حضرت شیخ محمد ترک نارنولی نے اپنے وطن ترکمانستان سے ہندوستان آکرنارنول میں سکونت اختیار کی۔
القاب:
آپ کو"پیرترک"اور"ترک سلطان"کے القاب سے پکاراجاتاہے۔
بیعت و خلافت:
یہ کہاجاتاہے کہ آ پ حضرت خواجہ عثمان ہرونی(رحمتہ اللہ علیہ)کے مریدہیں اورحضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی(رحمتہ اللہ علیہ)نے بھی آپ کو خرقپ خلافت سے سرفرازفرمایاتھا۔
وفات:
آپ نے ۶۴۲ھ میں جام شہادت نوش فرمایا،آپ کا مزارنارنول مرجع خاص وعام ہے۔
کرامت:
حضرت نصیرالدین محمود چراغ دہلی کو بادشاہ نے ٹھٹھہ جانے کاحکم دیا۔آپ نارنول ہوتے ہوئے ٹھٹھہ جارہے تھے،جب نارنول ایک کوس رہ گیاتوآپ سواری سے اترے اورپیدل چل کرمزارپر حاضرہوئے آپ کی قبرکے سامنے ایک پتھر لگاہواتھا،اس پتھرکے سامنے جاکربہت دیرتک کھڑے رہےپھرفرارہوگئے،لوگوں نے پتھرکے سامنے کھڑے رہنے کی وجہ پوچھی۔
حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے فرمایا۔
"خوش نصیب ہے وہ خادم جس کی نوازش کے لئے خودمخدوم اس کے گھرآئےاوراس کو سرفرازکرے،میں نے جناب سید کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی روحانیت کواس پتھرمیں جلوہ افروزدیکھااورجب تک وہ معنی مجھ پر منکشف رہے ہیں،اس پتھرکی طرف متوجہ وہا،جب معنی میری بصیرت سے غائب ہوگئے میں شیخ کی قبرکی جانب متوجہ ہوا"۔
بعدازاں حضرت نصیرالدین چراغدہلی نے مراقبہ کیا۔مراقبہ سے فارغ ہوکرفرمایا۔
"جس کسی کو کوئی سخت مشکل درپیش ہواوروہ اس روضہ کی طرف متوجہ ہو،امیدہے وہ مشکل آسان ہوجائےگی"۔
یہ سن کرایک شخص نے کہا کہ وہ خود مصیبت میں ہیں اورزبردستی ٹھٹھہ بھیجے جارہے ہیں،حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے جواب دیا۔
"اسی سبب سے میں کہتاہوں کہ خداتعالیٰ ان کی برکت سے میری مشکل آسان کردےگا"۔
حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نارنول سے ٹھٹھہ روانہ ہوئے۔دوتین منزل ہی گئے ہوں گے کہ بادشاہ کے انتقال کی خبرملی،بجائے ٹھٹھہ جانے کے وہ دہلی واپس تشریف لے آئے۔
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)