شیخ کمال بن شیخ کبیر
شیخ کمال بن شیخ کبیر (تذکرہ / سوانح)
شیخ کمال بن شیخ کبیر ملامتی نے اپنے والد سے تربیت حاصل کی او رملا متیہ مشرف رکھتے تھے۔ بلکہ وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ بیباک تھے۔ باپ کی وفات کے بعد وہ گجرات چلے گئے۔ وہاں حضرت شاہ محبوب عالم اُن سے عزت واحترام سےپیش آئے۔ جس سے انکی شہرت میں اضافہ ہوا۔شیخ کمال کا مزار احمد آباد میں ہے۔
دیوار کا چلنا
مراۃ الاسرار میں آیا ہے کہ ایک دن حضرت شیخ احمد عبدالحق حجرہ کی دیوار بنارہے تھے خود دیوار پر یتھے تھے اور مرید کام کر رہے تھے۔ اس اثنا میں یخ جمالگوجرہ ایک گھوڑی پر سوار ہوکر وہاں تیزی سے پ ہنچے۔ اور کہنے لگے کہ آیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ دیوار چلنے لگے۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ کیا مشکل ہے یہ کہنا تھا کہ دیوار چل پڑی۔ آپ نے فرمایا جمال آؤ۔ لیکن شیخ جمال کی گھوڑی وہیں رُک گئی۔ شیخ جمال نے جتنے تازیانے لگائے گھوڑی اپنی جگہ سے آگے نہ بڑھی۔ اس سے شیخ جمال بہت نادم ہوئے اور معذرت طلب کی تاکہ سلامت رہیں۔
شیخ فتح اللہ کی خانقاہ میں درود
ایک دن حضرت شیخ احمد عبد الحق حضرت شیخ فتح اللہ کی خانقاہ میں چلے گئے اور بچوں کی سی حرکات کرنے لگے اس سے آپکا اشارہ اس بات کی طر ف تھا کہ مشائخیّت کے اسباب کی قید میں بند ہوکر بیٹھ جانا بچوں کا کام ہے۔ فنائے مطلق اختیار کرنی چاہیے یہ دیکھ کر شیخ فتح اللہ ح یران ہوئے اور اُن سے کوئی جواب نہ بن آیا۔
شیخ زین الدین اودھی کی خدمت میں ورود
اسی طرح آپ ایک دن حضرت شیخ زین الدین اودھی کے ہاں چلے گ ئے۔ لیکن دربان نے اندر نہ جانے دیا۔ دوسرے دن آپ نے چند پتھر ایک خوانچہ میں جمع کر لیے اور سر پر اٹھاکر شیخ زین الدین کے پاس لے گئے لیکن تحائف سمجھ کر دربان نے نہ روکا۔ اندر جاکر آپ نے پتھروں سے بھرا ہوا خوانچہ حضرت شیخ کے سامنے رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر وہ حیران ہوئے تو آپ نے فرمایا جب تک یہ نذرانہ ساتھ نہ لاتا دربان مجھےاندر نہیں آنے دیتا تھا۔ اس سے شیخ نادم ہوئے۔ اسکے بعد آپ نے شیخ زین الدین سے دس ہزار روپے قرض حسنہ کے طور پر طلب کیےلیکن انہوں نے جواب دیا کہ ہم فقیر آدمی ہیں ہمارے پاس کچھ نہیں ہے یہ سنکر آپکی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ میرے لیے کچھ نہیں ہے تو تجھ سے وصول کیا جائیگا چنانچہ چند روز کے بعد شیخ زین الدینکا انتقال ہوگیا اور قاضی رضی حام اودھ نے شیخ کے بھتیجوں کو قید کر کے سارا مال واسباب ضبط کرلیا۔
قاضی کے گستاخ لڑکے نے سزا پائی
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت شیخ احمد عبد الحق قدس سرہٗ حالتِ جلال میں بیٹھے تھے کہ قاضی رضی کا لڑکا قاضی بڈھ جوانی کی مستی اور دنیا کے غرور میں سرشار ہوکر آیا اور سوال کیا کہ سنا ہے آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا دیدار کراتے ہیں۔ آپ نے پوچھا کہ دیدار کروگے؟ اس نے کہا ہاں کرونگا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک بو قلمون (گرگھٹ) سامنے بیٹھا رنگ بدل رہا ہے۔ آپ نے فرمایا دیکھو۔ لیکن وہ بد قسمت آپکا اشارہ نہ سمجھ سکا۔ اور کہنےلگا کہ دیکھو شیخ نے بو قلمون کا نام حق رکھ دیا ہے۔ یہ کیسا درویش ہے۔ اسکے بعد اس نے حضرت شیخ کے گلے میں کپڑاڈال کر گھسیٹنا شروع کیا۔ لیکن حضرت اقدس اور مریدین حق حق حق کہتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد قاضی رضی الدین حضرت شیخ کی خدمت میں اپنے بیٹے کا جنازہل ے آیا اور عرض کیا یہی میری ایک آنکھ ہے اسے زندہ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا اب تیر نشانہ پر بیٹھ چکا ہے اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ غرضیکہ اس قسم کی کرامات سے آپکے گرد لوگوں کو ہجوم ہوگیا۔ لیکن حضرت اقدس مال واسباب مشیخیّت اور کثرت خلق سے متنفر تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ’’الشہرت آفتٌ ترضھا کل والحمولۃ راحۃ لا یرضا ھا احد (شہرت ایک آفت ہے جسے لوگ پسند کرتے ہیں اور گمنامی ایک راحت ہے جسے کوئی پسند نہیں کرتا) اے احمد ایسی جگہ پر جاکر رہو جہاں تیرا کوئی نام لیوانہ ہو۔
ردولی میں واپسی
چنانچہ آپ شہر اودھ سے ترک سکونت کر کے بمقام ردولی تشریف لے گئے۔ جو آپ کے آبا واجداد کا مسکن تھا۔ وہاں جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ اہل خانہ میں سےکوئی شخص زندہ نہیں ہے سوائے دائی حیات کے جس نے ایام طفولیت میں حضرت اقدس کو اپنا دودھ پلایا تھا۔ وہ بھی سو سالہ ضعیفہ ہوچکی تھی۔ اور بینائی بھی ختم ہوچکی ہے۔ حضرت اقدس نے کمال حق شناسی کی وجہ سے جاتے ہی اپنا سر اسکے قدموں میں رکھ دیا اور فرمایا کہ میں آپکا بیٹا احمد ہوں اور صرف آپکی خدمت گیری کیلئے یہاں آیا ہوں۔ دائی حیات حیران ہوئی کہ پچا س سال کے بعد احمد کہاں سے آگیا ہے۔ چنانچہ شفقت معنوی کی وجہ سے انکی چھاتی سے دودھ بہنے لگا۔ انہوں نے حضرت شیخ کو گلے سے لگایا اور گریہ طاری ہوگیا۔ حضرت شیخ پر بھی گریہ طاری ہوا اور تسلی دیکر بعد میں انکی خدمت اور رضا جوئی پر کمر بستہ ہوگئے۔
اک دن دائی حیات نے کہا کہ ایک بات ہے اگر اجازت ہو تو کہوں۔ آپ نے فرمایا اچھا۔ انہوں نےکہا آپ میری خاطر کسی سے شادی کرلیں۔ آپ نے فرمایا میرے اندر اسکی استعداد نہیں ہے۔ مجھ میں تین عیب ہیں۔ ایک یہ کہ فقیر ہوں، دوسرے دیوانہ ہوں، تیسرے بوڑھا ہوں۔ پھر یہ کہ ایک درویش کیلئے یہ مناسب نہیں کہ ولایت درویشی میں کسی اور چیز کا دخل ہو۔ اس وجہ سے کہ یہ ولایت حضرت شیخ صلاح مرحوم سے اب تک دور نہیں ہوئی۔ اگر شادی کرلوں تو کہاں رہوں۔ غرضیکہ آپ نے اس قسم کے کئی عذر پیش کیے۔ لیکن دائی حیات نے ایک نہ سُنی۔ چنانچہ مجبور ہوکر آپحضرت شیخ صلاح سہروردی کے مزار پر پہنچے اور کمال نیاز مندی سے بشارت کے طلبگار ہوئے۔ آپکی قبر سے آواز آئی کہ حوض میں جاکر دیکھو۔ جب آپ حوض مذکور کے اندر داخل ہوئے تو وہاں سے ایک چہار پائی کی رسی اور ایک گھڑا بر آمد ہوا۔ اس سے آپ کو یہ اشارہ ملا کہ رسی جائے نماز اور گھڑا برائے طہارت ہے۔ چنانچہ آپکو وہاں رہنے کی اجازت مل گئی یعنی وہاں کی ولایت آپ کو مل گئی۔ اس بشارت سے دائی حیات کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے حضرت اقدس کے رشتہ داروں میں آپکا عقد نکاح کرادیا۔ اس منکوحہ سے حضرت اقدس کے ہاں تین بیٹے اور چار بیٹیاں وجود میں آئیں اور جو بیٹا یدا ہوتا تھا۔ اسکی زبان پر حق حق حق جاری ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر آپ فرماتے تھے کہ احمد (یعنی خود حضرت اقدس نے) شہرت اختیار نہیں کی یہ بچہ چاہتا ہے کہ دنیا میں میری شہرت ہو اس لیے زندہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔ اسکےچند روز بعد وہ بچہ مرجاتا اور حضرت اقدس اپنے ہاتھ سے اُسےدفن کردیتے تھے۔ حتیٰ کہ تینوں بیٹےاسی طرح چل بسے ایک دن رشتہ داروں کا ایک بچہ آپکے گھر آیا۔ اسے دیکھ کر اہل خانہ کے دل میں اپ نے بیٹوں کی یاد تازہ ہوگئی اور دل سے ایک درد بھری آہ نکل گئی۔ اس وقت حضرت اقدس اوپر کی منزل پر مشغول بیٹھے تھے۔ روشن ضمیری سے اہلیہ محترمہ کی حالت کا علم ہوا تو نیچے آکر دریافت فرمایا کہ کیا حال ہے۔ انہوں نے نہایت ادب سے غرض کیا میرے دل کی بات آپ سے مخفی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں ایک بیٹا آنے والا ہے لیکن ابھی خام ہے۔ اس وقت مجھے ایک سفر درپیش ہے۔ شیخ بدر الدین ساکن قصبہ راپری جو حضرت شیخ صدر الدین حکیم چشتی کے خلیفہ ہیں اس دنیا سے رحلت کر گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی نعمت میرے حوالہ کی ہے اور اپنے بیٹے شیخ نصیر الدین شیر کی تربیت کا کام بھی میرے ذمہ لگایا ہے تاکہ وہ نعمت اسکے حوالہ کردوں۔اس اثنا میں اپنے آنے والے بیٹے کو بھی پختہ کرلونگا تاکہ تیرے حوالہ ک یا جائے بشرط یہ کہ تم اس بات پر رضا مند ہو۔
اس سفر کے بعد جب حضرت اقدس ردولی واپس تشریف لائے تو جو وعدہ فرمایا تھا پورا کیا اور کچھ عرصہ کے بعد شیخ عارف وجود میں آئے لیکن پیدائش کے وقت لفظ حق حق زبان پر نہ لائے۔ اور عام بچوں طرح روتے ہوئے پیدا ہوئے۔ یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ یہ بچہ زندہ رہنے اور تربیّت حاصل کرنے کے قابل ہے۔ شیخ نصیر الدین کی تربیّت کا مفصل ذکر بعد میں آرہا ہے۔ غرضیکہ اس وقت کے بعد حضرت اقدس نے ردولی شریف میں قیام کرلیا۔ خدا تعالیٰ آپکی اولاد کو تاقیام قیامت آباواجداد کی مسند پر قائم رکھے۔
حجرۂ جلالی وجمالی
حضرت اقدس کی مشغول کیلئے دو حجرے تھے ایک جلالی، دوسراجمالی۔ جلای حجرہ مکان کی چھت پر تھا اور جمالی تہ خانہ میں تھا۔ جب آپ پر مظہر جلال کی تجلی ہوتی تھی اور غیر جوش ماری تھی تو آپ حجرہ جلالی میں تشریف لے جاتے تھے جس سے خویش واقارب اور مریدین اور عامۃ الناس میں خوف واضطراب پیدا ہوجاتا تھا۔ اور جس پر غصہ آتا تھا فوراً ہلاک ہوجاتا تھا۔ سبحان اللہ! عجیب کیفیت ہوتی تھی۔ جس پر نگاہِ لطف ہوجاتی فوراً بلند درجات پر پہنچ جاتا اور مراد پالیتا۔ اور جس پر نگاہِ قہر گرتی آناً فاناً ختم ہوجاتا تھا۔ اس قدر قاطع اور زود اثر توجہ بہت کم دیکھنے میں آئی ہے جونہی آپ نے ردولی شریف میں قیام فرمایا آپ وہاں کے صاحب ولایت ہوگئے اسکے بعد کسی درویش کو وہاں آنے کی مجال نہ تھی۔ اگر کوئی شخص نادانستہ طور پر وہاں جا نکلتا تو اسکی حالت سلب ہوجاتی تھی۔ ایک دفوہ شیخ سعداللہ کیسہ دارکنتوری نے معود اولیاء کو خلافت دیکر قصبہ رسولی کی جانت روانہ کیا اور خبر دار کیا کہ راستے میں شیخ احمد عبدالحق رہتے ہیں۔ اُن سے بچ کر جانا۔ انہوں نے اپنے پیر کی نصیحت پر عمل نہ کیا اور بےادب ہوکر قصبہ ردولی میں وارد ہوئے۔ اس سے حضرت شیخ احمد عبد الحق قدس سرہٗ کی غیرت کو جوش آیا۔ حجرہ سے باہر آکر شیخ مسعود پر ایک تیز نگاہ ڈالی جس سے انکی حالت سلب ہوگئی۔ اور عام لوگوں سے بھی حالت بدتر ہوگئی۔ ناچار عجز و نیاز حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انکی حالت پر رحم فرمایا اور اپنی دستار مبارک انکے سر پر رکھ کر نظر شفقت سے دیکھا جس سے کھوئی ہوئی دولت انکو واپس مل گئی۔ اور وہاں سے روانہ ہوکر قصبہ رسولی میں سکونت پذیر ہوگئے۔ چنانچہ آج تک انکی اولاد وہاں موجود ہے اور آپکا مزار بھی زیارت گاہِ خلق ہے۔
اسی طرح حضرت شیخ اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ کے خلیفہ حضرت شیخ شمس الدین فریادرس اکثر قصبہ سبودھی جاتے ہوئے ردولی سے گذرتے تھے۔ لیکن جب حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ ردولی میں قیام پذیر ہوئے تو حضرت میر اشرف جہانگیر قدس سرہٗ نے انکو منع کردیا خبردار ردولی کی طرف ہر گز نہ جانا۔ چنانچہ وہ ردولی سے دائیں بائیں ہوکر گذر جاتے تھے۔ شہر کے اندر نہیں جاتے تھے۔ میر سید اشرف جہانگیر قدس سرہٗ کے ایک اور خلیفہ شیخ شماء الدین قصبہ ردولی میں رہتے تھے اور آپکا مزار بھی وہیں ہے۔
رسول اللہ صلعم کی زیارت
ایک دفعہ شیخ سماء الدین کے ایک مرید نے حضرت شیخ احمد عبد الحق کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا جو حالت کہ میرے پیر کی خانقاہ میں ہے اس بنا پر میں آپکے سلسلہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ آ پ نےفرمایا کہ ٹوپی بدل ڈالو۔ اس سے شیخ سماء الدین کے مریدوں نے اس آدمی کو بہت پیٹا کہ تم مرتد ہوگئے ہو۔ بہر حال وہ حضرت اقدس کے سلسلہ میں آگیا۔ کچھ عرصہکے اس نے عرض کیا کہ حضور مجھے حضرت رسالت مآب ﷺ کی زیارت کا شوق دامنگیر ہے اگر اجازت ہو تو میں عرب شریف جاکر زیارت کروں۔ آپ نےفرمایا ہم اکٹھے چلینگے۔ ایک دن جب اس نے بہت اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ آج آخر شب میں آؤنگا اور تجھے ساتھ لےلونگا۔ اس آدمی کا گھر قصبہ اسومو تھا۔حضرت اقدس نے آخر شب وہاں سے قریب ایک جنگل میں جاکر بآواز بلند حق حق حق کہنا شروع کیا۔ آواز سنکر وہ باہر نکل آیا اور حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر قدس سرہٗ تھے دوسرے سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا اور تیسرے حضرت شیخ احمد عبد الحق۔ صبح کے وقت جب اجولیہ پہنچے تو جمال جہاں آرائے حضرت رسالت پناہﷺ ظاہر ہوا۔ حضرت اقدس نے اسکا ہاتھ پکڑا کہ انکو آنحضرتﷺ کےقدموں میں ڈال دیا۔ اور عرض کیا کہ اس بیچارے کو قدم بوسی کی آرزو تھی لیکن پہنچنا مشکل تھا۔ اسکے بعد اس نے ارد گرد دیکھا تو کچھ نہیں تھا۔ حیران ہوکر حضرت اقدس کی خانقاہ میں گیا۔ حضرت شیخ نےدیکھتےہی پوچھاکہ حضرت رسول خداﷺ کی زیارت کیسے ہوئی تو اس نے سرزمین پر رکھ کر سارا حال بیان کیا۔
شیخ زکریا گستاخی اور وفات
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ ردولی کی جامع مسجد میں جمعہ کے دن حضرت شیخ احمد عبدالحق اور حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ کے خلیفہ شیخ زکریا بن مخدوم شیخ سلیمان اکھٹے بیٹھے تھے۔ حضرت اقدس کی عادت تھی کہ اکثر اوقات آنکھیں بند کر کے مشاہدۂ جمال حق میں مستغرق ہوجاتے تھے۔ اس وقت زکریا بآواز بلند تلاوت قرآن کر رہے تھے۔ حضرت اقدس نے سر اٹھاکر فرمایا کہ آہستہ پڑھیں۔ اور پھر مراقبہ میں چلے گئے شیخ زکریا نے خیالکیا کہ شاید آپ پر نیند کا غلبہ ہورہا ہے۔ ایک دو مرتبہ پوچھا کیا آپکو نیند آرہی ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے آپکے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر ہوشیار کرنا چاہا۔ اس سے آپکو غصہ آیا اور فرمایا یہاں کون سو سکتا ہے۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہوکر جب گھر کو روانہ ہوئے تو شیخ زکریا کےپاؤں لڑکھڑانے لگے اور خادم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گھر تک پہنچے۔ اسکے بعد ایسے بیمار ہوئے کہ دوسرا جمعہ نصیب نہ ہوا اور پہلے فوت ہوگئے۔
ایک شخص کی بے ادبی اور سزائے موت
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن حاکم ردولی کے م لازم حضرت اقدس کی خانقاہ سے ایک چار پائی زبردستی اٹھاکر لےگئے۔ ان دنوں حضرت میر سید قطب مجذوب جو واصلان حقِ میں سے تھے بھی ردولی شریف میں رہتے تھے اور اکثر اوقات شراب نوشی میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے شراب کاپیالہ بھر کر میاں خضر کو دیا کہ برادرم حضرت شیخ احمد عبدالحق کے پاس لےجاؤ اور کہو کہ بزم (یعنی لگاؤں)۔ میاں حضرت پیالہ ہاتھ میں لیے حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن خوف کے مارے بول نہیں سکتا تھا حضرت اقدس نے صفائے باطن سے م علوم کرلیا اور فرمایا کہ میاں خضر آگے آؤ۔ اس نے آگے بڑھ کر پیالہ آپکو پیش کیا۔ آپ نے لے کر پی لیا۔ اور فرمایا کہ جاؤ ضرورت نہیں ہے۔ اسکے ایک دو گھنٹے بعد ردولی میں شور برپا ہوا اور اس ظالم کا جنازہ نکالا گیا۔
حاکم ردولی کی گستاخی اور سزا
ایک دفعہ ملک ذکونےجو حاکم ردولی تھا کسی وجہ سے حضرت اقدس کے داماد شیخ فرید کو قید کردیا۔ حضرت اقدس اسکی خاطر حاکم کے پاس تشریف لے گئے۔ لیکن اس بدبخت نے کوئی توجہ نہ کی بلکہ زیادہ آزاد پہنچانا شروع کیا۔ حضرت اقدس نے خانقاہ میں واپس جاکر حجرۂ ج لالی میں قیام فرمایا اور جوش غیرت کے ساتھ مشغول ہوگئے۔ آپ ساری رات وہاں رہے۔ صبح کے وقت شیخ بختیا جیسے مریدن نے عرض کیا کہ آپ حجرہ کا دروازہ کیوں نہیں کھولتے۔ آپ نے فرمایا آج ماتم ہے۔ دوپہر کے وقت آپ نے دروازہ کھولا اور اپنے ایک محرم راز شیخ برہان سے فرمایا کہ جاؤ دیکھو اس حرام خور کا جنازہ آرہا ہے۔ اس نے باہر جاکر دیکھا تو ملک ذکو کا جنازہ آرہا تھا۔ حضرت اقدس نے بھی باہرآکر اسکی نماز جنازہ پڑھی۔ اس قسم کی کرامات کی وجہ سےلوگ آپکو شیخ قتال کہا کرتے تھے۔
حملہ آور کی تباہی
ایک دن آپ حجرۂ میں مشغول تھے کہ ناگاہ شور برپا ہوا کہ موضع نالہکا زمیندار وہجاگرنامی ایک لشکر لیکر ردولی پر حملہ آور ہورہا ہے حضرت اقدس نے عصا ہاتھ میں لیکر حجرہ سے باہر تشریف لائے۔ شہرکےشمال کی جانب ایک بڑا باغ تھا آپ نے ایک درخت پر عصا مارنا شروع کیا۔ اور فرمایا کہ ہم نے دہجا کا سرکاٹ دیا ہے۔ اب وہ ردولی کی طرف نہیں آسکتا۔ اس وقت برکھ کے حکمران رائے کہر لز سے اسکی مڈبھیڑ ہوئی جس میں وہ مارا گیا۔ رائےکہر نسہ نے اسکا سر کاٹ کر ردولی بھیج دیا اور جسم جلادیا۔ اُسی روز سے گرد و نواح کے زمینداروں نے آج تک جب کبھی ردولی پر حملہ کیا ہے ہمیشہ شکست کھائی ہے۔
ایک دن آپ جنگل کی سیر کرتے ہوئے موضع بہر ہلہ پہنچ گئے۔
سلطان ابراہیم شرقی کی نیاز مندی اور آپ کا استغنیٰ
اس زمانے میں بہر کافروں سے بھرا پڑا تھا۔ حضرت اقدس نے وہاں جاکر نماز کی اذان دی تو کفار جمع ہوگئے اور آپکو تکلیف دینا چاہا لیکن اس بات پر قادر نہ ہوسکے اس وقت بہر ہلہ کا زمیندار فوت ہوچکا تھا اور اسکی جگہ اسکی بیوی دیدی رانی حکومت کررہی تھی۔ وہ بڑی عقلمند عورت تھی اس نے حضرت اقدس کی خدمت میں جاکر نیاز مندی سے عرض کیاکہ حضور نے یہاں نماز کی اذان دی ہے۔ مجھے اور میرے بیٹوں کیلئے جو حکم ہو ہم حاضر ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نےتجھے اور تیرے بیٹوں کو موضع گواہ اور تہلواہ دیا ہے۔ جب تک وہاں رہینگے کہ قید نہ ہونگے۔ چند ایام کے بعد سلطان ابراہیم اشرقی نے دریا خان بدخشی کو موضع بہرہلہ میں بھیج کر وہاں اسلام کے احکام جاری کیے اور دیدی رانی وہاں سے نکل کر م وضع مذکور میں جابسے اور آج تک انکو وہاں کسی نے قید نہیں کیا۔ ایک دفعہ جب سلطان ابراہیم شرقی کسی تقریب کی کاطف پر گزر سوتی گیا اور قاضی رضی الدین حاکم اودھ نے انکے سامنے حضرت اقدس کے کمالات کا ذکر کیا تو بادشاہ نے کچھ نقدی، پرگنہ ردولی کے چار مواضعات اور گردو نواح میں ایک ہزار بیگھ زمین کا پروانہ لکھ کر حضرت اقدس کےلنگر کیلئے قاضی مذکور کے ذریعے ارسال کیا۔ اور نیاز مندانہ سلام کہلا بھیجا۔ لیکن آپ نے کوئی چیز قبول نہ کی اور قاضی رضی سے فرمایا کہ شاید سلطان ابراہیم رزاقی کرنا چاہتا ہے۔ رزاق مطلق حق تعالیٰ ہے۔
ذوقِ سماع
آپ کا ذوق سماع بڑھا ہوا تھا۔ ایک حالت سماع میں آپ نے خادمہ سے فرمایاکہ گھر میں جو کچھ ہے لاکر قوالوں کو دیدو۔ اس نے عرض کیا گھر میں کوئی چیز نہیں ہے۔ چنانچہ آپ نےوہی خادمہ قوالوں کو بخش دی۔
آپکی دیگ میں برکت
ایک دن غلبۃ حال میں آپ نے شعر پڑھا؎
اگر گیتی سراسر بادگیرد |
|
چراغ مقبلاں ہر گز نہ میرد |
(اگر ساری کائنات ختم ہوجائے تب بھی مقربان بارگاہ کا چراغ روشن رہیگا۔ یا اگر ساری دنیا میں طوفان آجائے تب بھی مقربان بارگاہ کا چراغ روشن رہیگا)۔ شعر پڑھ کر آپ نے فرمایا کہ جس طرح گازرون میں خواجہ ابو اسحاق گازرونی کا چراغ جل رہاہے اور قیامت تک جلتا رہیگا۔ اسی طرح میں بھی کھانا تیار کرونگا اور لوگ ہمیشہ کھاتے رہینگے چنانچہ آپنے اس علاقے میں جہاں لوگ کثرت سے رہتے تھے ایک دیگ پکوائی اور شارع عام میں رکھ دی جو شخص آتا تھا خوب سیر ہوکر کھاتا تھا لیکن دیگ میں کوئی کمی نہیں آتی تھی۔ تین دن کے بعد آپ نے اپنے آپ سےکہا کہ اے احمد جہان میں شور برپا ہوجائیگا کہ احمد ایسا شیخ ہے والشھراہ آفۃ ترضھا کل والخمولۃ واحۃ لا یرضھا احدٌط (شہرت ایسی آفت ہےکہ ہر شخص اسے پسند کرتا ہے اور گمنامی ایسی راحت ہےکہ اُسے کوئی نہیں پسند کرتا)۔ رزاق مطلق حق تعالیٰ عزوجلہے اور وہی اپنے بندوں کا پالنے والا ہے تم درمیان سےہٹ جاؤ۔ اور اپنے آپکو الگ کرلو نام ونشان کو ترک کر کے بے نشانی اختیار کرو۔ چنانچہ فوراً دیگ وہاں سےاٹھوالی اور زمین پر مارکر اُسے توڑدیا۔
شیخ منصور کے متعلق آپ کی رائے
آپ فرماتے ہیں کہ منصور بچہ تھا۔ اپنے آپ سے باہر ہوگیا اور راز فاش کردیا۔ بعض مردانِ خدا ایسےہیں کہ دریا نوش کرجاتے ہیں اور آواز نہیں نکالتے۔
شیخ نظامی کےمتعلق آپکی رائے
ایک دن فرمایا کہ نظامی بچہ تھا اس لیے یہ شعر کہہ دیا صحبت نیکاں زجہان دور گشت خوان غسل خانہ زنبور گشت (نیکوں کے وجود سے دنیا خالی ہوگئی ہے اور شہد کا چھتہ بھڑوں کا گھر بن گیا ہے)
حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی صحبت جس طرح صحابہ کرام کو حاصل تھی اب بھی اہل اور محبان ذوالجلال کو حاصل ہے۔
حضرت اقدس کمال بصیرت کی بنا پر تمام بزرگان دین کے مقامات کا تعین فرماتے تھے کہ فلاں درویش اس مقام تک پہنچ گیا تھا اور فلاں اس مقام تک، نیز آپ ہر بزرگ کے مقامات و منازل تفصیلاً بیان فرمایا کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے آپکو اس قدر وسیع تصرف اور مقام بلند عطا فرمایا تھا کہ تحریر سے باہر ہے۔ آپ اکثر اوقات فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنی جان کے آپ مالک ہیں اور ملک الموت ہماری اجازت کے بغیر ہماری جان قبض نہیں کر سکے گا۔ موت میرے اختیار میں ہے اگر چاہوں تو مرجاؤں اور چاہوں تو ابدالاً باد تک اسی حالت میں زندہ رہ جاؤں۔ یا اپنی مرضی سے چپکےچپکے چلا جاؤں اور کسی کو خبر تک نہ ہو۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
در کوئے تو عاشقاں چناں جاں دہند |
|
کا انجا ملک الموت نگنجد ہر گز |
(اے دوست تیرےکوچے میں عاشق اس طرح جان دیتے ہیں کہ ملک الموت کو بھی خبر نہیں ہوتی)
وفات کے بعد زندہ ہوگئے
مراۃ الاسرار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس اپنے چند مریدن کے ساتھ سفر میں تھے۔ جنگل میں آپ نےایک درخت دیکھا جو بہت ہی سر سبز او ر شاداب نظر آرہا تھا اور اسکے نیچے صاف و شفاف صحن تھا۔ آپکو وہ جگہ پسند آئی اور وہیں قیام فرماکر ذات حق میں مشغول ہوگئے اور ایسے مستغرق ہوئے کہ روح مبارک قفس عنصری سے جدا ہوکر ملک بقا میں پہنچ گئی۔ یہ دیکھ کر مریدین بے حد پریشان ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ لوگ خیال کریں گےکہ سفر میں آپکو فتوحات بہت ملی ہونگی مریدین نے مال ودولت کی خاطر انکو قتل کردیاہے حضرت اقدس کو انکے اضطراب کا علم ہوگیا اور اپنی اصلی حالت میں واپس آکر فرمایا کہ مجھے یہ مقام پسند آیا تھا اس لیے یہاں رہنا چاہا لیکن جب تم لوگوں نے اس قدر بے طاقتی کا مظاہہ کیا تو چند یوم مزید اس دنای میں رہ جائینگے۔ چنانچہ وہاں سے روانہ ہوکر آپ اپنے گھر پہنچ گئے۔
اپنی مرضی سے مرنا، مرضی سے جینا
یاد رہے کہ حق تعالیٰ نے آپ کو ایسا قوی تصرف اور قرب تام عطا فرمایا تھا کہ آپ ہر وقت مقام قرب وعزت میں مستٖرق رہتے تھے۔ ذاتِ احدیت میں آپکا مقام اس قدر قوی تھا کہ اگر کوئی آپ کا خادم چاہتا کہ اس دنیا سے چلا جائے تو آپ سے اجازت طلب کرتا تھا اگر اجازت مل جاتی تو رحلت کرجاتا اور نہ اُسے زندہ رہناپڑتا۔ چنانچہ قطب العالم حضرت شیخ عبد القدوس حنفی قدس سرہٗ انوار العیون میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کا ایک خاص مرید تھا جسکا نام مخلس ٹھا۔ حضرت شیخ کے حسن تربیت سے وہ مرتبہ تکمیل تک پنچ چکے تھے اور عالم معنوی ان پر اس زور سے متجلی ہوچکا تھا کہ اس جہان کشیف میں رہنا انکے لیے دو بھر ہوگیا۔ تھا۔ ایک دن انہوں نے حضرت اقدس سے عرض کیا کہ میرا یہ جامعہ (جسم) کہنہ ہوچکا ہے اگر اجازت ہو تو اس جہان فانی سے چلا جاؤں۔ آپنے کمال مہربانی سے فرمایا کہ چند یوم صبر کرو ہم تمہارے ساتھ چلینگے۔ مخلصکو معلوم ہوگیا کہ حضرت اقدس اجازت نہیں دینگے۔ چونکہ انکا دل دنیا سے بہت متنفر ہوچکا تھا اپنے لرکے بہرام سے کہا کہ میں اس جہان سے رخصت ہونا چاہتا ہوں جب میں مرجاؤں تو فوراً میری تجہیز وتکفین کر کے دفن کردینا اور پھر حضرت شیخ کو اطلاع دیا اس وصیت کو ہرگز نہ بھولنا۔ بہرام حیران تھا کہ میرا باپ کیا کہہ رہا ہے۔ اسکے بعد مخلص نے چادر منہ پر ڈالی اور جان حق تعالیٰ کو سونپ دی۔ اس سے بہرام بہت پریشان ہوا اور حضرت اقدس کی خدمت میں جاکر ماجرا بیان کردیا۔ آپنے سر مراقبہ سے اٹھایا اور فرمایاکہ مخلص نے ہماری مرضی کے خلاف عمل کیا۔ آپ نے چالیس پچاس بار مخصل مخلص کہا ہوگا وہ زندہ ہوکر اٹھ بیٹھے اور آپ کے قدموں میں گِر گئے۔ اسکے بعد اپنے دونوں ہاتھ سینہ پر مل رہے تھے اور ادب کی وجہ سے خاموش کھڑے تھے۔ حضرت اقدس نے انکو نئی جان بخشی اور خانقاہ میں واپس لے آئے۔ اسکے بعد مخلص اپنے گھر گئے اور بیٹے سے کہنےلگے کہ تم نےمیری وصیت پر عمل نہیںکیا اور دفن سے پہلے حضرت شیخ کو اطلاع کردی۔ اب تم حضرت اقدس کی خدمت میں جاؤ اور نہایت عجز وانکسار سے عرض کرو کہ مجھے اب اس دنیا میں رہنے کی طاقت نہیں ہے۔ بہرام نے جاکر معروضہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے والد سے کہو کہ چند روز اور صبر کرلو ہم دونوں اکٹھے جائینگے۔ نیز فرمایا تمہارا، باپ جب بھی اس دنیا سےکوچ کرنا چاہے مجھے اطلاع کردے میں وہاں پہنچ جاؤنگا۔ بہرام نے باپ کے پاس جاکر حضرت اقدس کا پیغام دیا انہوں نے کہا کہ میرے پیر دستگیر کی خدمت میں جاکر عرض کرو کہ اب آنے اور جانے کا وقت نہیں رہا اب تو صرف جانے کا کام ہے۔ جب بہرام نے حضرت اقدس کی خدمت میں یہ معروضہ پیش کیا تو آپ نے فرمایا کہ اپنے باپ سے کہو کہ اگر کوئی ضرورت ہو تو پیش کرو مخلص نے جو پروردۂ اخلاص تھے جواب دیا کہ اب بندہ کو اپنے پیر دستگیر کی مہربانی سے کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ سوائے اس بات کے کہ اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں حضرت اقدس نے کمال مہربانی سے اجازت دیدی اور فرمایا کہ اس سے کہوکہ اگر تمہاری مرضی یہیہے تو جاسکتے ہو۔ بہرام سے یہ مژدۂ جانفرا سنتے ہی انہوں نے اَذَا تم الفقر کی چادر منہ پر ڈالی اور جاں بحق ہوگئے، ان اولیاء اللہ لا یموتون بل ینقلون مندارٍ الی دار (یقناً اولیاء اللہ مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک مکان سے دوسرےمکان منتقل ہوجاتے ہیں) کا اشارہ اسی کی طرف ہے۔ فھم من فھم
مرید کو دفن کر کے تربیت دینا
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیخ مخلص کے دو لڑکے بہرام اور شمس الدین جو حضرت شیخ کے تربیت یافتہ تھے۔ ایک مرتبہ سیر کرتے ہوئے قصبہ راپری میں پہنچ گئے اور شیخ نصیر الدین شیخ بدر الدین چشتی کے ہاں جاکر ٹھرے۔ شیخ نصیر الدین کے چھوٹے بھائی شیک قدوۃ الدین عرصہ سے حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ سے بیع ہونےکے خواہشمند تھے چونکہ بہرام اور شمس الدین حضرت اقدس کے مرید تھے شیخ قدوۃ الدین نے اُن سے اپنے دل کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے طلب صادق دیکھ کر ازاراہِ کرکرم شیخ قدوۃ الدین کو ایک چیز بتائی جس سے انکا حال دگر گوں ہوگیا اور ترک و تجرید اختیار کر کے ردولی شریف کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب حضرت اقدس کی خدمت میں ھاضر ہوئے تو چونکہ آپ حکیم حاذق تھے آپ نے انکی طرف التفات نہ کیا بلکہ زدوکوب کر کے خانقاہ سے باہر نکال دیا۔ آپکا دستور تھا کہ جب تک کوئی شخص ایک مدت تک پانی بھرنے اور ایندھن جمع کرنیکی خدمتجیسےمجاہادات نہیں کرتا اُسےمرید نہیں بناتے تھے۔ باجود یکہ کہ شیخ قدوۃ الدین نرم و نازک اور ملوک صورت تھے انہوںن ے سالہا سال یہ خدمت انجام دی اور سر نیاز آستانہ عالیہ سے نہ ہٹایا۔ ایک دن حضرت اقدس نے ان کے صدق و اخلاص کو دیکھ کر شرف بیعت سے مشرف فرمایا اور تربیت شروع کردی۔ یہاں تک کہ قبر کھود کر انکو دفن کردیا اور قبر پر بوریا ڈالکر خود اس بوریا پر بیٹھ گئے۔ پندرہ روز تک وہ قبر میں رہے اور حضرت اقدس قبر پر بیٹھے ولایت باطن سے تربیت اور پرورش فرماتے رہے پندرہ دن کے بعد قبر سے نکال کر انکو خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور وطن کی طرف رخصت کر کے فرمایا کہ ہم نے تجھے قصبۂ برناوہ دیا ہے۔ اس قسم کی تربیت و تکمیل کسی ولی اللہ کے حالات میں نہیں دیکھی گئی۔
ایک ہی نظر سے کام بن گیا
اس کتاب میں یہ بھی مرقوم ہے کہ ایک دفعہ آپ مراقبہ لی مع اللہ میں سرنگوں ہوکر بیٹھے تھے کہ میر سید کبیر بیعت کی نیّت سے دست بستہ ہوکر آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ چونکہ انکی بخشائش کا وقت پہنچ چکا تھا حضرت اقدس نے سر اٹھاکر سید کبیر پر ایک ایسی نظر کرم پڑتے ہی انکے اندر جذب الٰہی موجزن ہوا اور وہ واصلان ومجذوبان حق میں سے ہوگئے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
از اثرے یک جہتے گشتہ مست |
|
ہم بت وہم بتگرم وہم بت پرست |
(ایک ہی نظر سے بت، بت گر اور بت پرست سب مست ہوگئے)
آپکی اس نگاہ کرم کا یہ اثر ہوا کہ سید کبیر ہمیشہ بادۂ توحید میں مست رہے اور اسی حالت میں جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آپکا مزار حضرت شیخ روضۂ اقدس کے غرب میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
حضرت اقدس فرمایا کرتے تھےکہ جو شخص ہمارے دائرہ میں قدم رکھے گا آتش دوزخ اس پر حرام ہوجائیگی۔ صوفیاء کرام کےنزدیک دائرہ سے مراد انکا مشرب ہے اور آتش دوزخ سےمراد شرک وفراق ہے[1]۔ یعنی جو شخص حلقۂ ارادت میں داخل ہوتا ہے (مرید ہوتا ہے) شرک وفراق سے نجات پاتا ہے۔ اور یقیناً واصلان حق پر شرک وفراق حرا ہے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ شاید دائرہ سے مُراد حضرت اقدس کا جمال باکمال ہے اور آتش دوزخ سے مراد صفات بشریت۔ یعنی جو شخص ہمارے برزخ جمال[2] میں فانی ہوجاتا ہے بشریت کی دوزخ سے نجات پاتا ہے۔ بشر نہیں رہتا اور ملک یعنی فرشتہ بن جاتا بلکہ خدا جانتا ہے کیا بن جاتا ہے اس وقت اسکی زبان پہ یہ الفاظ صادق آتے ہیں اِنِّیْ لست کا حدکم[3](میں تم سے کسی کی مانند نہیں ہوں) یا ممکن ہے دائرہ سے مراد دائرہ حقی ہو[4]۔ اور آتش سے مراد مقیدات میں شہود مطلق ہو۔ یعنی جو شخص میرے خاص شغل دائرہ حق میں مشغول ہوگا تو تعینات میں مشاہدہ حق کرنے کی بجائے ُسے تنزیہہ اور ذات لاتعین (احدیت) میں فناحاصل ہوگی۔
حضرت اقدس یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ م یرے کبوتر کو کوئی باز شکار نہیں بناسکتا یعنی میرے مرید کو کسی شخص کا تصرف نہیں ہوسکتا اور نہ وہ اعتقاد سے گر سکتا ہے۔راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس عبارت کا مطلب یہے ہے میرے مرید پر نفس و شیطان کا غلبہ نہیں ہوسکتا۔ یا امکا مطلب یہ بھی ہوسکیتا ہے کہ میرے مرید کا لقمۃ تجلیات صوریہ مثالیہ نہیں بلکہ اسکی نظر اس سے بلند جاتی ہے اور مطمع نظر جمال لاتین ہے۔
حضرت اقدس یہ بھی فرمایا کرتے تھے چتر شاہی ہمارے بچطوں کے سر پر ہے۔ حضرات صوفیاء کے نزدیک مبتدی مرید کو طفل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور تاج شاہی سے مراد تاج کشف و کرامات ہے مطلب یہ کہ بعض درویش کشف و کرامات پر فخر کرتے ہیں اور یہ چیز ہمارے بچوں کو یعنی مبتدی مریدین کو حاصل ہے۔ جب مبتدی کا یہ حال ہے تو منتہیٰ کا کیا مقام ہوگا۔ اس وجہ سے کہ ہمارے مشائخ چشت نے درویشی کے پندرہ درجے مقرر فرمائے ہیں۔ ان میں سے پانچواں درجہ کشف و کرامات کا ہے جو عالم جبروت میں سالک پر رونما ہوتے ہیں اور اکثر لوگ اسی مقام پر رہ جاتے ہیں۔ لیکن جب عارف بارہ دیگر منازل طے کرتا ہے تو مرتبۂ لاہوت پر پہنچ جاتا ہے۔ اس مقام پر کشف وکرامات پر فخر کرتے ہیں اور یہ چیز ہمارے بچوں کو یعنی مبتدی مریدین کو حاصل ہے۔ جب مبتدی کا یہ حال ہے تو منتہیٰ کا کیا مقام ہوگا۔ اس وجہ سے کہ ہمارے مشائخ چشت نے درویشی کے جبروت میں سالک پر رونما ہوتے ہیں اور اکثر لوگ اسی مقام پر رہ جاتے ہیں۔ لیکن جب عارف بارہ دیگر منازل طے کرتا ہے تر مرتبۂ لاہور پر پہنچ جاتا ہے۔ اس مقام پر کشف و کرامات کی ذرا بھر خواہش نہیں رہتی۔ یہمقام تسلیم ورضا کا ہے جہاں سالک منتہیٰ فنائے احدیت میں غرق ہوجاتا ہے اور جس قدر اپنے آپ کو یا اپنی مراد کو طلب کرتا ہے نہیں پاسکتا۔ چنانچہ جس چیز میں تصرف کرتا ہے۔ ارادہ مسحق کے ساتھ کرتا ہے۔ نہ کہ اپنی خواہش سے۔ شعر؎
تو زخود گم شود وصال ایں است وبس
تو مباش اصلا کمال این است وبس
(تو اپنے آپ سے گم ہوجا وصال یہی ہے اور بس۔ تو بالکل ختم ہوجا کمال یہی ہے او ربس)منتہیٰ کا ذات مطلق میں یہ استغراق مشاہدۂ ھق الحق ہے۔ حضرت اقدس اور آپکے فرزندان و مریدین کامل کا استغرا دوام اسی مقام سے ہے جس سے اوپر کوئی مقامن ہیں[5]۔ وھو الان کماکان، لا تغیر فی ذاتہٖ وصفاتہٖ بحدوث الاکوان (وہ اب بھی اسی طرح ہے جس طرح پہلے تھا اور اسکی ذات وصفات میں اشیائے کائنات کےتغیر وتبدل سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی)بیت
چو قطرہ غرق دریا شد چہ باشد |
|
وجودِ قطرہ جز دریا نباشد |
(جب قطرہ دریا میں گم ہوگیا تو اسکا وجود کہاں ہے قطرہ کا وجود سوائے دریا کے کچھ نہیں)
راقم الحروف کا خیال ہے کہ حضرت اقدس کے کلام یعنی تاج شاہی ہماے بچوں کے سر پر ہے کا مطلب یہ ہے کہ طفل سےمراد وہ سالک ہے کہ جسکی استعداد، استعداد محمدی میں تبدیل نہیں ہوئی اور اس پر مرتبۂ لاہوت کا انکشاف اسکی اپنی استعداد کےمطابق ہوا ہے۔ یعنی بعض عارفین جواپنی استعداد کےمطابق کشفِ عالم لاہوت کرتے ہیں اس بات پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عارف کامل سمجھتے ہیں وہ درحقیقت ہمارے نزدیک طفلان ہیں اور مبتدی ہیں۔ ہمارے طریق میں منتہیٰ وہ ہے جسے عالم لاہوت کا انکشاف استعداد محمدی کے مطابق ہوتا ہے یعنی اسکی اپنی استعداد استعداد محمدی میں مبدل ہوجاتی ہے۔ ایسے عارف کے مقام کے کیا ٹھکانے اور کون اسکی ہمسری کر سکتا ہے۔ حقیقت میں صاحب تکمیل وارشاد یہی مردان خدا ہوتے ہیں اور آیہ کریمہ ‘‘یوم تبدل الارض ’’ ان ہی کا طغرائے امتیاز ہے اور کمالات نبویﷺ سے متصف ہونا اسی کا نام ہے[6]۔
غرضیکہ جب حضرت اقدس کی عمر ایک سو بیس ۱۲۰ سال ہوگئی تو آپ نے اہل خنہ سے کہا کہ کئی مرتبہ حق تعالیٰ کی طرف سے طلبی کے پیغامات موصول ہوئے ہیں کہ اے احمد کب تک اس خاکدان فانی میں رہوگے۔ عالم علوی کی طرف آؤ۔ لیکن میں نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ اس جہان میں میرا مال و متاع ایک بیٹا ہے جب تک اسکی شادی نہیں دیکھ لیتا اس دنیا سے نہیں جاؤنگا۔ اب مجھے شرم آرہی ہے اس لیے بیٹے عارف کی جلدی شادی کرو کیونکہ اب میرے لیے اسکے علاوہ دنیا میں رہنے کا کوئی کام نہیں چنانچہ چند ایام کےاندر انکی شادی ہوگئی اور تربیت باطنی کے بعد انکو خلافت عطا کر کےاپنا جانشین بنایا اور اس دارِ فانی سے رحلت فرماگئے۔ اسکی تفصیل حضرت شیخ عارف قدس سرہٗ کے حالات میں آرہی ہے۔
اصحاب قبور کا تصرف
صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کے تصرفات حیات و ممات میں یکساں ہیں۔ اگر چہ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اولیاء کرام کو قبر میں چالیس دن کے بعد تصرفات نہیں رہتے اس وجہ سے کہ مرتبۂ ولایت صوری سے ولایت معنوی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پس اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف آتے۔ لیکن مولانا جامی نے نفخات الانس میں لکھا ہے کہ چار اولیاء اللہ قبر میں بیٹھ کر زندوں کی طرح تصرف کر رہے ہیں۔ ایک حضرت شیخ محروف کرخی دوسرے حضرت شیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادری جیلانی، تیسرے شیخ عقیل بلخی ، چوتھے شیخ حیات ہرانی۔ نیز کتاب تکمیل میں بھی لکھا ہے کہ فلاں فلاں اولیاء وشہداء قبر میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ لطائف اشرفی میں فرماتے ہیں کہ جس طرح مذکورہ بالاولیائے کرام اپنے دائرۂ ولایت میں تصرف کرتے ہیں۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہٗ لطائف اشرفی میں فرماتے ہیں کہ جس طرح مذکورہ بالا اولیائے کرام اپنے دائرۂ ولایت میں تصرف کرتے ہیں۔ ملک ہندوستان میں حضرت خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین حسن سنجری اجمیری، حضرت خواجہ قطب الدین بختیاراوشی حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر اور حضرت سلطان المشائخ شیخ نظام الدین اولیاء قبروں میں بیٹھے تصرف کر رہے ہیں۔ نیز اس کاتب حروف نے بعض ثقات سے سُنا ہے کہ حضرت شیخ شرف الدین پانی پتی کا تصرف بھی حیات و ممات میں یکساں ہے چنانچہ آپ کی روحانیت ن ے مدت کے بعد شیخ عبدالقادر ساکن پانی پت کی تربیت فرمائی اور مرتبۂ تکمیل وارشاد تک پہنچایا ۔ جبکہ مشہور ہے اسی طرح قطب العالم حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری اور حضرت شیخ نظام الدین بلخی کا تصرف بھی حیات و ممات میں یکساں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ حکم عام ہے اور بعض اولیاء کا تصرف ہمیشہ یکساں ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ نے حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کی روحانیت سے آپکے وصال کے پچاس سال بعد فیضان حاصل کیا جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
ساحب مراۃ الاسرار نے بھی لھا ہے کہ اس فقیر نے تقریباً دو سو سال کے بعد حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ سے تربیت حاصل کی۔ یہاں تک کہ اب بھی جب کبھی کوئی ظاہری یا باطنی مشکل پیش آتی ہے تو عین بیداری میں حضرت شیخ کو اپنے حال پر متوجہ اور ممد پاتا ہوں۔ حضرت شیخ احمد عبدالحق کے کمالات اور کرامات اس قدر ہیں کہ دائرہ تحریر سے باہر ہیں۔
وصال
حضرت شیخ احمد عبدالھق قدس سرہٗ کا وصال پندرہ جمادی الثانی ۸۳۷ھ کو سلطان ابراہیم شرقی کے عہد میں ہوا۔ تاریخ وصال یہ ہے
حضرت مخدوم قطب ابدال غیب
عارف حق احمد عبدالحق بحق ۸۳۷
حضرت اقدس کا مزار مبارک قصبۂ مترکہ ردولی شریف میں حاجت وا و مشکل کشائے خلق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ،
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ شرک وفراق کو مترادف قرار دینے سے آپکا مطلب یہ ہے کہ جو شخص فراق میں ہے یعنی واصل باللہ نہیں وہ شرک یعنی کثرتِ وجود میں مبتلا ہے۔ جب کثرت سے نجات حاصل کر کے مقام وحدت میں پہنچا شرک سے نکل کر مقام وصل پر فائز ہوا۔
[2] ۔ برزخ جمال میں فانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مقام فنافی الشیخ کے مقام پر پہنچ جاتا ہے برزخ سے مراد حضرت شیخ کی روحانیت ہے۔
[3] ۔ یہ حدیث شریف ہے آنحضرتﷺ نے اصحاب کو صوم دوام سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر کام میں میرا اتباع نہ کرو تم میں سے کوئی میری طرح نہیں ہے۔
[4] ۔ دائرہ حقی ایک شغل کا نام ہے جو اکثر لطفیہ سر پر کیا جاتا ہے ایک نورانی گول دائرہ کی شکل میں۔
[5] ۔ ایک لحاظ سے فنائے احدیت آخری مقام ہے اور یہی حضرت بایزید بسطامیکا مشرب ہے لیکن حضرت جنید بغدادی کےن زدیک مقام فنا سے آگے مقام بقا باللہ ہے جسکا دوسرا نام عبدیت یا عبودیت ہے اور مقام دوئی یا کچرت میں واپس آنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عارفین فرماتے ہیں النہایت ورجوعٌ الی البدایت۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر فناذاتی کو بھی آخری مقام قرار دیا جائے تو یہ بھی اصلطاحاً صحیح ہے۔ حقیقتۃً نہیں کیونکہ حقیقت میں سالک کیلئے کوئی آخری مقامنہیں جب ذاتِ حق کی کوئی انتہا نہیں تو آخری منزل کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے لیکن جہاں تک ایکعارف کی رسائی ہوسکتی ہے عام اصطلاح میں وہ اسکی آخری منزل کہلاتی ہے حقیقت میں ذات کی نہ کوئی حد ہےنہ کوئی آخری منزل
نہ جنبش غایتے دارد نہ سعدی راسخن پایاں
بمیر دتشنہ مستسقی و در یا ہمچناں باقی
[6] ۔ مندرجہ بالا عبارت کا مطلب شاید یہ ہے کہ جب تک سالک کو مقام فنافی الرسول حاصل نہیں ہوتا اور جب تک وحدت یعنی حقیقت محمدی کے برزخ کے ذریعے ذات حق میں پرواز نہیں کرتا اور اپنی ذاتی استعداد پر اکتفا کرتا ہے اسے ذات لاتعین میں فنائے تامہ حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی مقام عبدیت میں رسوخ حاصل ہوتا ہے جو خاصہ مقامِ محمدی کا۔بالفاظ دیگر جس طرح بعض مشاغل تصور شیخ کے ساتھ یعنی برزخ شیخ یا شیخ کی روحانیت م یں فانی ہوکر کیےجاتے ہیں تو شیخ کی استعداد کو بروئے کارلاکر زیادہ ترقی کرتے ہیں اسی طرح برزخ رسول میں بیٹھ کر جو مراقبۂ ذات لا تعین کیا جاتا ہے وہاں بھی استعداد محمدی کی بدولت ذات بحت میں زیادہ سے زیادہ ترقی حاصل ہوتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
مور بیچارہ خواست کہ بکعبہ برسد
پنجہ درپائے کبوتر زدوبرسید
(چیونٹی نے چاہا کہ کعبۃ اللہ کی زیارت کرے اس نے کبوتر کا پاؤں پکڑا اور پہنچ گئی)
(اقتباس الانوار)