آپ سیّد عبدالکریم بہاون شاہ قدس سرہ کے خلیفہ خاص تھے صاحبِ جذب و استغراق جذب و مستی تھے، خوارق و کرامت ظاہر ہوتیں، حالتِ جذب میں بتیس سال تک ایک جگہ قیام رہا، کھانا پینا ترک کردیا، ذکر نفی و اثبات کرتے تھے، در و دیوار شجر و حجر آپ کے ذکر میں شامل ہوتے۔
ایک دفعہ سرحد کے زمینداروں کے دو خاندانوں میں زمین کے معاملہ میں تنازعہ ہوگیا، دوسرا فریق زور آور بھی تھا اور سرکش بھی، چنانچہ انہوں نے چار سو کھاتے زبردستی اپنے قبضہ میں کرلیے اور حاکم وقت کے حکم سے برجیاں بطور نشان قائم کرلیں، مظولم فریق حضرت کے خدام میں سے تھے، وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور صورت حال بیان کی، آپ نے فرمایا: تمہاری زمین کا حق تمہیں دے رہا ہوں اور برجیوں کو اکھاڑ رہا ہوں، اور جہاں انصاف سے حق بنتا ہے وہاں نصب کر رہا ہوں چنانچہ دوسرے ہی دن غائب سے یہ برجیاں خود بخود اپنی جگہ پر نصب ہوگئیں، مخالفین نے پھر سرکشی کی زبردستی برجیاں اکھاڑدیں مگر دوسرے دن پھر اسی جگہ نصب ہوجاتیں جہاں آپ نے نصب کرائی تھیں ناچار ہوکر مخالف فریق نے منصف حقیقی کے فیصلے کو مان لیا۔
ایک بار حضرت کی گائیں بھینسیں چور ہوگئیں لوگوں نے آپ کو اطلاع دی تو آپ نے فرمایا: یہ مویشی فلاں گاؤں کے زمیندار لے گئے ہیں، ان کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ یہ مال تو نور حسین کا ہے اسے واپس کردو، ورنہ اللہ کے غضب کے لیے تیار رہو، انہیں کہا گیا، مگر انہوں نے آپ کے حکم کی پرواہ نہ کی بلکہ حضرت شیخ نور حسین کے متعلق ناگوار اور گستاخانہ باتیں کیں، آپ کے خدام خالی ہاتھ واپس آگئے، اور صورت حال سے آگاہ کیا، حضرت کی آتش غضب جوش میں آئی، خشک گھاس کا ایک دستہ اٹھایا، اس پر دم کیا، اسی وقت گھاس میں آگ بھڑک اٹھی، آپ نے فرمایا: ان چوروں کے گھر املاک، مال و متاع زراعت و شجر کو میرے اللہ کے غجب نے جلاکر خاکستر کردیا ہے، کہتے ہیں ادھر چوروں کے گاؤں پر اللہ کے غضب کی آگ بھڑک اٹھی سارا گاؤں مال و متاع اور مویشی جل کر راکھ ہوگئے، آج تک اس جگہ وہ گاؤں آباد نہیں ہوسکا، نعوذ باللہ من غضب الاولیاء۔
آپ ۱۲۳۶ھ میں فوت ہوئے، شیخ رسول شاہ آپ کے خلیفہ ہیں، جو آج تک (تا حین حیات مولف کتاب) مسند آرائے ہدایت و ارشاد ہیں، ایک سال ہوا، لاہور تشریف لائے تھے، راقم الحروف بھی زیارت کے لیے حاضر ہوا بڑے بابرکت خوش خلق خوش زبان خوش کلام خوش رو اور خوش گو بزرگ ہیں، اس خاکسار پر بڑی عنایات فرمائیں خصوصی توجہ سے نوازا۔
شیخ نور حسین روشن دل رحلتش مظہر کمال بگو ۱۲۳۶ھ
|
|
یافت چو از جہاں بجنت بار نیر ماہ منیر فیض اے یار ۱۲۳۶ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)