمام میں موسہ مطالعات اسلامی دانش گاہ مک گیل سے حال ہی میں طبع ہوئی ہے جس میں فاضل مولّف کے حالات کے ساتھ ساتھ آپ کی تالیفات اور تصنیفات کا تذکرہ کیا گیا ہے ان آثار و احوال میں صرف ان کتابوں کا نام ملتا ہے۔
۱۔ دیوان غزلیات و رباعیات۔ (یہ حضرت مولانا جلال الدین رومی کی غزلیات کی طرز پر ہے)
۲۔ ولد نامہ (یہ حدیقتہ الحقیقہ خواجہ سنائی کی طرز پر ہے)
۳۔ رباب نامہ (یہ مثنوی مولانا روم کی طرز پر ہے)
۴۔ انتہا نامہ ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوا۔
غالباً رباب نامہ کے متعلق ہی بعض حضرات کو شبہ ہوا۔ کہ مثنوی معنوی کی تکمیل آپ نے کی تھی (مترجم)]
(بعض روایات میں آتا ہے کہ چھٹی جلد آپ کے بیٹے نے مکمل کی تھی)
ایک بار حسام الدین نے مولانا روم کو بتایا کہ حضرت جب لوگ مثنوی پڑھتے ہیں تو اہل مجلس ایک نور میں مستغرق ہوتے دکھائی دیتے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ غیب سے ایک جماعت جن کے ہاتھوں میں نیزے اور تلواریں ہوتی ہیں دَور باش پکارتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں جو لوگ مثنوی کو سننے سے اعتراض کرتے ہیں ان کے ایمان کی شاخیں کاٹتے چلے جاتے ہیں اور انہیں کشاں کشاں جہنم میں لے جاتے ہیں حضرت مولانا روم نے فرمایا تم نے جیسے دیکھا ہے ویسے ہی ہوتا ہے پھر مولانا نے یہ شعر پڑھا۔
دشمن ایں حرف دین دم در نظر |
|
شد ممثل سرنگوں اندر شعر |
|
جب حضرت مولانا رومی کا وصال ہوا۔ کہ ساتویں مولانا حسام الدین چلپی اپنے احباب کی ایک جماعت لیے مولانا کے بیٹے سلطان وَلَد کے پاس آئے اور کہا میرا دل چاہتا ہے کہ آپ اپنے والد کی مسند پر بیٹھیں مخلص مریدین اور طابسین کو ارشاد فرمائیں اور ہمارے شیخ اور پیر کی جگہ قیام فرما ہوں اور میں آپ کی رکاب میں غاشیہ برداری کرتا رہوں اور یہ بیت پڑھتا جاؤں۔
برخانہ دل اے جاں کیست ایستادہ |
|
برتخت شو بادشاہ و شاہزادہ |
یہ بات سنتے ہی سلطان ولد بہت روئے اور کہا آپ میرے والد مکرم کے خلیفہ و جلیس مجلس تھے آپ اب بھی اسی طرح اس مقام احترام پر رہیں گے ہمارے بزرگوار بھی آپ ہیں اور میرے والد کی جگہ آپ ہی ہیں۔
شیخ حسام الدّین چلپی ۶۷۳ھ میں فوت ہوئے۔
چو رفت از عالم دنیا بحنت |
|
حسّام الدّین شد مرحوم و مغفور |
(خزینۃ الاصفیاء)