شیخ جمال کا چھوی
شیخ جمال کا چھوی (تذکرہ / سوانح)
اسی طرح شیخ شیخ جمال ساکن کا چھوی بھی جو حضرت شیخ محمد صادق کے دوست تھے۔ اشارۂ باطنی سے آپکے مرید ہوئے اور مرتبۂ کمال وتکمیل کو پہنچے۔ انکے م رید ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ وہ دیہات کے رہنے والے تھے اور موضع کا چھ وہ میں جو کرنال سے چار کوس کے فاصلہ پر غربی جانب واقع ہے کھیتی باڑی کیا کرتے تھے ایک دن ہلا چلارہے تھے کہ غیب سے ہاتف نے آواز د یعنی حق تعالیٰ نے اسے بلا واسطہ خطاب کر کے فرمایا کہ اے جمال تو اس کام کیلئے نہیں پیدا کیا گیا۔ بلکہ تم ہمارے مشاہدہ کیلئے پیدا کیلئے گئے ہو۔ تم گنگوہ جاکر شیخ محمد صادق کی خدمت میں پہنچو اور اصل کام میں مشغول ہوجاؤ۔ شیخ جمال غیب سے یہ آواز سن کر غفلت سے بیدار ہوئے اور گنگوہ جاکر حضرت شیخ محمد صادق قدر سرہٗ سے شرط بیعت حاصل کیا۔ آپ نے انکو اپنی بھینسوں کی خدمت پر مامور فرمایا اور کافی مدت تک وہ یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔ ایک دن حضرت شیخ محمد صادق کے بیٹے شیخ داؤد نے شیخ جمال سے کہا کہ تم بھینسوں کی خدمت کیلئے یہاں نہیں آئے ہوبلکہ طبِ حق میں تم نے خان و مان ترک کیا ہے اور یہاں پہنچے ہو۔ اب تمہیں اپنے اصلی کام میں مشغول ہونا چاہیے۔ شیخ جمال اس کلام سے مبتنہ ہوئے اور حضرت اقدس کی خدمت میں جاکر عرض کیا کہ حضور مجھے شغل باطن تلقین فرمادیں تاکہ میں اس میں مشغول ہوجاؤں۔ حضرت شیخ نے انکے صدق طلب کا مشاہدہ کر کے دریافت کہ تجھ کو کس چیز سے محبت ہے۔
بھینس کے تصور کی تلقین
اس نے عرض کیا کہ میرے گھر میں ایک بھینس ہے جسے میں تمام بھینسوں سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں آپ نے اُسے ذکر جہری تلقین فرمایا اور نماز معکوس کا طریقہ بتاکر حکم دیا کہ ایک چلہ کرو اور اسکے اندر رات دن ذکر جہر اور نما زمعکوس میں باری مشغول رہو اور تصور اس بھینس کا رکھو کیونکہ تمہارے کام کی کشائش اسی میں ہے۔ جاننا چاہیے کہ پیران کامل حاکم حاذق کی مانند ہیں اور مریدین بیماروں کی طرح ہیں۔ چنانچہ جو دوائی جس شخص کے حق میں مفید ہوتی ہے وہی دیتے ہیں تاکہ صحتِ کامل ہو۔ محققین کا کہنا ہے کہ مرشد کو چاہیے کہ سالک کی حالت تشخیص کرے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ اُسے کس چیز سے رغبت ہے۔ مثلاً اگر کسی شخص کو اپنے بیٹے سے محبت ہے اور اسکے عشق میں والہ وشیدا ہے تو بیٹے کا جمال اسکی آنکھوں میں شیخ کے جمال سے زیادہ محبوب ہوگا۔ اس لیے شیخ کو چاہیے کہ اپنے برزخ کا حکم نہ دے بلکہ اُسے بیٹے کے برزخ کا حکم دے (یعنی اپنے تصور کے بجائے اسکے اپنے بیٹے کا تصور کرائے) اور اسی تصور میں اس سے اذکار ومشاغل کرائے۔ اُناذکار ومشاغل کی برکت سے اسے مجاز سے کھینچ کر حقیقت پر لایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص ہےجو جمال گل اور چمن پر عاشق ہے شیخ اسے اپنے تصور کی جگہ اُسی گل اور چمن کا تصور کرائیگا کیونکہ جس خوبی سے کام گل و چمن کے برزخ ہوسکتا ہے شیخ کے برزخ میں نہیں ہوسکتا ۔ لیکن اُسے رفتہ رفتہ مجازی تعلقات سے نکال کر حقیقت کے ساتھ وابستہ کیا جائیگا۔
الغرض حضرت شیخ محمد صادق کے فرمان کے مطابق شیخ جمال نے ایسی خلوت اختیار کی کہ چالیس روز تک دروازہ نہ کھولا اور ریاضت و مجاہدہ میں منہمک رہا۔ اور اسکا کام اسی ایک چلہ میں بن گیا۔ جب چلہ کی مدت پوری ہوئی تو حضرت شیخ محمد صادق نے حجرہ کے درواز پر آکر کہا کہ دروازہ کھولو۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو فرمایا کہ باہر آؤ۔ شیخ جمال نے کہا کہ باہر کیسے آؤں میرے سینگ بڑے ہیں اور دروازہ تنگ ہے۔ حضرت اقدس نے اسکا ہاتھ پکڑا اور باہر کھینچ لیا۔ اسکی نظر میں وجودِ واحد کے سوا کچھ نہ چھوڑا اور ایک نظر میں اسے عالم بے کیف واطلاق میں پہنچادیا۔ کہتے ہیں کہ شیخ جمال کو مرتبہ بے رنگی نماز معکوس میں حاصل ہوا بعض کو یہ مقام (ذات بحت میں فنا) ذکر ونفی واثبات سے حاصل ہوتا ہے۔ بعض کو شغل بہونکم سے اور بعض کو شغل سہ پایہ سے۔
الغرض جب شیخ جمال مرتبہ کمال کو پہنچ گئے تو حضرت اقدس نے انکو خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور چھوہ بھیج دیا تاکہ وہاں لوگوں کی رشد وہدایت کا کام سنبھالیں آپ وہاں خلق خدا کی ہدایت میں ایک مدت تک مشغول رہے۔ جب موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے خرقہ خلافت ایک مغل کو عطا فرمایا جو آپکا خاص مرید تھا۔ آپکا مزار اسی موضع میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
روایت ہے کہ اس مغل کو خلافت عطا کرنے کے بعد شیخ جمال نے اپنے حجرہ میں بیٹھ کر دروازہ بند کردیا اور شغل باطن میں منہمک ہوگئے۔
گھوڑی کا متکلم ہونا
اس مغل کی ایک گھوڑی تھی جو سارا دن خود بخود صحرا میں چرتی رہتی تھی اور شام کے وقت گھر آجایا کرتی تھی۔ ایک دن وہ گھوڑی ایک شخص کے کھیت میں چلی گئی اور گھاس کھاتی رہی لیکن اسکی زراعت کو کوئی نقصان نہ پہنچایا۔ اس شخص کو شیخ جمال سے عناد تھا گھوڑی کا بہانہ بناکر مغل کے حجرہ کے سامنے آیا اور زور اور سے گالی بکنے لگا اور یہ کہتا رہا کہ عجب فقیر ہے گھوڑی کو لوگوں کی فصل میں چھوڑ کر خود حجرہ کے اندر یاد خدا میں مصروف ہے۔ اس وقت مغل شغل باطن میں مست تھا۔ جونہی اس نے شور سنا غیرت عشق الٰہی نے جوش مارا اور استغنائے ذاتی بروئے کار ہوئی حجرہ سے باہر آکر اس آدمی کو کھیت میں لے گیا اور گھوڑی کی طرف دیکھ کر کہا کہ تو کیوں لوگوں کا فصل کھاتی ہے اور ہمیں بدنام کرتی ہے۔ گھوڑی کو اللہ تعالیٰ نے طاقت گویائی عطا فرمائی اور کہنے لگی کہ میں نے ایک تنکہ تک اس شخص کے فصل سے نہیں کھایا۔ میں تو صرف گھاس کھاتی رہی ہوں۔ لیکن چونکہ اس شخص کو شیخ جمال سے عداوت ہے اور آپ چونکہ انکے خلیفہ ہیں اس لیے نا حق آپکو تنگ کر رہا ہے۔ اس گھوڑی نے یہ بھی کہا کہ چونکہ میری وجہ سے لوگ آپ تنگ کرتے ہیں کل ایک شخص آئیگا جو مجھے خرید کرنے کا خواہشمند ہوگا اور آپکو بیس روپے دیگا اور یہ رقم میری اصل قیمت سے دو چند ہے۔ آپ مجھے اسکے ہاتھ فروخت کردیجئے اور اس موقعہ کو ہر گز نہ چھوڑنا۔ دوسرے دن ایک شخص آیا اور مغل کو بیس روپے دیکر گھوڑی لے گیا۔ چنانچہ یہ تھوڑا سا تعلق جورہ گیا تھا وہ بھی ختم ہوگیا اور اس شخص نے جو شیخ جمال سے حسد رکھتا تھا جب یہ واقعہ دیکھا تو فوراً معافی مانگ کر مغل کا مرید ہوگیا۔
خرگوش کا گویا ہونا
رویات ہے کہ ایک دفعہ شیخ جمال حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کو اپنے گاؤں کا چھوہ میں دعوت دیکر لے گیا۔ حضرت اقدس کا دستور تھا کہ کبھی کبھی صرا میں جاکر شکار او ر قدرت کا تماشا کیا کرتے تھے۔ ایک دن موضو کا چھوہ کے جنگل میں آپ شکار کر رہے تھے کہ اچانک شیخ جمال دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا اور کہنے لگا کہ مجھے مت مارو، میں ایک حقیر اور کمزور جانور ہوں میرے جسم میں ہڈیوں کے سوا کوئی چیز نہیں ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر وہ خرگوش میرے سامنے بات کرے تو تمہاری بات کا یقین کرونگا۔ چنانچہ شیخ جمال حضرت اقدس کو اس مقام پر لے گئے جہاں خرگوش چھپا ہوا تھا۔ انہوں نے خرگوش کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تم پھر مجھ سے وہی بات کرو جو پہلے کی تھی تو ت جھے چھوڑ دونگا ورنہ ماردونگا جب اس خرگوش نے دوبارہ وہی بات دہرائی تو حضرت شیخ محمد صادق حراین ہوئے اور اُسی دن سے شکار ترک کردیا۔
حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کے اصحاب کو اپنے شیخ کے اندر اس قدر فنا حاصل تھی کہ وہ آپ کو عین ذات حق سمجھتے تھے۔ روایت ہے کہ ایک دن حضرت اقدس شکار کیلئے صحرا میں گئے ہوئے تھے کہ ایک ہرن سامنے آیا آپ نے اُسے نیزہ مارنے کا قصد کیا ہی تھا کہ آپکے اصحاب جو کم و بیش تین سو تھے ایک مقام پر بیٹھے حقائق و معارف پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک درویش کے منہ سے لفظ اللہ نکلا۔ دوسرے درویش نے جو دریائے وحدت میں غرق تھا کہا ک چپ رہو اللہ اس وقت شکار کر رہا ہے اور ہرن پکڑے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نازک وقت میں اسکی توجہ اپنی طرف مبذول نہ کر۔ یہ بات سنکر تمام درویشوں پر محویت طاری ہوگئی اور سب دوڑ کر حضرت اقدس کے پاس پہنچے اور سجدہ میں گر کر تیر عشق کا شکار ہوگئے اس وقت حضرت چونکہ عالم اطلاق میں تھے اور عنقائے ذات مطلق اور بے نشان کے شکار میں مشغول تھے آپ نے ایک نظر سے اُن تین سو درویشوں کو مشاہدۂ ذات بے کیف میں پہنچادیا۔ اور دوپہر تک وہ عالمِِ محویت اور بے خود میں کھڑے رہ گئے۔ جب انکی حالت میں افاقہ ہوا حضرت اقدس نے سب کو خرقۂ خلافت دیکر مختلف مقامات پر بھیج دیا۔ سبحان اللہ! حضرت شیخ محمد صادق کو ذات حق کے ساتھ کیا قرب حاصل تھا کہ جو کچھ حضرت اقدس کی مرضی میں آتا تھا حق تعالیٰ اُسی طرح کرتے تھے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ولی جب مراتب قطبیّت غوثیّت اور فردونیّت طے کر کے مقام محبوبیت میں پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا مظہر بن جاتا ہے اور اسکا ارادہ حق تعالیٰ کا ارادہ ہوجاتا ہے پس جو قول و فعل کہ اس سے وقع پذیر ہوتا ہے حق تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خود حق تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے۔ لہٰذا حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ جو چاہتے تھے حق تعالیٰ اُسی طرح کرتے تھے۔ بلکہ آپکی خواہش اور ارادہ حق تعالیٰ کو اسی طرح محبوب تھا جس طرح آپکی ذات محبوب تھی۔
اقسام محبوبیت
جاننا چاہے کہ محبوبیت کی دو قسمیں ہیں۔ اصلی اور ظلی۔ اصلی محبوبیت یہ ہے کہ جب ایک ولی اللہ اپنی استعداد کے مطابق حق تعالیٰ کی معرفت سے مشرف ہوتا ہے اورل اُسے ذات حضرت رسالت پناہﷺ میں کمال فنا میسر آتا ہے اور آنحضرتﷺ سے اتحاد تام اصالتہً حاصل ہوتا ہے تو اُسے آنحضرتﷺ کے ساتھ مکمل اتحاد کی وجہ سے مرتبۂ محبوبیت بھی اصالتاً حاصل ہوتا ہے۔ اس قسم کے محبوب امت میں بہت کم ہیں۔ مثل سلطان العارفین حضرت سید محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی، حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین بدایونی اور حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی، محبوبیت ظلی یہ ہے کہ ایک ولی اللہ کو آیۂ کریمہ قُلْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْ یُحِبْبکُمُ اللہ (اے نبی لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تمہیں اللہ سے محبت ہے تو میری اتباع کرو تم اللہ کے محبوب بن جاؤگے) کے مطابق آنحضرتﷺ کے کمال اتباع کی بدولت اللہ تعالیٰ سے نسبت محبوبیت حاصل ہوتی ہے۔ امت میں اس قسم کے محبوب بہت ہیں۔
ایک عاشق مجاز کا کانٹا بدلنا
اس فقیر نے مشائخ سے بہ نقل متواتر سُنا ہے کہ ایک درویش کسی عورت پر عاشق تھا۔ اور غلبۂ لمحبت سے اسکا آرام اور قرار برباد ہوچکا تھا۔ ایک دن اس نے حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی قدس سرہٗ کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان کیا۔ حضرت اقدس اُس وقت شہود دوست میں غرق تشبیہہ تھے۔ آپکی زبان مبارک سے یہ نکلا کہ تم ہر وقت میرا تصور کیا کرو، تمہارا کام بن جائیگا۔ چنانچہ وہ دن رات اسی شغل میں منہمک ہوگیا۔ چند دنوں کے بعد اس عورت کی محبت اسکے دل سے نکل گئی اور اسکی جگہ حضرت اقدس کی محبت دامنگیر ہوگئی۔ چنانچہ اس نے حاضر خدمت ہوکر آپ سے بیعت کرلی تھوڑے عرصے میں واصلان حق میں سے ہوگیا۔
موسلا دھار بارش میں کپڑے خشک رہے
یہ روایت بھی تواتر کے ساتھ سنی گئ ی ہے کہ ایک دفعہ شیخ محمد صادق صحرا میں سیر کیلئے آئے ہوئے تھے کہ ابر چڑھ آیا اور بارش ہونے لگی۔ آپ کے تمام اصحاب نے اپنے اوپر گلیم اور برساتیاں تان لیں اور حضرت شیخ سے بھی عرض کیا کہ ساتھ آجائیں لیکن آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ آج بارش ہماری رعایت کرے گی اور ہم پر نہیں برسے گی۔ چنانچہ یہی ہوا۔ ہر طرف بارش برس رہی تھی لیکن حضرت اقدس پر ایک قطرہ بھی نہ پڑا۔ اسکے بعد آپ خش کپڑوں اور محبت الٰہی سے تر دل کے ساتھ گھر تشریف لے گئے حالانکہ برساتیوں کے باوجود آپ کے تمام ساتھیوں کے کپڑے بارش سے تر ہوچکے تھے۔
ایک رئیس کی گستاخی اور سزا
ایک دفعہ حضرت اقدس اصحاب سمیت صحرا کی طرف سیر کو گئے ہوئے تھے جب شام ہوئی تو آپ نے ایک مسجد میں قیام فرمایا۔ مسجد کے قریب ایک رئیس کے گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ جب آخر شب تمام حضرات ذکر وشغل میں مصروف ہوئے تو شیخ ابراہیم الٰہ آبادی پر حالت طاری ہوگئی اور غلبہ بے خودی میں تڑپتے ہوئے اصبطل میں جا پڑے اور آپکے نوہائے شوق سے گھوڑوں میں بے چینی واقع ہوئی اور ایک بیش بہا گھوڑا رسی توڑ کر جنگل میں بھاگ گیا۔ جب اس بات کی خبر اس رئیس کو ہوئی تو اس نے غیض و غضب میں آکر حضرت شیخ ابراہیم کواپنے نوکروں کے ہاتھوں عین اسی وجد کی حالت میں شدید زدو کوب کرایا لیکن آپکو عالم شوق و مستی میں اسکا مطلقاً احساس نہ ہوا۔ جب آپکی حالت میں افاقہ ہوا تو زخموں میں درد محسوس ہونے لگا۔ صبح کے وقت جب اصحاب نے حضرت شیخ کی خدمت میں جاکر سارا ماجرا بیان کیا تو آپکی زبان مبارک سے یہ کلمات نکلے کہ چونکہ امیر نے فقیر کو گھوڑے کی وجہ سے ستایا ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ گھوڑا سلامت نہیں رہے گا۔ صبح اُس رئیس کے نوکر گھوڑا پکڑ کر واپس آئے تو وہ گھوڑا آتے ہی زمین پر گر گیا اور مرگیا رئیس کو معلوم تھا کہ گھوڑا کیوں مرا ہے۔ اسکے دل میں خیال آیا کہ اگر میں انکی خدمت میں جاکر معافی نہیں مانگتا تو منا معلوم مزید کیا نقصان ہوگا۔ چنانچہ وہ فوراً حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی کا خواستگار ہوا اور اپنے کے پر سخت پیشمان ہوکر ازاہ عجز ونیاس سر زمین پر رکھ دیا۔ حضرت اقدس نے جو آیۂ رحمت تھے اسکی تقصیر معاف کردی۔ اسکے بعد وہ رئیس آپکی بیعت سے مشرف ہوا اور مخصوص مریدین میں سے ہوا۔
ایک دفعہ حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ سخت بیمار ہوگئے۔ بہت علاج کیا گیا لیکن صحت نہ ہوئی۔ اُس بیماری کے دوران حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کا عرس آگیا۔ آپ نے فرمایا میری چارپائی اٹھاکر مجلس سماع میں لے چلو اور ایک کونے میں رکھ دو تاکہ میں محبوب حقیقی کے پروانوں کے احوال دیکھ کر خوش کرلوں۔ آپکے حکم کی تعمیل کی گئی۔ جب سماع شروع ہوا اور آواز مطلق لباس مقید میں آپکے کانوں میں آئی تو آپ بھی تقید سے عالمِ اطلاق میں جانکلے اور صورت سے نکل کر معنی میں پہنچے اور غلبۂ سرورِ شہود کی وجہ سے وجد میں آکر رقص کرنے لگے اور کافی دیر تک رقص کرتے رہے۔ جب آپ وجد رقص سے فارغ ہوئے تو بیماری بھی جاتی رہی اور مکمل شفا ہوگئی۔ آپکے کمالات اس قدر ہیں کہ اس مختصر کتاب میں نہیں سماسکتے۔
خلفاء
حضرت شیخ محمد صادق گنگوہی قدس سرہٗ کے بہت خلفاء باکمال تھے کہ جنکا نورِ ہدایت آج تک خلق خدا پر محیط چلا آرہا ہے۔
(قتباس الانوار)