شیخ خضر عرف شیخ خان
شیخ خضر عرف شیخ خان (تذکرہ / سوانح)
روایت ہے کہ شیخ خضر عرف شیخ خان جو حضرت قطب العالم کے خلیفہ بزرگ تھے شروع میں جب طلب حق میں شاہ آباد آئے اورحضرت اقدس سے شرف بیعت حاصل کیا تو آپکے حکم سے ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہوگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان پر شغل باطن کا اس قدر غلبہ ہوا کہ انوار واسرار نمودار ہوئے اور سخت استغراق اور محویت کی حالت طاری ہوگئی۔ ایک دن فجر کی نماز کے بعد ان پر استغراق کا ایسا غلبہ ہوا کہ مجمع عام میں دیوار پر نظر جماکر عالم حیرت میں کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نےجس قدر آواز دی انہوں نےکچھ جواب نہ دیا کیونکہ ان کو اس جہان کی خبر تک نہ تھ ی۔ لیکن جب حضرت قطب العالم نے آواز دی تو تندی سے جاب دیا آپ بھی دوسرے لوگوںکی طرح ہوگئے ہیں حالانکہ شیخ خان نہایت حلیم الطبع تھے اور یہ ممکن نہ تھا کہہوشیاری کی ھالت میں وہ حضرت شیخ سے اس قسم کا خطاب کرتے۔ لیکن اس حالت میں وہ خود نہیں حق تعالیٰ انکی زبان بول رہا تھا۔ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو درخ کی طرف سے حق تعالیٰ کا خطاب ہوا یَا موسیٰ اِنّی انا اللہ رب العلمین (اے موسیٰ میں اللہ ہوں رب العلمین) اسکے بعد حضرت قطب العالم نے فرمایا اب میں تیرا کہا مانونگا۔ اُسی وقت ایک قوال حاضر آیا۔ ا س نے قوالی کی جس سے حضرت اقدس پر عجیب حالت طاری ہوگئی۔ اس سے شیخ خان کی حالت میں قدرے افاقہ ہوا اور مجلس میں دستہ بستہ ہوکر کھڑے ہوگئے۔ حضرت قطب العالم نے عین وجد کی حالت میں شیخ خان کا ہاتھ پکڑ کر دعا کی کہ خداوند اسے سلامت رکھ اور خلق کا دستگیر بنا۔ جب شیخ خان ہوشیاری کی حالت میں آئے تو کہنے لگے کہ مجھے یہ مشاہدہ ہوا کہ قطب العالم کے وجود سے ایک نور طالع ہوا جس سے تمام مجلس، جماعت خانہ بلکہ آسمان تک روشن ہوگئے۔ نیز شیخ خان نے کہا کہ یہ جو حضرت اقدس نے میرے لیے دعا کی تھی اسکی مقبولیت کا ثمرہ مجھے مل گیا۔ جب شیخ خان سے پوچھا کہ کیا آپ نےحضرت اقدس سے ایسا گستاخانہ کلام کیا تھا یاد ہےیا نہیں۔ انہوں نےجواب دیا کہ میری کیا مجال ہے کہ ایسی بات کہتا۔ مجھے اسکی کوئی خبر نہیں۔ یہ سنکر حضرت قطب العالم خوش ہوئے اور فرمایا الحمدللہ کہ دوست نے مجھ سے اسکی زبان سے یہ خطاب فرمایا اور وہ درمیان میں نہیں تھا دوست بول رہا تھا۔ نیز روایت ہے کہ ایک رات شیخ خان اپنے حجرہ میں بیٹھے تھے کہ وہاں سے دیوار کا پردہ اٹھ گیا اور انہوں نے دیکھا کہ حضرت قطب العالم اپنے مقام پر بیٹھے کوئی ایک کتاب پڑھ رہے ہیں۔ صبح کے بعد جب وہ حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ آج رات آپکو بہت تکلیف ہوئی ساری رات آپ چراغ سامنے رکھ کر م طالعہ میں مصروف رہے۔ آپ نے فرمایا ہم ساری رات سوئے رہے لیکن تم نے میری روحانیت کو دیکھا ہوگا۔ یاد رہے کہ اولیاء حق اگر چہ بظاہر نیند میں ہوتے ہیں کہ در ھقیقت وہ نیند نہیں ہوتی اور اہل کشف کی نظر میں وہ اسی ھققت میں نظر آتے ہیں نہ کہ ظاہری صورت میں اس وجہ۔ سے وہ عالم حقیقت میں ہوتے ہیں۔ نومہ العلما عبادۃ (علما یعنی اولیا کی نیند عبادت ہوتی ہے) سے یہی مراد ہے ۔ یہ شریعت کا مسئلہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا اس وجہ سے کہ یہ در حقیقت نیند نہیں ہوتی اور یہ چیز اگر چہ خاصہ انبیاء ہے پھر بھی اولیاء کرام کی متابعت میں اولیاء کرام بھی اس دولت میں شریک ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت قطب عالم کے خلیفہ شیخ خان کو جب یہ مرتبہ حاسل ہوا اور انکی نیند بیداری بن گئی تو اس خیال سے وضو تازہ نہیں کرتے تھے بلکہ اسی سابقہ وضو سے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن جب حضرت اقدس کے خادم شیخ جعفر صوفی نے حضرت اقدس کی خدمت میں یہ بات پہنچائی تو آپ نے ان کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ یہ حکم خاصۂ انبیا ہے۔ اگر چہ اولیاء کو بھی اس دولت سے حصہ ملتا ہے لیکن انکو وضو کرنا چاہیے اور انبیاء علیہم السلام کے خاص حکم میں قدم نہیں رکھنا چاہیے۔
ایک دفعہ شیخ خان خلوقت میں ریاضت و مجامدہ کر رہے تھے اور شغل حق میں مشغول تھے کہ سپاہی نے آکر ادھر ادھر کے حالات بیان کرنا شرع کیے کہ فلاں مقام پر فلاں بزرگ رہتے تھے اور فلاں مقام پر فلاں شخص صاحب خدمت ہے یہ باتیں سنکر شیخ خان کےدل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ بزرگان جہان کی زیارت کرنی چاہیے ان وساوس کی وجہ سے شیخ خان کے شغل باطن میں نقصان واقع ہوا۔ علاوہ ازیں شیخ خان کی والدہ نے بھی شفقت مادری کی وجہ سے معمول سے کچھ زیادہ کھانا انکے افطار کیلئے تیار کیا۔ حضرت اقدس صاحب فراست تھے آپ کو نور باطن سے معلوم ہوگیا۔ فرمایا کہ فلاں فلاں شخص کی وجہ سے تمہارے شغل میں نقصال ہوا ہے۔ شیخ خان نے اس بات کا اقرار کیا کہ واقعی یہ خیالات میرے دل میں پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ اس نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے انہوں نے سفر و سیاحت کا ارادہ کیا اور حضرت اقدس سے اجازت طلب کی۔ آپ نے سوچا کہ اگر میں رخصت نہیں دیتا تو یہ بلا اجازت چلا جائیگا اور عاق ہوجائیگا اگر یہاں رہتا ہے تو خیال فاسد سے اسکے شغل میں فرق آتا ہے۔ اس وجہ سے آپ نے انکو اجازت دیدی۔ اور فرمایا کہ جہان کا تماشہ دیکھ کر واپس آجاؤ۔ جب اجازت مل گئی تو شیخ سفر پر روانہ ہوگئے اور جہاں جہاں پہنچے علماء ومشائخ سے ملاقات کی لیکن حضرت قطب العالم کے برابر کسی کو نہ دیکھا اور جس جس جگہ سے حضرت اقدس کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا اس میں یہی لکھا کہ ڈھول کی آواز دور سے اچھی لگتی ہے۔ اور حضرت اقدس کی خانقاہ کی خاکر وبی سے مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ سفر کے دوران شیخ خان مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ بھی پہنچے اور حج اور زیارت روضہ حضرت رسالت پناہ سے مشرف ہوئے اسکے بعد گجرات پہنچے جہاں انکی ملاقات اپنے خالہ زاد بھائی سید محمد مہدی سے ہوئی سید محمد نے کہا کہ آپ کیا کر رہے ہیں اور عمر کیوں برباد کر رہے ہیں۔ آپکو شغل حق میں مشغول رہنا چاہیے۔ جب شیخ خان نے شغل کی درخواست کی تو انہوں نے پاس انفاس بتایا۔ شیخ خان جنہوں نے حضرت قطب العالم کی صحبت حاصل کی ہوئی تھی اور کشف انوار واسرر حاصل تھا کہنے لگے کہ یہ شگل تو بچوں کیلئےہے۔ مردان خدا کا کام اس سے بہت بلند ہوتا ہے۔ یہ سنکر سید محمد نے حیران ہوکر پوچھا کہ آپ کس کی صحبت میں رہے ہیں۔ شیخ خان نے جواب دیا کہ قطب العالم حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کی خدمت میں زندگی بسر کی ہے۔ غرضیکہ شیخ خان کو سید محمد مہدی کا مقام بہت ادنیٰ معلوم ہوا اور آخر کار نادم ہوکر حضرت اقدس کی خدمت میں واپس آگئے اور مجاہدہ اور شغل باطن میں مشغول ہوگئے۔ حتیٰ کہ قرب حق میں پہنچے ور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔
مقام فنافی الرسول کے علامات
روایت ہے کہ شیخ خان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے عالم واقعہ میں دیکھا کہ حضرت رسول خداﷺ پالکی مین سوار ہیں اور تمام اولیاء اللہ آپکے ہمر کاب ہیں اس فقیر نے جب ہجوم دیکھا ایک طرف ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے پالکی کھڑی کی اور تبسم فرمایا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے عرض کیا کہ یانبی میں تیرے قربان جاؤں۔ جب آنحضرتﷺ دامن کوہ میں پہنچے تو ایک آدمی نے آکر پیغام دیا کہ آنحضرتﷺ نے ایک گھر اور ایک گھوڑا تجھے عطا فرمایا ہے۔ چنانچہ اس فقیر نے اس مقام پر جاکر رہائش اختیار کرلی۔ وہاں کچھ بدمعاش رہتے تھے میں نے انکو وہاں سے نکال دیا۔ جب بیدار ہوا تو سارا گھر خوشبو سے معطر تھا۔ جب یہ واقعہ حضرت اقدس سے بیان کیا گیا تو آپن ے فرمایا کہ تجھے ابتدائے فنافی الرسول مبارک ہو۔ حضرت قطب عالم کا ایک اور مرید تھا جنکا نام شیخ عبدالرحمٰن تھا۔ ایک دن تندو تیز آندھی چل تہی ہے اور ایک فنا سے دوسر فنا میں جارہے ہیں۔ جب اس مرید نے حضرت اقدس کی خدمت میں یہ واقعہ بیان فرمایا تو آپ نے وہی جواب دیا کہ ابتدائے فنافی الرسول تجھے مبارک ہو۔ یہ شیخ خان اور شیخ عبدالرحمٰن حضرت قطب العالم کے مریدان خاص میں سے تھے۔ حضرت اقدس نے ان دونوں حضرات کے نام چند مکتوبات پر حقائق بھی تحریر فرمائے۔ (جع مکتوبات قدوسیہ میں موجود ہیں) لیکن انکو یہاں نقل کرنا باعث طوالت ہوگا۔ اس فقیر راقم الحروف نے ثقہ راویوں سے سنا ہے کہ ایک دفعہ حضرت قطب العالم دہلی م یں قیام پذیر تھے۔ اس زمانے میں شیخ عبدالستار سہارنپوری بھی حضرت اقدس کی خدمت میں مقیم تھے اور خادم خاص اور مھرم راز تھے۔ شیخ عبدالستار کو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کی خواہش دامنگیر ہوئی۔ ایک دن حضرت اقدس اپنے حجرہ میں مشغول بحق اور ذات میں مستغرق تھے اور شیخ عبدالستار دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے تاکہ کوئی شخص اندر نہ جانے پائے۔ اس وقت اچانک حضرت خضر علیہ السلام ظاہر ہوئے اور شیخ عبدالستار سے کہا کہ اپنے شیخ کو میرا سلام کہو۔ انہوں نے اندر جاکر سلام عرض کیا۔ حضرت قطب العالم چونکہ اس وقت شہود حق میں غرق تھے۔ خضر علیہ السلام کی پرواہ نہ کی۔ اور کوئی جواب نہ دیا۔ یہ دیکھ کر خضر علیہ السلام ملاقات سے مایوس ہوگئے اور یہ کہہ کر چلے گئے پھر آؤنگا۔ جب حضرت اقدس فارغ ہوکر حجرہ سے باہر تشریف لائے تو شیخ عبدالستار نے عرض کیا کہ فلاں فلاں حلیہ کا ایک شخص آپ کی ملاقات کیلئے آیا تھا۔ ہم نے آپکو اطلاع دی لیکن آپن ے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ خضر علیہ السلم کو میری ملاقات کا وعدہ تھا شاید وہی آئے ہونگے۔ یہ سنکر شیخ عبدالستار نے کہا کہ افسوس ہے کہ خضر علیہ السلام جیسے نبی آپکی ملاقات کیلئے آئیں اور آپ حجرہ سے باہر نہ آئیں اور اُن سے ملاقات نہ کریں۔ حضرت قطب العالم نے فرمایا کہ خضر علیہ السلام چلے گئے اور واپس آجائینگے لیکن وہ قرب جو مجھے حق تعالیٰ کے ساتھ کیسے واپس آسکتا تھا یہی گفتگو ہورہی تھی کہ خضر علیہ السلام پہنچ گئے۔ حضرت قطب العالم انکے استقبال کیلئے دوڑے اور شرف ملاقات حاصل کیا۔ کافی دیر تک محرنامہ صحبت کے بعد خضر علیہ السلام نے رخصت ہونے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ شیخ عبدالستار کو آپ سے ملاقات کی بہت خواہش تھی۔ چنانچہ خضر علیہ السلام نے انکی طرف توجہ فرمائی جس کے بعد گاہے گاہے انکو خضر علیہ السلام کی ملاقات نصیب ہوجاتی تھی۔
خلق خدا سے فرار
شیخ رکن الدین نےلطائف قدسی میں یہ بھی فرمایا ہے کہ جب حضرت قطب العالم شاہ آباد سکونت پذیر تھے تو میرے بڑے بھائی شیخ حمید الدین کی عمر چودہ پندرہ سال تھی۔ اس وقت آپکو خلقِ خدا سے ایسی نفرت تھی کہ آپ شیخ حمید الدین کو خرقہ خلافت پہنا کر خود کوہ وبیا باں کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب موضع بتورہ میں پہنچے تو آپکے فرزندان کے پیچھےعمر خان سروری جو آپکا مرید خاص تھا حضرت اقدس کو واپس لانے کیلئے بھیجا۔ جب حضڑت اقدس نے دیکھا کہاہل دنیا آرہے ہیں فرمایا کہ ان لوگوں کو یہاں سے ہٹادو ورنہ میری جان نکل جائے گی۔ یا پھر انکو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت اتفاق سے سعید خان نزدیک پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ حضرت اقدس کی حالت متغیر ہوگئی ہے آنکھوں میں سیاہی کی جگہ سفیدی نے لے لی ہے اور آپ بیخود ہوگئے ہیں۔ یہ دیکھ کر اہل دنیا ہٹ گئے ورنہ وہ یا حضرت اقدس ہلاک ہوجاتے یا نقصان پہنچتا۔ غرضیکہ رات بھر حضرت اقدس اسی موضع بتورہ میں رہے۔ اور آپکی زبان مبارک سے کلمات شطحیات[1] سے نکلتے رہے جن سے بعض قابل فہم اور بعض ناقابل فہم تھے۔ دوسرے روز جب آپکی حالت میں افاقہ ہوا تو آپ گھر تشریف لے گئے۔
حضرت اقدس کا مختلف مقامات پر نظر آنا
نیز روایت ہے کہ بعض لوگ حضرت قطب العالم کو مختلف مقامات پر دیکھتے تھے۔ ایک حاجی نے معظمہ سے واپس آکر کہا کہ میں نے حضرت اقدس کو خانہ کعبہ میں دیکھا ہے کیا کہ کس کے مرید ہو۔ شیخ بھورا گادر نے جواب دیا کہ میں حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس قدس سرہٗ کا مرید ہوں۔ حاجی نے کہا کہ میں نے آپکو خانۂ کعبہ میں دیکھا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ عرف حق کا قدم حق ہوتا ہے[2]۔ لہٰذا انکے نزدیک تمام مقامات برابر ہیں۔ ہر جگہ پر بیٹے رہتے ہیں۔ جو حضرات عالم قدرت میں پہنچ جاتے ہیں انکے لیے کوئی چیز مشکل نہیں۔
آنحضرتﷺ کا خواب میں علم قرأت سکھانا
نیز آپکے متعلق یہ بھی منقول ہے کہ ایک دفعہ آپکو قرآن مجید کے حروف صحیح طور پر نکالنے اور قرات سے پڑھنے کا شوق دامنگیر ہوا۔ آپ نے دو مرتبہ آنحضرتﷺ کی خواب میں زیارت کی۔ ایک دفعہ یہ دیکھا کہ میں آنحضرتﷺ کے سامنے دو زانو بیٹھا ہوں دو اور شخص قرآن مجید پڑھ رہے ہیں حضور رسولﷺ فرمارہے ہیں کہ اس طرح قران نہ پڑھو۔ اسکے بعد آنحضرتﷺ نے خود قرآن پرھ کر سنایا۔ دوسری مرتبہ میں یہ دیکھا کہ آنحضرتﷺ اپنی زبان مبارک میرے منہ میں دیکر قرآن مجید پڑھارہے ہیں۔ اسکے بعد حضرت اقدس کو شیخ سلیمان ہندوی کی تلاوت آپکو پسند آئی تو آپ نے اُن سے سند حاسل کی حالانکہ شیخ سلیمان علم قرأت سے واقف نہ تھے اور محض تجوید حروف اور مخارج ایک استاد کامل سے پڑھ چکے تھے۔ حضرت اقدس کو علم قرأت اس قدر تھا کہ آپ نے فن قرأت پر ایک رسالہ لکھا ہے جسکا نام فوائد القرآن ہے۔ شیخ سلیمان سے علم معرفت و توحید حضرت اقدس سے حاصل کیا تھا۔ حضرت اقدس نے شیخ سلیمان کو نسخہ حوض حیات بھی تعلیم فرمایا تھا جس سے انکی صورت ہوا میں ظاہر ہوتی تھی۔ شیخ سلیمان نے حضرت اقدس سے علم معرفت کی چند چیزیں دریافت کر کے ایک رسالہ بھی تصنیف کیا جس کا نام رسالۂ قدسی ہے جو کافی شہرت رکھتا ہے۔
حضرت سلطان المشائخ کی آپ پر خاص توجہ
جب حضرت اقدس مشائخ کی زیارت کیلئے دہلی گئے ہوئے تھے ملک دلاوت نامی آپکا ایک خدمت گار آپکے لیے گندم کا آتا پیس رہا تھا کہ اس پر غنودگی طاری ہوئی کیا دیکھتا ہے کہ حضرت سلطان المشائخ شیخ نظام الدین بدایونی قدس سرہٗ کی روحانیت ظاہر ہوئی ہے اور چکی کا دستہ اپنے ہاتھ میں لیکر چکی چلائی اور فرمایا کہ کیا کر رہے ہو بیدار ہوجاؤ اور آتا جلدی نکالو حضرت قطب العالم کو بھوک لگی ہے اس سے ملک دلاوت فوراً بیدار ہوا اور دیکھا کہ چکی گھوم رہی ہے۔
آپکا بد خواہ خود خراب ہوا
روایت ہے کہ عمر خان سردانی کی بیٹی بی بی اسلام خاتون حضرت اقدس کی مریدہ تھیں اور انکو شغل باطن م یں کافی عبور تھا۔ ان پر ذکر کا اس قدر غلبہ تھا کہ وہ کہا کرتی تھیں کہ میرے تمام اعضاء سےا للہ اللہ کی آواز آتی ہے حتیٰ کہ پاؤں سے بھی ذکر کی آواز آتی ہے اور میں پاؤں زمین پر نہیں رکھ د سکتی۔ اسکے دو بھائی تھے جنکا نام ہیبت خان اور سعید خان تھا ایک زمانے میں ان دونوں بھائیوں کو حضرت قطب العالم سے بہت کدورت پیدا ہوگئی۔ یہ لوگ جونپور میں رہتے تھے اور سلطان سکندر کے مقرب تھے۔ انہوں نے ارادہ کرلیا کہ اس دفعہ جب شاہ آباد جائینگے تو شیخ عبدالقدوس کو وہاں سے نکال دینتے۔ جب یہ بات حضرت اقدس تک پہنچی تو فرمایا کہ دیکھا جائیگا کہ کس کو نکالا جاتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد سلطان سکندر کر سردانیوں پر غصہ آیا اور اپنے م لک سے نکال دیا اور انہوں نے گجرات میں جاکر پناہ لی۔ بی بی اسلام خاتون کہا کرتی تھی کہ میرے بھائیوں کو میرے شیخ کی بد دعا لگی ہے۔ کیونکہ جسے میرے شیخ بد دعا دیں وہ تباہ ہوجاتا ہے۔
ایک دفعہ رات کے وقت حضرت قطب العالم کے پیٹ میں درد کا عارضہ ہوا۔ آپکا ایک خادم صدو نامی آپکے پیٹ کو گر مارہا تھا اور آپ سوئے ہوئے تھے صدو کیا دیکھتا ہے کہ نور کا شعلہ آپکے قدموں سے اور ایک شعلہ آپکی پیشانی مبارک سے نکلا اور پھر دونوں شعلے جمع ہو گئے اور ساری خانقاہ پھیل گئے اور کچھ عرصہ کےبعد گم ہوگئے۔ اس پر حضرت اقدس فوراً بیدار ہوئے اور صدو سے پوچھا کہ تم نے کوئی چیز دیکھی ہے اس نے جواب دیا کہ جی ہاں! پیر بادشاہ دیکھا ہے حضرت اقدس نے کمال انکسار اور عجز سے فرمایا کہ وہ نور تمہارا ہوگا اسکے بعد مرض سے بھی شفا ہوگئی۔
نماز جمعہ میں رقص و مستی
شیخ رکن الدین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ دہلی کی جامعہ مسجد کا خطیب جو ہمارے سپرد تھا موجود نہ ت ھا۔ اس لیے میں نے خطبہ پڑھا جو حضرت قطب العالم کا تیارہ کردہ تھا۔ حضرت اقدس خود بھی موجود تھے۔ اس اثنا میں اس فقیر پر رقت طاری ہوئی یہ دیکھ کر حضرت اقدس پر حال طاری ہوگیا۔ اور ایک درد ناک نعرہ لگایا۔ اسکے بعد جلدی نماز جمعہ اور سنتیں اسی سکرو مستی کی حالت میں ادا کیں۔ اس وقت شیخ احمد بھی جو بی بی اولیاء کے نواسے تھے موجود تھے اور دو قوال بھی انکے ہمراہ تھے۔ حضرت اقدس نے شیخ احمد کو گلے سے لگایا اور سوزو گذار کے عالم میں مستانہ کلام فرماتے رہے۔ یہ دیکھ کر قوالوں نے قوالی شروع کردی جس سے خوب سماں پیدا ہو۔ حضرت قطب العالم مست اور مدہوش ہوکر جامع مسجد سے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی قدس سرہٗ کے مزار مبارک کی طرف روانہ ہوئے۔ دہلی کے بازار بغدادی دروازہ کے سامنے سے ہوتے ہوئے اور رقص کرتے ہوئے اس میدان کے قریب پہنچے جہاں سرائے عبد الصمد جونپوری ہے۔ لوگوں کا ہجوم بڑھ گیا۔ شیخ عبد الصمد گھر سے باہر آئے اور حضرت اقدس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی خانقاہ میں لے گئے جہاں اور قوال بھی پہنچ گئے اور مجلس میں خوب جوش وخروش پیدا ہوا اور نہایت ہی بلدن حالت پیدا ہوگئی۔ حتیٰ کہ عشاء تک محفل سماع جاری رہی۔ اسکے بعد حضرت اقدس نے جوش میں آکر فرمایا کہ منصور حلاج کو نادانوں نے تختۂ دار پر لٹکایا اگر میں اس وقت موجود ہوتا تو انکو قتل نہ ہونے دیتا۔ شیخ عبد الصمد نے کہا کہ اس وقت مجتہد وقت امام ابو یوسف تھے۔ شیخ منصور کو ان کے فتویٰ کے مطابق دار پر چڑھایا گیا حضرت قطب العالم نے فرمایا کہ ہم اُسی کی بات کر رہے ہیں۔ شیخ عبد الصمد نے بظاہر شریعت کو ترجیح دینے کی خطار کہا کہ جب شیخ منصور کو دار پر چڑھایا گیا تو انکے وجود سے جو قطرۂ خون زمین پر گرتا تھا نقش اسم پاک اللہ بن جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر لوگ امام یوسف کے پاس گئے اور احتجاج کیا کہ آپ نے ایسے بزرگ کو ناحق قتل کرادیا ہے۔ امام یوسف نے دوات اٹھاکر الٹادی اور جتنے سیاہی کے قطرے زمین پر گے نقش اسم مبارک اللہ بن گئے۔ اسکے بعد امام صاحب نے فرمایا کہ ہم بھی حق پر ہیں نہ کہ باطل پر۔ یہ سنکر حضرت قطب العالم جوش میں آئے اور فرمایا کہ شیخ منصور کو قتل کرنے کی دلیل اگر یہی سیاہی ہے تو یہ سیاہی جماد محض ہے۔ (یعنی بے جان چیز ہے) اور حق بات کر رہی ہے لیکن انسان جو خلاصۂ موجودات ہے اور خلیفۂ حق ہے اگر حق بات کہے تو کونسی قباحت ہے شیخ عبد الصمد سمجھدار درویش تھے انہوں نے حضرت اقدس کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ اور خاموش ہوگئے۔
اس کتاب میں یہ بھی مرقوم ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس کے سامنے مرغی کا سالن رکھا گیا آپ نے لقمہ اٹھاکر پھر رکھ دیا اور فرمایا کہ کھانا واپس لے جاؤ۔ جب وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرغی اچھی طرح ذبح نہیں کی گئی ہے۔ بعد میں جب دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کا کشف صحیح تھا۔
روایت ہے کہ ابراہیم سفید باف حضرت قطب العالم کے مرید تھے اور درویش وقت تھے۔ جب انکا انتقال ہوا تو حضرت اقدس نماز جنازہ کیلئے تشریف لے گئے آپ نے فرمایا کہ اس میت کا مرتبہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کا سا مرتبہ ہے اور اس نام کی وجہ سے آپ انکی عزت کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کو کشف احوال موتیٰ ہوتا تھا لیکن ظاہر نہیں فرماتے تھے۔
کشف قبور کی اعلیٰ صورت
صاحب سیر الاقطاب اپنے شیخ ملفوظات موسومہ جو اہر اعلیٰ میں لکھتے ہیں کہ میرے شیخ جو حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ کی اولاد اور کاملین روزگار میں سے تھے فرماتے ہیں کہ برسات کے موسم میں ایک رات میں شاہ شرف الدین بو علی قلندر کے مزار کے طواف کیلئے گیا۔ جب روضۂ مبارک کے اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت بو علی قلندر اپنی قبر سے تکیہ لگائے بیٹھے ہیں اور قبر کے سرہانے کی طرف ایک خوبصورت آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر مجھ پر ہیبت طاری ہوئی اور خاموش ہوکر کھڑا ہوگیا۔ اسکے بعد اس آدمی نے مجھے پکر کر شاہ بو علی قلندر کے قدموں میں پھینک دیا اور فرمایا کہ یہ میرے پیر زادہ ہیں۔ اس واقعہ سے مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ بزرگوں کی زیارت سے مشرف ہوگیا۔ کچھ دیر کےبعد وہ بزرگ نظروں سے غیب ہوگئے اور میں فاتحہ پڑھ کر چلا گیا۔ اسکے سات سال بعد میں نے اس نورانی چہرے والے بزرگ کو کرنال میں دیکھا اور پہچان لیا کہ آپ شیخ المشائخ حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی الحنفی ہیں۔
حضرت اقدس کا گرفتار ہونا
سیر الاقطاب کے مصنف نے اپنی شیخ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ جب ابراہیم لودھی ابن سلطان سکندر لودھی کو مغل بادشاہ بابر کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پانی میں مارا گیا تو ابراہیم کا لشکر کمزور ہوگیا اور مغلوں نے اکثر مشائخ اور علماء وفضلا کو گرفتار کرلیا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کو بھی ایک مغل نے حراست میں لے لیا ہے اور حضرت اقدس سر پر بوجھ اٹھائے اسکے گھوڑے کےآگے چل رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ کتنے بڑے بزرگ ہیں اور عام وقت میں متقدمین کی ہمسری کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن آج اپنے آپکو مگلوں سے بھی نہیں بچاسکتے۔ حضرت اقدس کو کو میرے دل کی بات معلوم ہوگئی اور میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ میرے پیر زادے! انبیاء علیہم السلام بھی مصیبت میں مبتلا رہے ہیں میں بیچارہ کون ہوں؎
ہر کس کہ دریں بیآمد |
|
اوگشت بنکبتے گرفتار |
(جو شخص پیدا ہوا ہے مصیبت میں گرفتار ہوا ہے)
بعد میں جو میں نے اچھی طرح دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بوجھ حضرت اقدس کے سر سے اوپر ہوا میں معلق ہوکر چھاتے کی طرح جارہا تھا۔
تفویض مرتبہ قطبیّت کبریٰ
حضرت شیخ رکن الدین لطائف قدسی میں لکھتے ہیں کہ حضرت قطب العالم نے ابراہیم لودھی کی شکست سے ایک سال پہلے شاہ آباد سے ترک سکونت کر کے گنگوہ میں رہائش اختیار کی تو آپکے ہمراہ آپ کے اصحاب، مریدین اور معتقد بھی شامل تھ ے۔ قضائے الٰہی سے جس سرائے میں آپ ٹھہرے ہوئے تھے اسکو آگ لگ گئی آگ کے ساتھ ہوا بھی تیز ہوگئی اور بہت سے آدمی جل کر مرگئے۔ آپکے مریدین کا بہت سامان بھی جل کر راکھ ہوگیا یہاں تک کہ حضرت قطب العالم کا رومال اور تسبیح بھی جل گئے۔ نیز آپکی قبا کی آستین بھی جل گئی۔ لیکن آپکی ذات کو کوئی نقصان نہ ہوا۔ لیکن آپ اس واقع سے متفکر اور پریشان بہت تھے۔ اُسی رات فرمان ہوا کہ ان آلام ومصائب کی فکر مت کرو ہم نے تجھے مرتبۂ قطبیّت کبریٰ عطا کیا ہ اور قطب الاقطاب اور محبوبانِ عالم کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت قطب العالم پر محفل سماع میں وجد طاری ہوتا تو آپ پر ایسی حالت طاری ہوتی کہ اسکا ادراک نا ممکن ہے۔ نیز حالتِ کیف و مستی میں حضرت اقدس کی زبان سے کلمات شطحیات بھ ی سرزد ہوتے تھے۔ ایک دن آپ نے مستی کی حالت میں فرمایا کہ ہم اگر چاہیں تو عرش کو فرش پر پھینک دیں۔ حالتِ وجدی میں کبھی آپ یہ فرماتے تھے کہ ہم نے اپنا خیمہ بہشت میں نصب کرلیا ہے۔ ہم سب کو بہشت میں لے جائینگے۔ کبھی آپ فرماتے تھے کہ چتر شاہی برسرِ طفلان ما است (تاج شاہی ہمارے بچوں کے سر پر ہے)۔ بعض اوقات آپ فرماتے تھے کہ دوستو! پردہ اٹھ چکا ہے اور جبرائیل فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہوا ہے کہ تم بخشے جا چکے ہو۔ کبھی آپ فرماتے تھے کہ میں نے اس سلسلۂ چشتیہ کو دوسرا رنگ بخشا ہے۔
حضرت اقدس کی نسبت اعتدال
راقم الحروف (مؤلف کتاب اقتباس الانوار) کہتا ہے کہ ہمارے شیخ حضرت قطب العالم شیخ عبد القدوس گنگوہی قدس سرہٗ دونوں صفات جلال و جمال میں پرورش پاکر جامع صفتین ہوگئے تھے اور آپ میں جلال و جمال کا اعتدال تھا۔ سلسلۂ عالیہ چشتیہ خصوصاً حضرت سلطان علاؤ الدین علی احمد صابر کی ذات میں صفت جلال کا غلبہ تھا۔ جب حضرت قطب العالم کے جمال نے ظہور کیا تو سلسلہ چشتیہ کے جلال میں اعتدال آگیا اور آپکی معتدل تربیت سے ہر مستعد سالک جو سعید ازلی ہوتا اپنے صدق کے مطابق ذات بے رنگ کے مشاہدہ میں واصل ہوجاتا تھا۔ اس لیے آپکا فرمان صحیح ہے کہ میںن ے سلسلہ چشتیہ کو دوسرا رنگ بخشا ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس کی ذات وجود اکبر تھی۔
اقسام منتہیٰ
اس وجہ سے کہ وجود منتہیٰ جو مقام نہایت کو پہچن چکا ہے دو اقسام پر ہے کبیر اور اکبر۔ قسم اول نادر ہے۔ اگر ہزار ہزار سال اور قرنوں کے بعد وجود میں آئیں تب بھی انکا وجود غنیمت ہوتا ہے۔ قطب مدار اور قیوم عالم کا شمار اسی قسم میں ہوتا ہے۔ دوسری قسم بھی نادر ہے اور سید کائناتﷺ کے زمانہ سے لیکر قیام تک اس قسم کے حضرات معدودے چند ہوئے ہیں مثل حضرت سید محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی، حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار اوشی، شیخ الاسلام حضرت فرید الدین گنجشکر، حضرت شیخ نظام الدین بدایونی، حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی وغیرہم۔ در حقیقت جمال و جلال کا اعتدال سید کائناتﷺ کی ذات بابرکات میں مخصوص تھا اگر کسی اور کو یہ اعتدال نصیب ہوا تو آنحضرتﷺ کی متابعت اور وراثت میں ہوا۔ اور جس کے اندر یہ اعتدال ہو وہ جود اکبر ہے۔ سلسلہ چشتیہ کے اکثر مشائخ میں جلال غالب تھا اور اس نسبت اعتدال کا ظہور نام (مکمل ظہور) جو نبوت سے مخفی چلا آرہا تھا حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کے وجود میں ظاہر ہوا۔ اور جس بزرگ میں یہ نسبت اعتدال نہ ہو وہ اس مرید کیلئے ہادی ہوسکتا ہے جسکی استعداد اس بزرگ سے مناسبت رکھتی ہے۔ دوسروں کو ہدایت نہیں دے سکتا۔ اور وہ بزرگ جو یہ نسبت رکھتا ہے ہادئ مطلق ہوتا ہے خواہ کوئی ان سے مناسبت رکھے یہ نہ رکھے یا نہ رکھے ہر شخص ان سے مستفیض ہوتا ہے ۔جیسا کہ حضرت رسالت پناہﷺ تھے۔ آنحضرتﷺ کی ہدایت کی مقبولیت کی وجہ یہی نسبت تھی جو دوسرے انبیاء علیہم السلام سے ممیز تھی، اسی طرح جس ولی اللہ میں یہ نسبت ہے آنحضرتﷺ کی متابعت میں انکا فیض عام ہوتا ہے اور خلق کثیر اور جم غفیر انکے نور تربیت سے منور ہوتے ہیں اور اگر چاہیں تو ایک نظر مبارک سے تمام جہاں کو لوی اور قطب بنادیں۔ اس نسبت کا حاصل مظہر فیض اقدس ہے جو اگر توجہ کریں تو بے استعداد والوں کو باستعداد بنادیں کسی نے خوب کہا ہے؎
داد او راقابلیت شرط نیست |
|
بلکہ شرط قابلیّت داد اوست |
(اسکی بخشش وعطا کیلئے قابلیّت شرط نہیں ہے بلکہ خود قابلیت بھی اسی کی داد یعنی بخشش ہے)
چنانچہ حضرت قطب العالم کے فیض عام کی وجہ آپکی یہی نسبت ہے۔ پس حضرت اقدس کا وجود کبریّت احمر[3] اور روشن چراغ ہے۔ فہم من فہم (سمجھا جس نے سمجھا)
معراج کی بلندیوں سے واپس آنے کیلئے نبوت کی طاقت ضروری ہے
شیخ رکن الدین فرماتے ہیں کہ ایک دن عیبن مستی کے عالم میں حضرت اقدس کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے:۔
‘‘محمد مصطفیٰﷺ در مقام قاب قوسین رفت و باز گردیدواللہ مابازنہ گردیم زیرا کہ محمد مصطفیٰﷺ عہدہ دار ولنگر دار بود باز گردید و ماجان باختہ وجہاں تاختہ باز نگردیم۔’’
(حضرت محمد مصطفیٰﷺ شبِ معراج قاب قوسین او ادنیٰ جیسے بلند ترین مقام پر پہنچنے کے بعد اس وجہ سے واپس تشریف لائے کہ منصب نبوت کی کی ذمہ داری آپ پر تھی اور لنگر دار یعنی خلق خدا کو فیض عام دینے والے تھے۔ لیکن ہم جیسا جاں باختہ (یعنی جو جاں پر کھیل چکا ہے) اور جہاں تاختہ (جس نے سب کچھ تج دیا ہے) اگر ان بلندیوں پر جاتا تو ہر گز واپس نہ آسکتا۔ اس وجہ سے کہ ان بلندیوں سے واپس آنے کیلئے نبوت کی طاقت ضروری ہے) ظاہر ہے کہ عہدہ دار اور لنگر دار سے مراد عہدۂ نبوت اور تبلیغ رسالت ہے اس وجہ سے کہ سارے جہان کی دعوت اور ہدایت کا کام آنحضرتﷺ کے سپرد تھا۔
آپ کا مقام لا تعیّن
اسکے بعد اسی سر مستی کی حالت میں فرمایا کہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں کہاں ہوں جس مقام پر تمام تعینات ختم ہوجاتے ہیں اور علم وصفات سے منزّہ اور مصفا ہے اُسے لا کیف اور لاتعیّن کہتے ہیں اور ہم تمام تعینات سے گذر کر محض بے تعینی میں واصل ہوچکے ہیں۔ پس ذات حق تعالیٰ جو مشہود ہے اور علم و جمیع تعینات سے پاک ہے وہاں علم کی کہاں گنجائش ہوتی ہے کما لا یخفی علی من وصل مقامنا (جیسا کہ ان لوگوں سے مخفی نہیں ہو جو ہمارے مقام پر پہنچ چکے ہیں)
روایت ہے کہ ایک دن محفل سماع میں آپ پر وجد طاری ہوگیا جب عصر کا اول وقت ہوا تو آپ نے اٹھ کر وضو کیا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھ کر پھر وجد کرنے لگے۔ جب افاقہ ہوا تو آپ اپنے اصحاب محرم راز سے فرمایا کہ عین حالت وجد میں مجھے حکم ہوا کہ مصلے پر آؤ۔ اسی وقت مجھے افاقہ ہوا اور عصر کی نماز پڑھ لی۔ جب نماز سے فراغت ہوئی تو پھر وہی بے خودی طاری ہوگئی اور اس جہان سے بے خبر ہوگیا۔ نیز ایک دن عالم سُکر میں حضرت اقدس کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے کہ ایک دفعہ جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ حضرت حق سبحانہٗ سے کلام کر رہے تھے تو ہم بھی وہاں موجود تھے۔ ایک دن ایک ملتانی قوال نے حضرت اقدس کے سامنے قوالی کی۔ جس سے آپ پر کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ نے قوال سے فرمایا کہ ہم نے تجھے عرش دیا، کرسی دی۔
اثبات وحدت الوجود
شیخ رکن الدین فرماتے ہیں کہ ایک دن میرے بھائی شیخ علی نے حضرت اقدس کے سامنے کوئی چیز پڑھی تو آپ پر وجد طاری ہوگیا اور عین حالت وجد میں شیخ علی کو گلے لگاکر فرمایا کہ شاہ شاہانی۔ الغرض عالم استغراق میں حضرت اقدس اس قسم کے اسرار ورموز بیان فرماتے تھے اور پھر کہتے تھے کہ میں نہیں کہتا میری زبان پر حق تعالیٰ کہتا ہے ۔ شیخ رکن الدین فرماتے ہیں کہ ایک دن گن گوہ میں حضرت اقدس نے نماز فجر سے فارغ ہوکر سکر و مستی کی حالت میں جماعت سے مسئلہ وحدت الوجود بیان کرنے لگے۔ میرے بھائی شیخ حمید، شیخ احمد اور یہ فقیر ہم تینوں موجود تھے۔ اس فقیر کے دل میں اشکال پیدا ہوا اور حضرت اقدس سے عرض کیا کہ مسئلہ وحدت الوجود نہ حضرت رسالت پناہﷺ سے اور نہ اصحاب کبار سے صریحاً منقول ہے۔ نیز صاحب[4] مذہب نے بھی وحدت الوجود کرجز وایمان قرار دیا ہے۔ اب اگر ہم یہ مسئلہ بیان کریں اور یہ اعتقاد دل میں رکھیں تو ممکن ہے آخرت میں نقصال ہو اور موجب مواخذہ ہو۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر چہ یہ مسئلہ صریحاً منقول نہیں ہے اس وجہ سے کہ اس زمانے راز داری بہت تھی۔ لیکن ارشادات اور دلائل بہت پائے جاتے ہیں۔ اور بعض مقامات پر صراحت بھی آچکی ہے لیکن اس چیز کو علمائے ظاہر متشابہات کہتے ہیں اور اسکی ظاہر کے اعتبار سے تاویل کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ تبع تابین کے زمانے میں ظاہر ہوگیا اور یہ وقت تیسری صدی کا تھا۔ جب مشائخ عظام مقتدایان اور مجتہدان وقت تھے اور تمام علمائے ظاہر کا رجوع انکی طرف تھا۔ پس انکے قول وفعل پر کل اعمتاد ہونا چاہیے۔ نیز اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ امام اعظم، امام شافعی امام احمد حنبل وامام مالک، امام محمد و مام ابو یوسف اور دیگر ائمہ مجتہدین جو اہل سنت وجماعت ادو بایانِ دین تھے کے زمانے میں ہر طرف مشائخ عظام اور قائلان وحدت الوجود اس مسئلہ کے متعلق دم مارتے تھے اور تصریح بیان کر رہے تھے۔ اگر یہ مسئلہ خلاف دین اور باطل ہوتا تو ائمہ اہلسنت و جماعت پر لازم تھا کہ خاموش نہ رہتے بلکہ اسکی تردید کرتے اس وجہ سے الساکت عن الحق شیطان (حق بات میں خاموشی اختیار کرنے والا شیطان ہے) آخر ائمہ مجتہدین معتزلہ اور فلاسفہ اور دیگراہل ضلالت جو اہل سنت و جماعت کے علاوہ بہتر فرقوں سے تعلق رکھتے تھے کےخلاف طویل جدو جہد میں مشغول رہے چنانچہ جب ان حامیانِ دین نے مسئلہ وحدت الوجود کے بارے میں سکوت اختیار کیا اور تردیدی کے در پے نہ ہوئے تو ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ خلاف دین نہیں ہے بمصداق السکوت فی محل البیان بیانٌ (بیان کی بجائے سکوت اختیار کرنا خود بیان ہے) نیز یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ بعض کثرت وجود کے قائل ہیں اور یہ تمام حضرات علمائے ظاہر ہیں۔ اور اکثر زہاد، عباد ومشائخ کبار اہل ظاہر سے متفق ہیں اور بعض وحدت وجود کے قائل ہیں اور یہ حضرات موحد اور حقیقت وجودِ کے عارف ہیں اور حضرات بھی اکابر علماء متقدیان دین اور مجتہدین وقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ نیز اہل حق کا کشف بھی یہی کہتا ہے لہذا جو مسئلہ مختلف یہ (اختلافی) ہو وہ خلاف دین نہیں ہوتا۔ اور نہ آخرت کیلئے مضر ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ سر ربوبیّت وسخن حقیقت (راز کی بات) ہے اور اسکا تعلق ان حضرات سے ہے جو صاحب مقام ہیں ہر کس و ناکس کے شایان نہیں ہے۔ اس وجہ سے افشائے سر ربوبیّت کو کفر کہا گیا ہے کیونکہ اس میں انا الحق کا دعوہ ہے۔ اور اسکی سزا منصور علاج کی طرح موت ہے۔ عزیز من! مسئلہ معذور (بیمار) اور ہے مسئلہ صحیح (تندرست) اور ہے مسئلہ مقیم اور ہے مسئلہ حاضر اور ہے، مسئلہ مجنون اور ہے، مسئلہ معتقدہ اور ہے، مسئلہ عقیل اور ہوشیار کا اس پر قیاس کرنا چاہیے۔ اس وجہ سے مسئلہ شریعت ظاہر اور ہے اور مسئلہ طریقت و حقیقت اور ہے چنانچہ کلمہ طیبہ کے معنی جب لا معبور الا اللہ کیے جاتے ہیں تو یہ مسئلہ شریعت ہے۔ جب اس سے لا مقصود والا اللہ مراد ہو تو یہ مسئلہ طریقت ہے اور اگر لا موجود الا اللہ کے معنی لیے جائیں تو یہ مسئلہ حقیقت ہے۔ یاد رہے کہ یہ اختلاف محققین کا اختلاف ہے اور اسکی بنیاد اور قسم کے اختلاف پر ہے۔ ایک فرقہ جو کثرت وجود کا قائل ہے۔ ذات حق تعالی کو جود حت الوجود ماوراء الوجود کہتے ہیں جو مدرک عقل نہیں ہے اور جود کو ذات حق کی صفت قرار دیتے ہیں فلا ینفک الوجود عنہ وابداً (اور وجود اس سے کبھی علیحدہ نہیں ہوسکتا) دوسرا فرقہ جو وحدتِ وجود کا قائل ہے ذات حق سبحانہٗ وتعالیٰ کو عین الوجود مطلق قرار دیتے ہیں (یعنی صفت وجو دکو ذات کا عین سمجھتے ہیں) کیونکہ موجودیّت میں اعلیٰ مرتبہ وجود مطلق کا ہے اور وہی واجب الوجود ہے وَلِکُلِّ من الفریقین دلائل وبراھین تعرف کلھا فی محلھا (دونوں فریقوں کے اپنے اپنے اپنے دلائل وبراہین ہیں جو اپنے اپنے محل اور موقعہ پر صحیح ہیں) غرضیکہ ہم تینوں بھائیوں نےعلم ظاہر کے مطابق بحث کی تو مقدمہ طویل ہوگیا اور نماز فجر سے آخر چاشت تک بحث جاری رہی۔ اسکے بعد مجلس برخاست ہوگئی۔ حضرت اقدس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید میرے بیٹے علم معرف تسے ابھی بے خبر ہیں اور مسئلہ وحدت الوجود کے منکر ہیں۔ چنانچہ آپ نے کہہ دیا کہ میں ایسے بیٹوں کےس اتھ نہیں رہ سکتا انکا دین اور مشرب اور ہے یہ کہہ کر جوش میں آئے اور اٹھ کر چل دیے۔ لیکن کسی کی کیا مجال کہ آپکو جانے سے منع کرے۔ آخۂر جب نصف کوس فاصلہ طے کر چکے تو گھوڑا پیش کی اگیا۔ آپ نے گھوڑے پر سوار ہوکر تھانیسر کا رخ کیا اور فرمایا شیخ جلال کو دیکھتے ہیں اسکا کیا مشرب اور مذہب ہے اور کس دین و امین پر ہے اگر وہ بھی ہمارے مذہب پر نہیں ہے تو اسکو بھی ترک کردینگے۔ الغرض قصبۂ لکھنوتی سے بھی آگے چلے گئے اور آپ کے تمام بیٹے، مریدن اور گنگوہ اور لکھنوتی کے عوام پیچھے پیچھے جارے تھے لیکن کسی کی مجال نہیں تھی ک ہ دم مارے۔ ہم دیارائے جمنا کے گھاٹ والے ملاحوں کو کہلا بھیجا کہ کشتیاں چھپادیں تاکہ اس بہانے حضرت اقدس واپس آجائیں۔ آخر شاہ اسلام کو جو گنگوہ کا داروغہ اور حضرت اقدس کا مخلص مرید تھا جب اس بات کی خبر ہوئی تو گھوڑا دوڑ کر آ پہنچا حضرت قدس اس کے ساتھ شفقت سے پیش آئے تھے۔ اس نے آتے ہی حضرت اقدس کے گھوڑے کے پاؤں پکڑ لیے اور عرض کیا کہ حجور کا گھر سے چلے جانا چھوٹی بات نہیں ہے۔ جونہی یہ خبر ہمایوں بادشاہ تک پہنچے گی وہ یہ سمجھے گا کہ داروغہ سے کوئی بے ادبی ہوئی ہے۔ جس سے اسکو رنج پہنچے گا اور ہمیں قتل کردیگا۔ چونکہ آخر کار میں نے مرنا ہے بہتریہی ہے کہ حضور خود مجھے مار ڈالیں۔ یہ سنکر حضرت قطب العالم کا جوش قدرے ٹھنڈا ہوا اور امیر شاہ اسلام حضرت اقدس کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر گنگوہ کی طرف لے گیا۔ لیکن گھر پر پہنچ کر ہم تمام بیٹے اجنبیوں کی طرح رہ رہے تھے آپ فرماتے تھے کہ انکا مشرب و مذہب اور ہے اور ہمارا مذہب اور ہے۔ انکے پیچھے نماز بھی جائز نہیں ہے۔ جب یہ خبر حضرت شیخ جلال الدین تھانیسر قدس سرہٗ تک پہنچی جو حضرت اقدس کے خلیفہ اکبر تھے تو انہوں نے گنگوہ میں آکر قدم بوس ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ نے سختی سے منع کردیا اور فرمایا کہ اسی جگہ پر رہو اور مجھے بتادوکہ تمہارا دین اور مشرب کیا ہے۔ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری نے وہ آیات قرآن اور کلمات مشائخ عظام پیش کیے جن سے مسئلہ وحدت الوجود ثابت ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت اقدس بہت خوش ہوئے انکو گلےلگالیا اور کلمات توحید بیان فرمانے لگے۔ موقعہ غنیمت دیکھ کر میرے بھائی شیخ علی نے توحید (وحدت الوجود) کے اشعار خوش الحانی سے پڑھے اور مجلس میں خوب کیفیت طاری ہوئی لیکن ہم دو بھائی اسی طرح مہجور رہے آخر دو دن کے بعد حضرت اقدس نے ہم پر بھی شفقت فرمائی اور گلے لگاکر نعمت عشق و توحید سے نوازا۔ اسکے بعد ہم تینوں بھائیوں نے حتی المقدو روحدت الوجود پر رسالے لکھے۔ چنانچہ راقم الحروف مجملاً یہ اسرار توحید وجود وشہود بیان کرتا ہے۔
توحید وجودی
جب سالک پر نور قلب اور نور روح کی ت جلی ہوتی ہے تو اُسے وصل بالتلبیس حاصل ہوتا ہے۔ وصل بالتلبیس سے مُراد شہود انوار اجمالیہ وجلالیّہ وجودبیّہ ہے جبکہ محبت کے غلبہ میں نظر اشیائے کو نیہ حدوثیہ کی طرف ہو۔ یہ توحید وجودی ہے۔
توحید شہودی
لیکن جب انوار جمالیہ، جلالیہ وجوبیہ کے شہود کے ساتھ نظر اشیائے کونیہ پر نہ ہو بلکہ خیال میں ہو تو اسے توحید شہودی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اقسام صوفیہ اہل توحید
صوفیۂ اہلِ توحید کی برسبیل اطلاق تین قسمیں ہیں اوّل عینیہ، دوم عدمیّہ، سوم ظلیّہ۔
فرقہ عینیہ
صوفیائے عینیہ جنکو صوفیہ خرقہ بھی کہتے ہیں وہ ہیں جنکے نزدیک عالم موجود ہے اپی اصلی ہستی میں فی ا نفسہا یعنی حق تعالیٰ نے پہلے اعیان کی صورت میں تجلی فرمائی اسکے بعد آثار واحکام (یعنی اشیاء) کی صورت میں ظہور فرمایا۔ چنانچہ موجود تمام مراتب میں (یعنی تمام مراحل میں) وہی ذات مقدس ہے۔ ان مظاہر میں اپنی حقیقت اور ظہور کےمطابق مثل نور محسوس جو مختلف اقسام والوان (جمع لون بمعنی رنگ) کے شیشوں سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ شیشے اس نور کیلئے حجاب بن جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ نور ہر شیشے کے اپنے اپنے رنگ کے مطابق نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اس نور کی نہ کوئی شکل ہے نہ رنگ ہے نہ لطافت ہے نہ کثافت۔ وہ نورِ واحد ہے جس میں کثرت نہیں۔ لیکن اسنور کے لباس یعنی شکل اور رنگ مختلف اور متعدد ہیں اب تعین کے اعتبار سے اس نور کو ان مظاہر پر انکی حیثیت کے مطابق حکم لگایا جاتا ہے اور یہ غیریت اعتبار یہ ہے۔ اگر حقیقت کی رُو سے حکم لگایا جائےتو وہ عینیت ہے اور تمام تکالیف واحکام شرعی مثل راحت وعذات تعینات پر لازم آتے ہیں نہ کہ حقیقت پر۔ اس وجہ سے ک ہ جو چیز ظاہری صورت یعنی اسکے طورل وعرض اور رنگ و شکل پر لازم آتی ہے وہ حقیقی وجود پر لازم نہیں آتی۔ لہذا اشیاء کا حسن و فتح اعتباری ہے حقیق نہیں ہے اس سجہ وے کہ گناہ کا برا ہونا امتناعی حکم کے باعث ہے اور ہر چیز اس وجہ سے بری کہلاتی ہے کہ دیکھنے والے کی طبیعت کو اچھی محسوس نہیں ہوتی لہذا جو چیز اس دنیا میں ہے در اصل جس ہے اس وجہ سے صورت حس حق سبحانہٗ ہے۔س
فرقہ عدمیہ
فرقہ عدمیّہ جنکو صوفیہ حکما کہتے ہیں کہ نزدیک عالم معدوم مطلق اور لاشی م حض ہے۔ انکے نزدیک فی ذاتہٖ جہان کا کوئی وجود نہیں جہان کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کمال سے پیدا کیا ہے جسکا وجود وہمی ہے (یعنی خیالی اور اعتباری ہے) اور حقیقت میں وجود ایک ہے اور منزہ ہے لوثِ تشبیہہ ہے۔
فرقہ ظلیّہ
فرقۂ ظلیّہ جنکو صوفیاء سینہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کے نزدیک عالم کافی نفسہٖ کوئی وجود نہیں ہے بلکہ اشیائے عالم حق تعالیٰ کے حقائق کے ظلال (جمع ظل بمعنی سایہ) ہیں۔ ان حقائق کو اسمائے الہیہ کہتے ہیں۔ چنانچہ فرقہ ظلیہ کے نزدیک دو وجود ہیں۔ ایک اصلی دوسرا ظلی اور تمام احکام بھی وجود ظلی پر صادر ہوتے ہیں۔ یہ حضرات اس آیت سے اپنا موقف ثابت کرتے ہیں اَلَمْ تَرَ اِلیٰ رَبِّکَ کیف مدّ الظل (کیا تم نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس نے کس طرح سایہ گستری کی ہے۔)
یاد رہے کہ وجودِ اصلی شکل وصورت سے پاک ہے اور وجد ظلی کی شکل و سرت سے مثلاً روئی وجود حقیقی ہے لیکن جامہ، دستر، پیراہن، تکیہ، لحاف وغیرہ کا وجود محلی ہے۔ اس وجہ سے ان سب کا وجود روئی سے قائم ہے۔ اسی طرح آگ کا وجود حقیقی ہے اور اس سے جو چراغ جلائے جاتے ہیں انکا وجود ظلی ہے۔ انسان کا سانس اگر ایک لمبی آواز کی صورت میں ہے وجود اصلی ہے جس میں حروف ظاہر نہیں ہیں لیکن جب حلق اور زبزن سے حروف نکالے جاتے ہیں تو ان حروف کے وجود کو جودِ ظلی کہتے ہیں۔ اسی طرح انسان کا روح وجود اصلی ہے لیکن دست و پا، چشم گوش، شکم و سینہ وجودِ ظلی ہیں۔ کیونکہ ان کےنزدیک روح مخفی چیز کا نام ہے جیسے وہی اور من منپیر میں دودھ کا مخفی ہونا۔ اور دودھ میں خون کا مخفی ہونا۔ یعنی حق روح میں اور روح بدن میں۔ اسی طرح لفظ ضرباً مصدر ہے جود اصلی ہے اور ضارب جو اسم فاعل ہے مضروب جو اسم مفعول ہے ضَرَبَ جو ماضی ہے اور یَضرُبُ جو مجارع سب وجود ظلی ہیں جو مصد کے تبدیل وتغیر سے مشتق ہیں۔
محجوب، موحد اور محقق
پس جو شخص کثرت کو دیکھتا ہے اور اشیاء کے مشاہدہ میں ذات و صفات وافعال الٰہی ملحوظ نہیں رکھتا اور غیر حق کو نافع اور نقصان رساں سمجھتا ہے وہ محجوب ہے خواہ وہ عابد وازاہد عالم و فاضل کیوں نہ ہو۔ جو شخص و حدت کو دیکھتا ہے اور غیر حق کو نافع ونقصان رساں نہیں سمجھتا اور شہود وحدت کے غلبہ میں پھول اور کانٹے اور محدود اور لامحد ود میں فرق نہیں کرتا وہ موحد مقدور ہے۔ اور جو شخص وحدت کو کثرت میں دیکھتا ہے یعنی دونوں کا ملاحظہ کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ذات بے حد ہے صفات بے حد ہیں افعال بے حد ہیں اور یہ سمجھتا ہے کہ واجب الوجود تمام نقائص مثل اکل و شرب و مرض سے پاک ہے اور ممکن الوجود میں یہ تمام نقائص موجود ہیں محدود کو محدود اور لا محدود کو لا محدود جانتا ہے اور نیک و بد تمیز کرتا ہے وہ محقق ہے۔
وجود حقیقی اور وجودِ ظلی میں فرق کے وجوہات
وجود اصلی ور وجود ظلی میں فرق کی چند وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ وجودِ اصلی مستغنی اور وجود ظلی محتاج ہے۔ دوم یہ کہ وجود ا صلی قدیم ہے اور جودِ ظلی حادث ہے۔ سوم یہ کہ وجود اصلی باقی ہے اور وجود ظلی خانی ہے۔ اس وجہ سے کہ ذات لباس بھی تبدیل کرتی ہے۔ چہارم یہ کہ وجود اصلی لامحدود اوروجود ظلی محدود ہے۔ نیز ذاتِ باری تعالیٰ کی صفات بھی لامحدود ہیں۔ وخلاف ذالک فی الممکن مثالہ البحر والحباب (اور وجود اصلی اور ممکن م یں وہی فرق ہے جو سمندر اور حباب میں ہے) پنجم یہ کہ وجود اصلی کھ انے پینے، پہننے، بیماری، نیند تولد وتولید سے پاک ہے لیکن وجود ظلی میں یہ سب عوارض موجود ہیں۔ ششم یہ کہ وجود اصلی بغیر کان سنتا ہے بغیر آنکھ دیکھتا ہے اور بغیر زبان کلام فرماتا ہے یعنی آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سے پاک ہے لیکن وجودِ ظلی میں یہ سب چیزیں ہیں۔ مقیم یہ کہ وجود اصلی شکل وصورت معینہ سے پاک ہے۔ یعنی ال لہ تعالیٰ جسم و جوہر، زمان و مکان، سے بالا تر ہے اور زمین و آسمان، انسان وحیوا، درخت اور پہاڑ، فرشتہ اور جن کی صورت سے منزہ اور پاک ہے۔ لیکن وجود ظلی میں یہ سب چیزیں ہیں۔ لہٰذا جوشخص واجب الوجود اور ممکن الوجود میں یہ سات فرق نہیں کرتا کافر ہوجاتا ہے۔ بعض علما کہتے ہیں کہ کھانا پینا اور ماں باپ، بیوی بچوں سے میل ملاپ رکھنا بمنزلہ حباب ہیں اور سمندر ان سے پاک و منزہ ہے۔ لیکن حباب بھی تو سمندر کی طاقت سے پیدا ہوتے ہیں پس اس حساب سے سمندر نے ان حباب ہائے کی صورت میں ظہور کر کے کھانے پینے، سونے اور جماع کی لذت میں جولے دکھائے ہیں۔ لیکن وہ جو محجوب ہیں (یعنی محروم ہیں) اس حقیقت سے غافل ہیں۔ اور عارفین اس سے نجوبی آگاہ ہیں۔ نافھم فانہ دقیق (یہ بات بہت دقیق ہے اچھی طرح سمجھ لو)۔
ایک بڑے عالم کو وحدت الوجود کا قائل کر کے مرید بنالیا
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ میراں سید احمد کو جو ملتان کے جید علمائیں سے تھے سلطان سکندر کے عہد حضرت قطب العالم سے ملاقات کا موقعہ م لا اور چند ماہ صحبت جاری رہی۔ اس دوران میں روزانہ اسی مسئلہ وحدت الوجود پر بحث جاری رہتی تھی۔ اور طرفین کے دلائل ختم نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن سید احمد نے مولانا سام الدین دانشمند وزاہد، متقی کا ایک خواب بطور حجت حضرت اقدس کے سامنے پیش کیا۔ مولانا حسام الدین نے یہ خواب دیکھا کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ قبلہ کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ہم انکا منہ قبلہ کی طرف کر رہے ہیں۔ بیداری کے بعد حیران ہوئے کہ یہ کیا خواب ہے۔ آخر اس خواب کی تعبیریوں ظاہر ہوئی کہ وحدت الوجود کے ایک قائل اور کامل بزرگ کے ساتھ مولانا حسام الدین کی ملاقات ہوئی اور بحث شروع ہوگئی۔ مولانا حسام الدین نے اس بزرگ کو کثرت وجود کا قائل کرلیا اور تائب کرایا جب حضرت قطب العالم نے بات سنی تو فرمایا کہ اگر مولانا حسام الدین کی اس فقیر کے ساتھ ملاقات ہوئی ہوتی تو عارف موجد بنادیتا (یعنی وحدت الوجود کا قائل کردیتا) اور دوئی کے شرک ک سے کال کر اے توحید کی یک رنگی میں پہنچادیا۔ ایس احمد نے کہا یا حضرت للہ فی اللہ اس قسم کی باتیں نہ کریں کیونکہ ان سے دین ختم ہوتا ہے اور احکام دینا واخرت بیکار ہوتے ہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا للہ فی اللہ دو وجود کہنے سے باز آجاؤ کیونکہ اس سے عرفان حقیقی سے محرومی لازمی آتی ہے۔ حالانکہ اس جہان کے اور انسنا کے ظہور کی غرض و غایت ہی عرفان ہے۔ غرضیکہ جب پانچ چھ ماہ اس موضوع پر بحث ہوتی رہی تو حق تعالیٰ کے فضل و کرم سے وحدت الوجود کا مسئلہ سید احمد کی سمجھ میں آگیا اور انہوں نے حضرت اقدس کا موقف تسلیم کرلیا اسکے بعد مرید ہوئے اور مرتبہ کمال کو پہنچے۔
روایت ہے کہ ایک دفعہ موسم سرما میں حضرت اقدس کرسی پر بیٹھے ننگے سر وضو کر رہے تھے۔ اور جب حسب معمول وضو کے دوران کئی مرتبہ اپنی جگہ سے اٹھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ گھر کے لوگوں نے عرض کای کہ آپکے سر پر برف پڑ رہی ہے اگر جاازت ہو کرسی چھت کے نیچے رکھ دی جائے۔
‘‘سرما بہ سرمانمے رسد’’
(سردی ہمارے سر کو نہیں لگی)
چنانچہ آپکی عمر کے آخری سال جب سردی جوبن پر تھی تو آپ باریک پیراہن زیب تن کر کے دیر تک باہر رہتے تھے۔ اہل خانہ نے عرض کیا کہ کوئی گرم کپڑا اوڑھ لینا چاہیے۔ یعنی ضعف غالب ہے آپ نے جواب دیا کہ سردی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ سبحان اللہ! کیا حرارت باطنی وآتش روحانی ہے کہ سردی و گرمی کی خبر تک نہیں ہے اور اس عالم ناسوت کے اثرات بے اثر ہیں۔
میاں کمال اعوان سے منقول ہے کہ موضع بنجاری سے اطلاع موصول ہوئی کہ وہاں لوگ غارت ہورہے ہیں۔ اس علاقے میں نہیں جانا چاہیے۔ میں نے اُن ہی ایام میں بیداری کی حالت میں دیکھا کہ قطب العالم حضرت شیخ عبدالقدوس اپنے پورے جسم کے ساتھ ظاہر ہوئے ہیں (حالانکہ آپکا وصال ہوچکا تھا) اور ہمارے ساتھ گھوڑے کی باگ پکڑ کر تین کوس تک ہمارے آگے چلتے رہے اور ہم پر سایہ گستر رہے جب رات ہوتی تھی تو ہمارے ساتھ منزل کرتے تھے۔ جب دن ہوتا تو ہمارے ساتھ روانہ ہوجاتے۔ یہ معاملہ تین دن تک جاری رہا جب منزل مقصود تک پہنچے تو نظروں کے سامنے غائب ہوگئے۔
لوگ زمین کا پانی روکتے ہیں مردانِ خدا آسمان کا پانی روکتے ہیں
لطائف قدسی میں آیا ہے کہ ایک سال برسات کا بہت زور تھا۔ لکھنوتی کے لوگوں نے اپنی فصلوں کو بچانے کیلئے ایک بڑے تالاب کے مخرج پر ایک بند بنادیا جسکی وجہ سے پانی کا اخراج بند ہوگیا اور پانی جمع ہوگیا۔ جس سے تالاب کے نواحی مکان گرنے لگے۔ حکام کو جس قدر کہا گیا کہ بند توڑ دیا جائے انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی بلکہ بن دکو زیادہ مضبوط کردیا اور علی الاعلان کہہ دیا کہ جس نے بند توڑا اسکو پھانسی دیدی جائیگی۔ جب یہ خبر حضرت قطب العالم کوہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ بند نہیں توڑتے تو میں حق تعالیٰ سے درخواست کرونگا کہ بارش بند کردے۔ یہ فرمانا تھا کہ بارش فوراً بند ہوگئی اور خشک سالی شروع ہوگئی جس سے مکانات بچ گئے۔ دوسرے سال جب برسات کا موسم آیا تو چونکہ بند اُسی طرح موجود تھا بادل گھر کر آگئے لیکن بارش نہ ہوئی۔ چنانچہ زمیندارو لوگوں نے جمع ہوکر عرض کیا کہ بارش کیلئے دعا فرمادیں۔ آپ نے جواب دیا کہ جب تک تم لوگ بند نہیں توڑوگے بارش نہیں ہوگی۔ جونہی انہوں نے بد توڑا برسات شرو ہوگئی لیکن جب پانی کی فراوانی سے فصل پھر خراب ہونے لگی تو لوگوں نے دوبارہ بند تعمیر کرنا چاہا تو گنگوہ کے مغل حکام نے ان کو کہلا بھیجا کہ تم لوگ زمین پر بند لگانا چاہتے ہو اس جگہ ایسے مردان خدا موجود ہیں جو آسمان میں بند لگاسکتے ہیں۔ اسکے بعد انہوںن ے یہ حرکت کبھی نہ کی۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت قطب العالم صائم ا لدہر تھے۔ (یعنی ہمیشہ روزہ رکھتے تھے) اور آپ کے فرزند مولانا رکن الدین کہتے ہیں کہ اس فقیر کو جہاں تک یاد ہے آپ نے چالیس سال تک کچھنہ کھایا سوائے ان چند ایام کے جن میں روزہ رکھنا منع ہے۔ یعنی دو دن عیدیں کے اور تین دن عید الضحیٰ کے بعد کے۔ جب کھانے کے وقت حضرت اقدس اسرار و معارف بیان فرماتے تھے تو یہ یاد نہیں رہتا تھا کہ کتنا کھایا ہے۔ آپ جس قدر کھائے جاتے تھے پر نہیں ہوتے تھے۔ یہ دیکھ کر بعض لوگ آپ پر بسیار خوری کا گمان کرتے تھے۔ چنانچہ آپ لوگوں کا یہ وسوسہ ظاہر فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ یار لوگ کہتے ہیں کہ بہت کھاتا ہے لیکن مجھے معمول نہیں ہوتا کہ کیا کھارہا ہوں۔ اور کس قدر کھایا ہے۔ لیکن بعض اوقات آپ چند لقموں پر اکتفا کرلیتے تھے۔ سال ۹۴۳ھ میں جب حضرت اقدس نے لوگوں سے ملنا اور کھانا ترک کردیا تھا تو پینتالیس ۴۵ دن تک آپ نے مطلقاً کچھ نہ کھایا اور کھانے کی بو تک نہ سونگھی۔ لیکن نماز اور عبادت کی قوت برقرار رہی۔ جب کلھانا کھانے کیلئے کہا جاتا تو آپ فرماتے کہ ہماری قوت اور قیام کا انحصار کھانے پر نہیں ہے تم اس بات ی فکر نہ کرو ہمارے لیے کھانا اور نہ کھانا برابرہے ۔ دو تین مرتبہ آپ نے اتنا بھی فرمایا کہ بہشت میں گیا ہوا تھا وہاں کچھ کھالیا تھا۔ جب آپ سے پوچھا گیا ک ہ وہ کلیا چیز تھی جو آپ نے بہشت میں کھائی تو فرمایا اس کی مانند دنیا میں کوئی چیز نہیں جسکی مثال دی جاسکے۔ سبحان اللہ! کیا حال اور کا اسرار ہیں کہ مقام ابیت عند ربی یطعمنی ویسقینی (میں رات اپنے رب کے ساتھ بسر کرتا ہوں وہی مجھے کھلاتاہے اور پلاتا ہے) حدیث۔ آپ کا ٹھکانہ تھا۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت قطب العالم کی عمر بہت دراز تھی سلطان بہلول لودھی کے زمانے سے لیکر آپ نصیر الدین محمد ہمایوں کے عہد تک مسند ارشاد پر متمکن رہے اور سلاطین وقت اخلاص اور نیاز مندی سے پیش آتے تھے چنانچہ بادشاہوں کے پاس آپ نے جو خطوط تحریر فرمائے انکی نقول اب تک موجود ہیں۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ علامہ ابو الفضل نے تذکرۃ الاولیاء ہند میں لکھا ہے کہ نصیر الدین ہمایوں بادشاہ نے علم حقائق و معارف حضرت شیخ عبدالقدوس حنفی کے فیض صحبت سے حاصل کیا اور اس فن میں وہ ممتاز تھا۔
حضرت شیخ رکن الدین لطائف قدسی میں فرماتے ہیں کہ حضرت قطب العالم نے وسال سے تین سال پہلے خاموشی اختیار کرلی تھی اور کسی شخص کے ساتھ بات نہیں فرماتے تھے۔ اور ہرو قت فناء احدیت میں مستغرق رہتے تے اور یہی وہ نسبت استغراق ہے جو حضرت مخدوم شیخ احمد عبدالحق ردولوی قدس سرہٗ کی تھی۔ ایک دن میں نے اور میرے بھائی شیخ احمد نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں آپ کے سکوت (خاموشی) کا سبب معلوم ہوا۔ حضور بیان فرمادیں تاکہ ہمیں بھ ی اس سے خط (لطف) حاصل ہو۔ آپ نے فرمایا کہ بابا ہم ذکر حق میں اس قدر دل لگایا کہ اب تمام وجود دربار ذکر بن گیا ہے۔ اور ہر زمان بحرِ فناء موج مارتی ہے۔ اور غرق کرتی ہے اس عالم شہادت (ناسوتی دنیا) کو میرے سامنے سے ہٹادیا جاتا ہے اور مجھے دوسرے جہان میں لے جایا جاتا ہے۔ اور پھر اس جہان میں واپس نہیں آتے دیتے لیکن اس محویت اور بیخودی کے باوجود آداب شریعت اور ارکان دین میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ حسب معمول وضو کرتے تھے اور نماز ادا کرتے تھے۔ لیکن محویت اور استغراق کا بھی کمال تھا۔ جب نماز کا وقت آتا یا کوئی ملنے والا آتا تو خادم بآواز بلند حق حق حق کہتا تھا جس سے آپ عالم صحو (ہوشیاری) میں آجاتے تھے۔ ایک دن آپ کھڑے تھے اور قدم مبارک لڑکھڑا رہے تھے جب اس فقیر نے تکیہ دیکر سبب دریافت کای تو آپ نے فرمایا کہ،
’’موجہائے دریائے فناء ساعتہً فساعتہً مے آیند بہوش آمدن نمے دہند‘‘
(بحر فنا کی موجیں لحظ بلحظ آرہی ہیں اور ہوش میں نہیں آنے دیتیں)
سبحان اللہ! کیا کمال ہے اور کیا حال ہے۔
وصال
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ بروز دو شنبہ پندرہ ماہ جمادی الاخر ۹۴۴ھ کو حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کا عرس تھا اور اُسی روز حضرت قطب العالم کو تپ لرزیدہ ہوگیا۔ چار دن بخار رہا۔ پانچویں دن جمعہ کا دن تھا آپکو افاقہ ہوا اور نماز جمعہ ادا کی۔ نماز کے بعد پھر بخار ہوگیا اور مزید چار دن بخار رہا۔ آخر بروز سہ شنبہ بوقت چاشت بتاریخ ۲۳؍ماہ جمادی الاخر ۹۴۴ھ آپ نے مشاہدہ دوست میں جان تسلیم کردی۔ مراۃ الاسرار اور اخبار الاخیار میں آپکی تاریخی وصال ۹۴۵ھ بتائی گئی ہے لیکن پہلی روایت صحیح ہے۔ آپکی عمر چراسی سال تھی جس میں سے پنتیس ۳۵سال ردولی شریف میں رہ کر کسب کمال فرمایا پنتیس ۳۵سال شاہ آباد میں، اور چودہ سال گنگوہ شریف میں بسر فرماکر رشد وہدایت خلق کے فرائض انجام دیئے۔ آپکا مزار مبارک گنگوہ شریف صاحب رواوپشت پناہ خلق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
روایت ہے کہ حضرت اقدس نے مرض الموت میں عبادت میں کوئی می نہ آنے دی۔ باوجود یکہ محویت واستغراق کمال پر تھا۔ آخری رات آپ نے ستر مرتبہ وضو کیا اور نماز تحۃ الوضو ادا کی۔ آخر جب جان پاؤں مبارک سے نکل چکی تھی تو آپ نے اشارے سے وضو کیا اور وضو کے بعد نماز کی نیت کی اور اشارے سے رکوع وسجود کرتے رہے اس اثنا میں آپ پر م حویت کا غلبہ ہوا اور جان جان افریں کے سپرد کردی۔ آ پ ک ے وصال پر مللا سارے جہاں میں اندھیرا چھاگیا۔ آپ کے فرزند حضرت شیخ رکن الدین فرماتے ہیں کہ حضرت اقدس کو غسل کے بعد کفن پہنایا گیا تو اس فقیر نے آپکے سینہ پر ہاتھ رکھا۔ دل میں حرکت تھی اور ذکر جاری تھا جیسا کہ بوقت حیات تھا۔ حدیث اِنَّ اولیا اللہ لا یموتون بل ینقلون من دار انی دار (تحقیق اللہ کے دوست مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوجاتے ہیں)
حضرت اقدس کی اہلیہ، محترمہ رابعۂ عصر تھیں
شیخ رکن الدین نے لطائف قدسی میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہمری والدۂ ماجدہ بھی اولیا اللہ میں سے تھیں۔ آپ قرآن مجید کے دوس پارے روزانہ تلاوت کرتی تھیں۔ مسائل شریعت سے واقف تھیں اور ہمیشہ مطالعہ کتب میں مصرف رہتی تھیں۔ مسائل شریعت سے واقف ت ھیں اور ہمیشہ مطالعہ کتب میں مصروف رہتی تھیں۔ نماز اشراق، چاشت، تہجد آپ سے کبھی فوت نہ ہوئی تھیں۔ وضو کرتے وقت آپ دنیا کی بات نہیں کرتی تھیں اور فرض، سنت، نوافل پوری طرح ادا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں آپ شغل باطن میں مشغول رہتی تھیں۔ اور صاحبۂ کشف و کرامات تھیں۔ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتی تھیں بعینہٖ وہی ہوتا تھا۔ ایک رات شاہ آاد میں تہجد کے بعد آپ مصلے پر بیٹھی تھیں حجاب اٹھ گیا اور عین بیداری میں دیکھا کہ خراسان سے آتش سوزاں آرہی ہے اور ہر خشک وتر کو جلارہی ہے۔ علی الصبح آپ نے تمام بیٹیوں کو یہ معاملہ بتادیا اور فرمایا کہ کوئی بلا نازل ہونے والی ہے۔ اس سے بچنے کی کوشش کرو۔ آخر یہ بلا مغلوں کے حملے کی صورت میں ظاہر ہوئی جس سے سارا ملک تاخت وتاراج ہوگیا۔ اس رابعۂ عصر کا مزار گنگوہ شریف میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہا۔
اولاد امجاد
اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کی اولاد بہت تھی۔ آپکے تمام فرزند عالم، عارف، عابد زاہد اور مشائخ ت ھے۔ لیکن ان میں سے حضرت شیخ رکن الدین قدس سرہٗ زیادہ متبرک اور مشرب کمال ودرویشی سے موصوف تھے۔ اور ہمیشہ اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر چلتے تھے ۔ صاحب سیر الاقطاب فرماتے ہیں کہ حضرت قطب العالم کے تمام سات بیٹے ولئ کامل اور عالم و فاضل تھ ے۔ علی الخصوص آپکے بڑے بیٹے اور جانشین حضرت شیخ حمید دوسرے بیٹے حضرت شیخ رکن الدین اور حضرت شیخ احمد قطب وقت اور عارف روزگار تھے۔ لیکن ان سب میں حضرت شیخ رکن الدین کشف و کرامات کے میدان میں بڑھ ہوئے تھے چنانچہ قطب العالم نے بارہا فرمایا کہ اگر حق تعالیٰ نے م جھ سے قیامت کے دن دریافت فرمایا کہ دنیا سے ہماری درگاہ میں کیا لائے ہو تو ایک ہاتھ سے شیخ جلال الدین تھانیسری اور دوسرے ہاتھ سے شیخ رکن الدین کو لیکر عرض کرونگا انکو لایا ہوں۔
[1]۔ شطحیات جمع ہے شطح کی جسکے معنی ہیں وہ کلمات جو بظاہر خلاف شریعت نظر آئیں لیکن حقیقت میں خلاف شرع نہ ہوں مثلاً شیخ منصور علاج کا نعرہ انا الحق شیخ بایزید بسطامی کے کلمات سبحانی، اعظم شانی (میں پاک ہوں اور میری شان بلند ہے) اور حضرت جنید بغدادی کا نعرہ لیس فی جبتی سوای اللہ (میرے جبہ کے اندر اللہ کے سوا کوئی نہیں) اگر چہ یہ کلمات ظاہر میں حضرات کو غیر شرعی دکھائی دیتے ہیں اولیاء اللہ اُن سے جو مفہوم لیتےہیں وہ ہر گز شریعت کے خلاف نہیں۔
[2]۔ مصداق حدیث بی یسمع وَبیْ یبصُ وَبیْ یَمشی
[3]۔ کبریت احمر کے لفظی معنی ہیں سرخ گندھک جو بہت کم یاب ہے۔ لیکن مل جائے تو کیمیا ہے۔ اصطلاحاً کبریت احمر سے مراد نظرِ کیمیا اثر ہے۔
[4]۔ صاحب مذہب سے مراد پیغمبر اسلام یا امام وقت مثل ابو حنیفہ، شانی، مالک احمد بن حنگل رحم اللہ علیہم ہے۔
(قتباس الانوار)